دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزادکشمیر ، بجلی بلات اضافہ، پیداواری استعداد ، نظام سے متعلق حقائق و اسباب اور متقاضی تجاویز
فرحت علی میر۔فکر آگہی
فرحت علی میر۔فکر آگہی
آزادکشمیر میں بجلی بلات میں کئی گنا اضافہ، پیداواری استعداد ، ترسیل و فروخت کے نظام سے متعلق حقائق و اسباب اور متقاضی تجاویز

ملک بھر میں خوفناک حد تک بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کے تناظرمیں عوام کو بجلی کی فروخت کے انراخ یعنی ٹیرف میں کئی گنا اضافہ کے باعث آزادکشمیر میں بھی عوامی سطح پر بے چینی اور اضطراب نے احتجاجی ہڑتالوں اور بجلی بلات کی ادائیگی سے عوامی سطح پر انکاری مہم کو جنم دے رکھا ہے ۔ جو صورت حال یقینی طور اضطراب اور اصلاح طلب ہے۔ احتجاجی دھرنوں، لگائے گئے نعروں اور مفت بجلی کی فراہمی کے مطالبات کے ساتھ ہی سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ میں آزادکشمیر کے آ بی وسائل سے بجلی کی پیداواری مقدار سے رعایتی نہیں بلکہ مفت بجلی کی ترسیل اور نافذالعمل ٹیرف یعنی قیمت فروختگی کی عدم جوازیت کے حوالہ سے مختلف نوعیت کی تشریحات ، توجیحات اورمن چاہی تعبیر پر مبنی سوالات اٹھائے گئے جن سے عوام الناس بالخصوص ہماری نوجوان نسبتا باشعور نسل کے ذہنوں میں خلفشار، منفی رجحانات،اشتملات ، غیر حقیقی اور مخصوص سیاسی عقائد کا پروان چڑھنا یقیناً تشویش کا باعث ہے۔ ہمیں اس طور شعلوں سے کھیلنے کے نتائج کا کلی ادراک ہونا چاہیے ۔ لہذا ان خدشات اور امکانات کے تدارک کے لیے آئین ،قانون اور دستاویزی ثبوتوں کی روشنی میں اصل حقائق، بجلی کی پیداوار اور عوام کو بجلی ترسیل کے نظام، صارفین سے بجلی بلات کی وصولی کے رائج طریقہ کار کی خوبیوں اور خرابیوں کے اسباب اور اصلاح احوال کی تجاویز کے ساتھ وضاحتی معلومات کا عوامی آگاہی کے لئے قلمبند کرنا مطمع نظر ہے۔ تاکہ عقل و دلیل کا غالب اور پروان ہو۔

2۔ آزادکشمیر میں پن بجلی کی پیداواری صلاحیت و استعداد اور دستیاب آبی وسائل کے حوالہ سے وضاحت کچھ یوں ہے سال 1960ء میںعالمی بنک کی ثالثی سے پاکستان اور ہندوستان کے مابین معاہدہ سندھ طاس ہوا۔ اس معاہدہ کی رُو سے دونوں ملکوں کے درمیان ہندوستان کے مقبوضہ علاقوں سے بہنے والے چھ دریاوئں یعنی دریائے سندھ کے آبی وسائل کے حوالہ سے حقوق اور فرائض کا تعین ہوا جس کے نتیجہ میں تین مغربی دریاؤں ( دریائے سندھ ، دریائے چناب اور دریائے جہلم) سے پانی کے استعمال کا حق پاکستان جبکہ مشرقی تین دریائوں (بیاس ،راوی اور ستلج)کے پانیوں پر ہندوستان کو کنٹرول حاصل ہونا تسلیم کیا گیا۔ مغربی دریا مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر سے آزاد جموں و کشمیر کی حدود سے گذر کر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں ۔ بھارت نے مذکورہ معائدہ کے بعد اپنے زیر قبضہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں مغربی دریائوں پر متعدد آبائی ذخائر اور پن بجلی کے پیداواری منصوبہ جات تعمیر کر کے تصرف میں لا رکھے ہیں ۔ جبکہ آزادکشمیر و گلگت بلتستان میں رواں مغربی دریائوں کے پانی کے ذخائر اور بجلی کی پیداوار کے کئی منصوبے ابھی تک تشنہ تکمیل ہیں ۔ مگر ریاستی عوام کے لئے ریاستی حدود کے اندر دستیات آبی وسائل کے استعمال بارہ کسی قسم کے خدشات کا شکار ہونے کی گنجائش نہ ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر اور آزادکشمیر بشمول گلگت بلتستان سے گذرنے والے آبی ذرائع و وسائل کے استعمال پر کشمیری عوام کا تسلیم شدہ حق ہے ۔ تقسیم ہندوستان سے قبل ریاست جموں و کشمیر کے ڈوگرہ حکمران اور پنجاب حکومت کے مابین نہر اپر جہلم سے پانی سے بہاؤ اور استعمال کی نسبت سو سالہ مدت کا تحریری معائدہ ہوا تھا جس کی میعاد چند سال قبل پوری ہوچکی ہے۔

3۔ سندھ طاس معائدہ کے تحت خطہ میں آبی وسائل کے حقوق تقسیم و تسلیم ہونے پر تربیلا ڈیم کے بعد آزادکشمیر میں دریائے جہلم پرسال 1962-67 ء کے دوران منگلہ ڈیم کی صورت میں ایک بڑا آبی ذخیرہ تعمیر و تکمیل کیا گیا۔ جس سے ہمارے ہاں پن بجلی کی پیداوار شروع ہوئی ۔ بھارت کی جانب سے منگلا ڈیم کی تعمیر پر اعتراض سامنے آیا مگر عالمی بنک اور اقوام متحدہ کی پالیسی سے پاکستان کو منگلا ڈیم کی تعمیر کا استحقاق رکھنے کی بنا پر بھارتی اعتراض مسترد کر دیا گیا ۔ منگلا ڈیم کی تعمیر کے لیے ریاستی عوام یعنی ضلع میر پور کے با شندگان نے اپنی معیشت و معاشرت اور سماجی حقوق کی لازوال قربانیوں سے منصوبہ کی تعمیر کو ممکن اور بارآور بنایا ۔ منگلا ڈیم کی تعمیر کے لیے سرکاری اور نجی اراضیات میر پور شہر اور پورے پورے دیہاتوں کو خالی کروایا گیا اوربڑے پیمانے پر آبادیوں کی نقل مکانی کے مسائل اور ان کی آباد کاری ،معاوضہ جات کی ادائیگیوں سمیت آزادکشمیر کی ضرورت کے مطابق بجلی کی ترسیل جیسے معاملات کو یکسو کرنے کی خاطر حکومت آزادکشمیر اور حکومت پاکستان کے مابین گفت و شنید اور خط و کتابت کا سلسلہ 1967 تک جاری رہا۔ منگلا ڈیم کی تعمیر کے حوالہ سے حکومت آزادکشمیر اور حکومت پاکستان بوساطت وزارت امور کشمیر کے مابین ڈیم کی تعمیر کے لئے رضامندی و شرائط کا پہلا خط زیر نمبرD-19(4)/62 محررہ 10 نومبر 1962ء اور دوسرا مراسلہ نمبر259/2535-67 مورخہ 24 جون 1967ء اور تیسرا آخری مراسلہ نمبرD-19(4)/62(KI) محررہ 12 اگست 1967ء تحریر و ترسیل ہونا ریکارڈ سے ثابت ہے۔ اس طرح حکومت پاکستان کی طرف سے منگلاڈیم کی تعمیر کے حوالہ سے طے کردہ امور کی نسبت دونوں حکومتوں کے درمیان معاہدہ نامہ کے بجائے باہمی مشاورت اور تسلیم کردہ شرائط پرمشتمل خط و کتابت کو بمنزلہ معاہدہ نامہ قرار دے کر وزراء کی طرف سے حتمی سرکاری مراسلہ محررہ 12-08-1967 حکومت آزادکشمیر کو بھیجنا پایا جاتا ہے۔اس مراسلہ کے مندرجات کے بغور مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت آزادکشمیر نے منگلا ڈیم کے آبی ذخیرہ کے لیے جھیل کی تعمیر کے لیے سرکاری و نجی اراضیات واپڈا حکومت پاکستان کو فراہم و آزاد کرنے کا اقرار کرتے ہوئے متاثرین کی آباد کاری سمیت معاوضہ جات کی ادائیگیوں اور میرپور شہر کی تعمیر نو کے لیے مطلوبہ سرکاری عمارات و تفریحی سہولیات میں حکومت پاکستان سے مالی و عملی تعاون کا تذکرہ موجود ہے ۔ اور بالخصوص مراسلہ متذکرہ بمنزلہ معاہدہ نامہ کی شق 7 کے تحت حکومت پاکستان(واپڈا) نے آزادکشمیر کی بجلی کی ضرورت کو ترجیحی بنیادوں پر پورا کرنے کا اقرار کر رکھا ہے جبکہ اس شق میں آزادکشمیر کے صارفین بجلی کو مغربی پاکستان کے صارفین کی طرح برابری کے سلوک کا حقدار قرار دینا بھی مذکور ہے۔ منگلاڈیم تعمیر و تکمیل ہوا سال 1967 میں منگلا سے بجلی کی پیداوار شروع ہوئی تو آزادکشمیر کی ضرورت پورا کرتے ہوئے رعائتی انراخ پر بجلی کی فراہمی کا وعدہ پورا کیا گیا۔ واپڈا پاکستان کی جانب سے 1994تک آزادکشمیر کو ایک روپے فی یونٹ کے حساب سے تعمیر کردہ گرڈ سٹیشن پر بجلی کی ترسیل شروع ہوئی ۔ سال 1994 میں ایک روپے نو پیسے فی یونٹ مقرر ہوا۔ سال 1997میں ایک روپے سولہ پیسے اور مابعد بالترتیب 2.32 فی یونٹ اور 3.24فی یونٹ قیمت فروخت مقرر ہوئی۔ متذکرہ بالا انراخ پر آزادکشمیر کو بجلی کی فراہمی کے سلسلہ میں وفاقی حکومت پاکستان نے سال 1996 میں آزادکشمیر کو رعایتی نرخوں پر بلا منافع و بلا نقصان No Profit No Loss کے اصول کا سال 1996 میں بھی اعادہ کیا۔ اس طرح آزادکشمیر کے اندر بجلی کے صارفین کو قیمت فروخت مقرر کرنے اور تقسیم و ترسیل کے نیٹ ورک کی تعمیرسمیت انفراسٹرکچر کی تعمیر جیسے جملہ معاملات حکومت آزادکشمیر کے محکمہ برقیات کی صوابدید و دائرہ اختیار میں ہونا تسلیم و تفویض کر رکھا ہے۔ چنانچہ حکومت آزادکشمیر کا محکمہ برقیات،واپڈا پاکستان سے مجموعی تعداد یعنی Bulk Purchase کے اصول پر گرڈ اسٹیشن پر حسب ضرورت بجلی یونٹس کی صورت میں خرید کرتا چلا آرہا ہے ۔ جبکہ آزادکشمیر کے صارفین کو بجلی کی تقسیم و ترسیل واجبات کے لیے ٹیرف کا تعین سمیت جملہ انتظام و انصرام محکمہ برقیات کے فرائض و دائرہ اختیار میں شامل ہیں۔ واپڈا پاکستان آزادکشمیر کے بجلی نیٹ ورک کو بحال رکھنے اور اخراجات کرنے کا ذمہ دار نہ ہے۔ اسی لیے واپڈا پاکستان صرف گرڈ اسٹیشن تک بجلی سپلائی کرنے تک محدود ہے۔

4۔ سال 2003میں منگلاڈیم میں آبی ذخیرہ کی موجودہ گنجائش میں اضافہ کے لیے منگلا ڈیم پراجیکٹ منظور ہو کر زیر عمل لایا گیا۔ اس موقعہ پر دوبارہ کئی آبادیوں سے رہائشیوں کی نقل مکانی، جھیل کے لیے اراضیات ایوارڈ کردہ و واگزار کرنے متاثرین کی آباد کاری کے مراحل و مسائل پیدا ہوئے تو حکومت پاکستان، واپڈا اور حکومت آزادکشمیر کے مابین منصوبہ پر عملدرآمد کے حوالہ سے عوام علاقہ کو درپیش معاملات و مسائل کو حل کرنے کے لئے دوبارہ گفت و شنید اور اجلاسوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔ اس وقت آزادکشمیر کے زیرک سیاستدان وزیر اعظم مرحوم و مغفور محترم سردار سکندر حیات خان اور لیفٹیننٹ جنرل ذوالفقار علی خان واپڈا کے چیئرمین جبکہ آفتاب شیرپاوء وفاقی وزیر پانی و بجلی ، انچارج وزیر امور کشمیر و ناردرن ایریاز ،سیفران تھے۔ منگلا ڈیم 30فٹ ریزنگ پراجیکٹ کے حوالہ سے آزادکشمیر کے تحفظات کے علاوہ منگلا ڈیم کی تعمیر کے حوالہ سے سال 1967کے متاثرین کی پنجاب اور دیگر مقامات پر آبادکاری میں رکاوٹوں اور زیر التوا اور حل طلب امور کے سوال اٹھائے گئے ۔ متاثرین 2003 کی یقینی اور موزوں تر آباد کاری کے علاوہ ضلع میر پور میں بسنے والے لوگوں کے لئے پینے اور آبپاشی کی ضروریات کے لیے ڈیم سے اضافی پانی کی دستیابی ، آزادکشمیر کو رعائتی انراخ پر بجلی کی فراہمی ، منگلا ڈیم سے بجلی کی پیداوارپر دیگر صوبوں کی طرح خالص منافع کی ادائیگی ، منگلا جھیل میں مچھلی کی پیداوار اور تفریحی سہولیات کے حقوق کی آزادکشمیر کو منتقلی جیسے اہم ترین معاملات کو لیکر متعدد اجلاس منعقد ہوئے۔ ان اجلاسوں میں وزیر اعظم وقت کی سرکردگی میں حکومت آزادکشمیر نے بھرپور اور جاندار انداز میں اپنے حقوق کی ترجمانی کا حق ادا کیا ۔ ان اجلاس ہاء کی روئیداد علیحدہ طور پر دلچسپی کا باعث ہے۔ تاہم نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ منگلا اپ ریزنگ پراجیکٹ پر عملدرآمد کے سلسلہ میں مورخہ 23جون2003 کو حکومت پاکستان ،حکومت آزادکشمیر اور واپڈا پاکستان کے مابین سہ فریقی تحریری معاہدہ تحریر و تکمیل پایا گیا۔ اس معاہدہ نامہ کی رو سے آزادکشمیر کے متاثرین منگلاڈیم کی آباد کاری کے لیے نئی بستیوں کی تعمیر ،رٹھوعہ ہریام اور دھان گلی دوپلوں کی تعمیر ، منگلاڈیم میں مچھلی کی پیداوار اور تفریحی سہولیات کے حقوق کی آزادکشمیر کو منتقلی، میرپور شہر کی ضرورت کے لئے پینے کے پانی اور آبپاشی کے لیے ما بعد تعین کردہ 687کیوسک پانی کی فراہمی، سال 1967کے سابق متاثرین ڈیم کی سات ہزار سات سو سات (7707) خاندانوں کو مبلغ 02لاکھ روپے فی خاندان کے حساب سے معاوضہ کی ادائیگی، صوبہ ہائے سندھ اور پنجاب میں پرانے متاثرین منگلا ڈیم کے بالترتیب پانچ سو اناسٹھ ، سات سو خاندانوں کو مالکانہ حقوق اور رہائشی پلاٹس الاٹ کرنے اور منگلا اپ ریزنگ کے نئے متاثرین کے لیے میرپور شہر کے قریب نیو سٹی اور چار ٹائون ہاء کی تعمیر کرنے ، میرپور میں ایک نئی تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کے لیے بڑے ادارہ کی تعمیر کے علاوہ چار نئی بستیوں میں چار تربیتی مراکز کے قیام اور سیاحت کی سہولیات بہم پہنچانے کے عملی اقدامات کرنے کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے متذکرہ نقاط اور آیئٹمز کو سال ٢٠٠٣ کے معاہدہ نامہ میں شامل کیا گیا۔ اسی طرح معاہدہ نامہ کی کلاز5 کے تحت واپڈا حکومت پاکستان کی جانب سے آزادکشمیر کو بجلی رعائتی انراخ پر فراہمی و ترسیل کے حوالہ سے درج ذیل معاہدہ طے پایا گیا:۔
''(i) سال 2003تک حکومت آزادکشمیر کے ذمہ واپڈا کے 10.9 ارب روپے اور حکومت آزادکشمیر کی جانب سے واپڈا کے خلاف جملہ بقایا جات کے کیسز کو بے باق تصور ہوں گے۔ جبکہ آزاد جموں و کشمیر کونسل کی طرف سے آزادکشمیر کی جانب سے واپڈا کو ادا کردہ رقم مبلغ 1.4 ارب روپے حکومت آزادکشمیر سے محسوب متصور ہوں گے۔
(ii) کلاز5(2)کی رو سے آزادکشمیر کو بجلی کی فروختگی کے لیے مبلغ چار روپے بیس پیسے (4.20 روپے) فی یونٹ مقرر کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی طرف سے مزید رعایت بھی یعنی Subsidy دے کر حکومت آزادکشمیر کو ایک سال تک مبلغ دو روپے ستائیس پیسے فی یونٹ ادا کرنے کی سہولت دی گئی ۔ جبکہ ستمبر2003 کے بعد مستقل کے لیے قیمت فروخت کے تعین کی سفارشات کے لیے با قاعدہ کمیٹی تشکیل دے کر ادائیگی سے مشروط کیا گیا۔ چنانچہ بروئے معاہدہ نامہ قائم کردہ کمیٹی کی سفارش پر مورخہ 11-09-2003 کومبلغ 2 روپے 59 پیسے فی یونٹ قابل ادائیگی طے پایا جس نرخ پر ادائیگی کا سلسلہ تاحال جاری ہے ۔ اس طرح واپڈا پاکستان سال 1997میں بجلی کی تقسیم کے لئے ڈسڑیبیوشن کمپنیوں کے قیام کے باوجود سال 2019تک حکومت آزادکشمیر کو رعائتی انراخ پر بجلی کی ترسیل و تقسیم کی ریگولیٹری اتھارٹی(NEPRA)کی طرف سے DISCOsکے لئے تعین کردہ ٹیرف کے مابین پیدا ہونے والے تفاوت یعنی Differential کے نتیجہ میں حکومت آزادکشمیر کے خلاف ظاہرکردہ بقایا جات کی رقم سبسڈی کے طور پر ادا کرتا رہا اور سال 2019 میں مبلغ 119 ارب روپے وفاقی حکومت پاکستان نے آزادکشمیر کی جانب سے ادا کر دی ۔ اس طرح عملی طور پرحکومت آزادکشمیر نے واپڈا یا تقسیم کار کمپنیوں DISCOs یا سنٹرل پاور پرچیزاتھارٹی(CPPG کو خرید کردہ بجلی یونٹس کے عوض صرف 2 روپے 59 پیسے فی یونٹ ہی ادا کرتا چلا آرہاہے۔ معاہدہ نامہ 2003 کی شق 5.5 کی رو سے آزادکشمیر میں بجلی کی ترسیل کو بہتر بنانے کی خاطر واپڈا نے6گرڈ اسٹیشن تعمیر کیے اور کلاز 5.6 کے تحت سال 1967 سے پہلی بار منگلا ڈیم سے بجلی پیداوار کی بنا پر 15پیسے فی یونٹ کے حساب سے ہائیڈرل پرافٹ /واٹر یوز چارجز کے طور پر واپڈ اکی طرف سے حکومت آزادکشمیر کو ادا کرنے کا فیصلہ ہوا۔ جس کی ادائیگی جاری ہے۔ معاہدہ نامہ 2003 کی کلاز 6.5 کے تحت کھاڑک اورپنیام کے درمیان رابطہ سڑک کی تعمیر وفاقی ترقیاتی پروگرام سے میر پور شہر اور چار ہملٹس کے لیے واٹر سپلائی اور سیوریج کے منصوبوں کی تعمیر اور ڈیم میں پانی کی کمی کی صورت میں مالکان اراضیات کو کاشتکاری کی اجازت دینے کا فیصلے بھی معاہدہ کا حصہ ہیں ۔ یاد رہے کہ میرپور واٹر سلائی سکیم اور سیوریج کے منصوبہ جات شروع ہو کر جزوی طور پر زیر تکمیل ہیں جسکی بنیادی وجوہات میں اول واپڈا نے منگلا ڈیم سے پانی کی نکاسی و فراہمی کا معاملہ التوا کا شکار کئے رکھنا اور دوسری جانب مذکورہ منصوبہ جات کے حوالہ سے وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کی سطح پر متعدد تحقیقاتی رپورٹس کی یکسوئی کا التوا پذیر ہونا شامل ہیں ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ معاہدہ نامہ کی شق 7.1 کے تحت طے شدہ معاملات کی یکسوئی اور عملدرآمد کے حوالہ سے شکایات کے ازالہ کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فاضل چیف جسٹس کی سربراہی میں ثالثی کا طریقہ کار طے ہوا ہے۔

5۔ قابل ذکر پہلو بیان کرنا ضروری ہے کہ پاکستان میں سال 1997 میں واپڈا نے اپنے نظام میں صارفین کو بجلی کی ترسیل و تقسیم ، صارفین سے واجبات کی وصولی ،لائن لاسز اور چوری کے رجحانات کے سدباب کی خاطر بجلی کی تقسیم کے لیے تقسیم کار کمپنیوں یعنی DISCOs کے قیام کا نظام متعارف کروایا اور ساتھ ہی بجلی کے ٹیرف کے تعین کے لیے NEPRA نام سے ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ مزید برآں سال 1992 میں ملکی ضرورت کے مطابق بجلی پیدا کرنے کیے لیے نجی کمپنیوں کی جانب سے سرمایہ کا ری کی ترویج کے لیے پاور جنریشن پالیسی کا نفاذ کیا گیا۔ ملک کے اندر موجودہ وقت تک پانی سے بجلی کی پیدا وار 37فیصد ہے جبکہ بقیہ ضرورت کوئلہ ،فرنس آئل اور نیوکلیر ذرائع وغیرہ سے بجلی پیدا کی جاتی ہے ۔اگرچہ ملک کے اندر گلگت بلتستان میں تخمیناً 2لاکھ میگا واٹ پن بجلی پیدا کرنے کی استعداد کے علاوہ آزادکشمیر اور دیگر علاقوں میں پن بجلی پیدا کرنے کی مجموعی استعداد ملکی ضرورت یعنی 24000میگا واٹ کے مقابلہ میں کئی گنا زیادہ ہے۔ مگر پن بجلی کے منصوبوں کی تعمیر و تکمیل پر ابتدائی لاگت ت کا حجم بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن بد قسمتی سے ملکی سطح پر پن بجلی کے منصوبوں کو دانستہ التوا میں رکھنے کے سرکاری سطح سے کئے گئے مجرمانہ اقدامات اور دیگر ذرائع بالخصوص فرنس آئل سے بجلی کی پیدا وار میں بوجوہ زیادہ دلچسپی کے نتیجہ میں عوام کو مہنگے داموں بجلی خریدنے سمیت لوڈشیڈنگ کے عذاب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ چنانچہ مملکت خداداد پاکستان میں قدرتی وسائل کے آفاقی عطییہ NATURAL ENDOWMETکی کمی نہیں بلکہ ملکی سطح پر قائدین کرام اور راہبران ملت کی جانب سے جامع اور صحیح العمل پالیسیوں کا عدم نفاذ عوامی ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ ضرر رساں شرائط پر مبنی معاہدوں کے باعث پاکستان کی عوام درپیش مسائل اور عفریت کا شکار ہیں ۔

6۔ پاور سیکٹر کے حوالہ سے اوپر بیان کردہ حقائق ملکی صورتحال، پالیسیوں کے اجمالی تذکرہ کے بعد دیکھنا یہ ہو گا کہ آزادکشمیر میں بجلی کے انراخ میں کیے گئے اضافہ ، بجلی کے استعمال پر صارفین سے ملک میں رائج ٹیکسوں اور دیگر فیسوں سے بڑھ کر واجبات کے نفاذ اور وصولی کی جوازیت ہے بھی نہیں۔ واپڈا پاکستان کے تعمیر کردہ منگلا ڈیم پراجیکٹ 1967 ، منگلاریزنگ پراجیکٹ 2003 اور نیلم جہلم ہائیڈرو الیکٹرک پاور پراجیکٹ سے پن بجلی کی پیدا واری استعداد لگ بھگ 2600 میگاواٹ کے مقابلہ میں آزادکشمیر کی ضرورت 350میگا واٹ نسبتاً معمولی مقدار بنتی ہے ۔ اگرچہ سرکاری شعبہ میں نیلم جہلم ہائیڈرو الیکٹرک پاور پراجیکٹ چند سالوں سے پیداواری مرحلہ عبور کر چکا ہے مگر سال 2010 سے حکومت پاکستان ، واپڈ ا اور حکومت آزادکشمیر کے مابین وفاقی وزارت قانون سے توثیق ہونے کے باوجود تحریری طور پر معاہدہ نامہ کی تحریر و تکمیل چند معقول تجاویز کو تسلیم نہ کرنے کے باعث دانستہ طور پر التوا کا شکار چلا آرہا ہے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے منصوبہ کے ماحولیاتی اثرات کے تدارک کی خاطر ابتدائی طور پر تقریبا 6 ارب روپے مختص کیے گئے مگر فراہم کردہ رقم سے واٹر باڈیز اور واٹر سپلائی کی سکیموں ، واٹر ٹریٹمنٹ جیسے حساس نوعیت کے منصوبوں پر بروڑہ تفریحی پارک کے سوا عملدرآمد کا آغاز نہ ہو سکا جس سے حکومت آزادکشمیر کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ اس حوالہ سے عوامی سطح پر بڑی شدت کے ساتھ دریا بچائو کی تحریک رونما ہوئی ، ماحولیاتی آلودگی اور مظفرآباد شہر سے گزرتے دریا میں پانی کی مطلوبہ مقدار کے بہائو کو یقینی بنانے کی خاطر عدالتی چارہ جوئی بھی کی گئی ، وفاقی وزارت پانی سے ماحولیاتی اثرات کے تدارک کے حوالہ سے باقاعدہ رپورٹ بھی پیش کی گئی ۔ فاضل عدالت العالیہ آزاد جموں و کشمیر سے فیصلہ بھی صادر ہو چکا ہے۔ مگر ان تمام کوششوں اور عوامل کے باوجود مسائل اور معاملات جوں کے توں اپنی جگہ تعطل کا شکار ہیں ۔ حالیہ عوامی احتجاج کے پس منظر میں واپڈا پاکستا ن کی جانب سے آزادکشمیر میں سرکاری شعبہ کے پن بجلی کے منصوبوں کے حوالہ سے اپنایا گیا طرز عمل ان منصوبوں کے ماحولیاتی آلودگی کے اثرات کے لیے موثر حکمت عملی اور منصوبہ بند ی نہ ہونے سمیت آزادکشمیر کی علاقائی حدود سے پن بجلی کی پیداوار پر جی ایس ٹی کی ادائیگی نہ کرنے وغیرہ کئی اسباب موجود ہیں۔ مگر آزادکشمیر میں رعائتی بجلی کی فراہمی کے معاملہ کو علیحدہ طور پر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت پاکستان اور واپڈا سال 1967سے آزادکشمیر کو رعائتی انراخ پر بجلی کی فراہمی کر رہا ہے اور اب تک 2 روپے 59 پیسے فی یونٹ کے حساب سے آزادکشمیر محکمہ برقیات کو یونٹس وار بجلی Bulk Supply کے طور پر Economic Coordination Committee پاکستان کے فیصلہ مصدرہ 10-12-1996ء کی روشنی میں No Profit no loss کی بنیاد پر ہی فروخت ہو رہی ہے۔ اس کے برعکس سال 1977میں اٹھائے گئے فیصلہ کے مطابق حکومت آزادکشمیر نے حکم نمبری 939-45/1977 محررہ 18-05-1977ء کے تحت آزادکشمیر کے مقامی صارفین کو بجلی کی فروخت کے انراخ وصول کرنے کے سلسلہ میںواپڈا میں نافذالعمل اور وقتاً فوقتاً ہونے والے اضافی ٹیرف کو اختیار (Adopt ) کر رکھا ہے ۔ جس کے نتیجہ میں آزادکشمیر کے بجلی صارفین پنجاب اور دیگر صوبوں کے عوام صارفین کے مقابل و مماثل بجلی کے بلات ادا کرتے چلے آرہے ہیں ۔ دلچسپ بات ہے کہ واپڈا پاکستان کی طرف سے اپنے ٹیرف میں نیلم و جہلم پراجیکٹ سرچارج عائد کیا تو محکمہ برقیات نے اپنے طور پر پاکستان میں نافذ کردہ بجلی ٹیرف کا حصہ ہونے کے باوجود آزادکشمیر کے صارفین سے بھی نیلم و جہلم سرچارج سال ہا سال تک وصول کرنا شروع کئے رکھا مگر اس مد میں جمع ہونے والی رقم واپڈا پاکستان کو منتقل تو نہیں کی جاتی رہی بلکہ محکمہ برقیات آزادکشمیر نے اپنی آمدن کا حصہ بنائے رکھا۔ اسی طرح محکمہ برقیات آزادکشمیر واپڈا ٹیرف میں عائد کردہ فیس ہاء کے علاوہ آزادکشمیر میں سرکاری طور پر عائد کردہ اضافی فیس ہاء بھی آزادکشمیر کے صارفین سے وصول کرتا چلا آرہاہے ۔ حالانکہ واپڈا یا حکومت پاکستان کی جانب سے محکمہ برقیات آزادکشمیر پر ایسی قانونی پابندی عائد ہے اور نہ ہی وا پڈا نے پاکستان میں نافذ العمل بجلی ٹیرف کو آزادکشمیر میں من وعن نافذ کرنے پر اصرار کیا ہے۔ تاہم وفاقی وزارت پانی و بجلی(جو اب علیحدہ علیحدہ ہو چکی ہیں) اور وفاقی وزارت خزانہ میں اس نقطہ پر کئی دفعہ بحث و تمحیص ہو چکی ہے کہ اگر محکمہ برقیات آزادکشمیر صا رفین سے پاکستان میں نافذ ٹیرف کے مطابق واجبات وصول کر رہا ہے تو واپڈا پاکستان سے 2 روپے 59 پیسے رعائتی انراخ پر بجلی کی فروختگی کے لئے اصرار کیونکر کیا جاتا ہے۔ اس اعتراض کا جواب یوں دیا جاتا رہا کہ آزادکشمیر کو واپڈا پاکستان کی جانب سے بجلی 2 روپے 59 پیسے فی یونٹ گرڈ سٹیشن Bulk Supplyکے طور پر فروخت کی جاتی ہے۔ جس کی تقسیم،ترسیل سمیت جملہ انتظام و انصرام پر اٹھنے والے اخراجات حکومت آزادکشمیر اپنے بجٹ سے برداشت کرتا ہے۔ لہذا قیمت خرید کردہ نرخ پر انتظامی ، ترقیاتی اخراجات کے علاوہ لائن لاسز اور بجلی چوری کے جملہ عوامل (FACTORS) کے پیش نظر ٹیکسوں کے نفاذ کے ساتھ صارفین کو بجلی واپڈا ٹیرف یعنی پاکستان میں رائج قیمت فروخت کے مماثل فروخت کی جاتی ہے۔ اب حالیہ عوامی احتجاج میں مفت بجلی کی فراہمی اور طویل دورانیہ کی لوڈ شیڈنگ سے نجات کے مطالبات کے تناظر میں جناب وزیر اعظم آزادکشمیر چوہدری انوار الحق کی جانب سے پاکستان سینٹ کمیٹی کے ساتھ میٹنگ میں آزادکشمیر کی ضرورت کے مطابق منگلا ڈیم اور نیلم و جہلم کے جاریہ منصوبوں سے پیدا ہونے والی پن بجلی خصوصی رعائتی انراخ پر مہیا کرنے کا مطالبہ بدیں وضاحت دہرایا گیا کہ اس طور پر خرید کردہ بجلی کو آزادکشمیر کے صارفین میں تقسیم و ترسیل کے لیے ٹیرف کے تعین کا اختیار حکومت آزادکشمیر کے دائرہ اختیار میں رہے گا کہ حکومت آزادکشمیر کس شرح اور نرخ پر بجلی اپنے صارفین کو مہیا کرے گی۔ جناب وزیر اعظم کی طرف سے کئے گئے نئے مطالبہ سے مراد یہ تھی کہ واپڈا پاکستان ، سنٹر ل پاور پرچیز اتھارٹی ((CPPG یا NEPRA آزادکشمیر کو ENERGY MIX سے پیدا اور دستیاب بجلی کی BASKET PRICE کے نفاذ سے مستثنےٰ رکھتے ہوئے آزادکشمیر میںسرکاری شعبہ میں تعمیر کردہ اوپریشنل جاریہ منصوبوں سے بجلی کی اصل پیدا واری لاگت پر ہی آزادکشمیر حکومت کوبجلی کی فروخت کے اصول کو حتمی تصور کرے جبکہ حکومت آزادکشمیر اپنے ہاں سے لازمی اخراجات کو شمار کرتے ہوئے عوام کو بجلی مہیا اور فروخت کرے گی۔ ہماری جانب سے مذکورہ نوعیت کا تقاضا اپنی جگہ انتہائی معقولیت کا حامل ہے کیونکہ دنیا بھرمیں کسی علاقہ سے قدرتی وسائل کے تجارتی استعمال یا ECONOMIC USE کی صورت میں مقامی آبادی یعنی INDIGENOUS POPULATION کا ترجیحی استحقاق اور ترجیحی مفاد دینے کا اصول تسلیم شدہ ہے۔آزادکشمیر کی آبادی اور تجارتی و صنعتی سرگرمیوں کے لحاظ سے بجلی کی مانگ اندازاً 350میگا واٹ بتائی جاتی ہے۔ اور اس وقت آزادکشمیر حکومت کے ماتحت سرکاری شعبہ میں تعمیر شدہ بجلی کے منصوبوں سے 80میگا واٹ (جو فی الوقت ضرورت کے 25فیصد کے برابر بنتی ہے) بجلی پیدا کرتی ہے۔ اس طرح آزادکشمیر کو لگ بھگ 270 میگا واٹ بجلی واپڈا کے قومی ترسیلی نظام یعنیELECTRICITY DISTRIBUTION SYSTEM NATIONAL سے خرید کرنا ہو گی۔ جبکہ پاور ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کی منصوبہ سازی کے پیش نظر آزادکشمیر حکومت سرکاری شعبہ میں سال 2025-30 کے درمیان اپنی مستقبل کی ضرورت یعنی 400میگا واٹ کا پچاسی فیصد بجلی اپنے وسائل سے مقامی منصوبوں سے فراہم کر سکے گی۔ لیکن محکمہ برقیات آزادکشمیر کے ان صارفین سے بھی واپڈا ٹیرف کی شرح سے واجبات وصول کر رہی ہے جو مقامی طور پر تعمیر شدہ بجلی گھروں سے مہیا ہونے والی بجلی سے استفادہ کر رہے ہی ہیں جیسا کہ اپر نیلم اور لیپہ کے علاقہ جات شامل ہیں اور ایسا کرنا حکومت آزادکشمیر کا عمل ہے نہ واپڈا کا۔

7۔ حکومت آزادکشمیر کے تحت پبلک سیکٹر جاریہ اور زیر تکمیل منصوبوں کے علاوہ آزادکشمیر کے آبی وسائل سے نجی سرمایہ کاری کے ذریعہ 05منصوبوں سے 1055.48 میگا واٹ ،سی پیک کے دو پراجیکٹس سے 1824.7میگا واٹ، زیر تعمیر ایک منصوبہ سے 7.8 میگا واٹ اور زیر کارروائی دیگر 16 منصوبہ جات سے یعنی کل 24 منصوبوں سے 4394.15 میگا واٹ پن بجلی کی پیداوار کے حوالہ سے وضاحت کرنا لازم ہو گا کہ ان منصوبوں کو روبہ عمل لانے اور ان منصوبوں سے پیدا ہونے والی بجلی کی خریداری کے معائدات (POWER PURCHASE AGREEMENTS (حکومت پاکستان کے اداروں کے ساتھ ٹیرف کی صورت میں طے شدہ ہیں اور ان منصوبوں سے بجلی طے شدہ ٹیرف پر ہی نیشنل گرڈ نیٹ ورک کو سپلائی ہو سکے گی اور حکومت آزادکشمیر ان منصوبوں سے پیدا کردہ بجلی سے براہ راست استفادہ نہیں کر سکتی کیونکہ آزادکشمیر میں بجلی کے منصوبوں کے لیے نجی سرمایہ کاری کے لئے حکومت پاکستان کی SOVEREIGN GUARANTEE اور بجلی کی خریداری کے ضمانتی معائدوںPOWER PURCHASE AGREEMENTS کے تحت تعمیر کئے گئے ہیں۔ تاہم یہ پہلو اطمینان بخش ہے کہ نجی سرمایہ کاری کے تحت نجی شعبہ میں بجلی کی پیداوار کی پالیسی کی روشنی میں آزادکشمیر کی حدود میں تعمیر شدہ بجلی گھروں کا کنٹرول 30 یا 25سالہ مدت (جیسے بھی طے کی گئی ہو ) حکومت آزادکشمیر کو منتقل ہوں گے۔

