دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
انڈین سپریم کورٹ کا ہندووتا منصوبے پر مبنی فیصلے کا پس منظر
فرحت علی میر۔فکر آگہی
فرحت علی میر۔فکر آگہی
بھارت کی اعلی ترین عدالت سے ١١ دسمبر 2023 کو صادر ہونے والے غیرآئینی، غیر اخلاقی ، انصاف اور دنیا بھر میں مسلمہ جمہوری اور بین الاقوامی اصولوں کے منافی اور کشمیریوں کے لئے مایوس کن فیصلہ کے اب تک جاری مندرجات کا پس منظراور اسباب جاننا ضروری ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ مذکورہ بالا فیصلہ کے ذریعے نیندار مودی کی سرکردگی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی فاشسٹ حکومت کی جانب سے مورخہ 5 اگست 2019 کو جاری صدارتی حکم کے تحت پانچ ہزار سالہ تاریخ کی حامل واحد مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کی تاریخی اور منفرد خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کی خاطر بھارتی آئین کے آرٹیکلز 370 اور 35 - A کی منسوخی سمیت ریاستی علاقوں کو دو حصوں میں تقسیم کرکے مختلف نو عیت اور محدود تر اختیارات کے ساتھ Union Territory کے طور پر بھارت میں مدغم کرنے کے اقدامات کو جائز یعنی Valid قرار دیا ہے ۔ آزاد کشمیر، پاکستان میں مقیم مہاجرین جموں و کشمیر ، حد متارکہ کے پار بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر اور دنیا بھر میں بسنے والے باشندگان ریاست جموں و کشمیر نے بھارتی سپریم کورٹ کے قابل مذمت اور متعصبانہ فیصلے کو مسئلہ جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی درجن بھر قراردادوںکے منافی قرار دیا ہے جو میں مسلمہ طور کشمیریوں کے حق خوداردیت کے حصول کے لئے طے شدہ اصول اور رائے شماری کے طریقہ کار ، بھارت کی نمائندہ لیڈرشپ کے اقوام عالم کے سامنے کشمیریوں کے حق خوداریت کے پیدائشی حق کو تسلیم کرنے کے مواعید اور اعلانات ، اقوام متحدہ کے چارٹر میں لوگوں کے حق خوداریت حاصل کرنے کے لئے دی گئی ضمانتوں اور اصولوں کے ساتھ ساتھ مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ کئے گئے نام نہاد الحاق کی قراردادیعنی Instrument of Accession of 26th August 1947 کی غیر مبہم شرائط اور خود بھارتی آئین کے شقوں کی خلاف ورزی اور من پسند تشریحات اور تعبیرات کا مجموعہ ہے۔

پانچ اگست 2019 کو صدارتی حکم اور ما یعد بھارتی پارلیمنٹ سے قانون سازی کرکے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35-Aکو منسوخ کرنے ضرورت کیوں پیش آئی۔ آرٹیکل 370 مورخہ 17 اکتوبر 1949 میں بھارتی آئین کا حصہ بنایا گیا اس طرح بھارتی آئین کے آرٹیکلز (١) اور (370) کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو اپنا علیحدہ آئین بنانے کا موقعہ اور اختیار حاصل ہوا اور بھارت کی حکومت اوربھارتی صدر کو ریاستی اسمبلی اور لوگوں کی منتخب حکومت کے ساتھ ریاست جموں و کشمیر کے معاملات میں الحاق کی دستاویز میں مندرج شرائط کے تابع مشاورت اور رضامندی Concurrence حاصل کرنے کا پابند بنایا گیا۔جب کہ سال 1952 میں دہلی ایگریمنٹ کے تحت ریاست جموں و کشمیر کی خودمختاری Autonomy کو تسلیم کیا گیا جس کے نتیجہ میں ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی پرچم(ترنگا) کے علاوہ علیحدہ ریاستی شناخت کے طور پر اپنا ریاستی پرچم لہرانے، ریاست جموں و کشمیر کی زمینوں کو غیر ریاستی افراد کے ہاتھوں خرید کرنے پر پابندی اور ریاست جموں و کشمیر کی مرضی کے بغیر ہندوستانی فوجوں کی ریاست جموں و کشمیر میں تعیناتی نہ ہونے جیسے اقدامات کی پابندی و شرائط کو تسلیم کیا گیا ۔ لیکن ڈاکٹر سیاما پرساد مکرجی Syama Parasad Mookerjee جو بھارتیہ جنتا پارٹی Bharatiya Jana Sangh (BJP) کی بنیاد رکھنے والے بیرسٹر اور سیاستدان نے ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی آئین کے تحت خصوصی حیثیت دینے کی بذیل نعرہ کے ساتھ شدید مخالفت کا آغاز کیا ٫٫ نہیںچیلنج ایک دیش میں دو پردہان اور دو نشان ( You cannot have two constitutions, two Prime Ministers and Two Flags in One Country)
یاد رہے کہ یہی بھارتیہ جنتا پارٹی کی فاشسٹ حکومت ہے جس نے 5 اگست 2019 کے صدارتی حکم اور بھارتی پارلیمنٹ سے قانون سازی کے بعد ریاست جموں و کشمیر کو دو یونین ٹیریٹریز میں تبدیل اور تقسیم کرنے کے لئے سردار والابھائی پٹییل (Sardar Vallabhbhai Patel)کے جنم دن مورخہ 31 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی۔ کون نہیں جانتا کہ پٹیل پنڈت جواہر لعل نہرو کے ساتھی سیاستدان اوربھارت کے ڈپٹی وزیراعظم اور مرکزی وزیرداخلہ تھے جو ابتدا سے تمام پانچ سو پینسٹھ Princely States کے ہندوستان میں ادغام اور الحاق کے حامی تھے اور انہوں نے بھارت کے زیرانتظام علاقوں کی Integration اور Rashtriya Swayamsevak Sangh (RSS) کو بھارتی آئین کی پاسداری پر قائل کرنے اوراسکی Political Mainstreaming کے لئے عملی کام کئے اور اسی لئے وزیراعظم نیندار مودی نے حال ہی میں گجرات میں پٹیل کا دیو قامت مجسمہ Statue بھی نصب کروایا اورساتھ ہی ایک بڑا تفریحی پارک تعمیر کروایا ہے ۔

