دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزاد جموں و کشمیر کونسل کی موجودہ آئینی حیثیت ، فرائض ١ور ذمہ داریوں کی نوعیت و افادیت
فرحت علی میر۔فکر آگہی
فرحت علی میر۔فکر آگہی
سال 1970 میں ڈوگرہ استبداد سے آزاد کردہ علاقہ جات میں قائم کی گئی آزاد حکومت کے نظم و نسق میں عوامی شراکت کے لئے تیئس سالوں بعد پہلی بار آئینی ڈھانچہ آ زاد حکومت ایکٹ 1970صدارتی نظام حکومت کے طرز اور صورت میں نافذ ہوا۔ اس نظام کے تحت بالغ رائے دہی سے عوامی چنائو سے قانون ساز اسمبلی تشکیل پائی اور حکومت سازی میں صدر حکومت کی سربراہی میں حکومت سازی کا نظام رائج ہوا۔ جس کے نتیجہ میں آزاد کشمیر حکومت کو بڑی حد تک اندورنی خودمختاری حاصل ہوئی اور صرف تین شعبہ جات یعنی (الف) دفاع و سیکورٹی (ب) کرنسی اور (ج) اقوام متحدہ کے قائم کردہ کمیشن برائے انڈیا و پاکستان کی قرادادوں کی روشنی میں آزاد کشمیر سے متعلق عائد ذمہ داریوں کے امور حکومت پاکستان کے سپرد ہونا قرار پائے ۔ لیکن اس نظام حکومت کو زیادہ دیر چلنے ہی نہیں دیا گیا کہ حکومت پاکستان اور اس وقت کی برسراقتدار سیاست قیادت کی نظرثانی کرنا ٹھان لی جسکے نتیجہ مین ایکٹ 1970کی منسوخی اور آزاد جموں کشمیر عبوری آئین ایکٹ 1974 کا نفاذ عمل میں لایا گیا ۔ اس آئینی ڈھانچہ کے تحت عوامی رائے سے براہ راست منتخب کردہ قانون ساز اسمبلی کے علاوہ آزاد جموں و کشمیر کونسل کی صورت میں ایک غیر منتخب و نامزد کردہ مگر بڑا موثر و بااختیار قانون ساز و منتظم ادارہ تشکیل ہونا قرار دیا گیا۔

آزاد جموں و کشمیر عبوری آئین ا یکٹ ١٩٧٤ کی دفعات 31 اور 21کی روشنی میں آزاد جموں و کشمیر کی عوام کے حق بالغ رائے دہی کے نتیجہ میں قائم ہونے والی قانون ساز اسمبلی کے ماورا آزاد جموں کشمیر کونسل کو اسکی مخصوص ہیئت ترکیبی کے باوجود آزاد کشمیر کے لیے قانون سازی کے ساتھ ساتھ ایگزیکٹیو اتھارٹی کے حامل ادارہ کے طور پر 50موضوعات یعنی شعبہ جات پر قانون سازی کا کلی طور پر اختیا ر او ر انہی موضوعات سے متعلق ایگزیکٹیو اتھارٹی استعمال میں لانے کا مجاز قرار دیا گیا۔ حالانکہ آئین ایکٹ 1974 سے قبل ماسوائے دفاع و سیکورٹی اور کرنسی دیگر جملہ موضوعات پر قانون سازی کے اختیارات براہ راست منتخب ہونے والی آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کو حاصل تھے۔ گویا آزادجموںو کشمیر میں سال 1974میں پارلیمانی جمہوری نظام متعارف ہوتے ہوئے حکومت آزاد کشمیر کی حیثیت، اختیارات اور دائرہ عمل کو محدود کر دیا گیا تھا اور اسی آئینی تناظر میں سال ١٩٧٥ میں قائم حکومت کو پہلی آئینی ترمیم کے ذریعہ آزاد جموں کشمیر کو نسل کو مزید اختیارات سے نوازنے کا شرف حاصل ہوا اور مابعد سال 1979میں پاکستان میں مارشل لاء کے تحت آزاد کشمیر میں ایمرجنسی کے نفاذ کے دوران مسند اقتدار پر فائز شخصیت چیف ایگزیکٹیوجناب ریٹائرڈ جنرل محمد حیات خان (مرحوم)نے آزاد کشمیر میں سال ہا سال سے قائم محکمہ ایکسائز ٹیکسیشن اور آزاد جموں و کشمیر اکائونٹنٹ جنرل یعنی محکمہ حسابات کو جملہ اثاثہ جات بشمول ملازمین سمیت کونسل کے سپرد اور ماتحتی میں منتقل کر دیا۔اس انتظام میں طے پایاکہ آزادجموں وکشمیر کونسل انکم ٹیکس سمیت جملہ دیگر ٹیکسز (محصولات) نافذ کرنے اور ٹیکس گزاران سے وصولیاںکرنے کا مجاز ہو گا البتہ کونسل انتظامیہ آزاد کشمیر سے انکم ٹیکس کی خالص جمع شدہ رقم سے 80فیصد رقم حکومت آزاد کشمیر کو ماہ بہ ماہ منتقل کرنے کا پابند ہو گی۔ لیکن عملی طور پر آزاد جموں و کشمیر کونسل کے انتظامی ڈھانچہ نے آزاد کشمیر میں اعلیٰ عدلیہ میں جج صاحبان کی تقرریوں ،قانون سازی اور ٹیکسوں کے نظام سمیت سیاحت،بجلی کی پیدا وار اور تقسیم ،سوشل و پاپولیشن ویلفیئر جیسے اہم اور عوامی مفاد کے شعبہ جات پر لوگوں کی منتخب حکومت کی مشاورت اور ضروریات کو مکمل طور پر نظر انداز کرکے قانون ساز ادارہ اور ایگزیکٹیو اتھارٹی کے طور پر استحصالی روپ اختیار کر لیا تھا ۔ اس حوالہ سے بیان کردہ پس منظر اور تلخ ترین حقائق و تجربات کے نتیجہ میں پروان کردہ سوچ و فکر کے باعث تیرویںترمیم کی تفصیلی روئیداد کا تذکرہ کسی دیگر کالم میں کیا جائے گا ۔ کیونکہ اس کالم میں سال 2018میں نافذ ہونے والی 13ویں آئینی ترمیم کے بعد آزاد جموں و کشمیر کونسل کا موجودہ حیثیت ، فرائض و ذمہ داریوں پر روشنی ڈالنا مقصود ہے۔

آزاد جموں و کشمیر عبوری آئین 1974 (ترمیم شدہ) کے آرٹیکل 21کے تحت آزاد جموں وکشمیر کونسل کو ماضی میں قانون ساز ادارہ اورایگزیکٹیو اتھارٹی کے بجائے ایک اعلیٰ مشاورتی کو نسل کا درجہ و حیثیت حاصل ہے۔ آئین کے مطابق اب آزاد جموں و کشمیر کونسل مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی روشنی میں حکومت پاکستان کی ذمہ داریوں ،آزاد کشمیر کے دفاع و سیکورٹی سمیت آرٹیکل 31کے تحت حکومت پاکستان کو تفویض شدہ جملہ امور سے متعلق پالیسی سازی میں مشاورت کے فرائض کا حامل آئینی ادارہ بن چکا ہے۔ اس طرح آزاد جموں و کشمیر کونسل کی موجودہ آئینی حیثیت ماضی کے مقابلہ کئی گنا زیادہ معتبر اور مقدم ہے۔ جبکہ قبل ازیں آزاد جموں و کشمیر کونسل کی انتظامیہ نے ادارہ کی آئینی ذمہ داریوں سے تجاوز آزاد کشمیر بھر میں ترقیاتی سکیموں کی اجرائیگی اور تعمیراتی کاموں میں ٹھیکوں کی الاٹمنٹ سمیت دیگر موضوعات پر قانون سازی اور ایگزیکٹیو اختیارات کے استعمال کی بناء پر اپنی حیثیت کو متنازعہ بنا رکھا تھا ۔

