دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزاد کشمیر اسمبلی کی ترقیاتی منصوبوں کے اختیارات سے دستبرداری ؟
فرحت علی میر۔فکر آگہی
فرحت علی میر۔فکر آگہی
آزاد کشمیر میں پہلی مرتبہ ترقیاتی منصوبوں کی منظوری کے اختیارات قانون ساز اسمبلی سے وزیر اعظم آزاد کشمیر کو منتقل کیئے گئے ہیں۔ترقیاتی منصوبوں کے انتخاب اور منظوری کے طریقہ کار میں اس تبدیلی سے ترقیاتی منصوبوں پہ اسمبلی کے اختیار کا طریقہ کار منفرد طور پہ تبدیل کر دیا گیا ہے۔قانون ساز اسمبلی کی اپنے آئینی اورسیاسی اختیارات و حقوق سے دستبرداری نت نئے مسائل ، باہمی تنازعات اور غلط فہمیوں کو جنم دینے کا باعث ہو گی۔بدلتے ہوئے طریقہ کار کے نتیجے میں ترقیاتی فنڈز کی ضلعوں کے مابین منصفانہ تقسیم اور مساویانہ بنیادوں پر تعمیر و ترقی کے اصولوں کی خلاف ورزی کا قوی احتمال ہے۔سالانہ ترقیاتی پروگرام کی دستاویز کے مطابق گزشتہ سال کے ترقیاتی پروگرام میں شامل کئی جاریہ منصوبوں/ترقیاتی سکیموں کے اخراج کی نشاندہی ہوئی ہے۔آئندہ سال کے منصوبوں کے لئے فنڈز کو بلاک پروویژن کے طور پر وزیر اعظم کی صوابدید پر رکھ دیا گیا ہے۔اس طرح گزشتہ کئی عشروں پہ مشتمل ترقیاتی فنڈز کے لئے اختیار کردہ طریقہ کار میں یکسر تبدیلی کے نتیجے میں پیچیدگیوں اور مسائل پیدا ہونے کا احتمال ہے۔اس کالم میں ،آزاد کشمیر میں ترقیاتی عمل کے پس منظر اور تجویز کردہ تبدیلی کے منفی اثرات کی نشاندہی کرنا مطلوب ہے۔

ماہ جون میں آیندہ مالی سال ٢٤۔٢٠٢٣ کے لیے سالانہ بجٹ کی منظوری کا طریقہ کار اپنی جگہ دلچسی، فکر مندی اور معنویت رکھتی ہے ۔ مگر اس فکرمندی کے تناظر میں جائیزہ لینا ہو گا کہ آزاد کشمیر کی سیاسی شعور رکھنے والی عوام کی منتحب قانون ساز اسمبلی کے معزز اکابرین نے آزاد کشمیر کی معاشی و معاشرتی ترقی(Socio-economic development) کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لئے حکومت پاکستان کے وفاقی ترقیاتی پروگرام سے مختص کردہ بلاک ایلوکیشن (Block Allocation of Funds) کے طور پر ملنے والے فنڈز کے خلاف مختلف سیکٹرز کے ترقیاتی منصوبوں کی نشاندہی اور منظوری کے اختیارات سے دستبردار ہونے کی راہ کیونکر اور کن اعلی مقاصد کے حصول کی خاطر اختیار کرلی ہے اور ایسے اختیارات رواں سال سے وزیراعظم آزاد کشمیر کو منتقل ہوگئے ہیں ۔

تعجب خیز پہلو یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں باقاعدہ ترقیاتی عمل کے آغاز یعنی سال ٦٠ـ١٩٥٥ کے پہلے پانچ سالہ ترقیاتی پروگرام سے لے کر مالی سال ٢٣۔٢٠٢٢ سالانہ ترقیاتی پروگرام تک پراجیکٹ وائیز منظوری کا اختیار قانون ساز اسمبلی کے پاس رہا اور حقیقتاً حکومت پاکستان سے انفراسٹرکچرل و سوشل سیکڑز ڈویلپمنٹ کے لئے فراہم کردہ بلاک پرویژن کے خلاف آزادکشمیر میں ترقیاتی منصوبوں کی منظوری دراصل قانون ساز اسمبلی کی منظوری سے مشروط و منسوب چلی آرہی تھی۔ لیکن اس سال یکدم قانون ساز اسمبلی سے ترقیاتی پروگرام کی ترتیب ، انتخاب ، تدوین ، فنڈز کی ضلعی آبادی میں تقسیم اور منصوبوں کی منظوری کے رائج طریقہ اور عملدرآمد میں تبدیلی ممکنہ طور پر الجھاؤ پیدا ہونے کی بنا پر فکرمندی کا متقاضی معاملہ ہے ۔