اس مختصر ترین تاریخی پس منظر سے آگاہی کے پیش نظر ریاست جموں و کشمیر کے سیاسی قائدین سمیت تمام کشمیریوں کو بھارتی سپریم کورٹ سے صادر کردہ فیصلے سے مختلف کسی طور مبنی بر انصاف اقدام کی توقع تو نہ تھی مگر اب یہ اور واضح ہوچکا ہے کہ بھارت کے اندر اقلیتی آبادیوں باالخصوص مسلمانوں کو اپنے پیدائشی و جمہوری حقوق کے ساتھ زندگی گذارنے کی کوئی گنجائش نہ ہے اور موجودہ فاشسٹ حکومت کے ساتھ ساتھ بھارت کے تمام ادارے ہندووتا مشن کے پجاری ہیں۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف انڈیا نے ابتدائی طور پر 5 اگست 2019کے صدارتی حکم کے تحت اٹھائے گئے بھارتی اقدامات کے خلاف دائر درخواستوں کو سال سے زائد عرصہ تک زیرغور ہی نہیں لایا اور مناسب وقت کا انتخاب کرکے اس سال اگست کے مہینے میں سولہ روز تک 23 پٹیشنز میں اٹھائے گئے تاریخی ، آئینی اور قانونی نقاط پر طویل سماعت پر فیصلہ محفوظ کیا گیا اور قریبا چار ماہ بعدفیصلہ سنایا گیا ۔ سماعت کے دوران اور فوری بعد بھی سپریم کورٹ آف انڈیا سے اسی نوعیت کا فیصلہ صادر ہونے کی واشگاف پیشن گوئیاں سننے میں آرہی تھیں۔ اگلے سال بھارت میں انتخابات ہونے ہیں لہذا سپریم کورٹ آف انڈیا کے فیصلے کی ٹائمنگ اور فیصلہ کے مندرجات کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کے لئے اگلے سال ماہ ستمبرتک کا انتخاب فیصلے کے بارہ میں شکوک و شبہات کو مزید تقویت ملتی ہے۔