امر واقعہ ہے کہ یکم جون 2018 کو تیرہویں آئینی ترمیم کے نفاذ کے فوری بعد راقم الحروف کی فوری تحریک اور کوشش پر مرحوم محمد ایاز خان اکائونٹنٹ جنرل (وقت)آزاد کشمیر ، محمد حسن رانا ایڈیشنل اکائونٹنٹ جنرل اور ان کے چندرفقاء کار نے بھرپور ساتھ دیا جس کے نتیجہ میں محکمہ ہائے انکم ٹیکس ،ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے تحت جملہ محصولات کے نظام پر کنٹرول حاصل کرکے حاصل کردہ محصولات کو آزاد کشمیر خزانہ کے اکائونٹ نمبر 101 میں جمع کرنے کو یقینی بنایا گیا۔ اسی طرح محکمہ حسابات کا کنٹرول بھی منتقل ہو گیا جبکہ 30جون2018 سے قبل آزاد جموں و کشمیر کونسل کی تحویل اور کونسل کے نام سے متعدد بنک اکائونٹس (جن میں کروڑوں روپے کی انویسٹمنٹ اور بچت شدہ رقومات موجود تھیں اور ہیں )سے رقومات کی حکومت آزاد کشمیر کو منتقلی کے لیے سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی اور نہ ہی غیر منقولہ جائیداد اور اثاثہ جات آزاد حکومت کو منتقل ہونے کا آئینی تقاضا پورا کیا گیا حتٰی کہ کونسل انتظامیہ کی جانب سے قانون سازی اور ترقیاتی منصوبوں سے متعلق ریکارڈ کو آزاد کشمیر حکومت کے متعلقہ اداروں کو منتقل نہ کرنے کا عمل آئین اور اخلاقی اقدار کی صریحاً خلاف ورزی کے زمرہ میں آتا ہے۔ اس حوالہ سے یہ تذکرہ مناسب ہو گا کہ گزشتہ دنوں ماہ جون 2023 میں کونسل کی جانب سےNRSP بنک میں 816.00 ملین روپے کی جمع شدہ رقم کو میعادی عرصہ کی تکمیل پر حکومت آزاد کشمیر کو منتقل کرنے کے بجائے دوبارہ اسی بنک میں سرمایہ کاری کے طور پرجمع کر دیا گیا۔

آزاد جموں و کشمیر عبوری آئین کے آرٹیکل 51-A کے تحت تیرہویں ترمیم کے فوری نفاذ کی تاریخ یعنی یکم جون 2018 کے بعد آزاد جموں و کشمیر کونسل کے آفیسران اور دیگر ملازمین حکومت آزاد کشمیر کے ملازم قرار پا چکے ہیں جبکہ کونسل کے دفاتر میں مستعار الخدمتی آفیسران ، ملازمین کی اپنے اپنے آبائی محکموں میں واپسی اور عارضی /کنٹیجنٹ پیڈ ملازمین کی فوری فراغت کے واضح آئینی تقاضوں کے با وجود تعمیلاً عملدرآمد نہ کیا جانا سنگین آئینی و قانونی خلاف ورزی کے ارتکاب کے زمرہ میں آتا ہے ۔ اس صورتحال پر مستزاد کہ حکومت آزاد کشمیر کا محکمہ مالیات آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی سے سالانہ میزانیہ کی منظوری کے مرحلہ پر آزاد جموں و کشمیر کونسل کے لیے فنڈز کی مختصگی و فراہمی کے لیے معروف طریقہ کار کے مغائر کروڑوں روپے پر مشتمل بجٹ آئینی تقاضون کے بر خلاف ان ملازمین کی تنخواہوں کے لیے بھی واگزار کرنے کی سعادت حاصل کرتا چلا آ رہا ہے ۔ جن ملازمین کی فوری فراغت اور اپنے اپنے محکموں میں واپسی مورخہ یکم جون 2018 سے آئینی طور پر واجب العمل ہونا قرار پا چکی ہے ۔ آزاد جموں وکشمیر کونسل کے اکائونٹس کی سالانہ آڈٹ رپورٹس کے مطالعہ و جائزہ سے مترشخ ہوتا ہے کہ سال 2012سے سال 2023تک ان آڈٹ رپورٹس کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سامنے پیش ہی نہ کیا گیا حالانکہ قبل ازیں جاریہ آڈٹ رپورٹس میں سنگین نوعیت کی خلاف ورزیوں اور دیگر بے ضابطگیوں کو محترم آڈیٹر جنرل آف پاکستان (جو آزاد کشمیر کے بھی آڈیٹر جنرل ہیں )نے قلمبند اور Endorseکر رکھا ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کونسل کے چند آفیسران کی جانب سے آئینی تقاضون کے با وجود جاریہ اور مکمل کردہ ترقیاتی سکیموں کے ریکارڈ کی آزاد حکومت کے متعلقہ محکموں کو منتقل نہ کرنے کی وجوہات احتسابی عمل سے روگردانی کی دانستہ کا وش اور جاری تگ و دو ہی دکھائی دیتی ہے۔ بد قسمتی سے وزارت امور کشمیر کے سیکر ٹری صاحبان جو آزاد کشمیر کونسل سیکرٹریٹ کے پرنسپل اکائونٹنگ آفیسر ان رہ چکے ہیں کے علاوہ کونسل کے انچارج وزراء بھی ماضی میں آڈٹ رپورٹس کی چھان بین نہ کرانے اور زیر بحث ریکارڈ کی عدم منتقلی میں پوری دلچسپی رکھتے تھے اور ہیں ۔ گویا کونسل کے آفیسران، ملازمین ہر آنے والے وفاقی وزیر امور کشمیر کو اپنے ذاتی مقاصد کی خاطر کونسل کے سابقہ حیثیت کی بحالی کے لیے تگ و دو کے لیے ایک کارگر مہرہ کے طور پر منفی تراکیب و سازشوں کو روبہ عمل لانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں اورجون 2018 سے بغیر کام کاج کے آزاد کشمیر کے لوگوں کے ٹیکسوں سے کروڑوں روپے تنخواہ دیگر مراعات کے طور پرحاصل کر رہے ہیں۔

دوسری طرف آئین کے آرٹیکل 19کے تحت حاصل ایگزیکٹیو اتھارٹی کے تحت چیف سیکرٹری آزاد کشمیر کی سربراہی میں تشکیل دی گئی اعلیٰ سطحی کمیٹی نے جون 2018کے بعد اب تک 05 سالوں کے عرصہ گذرنے کے باوجود کونسل سیکرٹریٹ سے اثاثہ جات کی منتقلی ، کونسل کے زیر نگرانی کروڑوں روپے کے اکائونٹس سے رقوم کی منتقلی ، مستعار الخدمتی آفیسران کی اپنے آبائی محکموں میں واپسی اور لگ بھگ 84 عارضی /کنٹیجنٹ پیڈ ملازمین کی فراغت جیسے آئینی تقاضوں کے حامل اقدا مات میں ذرہ برابر پیش رفت کرنے میں بوجوہ ناکام رہے ہیں۔ بلکہ شنیداً سال 2018 کے بعد بھی کونسل میں ملازمین کی تقرری اور مستعارالخدمتی بنیادوں پر تقرریوں کا معاملہ جاری ہے۔ آزاد جموںو کشمیر کے موجودہ وزیر اعظم کی طرف سے مالی سال 2023-24 کے نظر ثانی میزانیہ میں محکمہ مالیات کی سطح سے آزاد جموں و کشمیر کونسل کو فنڈزکی غیر آئینی طور پر واگزاری اور غیر آئینی طریقہ کار اپنانے پر اعتراضات اٹھائے گئے۔ سال 2019میں آزاد جموں و کشمیر کونسل کے موجودہ غیر آئینی فرائض منصبی اور حجم کار کو مد نظر رکھتے ہوئے کونسل سیکرٹریٹ کی سطح پر ملازمین کی مطلوبہ مناسب تعداد کے تعین کے لیے ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنرل(راقم الحروف ) کی سر کردگی میں کمیٹی مقرر کی گئی جس کی پیش کردہ رپورٹ کے مطابق آفیسران اور دیگر ماتحت ملازمین کی تعداد کا تعین کیا گیا ۔ اس رپورٹ کی حکومتی منظوری بھی صادرہوئی تھی مگر چیف سیکر ٹری آزاد کشمیر کے دفتر سے تسلسل کے ساتھ مطابقاً نو ٹیفکیشن کی اجرائیگی التوا کا شکار ہے۔ اسی طرح حکومت آزاد کشمیر نے کونسل سیکر ٹریٹ میں تعینات ڈپٹی سیکرٹری ( قانون سازی ) کو محکمہ قانون و پارلیمانی امور میں عارضی طور پر تبدیل کیا مگر آفیسر مذکور کی طرف سے عدم حاضری و حکم عدولی کی بناء پر ان کے خلاف آزادجموں و کشمیر ریموول فرام سروس ایکٹ کے تحت انضباطی کارروائی کا حکم صادر ہوکر سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کو انکوائری کرنے کے فرائض تفویض ہوئے مگر اس انکوائری کے عمل کوسبوتاژ و ملتوی کر دیا گیا ۔ محکمہ ان لینڈ ریونیوکے ڈائریکٹر جنرل آڈٹ جیسے اہم عہدے دار کو کونسل سیکرٹریٹ نے اپنے محکمہ میں واپس کرنے کے بجائے بغیرکام کاج جون 2008سے اپنے دفتر میں بدستور حاضر کر رکھا ہے۔ یہ تمام غیر آئینی غیر قانونی اقدامات کونسل میں تعینات بیوروکریسی ، وفاقی حکومت کی چھتری اور چھایا کی آڑ میں جاری رکھے ہوئے ہے جس کے ازالہ کے لیے حکومت آزاد کشمیر مکمل بے بسی پر صابر و شاکر دکھائی دیتی ہے۔

تیرہویں آئینی ترمیم کے بعد کونسل کی قانون سازی فہرست (Council Legislative List)میں شامل موضوعات اور امور کی نسبت کی گئی قانون سازی میں موجود ہ آئینی تقاضوں کی روشنی میں ترامیم لانا ایک کلیدی عمل تھا ۔ ا س مقصد کے لیے سال 2020 میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری وقت (راقم الحروف )کی سر کردگی میں کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ ابتدائی طور پر راقم الحروف نے آزاد کشمیر کے سرکاری حسابات اور باشندہ ریاست سے متعلق بنائے گئے قوانین کا جائزہ لیکر حکومت کو سفارشات پیش کیں جن پر غور و خوض اور منظوری کا عمل تعطل و تاخیر کا شکار ہے۔ اور نتیجتاً کئی موضوعات میں دو عملی اور غیر آئینی صورتحال درپیش ہے ۔ مگر حکومتی محکمہ جات اور اعلیٰ سطح پر تیرہویں آئینی ترمیم کے پیش آمدہ آئینی تقاضوں پر عملدرآمد خاص کر اوپر بیان کردہ امور کی نسبت کوئی فکری تشویش لاحق نہ ہے۔اس کے بر عکس آزاد جموں و کشمیر کونسل میں اسمبلی سے منتخب اراکین کونسل نے اپنے طور پر ترقیاتی فنڈز اور اختیارات کے حصول پر توجہ اور کوشش مرتکزرکھی ہے۔ سابق وفاقی مشیر امور کشمیر سے بھی ایسے ہی مطالبات کیے گئے مگر خوش قسمتی سے کونسل اراکین سے محترم طارق سعید کے حوالہ سے آزاد جموں و کشمیر کونسل میں بغیر کام کاج تعینات ملازمین کی فراغت اور اس قدر عملہ کی عدم جوازیت پر سوال کھڑے کیے جس پر انہیں خراج تحسین پیش کرنا بنتا ہے۔