آزاد کشمیرمیں ترقیاتی منصوبوں کے لئے حکومت پاکستان سے فنڈز کی فراہمی کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ حکومت پاکستان نے آزادکشمیر کی مخصوص آئینی حیثیت کے ماورا مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کے پیش نظر دیگر صوبوں کی طرز پر آزادکشمیر کے لوگوں کی معاشی ترقی یعنی (Socio-econmic uplift) اور انفراسٹرکچرل ڈویلپمنٹ آف آزادکشمیر کے لئے گذشتہ کئی دہائیوں سےDevelopment Loan from Pakistan to Azad Kashmir کے طور پر ہر سال Block Allocation کی مد میں ترقیاتی فنڈز اس شرط کے تحت مختص کرتا چلا آ رہا ہے کہ ان فنڈز کے خلاف وفاقی اور صوبائی طرز پر سیکٹر وائز منصوبے اور ترقیاتی سکیمیں ہمارے ہاں قانون ساز اسمبلی سے سالانہ ترقیاتی پروگرام کی صورت میں منظور کرے گی اور ترقیاتی منصوبوں کی تیاری سے لے کر منظوری اور عملدرآمد کے مراحل میں پلاننگ کمیشن کے جملہ قواعد اور ضوابط پر عمل کرنا لازم ہو گا۔ اس طرح آزادکشمیر میں ترقیاتی فنڈز کی ضلعوں کے مابین تقسیم کے لئے ٨٠ فیصد آبادی اور ٢٠ فیصدی علاقہ کے تناسب کے اصول کی بنیاد پر تقسیم ہوتے چلے آرہے ہیں۔ البتہ دارالخلافہ مظفرآباد میں ریاستی سطح کے اداروں کی ضروریات Overall Development Portfolio کا حصہ قرار پاتا ہے۔ بلاک پرویژن کے علاوہ حکومت پاکستان سے ہائیڈرو الیکٹرک پاور جنریشن سمیت کئی دیگر سیکٹرز اور نوعیت کے انفرادی منصوبوں کو وفاقی ترقیاتی پروگرام میں شامل کرنے اور فنڈز کی فراہمی کا سلسلہ رائج رہا ہے۔

چنانچہ یہ امر طے شدہ رہا کہ آزاد کشمیر میں سالانہ ترقیاتی پروگرام میں گذشتہ سالوں سے روبہ ٰعمل جاریہ منصوبوں کے لئے فنڈز مختص کرتے ہوئے آئندہ مالی سال کے لیے inclusive growth کے لازمی تقاضوں کے پیش نظر عوامی نمائندگان اور محکمانہ طور پر سیکٹر وائز نشاندہی کے نتیجہ میں تجویز کردہ منصوبوں اور ترقیاتی سکیموں کی منظوری قانون ساز اسمبلی سے ہوتی رہی اور اب بھی ایسا ہونا لازم بنتا تھا لیکن مالی سال ٢٤ـ٢٠٢٣ کے لئے طبع شدہ سالانہ ترقیاتی پروگرام کی سرکاری دستاویز کے ملاحظہ سے واضح ہوتا ہے کہ آب رسانی سیکٹر کے علاوہ دیگر جملہ ٢٤ سیکٹرز سے متعلق جاریہ ترقیاتی منصوبوں کے لئے آئیندہ مالی سال کے لئے فنڈز مختص کئے گئے جبکہ ترقیاتی بجٹ کے ٤٠ فیصد فنڈز کو جملہ سیکٹرز کے لئے نئے منصوبوں کو Nomenclature کے بجائے بلاک ایلوکیشن کے طور پر مختص کئے گئے ہیں جبکہ جملہ شمالی اضلاع میں واٹر سپلائی کی جاریہ سکیموں (جن میں سال ٢٠١٥ سے روبہ عمل مظفرآباد کی ڈوبہ ہوتریڑی کی سکیم بھی شامل ہے) کو رواں سال کے سالانہ ترقیاتی پروگرام سے خارج کرتے ہوئے ان جملہ جاریہ سکیموں کے لئے 415 کی بلاک پرویژن کے طور پر فنڈز مختص کئے گئے لیکن جاریہ سکیموں کے Nomenclature کے اخراج کی وجوہات ناقابل فہم دکھائی دیتی ہیں۔

اسی طرح ہر سیکٹر کے لئے آئیندہ سال کے لئے ترقیاتی منصوبوں کی شمولیت کے بجائے بلاک پرویژن کے طور پر فنڈز کے مختص کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران بلاک پرویژن کے طور پر مختص شدہ فنڈز کی تقسیم اور منصوبوں کی تخصیص و شمولیت کے جملہ امور اور اختیارات قانون ساز اسمبلی کے بجائے وزیراعظم آزادکشمیر کی صوابدید اور منظوری کے تابع خرچ ہوں گے۔ اس نئی صورتحال کے پیش نظر سال ٢٤ـ٢٠٢٣ کے دوران منصوبوں کی نشاندہی ، منصوبوں کی سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شمولیت کی منظوری ، محکمانہ طور پر پی۔سی۔ون کی تیاری اور ان مراحل کے بعد ترقیاتی فورم ہا سے منظوری کے طویل پراسیس کو مکمل کرنے میں مطلوبہ معیاد کے پیش نظر ترقیاتی فنڈز کا تصرف ناممکن دکھائی دیتا ہے جبکہ ان فنڈز کی تقسیم میں مساویانہ سلوک نہ ہونے کے خدشات اور احتمالات اپنی جگہ تشویش کا باعث ہیں۔ رواں سالانہ ترقیاتی میزانیہ کے جائزہ کے حوالہ سے دیگر پہلوؤں کو اگلے کالم میں زیر بحث لایا جائے گا۔


واپس کریں