8۔ آزادکشمیر حکومت کا بجلی کے شعبہ پر دائرہ اختیار کے حوالہ سے واضح رہے کہ سال١٩٧٤ تک قانونی اور عملی طور پر اس شعبہ کا انتظامی کنٹرول حکومت آزادکشمیر کے پاس رہا مگر سال ١٩٧٤ میں آزاد جموں و کشمیر عبوری آئین ایکٹ کے نفاذ کی صورت میں آزادکشمیر میں بجلی کی پیداوار اور تقسیم کے شعبہ کا اختیار آئینی طور پر آزاد جموں و کشمیر کونسل کو منتقل ہوا۔ اس طرح آزادکشمیر میں الیکٹریسٹی ایکٹ ١٩١٠ کے نفاذکی رو سے آزادکشمیر میں بجلی کی تقسیم ، انتظام و انصرام مکمل طور پر آزاد جموں و کشمیر کونسل کے دائرہ اختیار میں چلا گیا اور کونسل نے 50 میگا واٹ اور اس سے زیادہ مقدار کی بجلی کے منصوبوں کے حوالہ سے جملہ اختیارات وفاق کے ماتحت ادارہ موسومہ PPIB کو دے رکھے تھے۔ مگرمذکورہ آیئنی صورت کے باوجود ماضی کی قیادت جناب سکندر حیات کے دور حکومت میں حکومت آزادکشمیر نے دستیاب آبی وسائل سے سرکاری شعبہ سے بجلی پیدا کرنے کے لیے ہائیڈرو الیکٹرک بورڈ کے نام سے شعبہ قائم کیا۔ جس سے ضلع نیلم میں پہلا قابل ذکر بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ جاگراںI- شروع و مکمل کیا گیا۔مجھے یاد ہے کہ آزاد جموں وکشمیر کونسل کے انچارج وزیر اور سرکاری آفیسران نے متعدد بار ہائیڈرو الیکٹرک بورڈ کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی مگر ہمارے ہاں سیاسی قائدین کرام کی سرکردگی اور چند ایک چیف سیکرٹریز کی کوششوں سے اس شعبہ کا کنٹرول کونسل کو منتقل نہ ہو سکا ۔ اس حوالہ سے ایک واقعہ کا ذکر کرنا مناسب ہو گا کہ وفاقی وزیر امور کشمیر جناب فیصل صالح حیات نے برطانیہ کے دورہ سے واپسی پر ہائیڈرو الیکٹرک بورڈ کا کنٹرول کونسل کو منتقل کرنے کی بھر پور کو شش کی ۔ محترم کاشف مرتضیٰ چیف سیکرٹری نے مجھے حکم دیا کہ مجوزہ میٹنگ میں آپ میرے ساتھ چلیں گے۔جس کے لیے آپ آئینی اور قانونی نقاط اور دلائل کے ساتھ تیاری کریں گے تاکہ ہائیڈرو الیکٹرک بورڈ کی منتقلی کا منصوبہ/ارداہ اور پروگرام سبوتاژ ہو جائے۔ راقم الحروف نے چند بڑے وکلاء حضرات سے عبوری آئین ایکٹ 1974کے شیڈول III میں ELECTRICITY کے مضمون و شعبہ کے کونسل کے سپرد ہونے کے حوالہ سے رہنمائی حاصل کی جس کے جواب میں ان بڑے وکلا حضرات نے باور کرایا کہ بجلی کا انتظام و انصرام تو کونسل کے پاس ہے اور کونسل نے آزادکشمیر کے محکمہ برقیات کو صرف بلات کی اجرائیگی ،وصولی کے لیے محض اپنا ایجنٹ مقرر کر رکھا ہے ۔ اس طرح کونسل کے تجویز کردہ مطالبہ کی آئینی جوازیت موجود ہے ۔ راقم الحروف نے اس تشریح سے ذہنی و قلبی اختلاف کرتے ہوئے اپنے طور پر نافذ العمل قانون الیکٹرسٹی ایکٹ 1910 اور دیگر قانونی حوالہ جات سے استفادہ کرتے ہوئے تاریخ مقررہ پر جناب چیف سیکرٹری کے ساتھ وزارت امور کشمیر میں منعقدہ اجلاس میں شریک ہو کر جناب وزیر امور کشمیر کو بتایا کہ قانون و آئین کے مطابق ELECTRICITY تو کونسل کی قانون سازی کی فہرست میں شامل ہے مگر آزادکشمیر کے آبی وسائل کا مضمون کونسل کے دائرہ اختیار اور مذکورہ فہرست میں شامل نہ ہے۔ جبکہ بجلی کی پیداوار پانی کے علاوہ بھی دیگر ذرائع سے ہونا ممکن ہے۔ اس لیے آزادکشمیر میں آبی وسائل سے پن بجلی کی پیداوار تو RESIDUARY SUBJECTS کی صورت میں آزادکشمیر کی قانون ساز اسمبلی اور حکومت کے دائرہ اختیار میں شامل ہونے کی بناء پر ہائیڈرو الیکٹرک بورڈ کا ادارہ کونسل کو منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ بیان کردہ دلیل سن کر وزیر موصوف نے فرمایا کہ وہ آزادکشمیر حکومت کو بجلی منصوبوں کے قیام ،تعمیر اور آبی وسائل کو بدرجہ اتم استعمال میں لانے کے لیے سنجیدہ ہیں نہ کہ ہائیڈرو الیکٹرک بورڈ کا کنٹرول حاصل کرنا مقصد تھا۔ اجلاس کے اختتام پر جائنٹ سیکرٹری کونسل سیکرٹریٹ جناب فرید اللہ خٹک نے راقم الحروف کو ستائشی کلمات سے نوازا اور چیف سیکرٹری نے واپسی پر کشمیر ہائوس پہنچ کر میرے لیے تعریفی کلمات ادا فرمائے اس تجربہ کے بعد راقم الحروف نے سیکرٹری قانون کی حیثیت میں آزادکشمیر میں موجود دستیاب آبی وسائل سے استفادہ کی خاطر صوبہ سرحد میں قائم ادارہ SHYDO کی طرز پرآزادکشمیر میں PDO کے قیام کے لیے مسودہ قانون تیار کر کے یکے بعد دیگرے سیکرٹریز برقیات کو مجوزہ قانون سازی کی محکمانہ طور پر تحریک کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ آخرکار چوہدری منیر حسین سیکرٹری برقیات کے ساتھ میری مشاورت کامیاب ہونے پر قانون سازی کا مرحلہ عبور کرتے ہوئے PDOکا قیام ممکن ہوا۔ جبکہ سال 2018 میں تیرہویں ترمیم کے مسودہ کی تیاری اور منظوری کے مرحلہ پر ELECTRICITY کا مضمون اور شعبہ آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی اور حکومت آزادکشمیر کو منتقل ہو چکا ہے۔ اس طرح حکومت آزادکشمیر موجودہ آبی وسائل سے حسب ضرورت اور سرمایہ کاری کی دستیابی کی صورت میں پن بجلی کے منصوبوں کے آغاز اورتعمیر میں کلی طور پر مجاز اور با اختیار ہے ۔ جبکہ حکومت پاکستان کو آزادکشمیر کی حدود میں پن بجلی کے منصوبوں کی تعمیر کے لئے آرٹیکل 52-Cکے تابع آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی سے قانون سازی کے ذریعہ اختیار و اجازت کی صورت مترشخ ہے۔ اس طرح تیرہویں آئینی ترمیم کے باعث آبی وسائل سمیت پن بجلی کے پیدا واری منصوبوں اور بجلی کے جملہ انتظام و انصرام کے اختیارات قانون ساز اسمبلی کے پاس قانون سازی اور ایگزیکٹیو اتھارٹی حکومت آزادکشمیر کو منتقل کرنے کا معجزاتی کارنامہ سرزد ہوا ہے۔