علیٰ ہذا اقتباس ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت آزاد کشمیر بلا تاخیر تیرہویں آئینی ترمیم کے بعد موجودہ آئینی تقاضوں بالخصوص آرٹیکل21 (8) کے پیش نظر آزد جموں و کشمیر کونسل کو اپنی موجودہ آئینی حیثیت میں اعلیٰ سطحی مشاورتی کردار اور ذمہ داریوں کی انجام دہی کو یقینی بنانے کی خاطرجناب وزیر اعظم پاکستان /چیئرمین کشمیر کونسل کی توجہ حاصل کرنے کے اقدامات اٹھائے۔ مزید برآں حکومت آزاد کشمیر آئینی تقاضوں کی تکمیل کے لیے آزاد جموں و کشمیر کونسل کی تحویل میں جملہ اثاثہ جات کے علاوہ کونسل کے نام سے کھولے گئے بنک اکائونٹس سے جمع شدہ کروڑوں روپے حکومت آزاد کشمیر کو منتقل کرنے ، کونسل میں تعینات مستعار الخدمتی ملازمین کو اپنے آبائی محکموں میں واپس کرنے ،لگ بھگ ایک سو عارضی / کنٹیجنٹ پیڈ بنیادوں پر بھرتی کیے گئے ملازمین کو فارغ کرنے، ترقیاتی منصوبوں اور قانون سازی کے علاوہ محکمہ حسابا ت اور محکمہ ان لینڈ ریونیو سے متعلق جملہ سرکاری ریکارڈ و دستاویزات آزاد کشمیر حکومت کو منتقل کرنے جیسے اقدامات کو یقینی بنانے کے لیے بامعنی انداز میں جناب چیئرمین کشمیر کونسل سے رجوع کرے تاکہ عبوری آئین 1974 کی لازمی شقوں پر عملدآمد کو یقینی بنایا جائے۔ آئینی طور پر یہ امر بھی لازم ہے کہ آزاد جموں و کشمیر کونسل میں موجو دہ آفیسران و ملازمین کی تعداد کو تفویض کردہ حجم کار کے تناسب سے Rationalize کیا جائے اور سرپلس ملازمین کو ان کے ملازمتی کوائف کے مطابق آزاد کشمیر کے محکموں میں تبدیل و تعینات کیا جائے تاکہ یہ ملازمین اپنے فرائض منصبی انجام دیتے ہوئے ماہانہ تنخواہ و دیگر مراعات حاصل کرنے کے مستحق قرار پائیں اور انہیں بھی آزاد کشمیر کے دیگر محکموں کے ملازمین کی طرح قانون ساز اسمبلی سے بجٹ کی منظوری کی صورت میں واجبات کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے۔

موجودہ غیر آئینی و غیر قانونی صورتحال کو کسی طور بھی جاری نہیں رکھا جاسکتا۔گزشتہ چند ماہ قبل دیکھنے میں آیاکہ موجودہ حکومت آزاد کشمیر نے سرکاری ملازمین کی تنظیم ہاء کی رجسٹریشن کے قانون میں آرڈیننس کے تحت ترمیم کرتے ہوئے حکومت آزاد کشمیر کے احکامات اور ہدایات کی خلاف ورزی کرنے پر سرکاری ملازمین کو Subversion یعنی بغاوت کے جرم کے ارتکاب کرنے سے تعبیر و موسوم کیا گیا چہ جائیکہ آزاد جموں و کشمیرکونسل کے ملازمین جو آئینی طور پر حکومت آزاد کشمیر کے ملازم سرکار ہیں کی جانب سے آئین کے لازمی تقاضوں اور واضح شقوں کی خلاف ورزی کا قانونی تدارک نہ ہونا چہ معنی دار د کے مترادف صورت دکھائی دیتی ہے۔