اوپر بیان کردہ پس منظر کے بعد بھارتی سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلہ میں یکسو کئے گئے نقاط اور قرارداد کی جانب توجہ چاہتا ہوں ۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے انفرادی فیصلوں اور توجیہات پر مبنی متفقہ طور پر فیصلہ صادر کیا جس کے اہم اور چیدہ چیدہ نقاط یہ ہیں:۔
١۔مورخہ 5 اگست 2019 کو بھارتی آئین کے آرٹیکلز 370 اور 35 A کی منسوخی یعنی Abrogation کے صدارتی حکم کو کسی طور بدنیتی پر مبنی نہ ہونے اور آئینی اختیارات کے مطابق ہونے کی بنا پر درست اور جائز یعنی Valid قرار دیا گیا ۔ اس قرارداد کے نتیجہ میں ریاست جموں و کشمیر کو حاصل منفرد اور خصوصی حیثیت، ریاستی علیحدہ آئین اور اپنی علیحدہ شناخت کے پرچم سے محروم کر دیا گیا۔
٢۔ریاست جموں و کشمیر کو مہاراجہ ہری سنگھ کی جانب سے ہندوستان سے الحاق کی دستاویز اور نومبر1949 کے اعلامیہ کے تحت یوراج کرن سنگھ کی جانب سے بھارت کے حق میں Full and Final Surrender of Sovereignty کی دستاویز پر دستخط کرنے کی بنا پر اندورنی خوداختیاری Internal Sovereingty سے محروم ہونا قرار دیا گیا ۔
٣۔صدارتی حکم کے تحت جموں و کشمیر کو سال 2019 میں Union Territory قرار دینے اور Reorganisation کرنے کے عمل کو ایک عارضی انتظام تصور کیا جاکر جموں و کشمیر کی Statehood کو بحال کرکے ریاستی اسمبلی کے انتخابات کرانے کی ہدایت کی گئی۔
٤۔ریاست جموں و کشمیر کو بھی بھارتی آئین کے آرٹیکلز 371 اور 371-A کے تحت آندراپردیش ، گجرات ، مہاراشٹرا اور شمال مشرق کی دیگر ریاستوں کی طرح بھارت کا حصہ اورعلاقہ قرار دیا گیا ۔
٥۔جسٹس کول نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا کہ وادیء کشمیر کے اپنے تاریخی اور معاشرتی ورثہ کو آئینی ترویج (Constitutional Evolution) سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا اور کشمیری عوام کئی دہائیوں سے جاری تنازعہ کا Victim چلے آرہے ہیں۔ انہوں نے جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اور کشمیریوں پر روا تشدد اور ظلم و ستم کے واقعات اور الزامات کی نوعیت اور حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے ساوتھ افریقہ اور دیگر کئی ممالک کی طرح مفاہمتی اقدام کے لئے Truth and Reconcialiation Commission دینے کا مشورہ دیا ہے۔ مگر مجوزہ کمیشن کو فوجداری عدالت بنائے بغیر باہمی گفت و شنید کے تحت تشکیل دینا تجویز کیا ہے۔
٦۔ چیف جسٹس نے فیصلے کے مندرجات بتاتے ہوئے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کو مخصوص تاریخی پس منظر میں عارضی شق قرار دیا اور لداخ کو جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ 2019 کے تحت یونین ٹیریٹری Union Territory قرار دینے کے عمل کو درست تصور ہونا قرار دیا گیا۔
٧۔جسٹس کول نے تحریر کیا کہ آرٹیکل 370 کا اصل مقصد جموں و کشمیر کو بتدریج دیگر ریاستوں کے برابر لانا تھا جب کی جسٹس کھنہ نے مذکورہ آئینی شق کا مقصد غیر متناسب وفاقیت یعنی Assymmetric Federalism تھا نہ کہ جموں و کشمیر کی خود اختیاریSovereignty مطلوب تھی ۔
٨۔فیصلہ میں قرار دیا گیا کہ بھارت کے صدر کو زیرتنازعہ حکم جاری کرنے کے لئے کسی یونین یا ریاستی حکومت سے رضامندی حاصل کرنے کی ضرورت نہ تھی اس طرح صدر نے آرٹیکل 370 (1) & (d) کے تحت اپنے جائز حاصل شدہ اختیارات کا استعمال کرکے آئینی حکم 272 جاری کیا جسے بدنیتی اور خیانت سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ صدر کو آرٹیکل 370 (3) کی رو سے اپنے طور پر نوٹیفکیشن جاری کرنے اور آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کا اختیار حاصل تھا۔

بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلہ کے زیر حوالہ مندرجات سے واضح طور پر مترشح ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت اور بھارتی عدالتوں سمیت ریاستی ادارے جمہوری فکر اور اصولوں پر یقین نہیں رکھتے بلکہ بھارت نام نہاد جمہوریت اور سیکولرازم کا پرچار کرتا چلاآرہا ہے۔ بھارت نے اندورنی طور پر ایک اور بیرونی دنیا کے لئے اپنا مختلف چہرہ سجا رکھا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلہ کے ذریعے ماضی میں بھارت کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کے نام پرمقبول بٹ اور افضل گرو شہدائے جموں و کشمیر کو کمزور ترین مقدمات میں ثبوتوں کی عدم موجودگی کے باوجود پھانسی پر چڑہانے کا عمل دہرایا ہے۔ اس فیصلہ کے تحت بھارتی سپریم کورٹ نے بی جے پی اور آر ایس ایس کی Hinduayata Methodology and philisophy کے پروگرام کو آگے بڑہاتے ہوئے بھارت کے زیر قبضہ واحد مسلم اکثریتی آبادی کی ریاست جموں و کشمیر کو ہندو اکژیتی آبادی میں تبدیل کرنے اور بھارتی مرکزی حکومت کے مکمل کنٹرول اور زیرانتظام لانے کے لئے اگست 2019 میں اٹھائے گئے تمام اقدامات کو آئینی لبادہ پہناکر جوازیت اور عدالتی تحفظ فراہم کیاگیا۔ مگر بھارت کے ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود ریاست جموں وکشمیر کے آزاد اور بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں آباد کشمیریوں کو حالیہ فیصلے سے مایوس ہونے کی قطعا ضرورت نہ ہے۔ مسئلہ جموں و کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مسلمہ اور متفقہ منظور کردہ قراردادں کی روشنی میں ایک متنازعہ علاقہ Disputed Territory اور اقوام متحدہ کے قابل تصفیہ ایجنڈا پر بدستور موجود ہے۔ تنازعہ کشمیر کی بین الاقوامی نوعیت، افادیت اور حیثیت بھارت کے اندورنی انتظامی یا عدالتی اقدامات سے کسی طور نہ تو پہلے اور نہ اب متاثر ہوئی اور نہ آئندہ ہوگی۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی سیاسی مسلمہ قیادت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو کشمیریوں کی امنگوں کے منافی اور آئینی لحاظ سے غیرمنصفانہ قرار دیکرشدید مذمتی الفاظ میں مسترد کیا ہے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں آباد جموں و کشمیر کے باشندگان نے بھارتی سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلہ پر کڑی تنقیدکرکے مسترد کیا ہے۔

اوپر بیان کردہ حقائق اور فیصلہ کے غیر آئینی، غیر حقیقی اور تاریخی لحاظ سے درست جوازیت سے عاری مندرجات پر مبنی بھارتی سپریم کورٹ کے مذکورہ بالا فیصلے اور بھارتی حکومت کے تنازعہ جموں و کشمیر کے بین الاقوامی طور پر مسلمہ حیثیت کے برخلاف اقدامات کی شدید الفاظ میں مذمت اور مسترد کرنے کے علاوہ بذیل تجاویز گوش گذار ہیں۔

الف۔ حکومت پاکستان فی الفور پارلیمنٹ آف پاکستان کے ایوان بالا کا اجلاس طلب کر کے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کی بھرپور انداز میں مذمت کے ساتھ ساتھ اس جابندارانہ فیصلے کو بیان کردہ وجوہات اور مخصوص مقاصد کے حصول کی خاطر جموں و کشمیر کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حیثیت کو مسخ کرنے کی مذموم کوشش کی بنا پر مسترد کرنے کا اعلان کیا جائے۔
ب ۔ حکومت پاکستان دنیا بھر میں بالخصوص امریکہ ، چین، برطانیہ، روس اور یورپی یونین کے ممالک میں قائم سفارتخانوں کو بھارتی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے اور 5 اگست 2019 کے بعد آج تک جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو یکطرفہ طور پر مودی فاشسٹ حکومت کے جملہ اقدامات کی مذمت اور مستردگی کے لئے حمایت حاصل کرنے کے لئے سفارتی ایمرجنسی کا اعلان و نفاذ کیا جائے۔
ج۔ آزاد کشمیر کی سطح پر بھی موجودہ صورت حال کے پیش نظر مربوط و موثر حکمت عملی اختیار کرنے کی خاطر فوری طور آل پارٹیز کانفرنس طلب کیا جائے۔ حکومت آزاد کشمیر اور حکومت پاکستان نے مورخہ 5 اگست 2019 کو جاری صدارتی حکم ، بھارتی پارلیمنٹ سے مذکورہ صدارتی حکم پر قانونی سازی اور مابعد ہندوستان سے ہندووں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں آباد کرنے سمیت کشمیر کی تاریخی حیثیت کو مسخ کرنے کے کئی جاری اقدامات پر واجب ردعمل کرنے میں مطلوبہ موثر کردار ادا نہیں کیا لہذا اب بھارتی سپریم کورٹ کے شرمناک فیصلے پر بھرپور ردعمل کے ساتھ ساتھ موثر حکمت عملی سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کو یقینی بنایا جائے۔
د ۔جموں و کشمیر کے تنازعہ کے منصفانہ حل کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر واجب عملدرآمد کے لئے حکومت پاکستان پر لازم بنتا ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کے بھارتی حکومت کے جاری اقدامات کے تناظر میں سیکرٹری جنرل کے توسط سے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 99 کی رو سے سلامتی کونسل سے فوری طور رجوع کیا جائے۔ اور ان ہی مقاصد کے تحت اقوام متحدہ کے چارٹر کی متعلقہ شقوں کی روشنی میں حکومت آزاد کشمیر اور بیرون ممالک میں آباد کشمیری Diaspora کو اقوام متحدہ سے باقاعدہ رجوع کرنے کی راہنمائی اور ضروری معاونت کی جائے۔

واپس کریں