آزاد جموں و کشمیر کونسل کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور دیگر ضروریات کے لیے حکومت آزاد کشمیر سے فنڈز کی واگزاری کا سلسلہ جولائی2023 سے معطل ہونے کی وجواہا ت دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ موجودہ وزیر اعظم آزاد کشمیر نے جموں و کشمیر کونسل میں کام کرنے والے جملہ مستقل و باقاعدہ ،مستعار الخدمتی اور عارضی ملازمین کی تفصیل طلب کرنے کے احکامات صادر فرمائے تاکہ دیگر سرکاری محکموں کی طرح نامینل رول کے مطابق کونسل کے ملازمین اور ان کی بجٹ ضروریات کے لیے فنڈز واگزار کیے جائیں لیکن کونسل انتظامیہ کی جانب سے طلبیدہ تفصیل اور نامینل رول ملازمین فراہم کرنے سے انکار کی بناء پر
فنڈز واگزار کرنے کا عمل روک دیا گیا۔ کونسل انتظامیہ آئین 1974کے آرٹیکل 51-A کی واضح شقوں کے باعث مستعارالخدمتی آفیسران و ملازمین کو اپنے آبائی محکموں میں واپس کرنے اور عارضی ملازمین کو فارغ کرنے کی پابند تھی لیکن تادم تحریر کونسل انتظامیہ نے ان آئینی تقاضون کو پورا نہیں کیا اور غالباً یہی وجہ ہے کہ کونسل کی جانب سے مطلوبہ تفصیل فراہم کرنے سے گریز برتا جا رہا ہے اس کے بر عکس جون 2018 سے مستعارالخدمتی اور عارضی ملازمین جموں و کشمیر کونسل انتظامیہ کے ہاتھوں کام کاج کیے بغیر تنخواہ و دیگر مراعات حاصل کرتے چلے آ رہے ہیں۔افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کونسل انتظامیہ نے وفاقی وزارت امور کشمیر کے توسط سے وزیر اعظم پاکستان کو اصل حقائق اور موجودہ آئینی صورتحال سے آگا ہ کیے بغیر کونسل ملازمین کو تنخواہ اور دیگر مطلوبہ فنڈز کی واگزاری کے لیے اکائونٹنٹ جنرل آزاد کشمیر کے نام ہدایت نامہ منظور کروا لیا اور باقاعدہ مراسلہ مورخہ 10اکتوبر کو جاری کیا ۔ جناب وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے اکائونٹنٹ جنرل کے نام جاری کردہ ہدایات پر بعض حلقوں کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار سامنے آیا کیونکہ ایسی ہدایات کی اجرائیگی آزاد کشمیر کے آئین 1974 کے ساتھ ساتھ پاکستان کے آئین کی بھی خلاف ورزی تصور کی جاتی ہے۔جناب وزیر اعظم آزاد کشمیر کو چاہیے کہ کونسل کے ملازمین کی تنخواہ واگزار نہ کرنے کی اصل صورتحال سے جناب وزیر اعظم پاکستان کو تحریری طور پر آگاہ فرمائیں تاکہ وزارت امور کشمیر یا کونسل سے ہمچو قسم کے مراسلہ جات کی اجرائیگی کا عمل نہ دہرایا جائے بلکہ حقیقی معنوں میں آئینی تقاضوں کی پاسداری اور عملدرآمد کو ترویج دیا جائے۔

واپس کریں