9۔ گذشتہ دنوں میں حالیہ احتجاجی تقاریر اور جناب وزیر اعظم اور وزراء حکومت کی پریس کانفرنس میں بجلی کے انراخ میں اضافے کے موضوع پر مباحثہ کے جواب میں حکومت کی طرف سے موقف سامنے آیا کہ آزادکشمیر حکومت نے سال 2003 میںہونے والے منگلا ریزنگ معاہدہ نامہ کے بعد ایک سال تک واپڈا سے رعائتی بجلی بحساب دو روپے چالیس پیسے خرید کی جبکہ مبلغ 2 روپے 59 پیسے فی یونٹ کے عوض بجلی کی خریداری کی نہ ہوئی ہے ۔ اس نقطہ کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ منگلا ریزنگ پراجیکٹ کا معاہدہ نامہ 23-06-2003کو تحریر و تکمیل ہوا جس کی کلاز (ط)5.2 کے تحت ستمبر 2003سے آئندہ کے لیے بجلی کی فروخت کے لیے ٹیرف مقر کرنے کی خاطرذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ ذیلی کمیٹی کا اجلاس مورخہ 11-09-2003 ہوا جس میں آئندہ کے لیے معقول جوازیت کی بناء پر واپڈا سے آزادکشمیر کو بجلی کی فروخت 2 روپے 59 پیسے فی یونٹ پر مشتمل ٹیرف تعین کر دیا گیا اور ساتھ ہی آزادکشمیر کو لائن لاسزLINE LOSSES) ٰ (میں بتدریجٰ کمی لانے پر اصرار و اقرار کیا گیا۔ اس طرح واپڈا کی طرف سے فراہم کردہ بجلی کی قیمت خرید حکومت آزادکشمیر 2 روپے 59 پیسے فی یونٹ کے حساب سے ادائیگی کرتی چلی آرہی ہے۔ اس حوالہ سے جناب وزیر اعظم نے مظفرآباد میں وکلاء سے خطاب کے دوران معزز سامعین کو آگاہ کیا کہ واپڈاکی طرف سے بجلی کی تقسیم کے فرائض DISCOs اور مابعد CPPG کو منتقل ہونے کی صورت میں NEPRAکی جانب سے صارفین کو بجلی فروخت کرنے کے لیے منظور شدہ ٹیرف اور آزادکشمیر کے لیے طے شدہ قیمت فروخت 2 روپے 59 پیسے کی تفاوت کے نتیجہ میں Differential Amount حکومت پاکستان نے آزادکشمیر کے قابل تقسیم حاصل سے ملنے والے حصہ یعنی VARIABLE GRANT سے منہا کرنے کا عمل شروع کر رکھا ہے۔ میری معلومات ہیں کہ سال 1992 سے آزادکشمیر کو قبل ازیں FIXED GRANT کی بجائے صوبوں کے لئے رائج نیشنل فنانس کمیشن کے متبادل پہلی بار آزادکشمیر کو ٤٠ِ:٢ فیصد کے حساب سے VARIABLE GRANT دینے کا فنانشل ایگریمنٹ ہوا۔ اور سال 2018 میں وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے آزادکشمیر کی مالی مشکلات اور جائز مطالبات کو پذیرائی دیتے ہوئے VARIABALE GRANT بڑھا کر 3.64 فیصد کرنے کے علاوہ ترقیاتی بجٹ 11 ارب سے دوگنا 23 ارب روپے سالانہ کر دیا۔ اسی کے ساتھ جون 2018 میں لگ بھگ چوالیس سالوں بعد تیرھویں آئینی ترمییم کا معجزاتی عمل کے ذریعے آزاد جموں و کشمیر کونسل سے قانون سازی سمیت ایگزیکٹیو اتھارٹی آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی اور حکومت آزادکشمیر کو منتقل ہوئے۔ اس طرح آزادکشمیر حکومت کو ٹیکسوں کے نفاذ اور وصولی کے اختیارات حاصل ہو گئے۔ لہذا وفاقی حکومت کی طرف سے طے شدہ VARIABLE GRANT سے ایڈجسمنٹ یا بجلی کی مد میں کٹوتی کرنے کا عمل کسی طور درست نہ ہے۔ کیونکہ حکومت پاکستان سے اکنامک کوارڈینیشن کمیٹی کی سطح پر آزادکشمیر کو NO PROFIT NO LOSS کے اصول کے تحت بجلی فروخت و مہیا کرنے کا فیصلہ موجود ہے۔ حالیہ سالوں میں جاگراں I- پراجیکٹ( جس کا آغاز 2000 میں ہوا) سے واپڈا نیشنل گرڈ کو بجلی کی ترسیل کے معائدہ کے لئے حکومت آزادکشمیر سے بارہا کوشش و بسیار کے باوجود واپڈا پاکستان نے 2018تک ٹیرف کا تعین نہ ہونے دیا اور خرید کردہ یونٹس کو آزادکشمیر کے خلاف قابل وصول ادئیگیوں میں ایڈجسٹ کرتا رہا اور بالآخر سال 2018 میں NEPRA نے 2 روپے 59 پیسے فی یونٹ کے حساب سے خریداری کا معاہدہ حکومت آزادکشمیر کے ادارہ PDO کے ساتھ کر لیا ہے۔ اس معاہدہ کے مطابق بھی مذکورہ بالا اصول اور صورت تسلیم اور بحال ہونا ثابت ہے۔ اس طرح پاکستان اور حکومت آزادکشمیر کے مابین بجلی کی خریداری و فروختگی کے نرخ یعنی 2.59 روپے کا اصول برابری کی بنیاد پر بطور ٹیرف مقرر کیے گئے ہیں وفاقی وزارت خزانہ کا آزادکشمیر کے لیے مختص شدہ حصہ یعنی Variable Grant کی رقم سے کٹوتی اور مجرائیگی کی قطعاً اخلاقی یا قانونی جوازیت نہ ہے۔

آزادکشمیر میں بجلی کی تقسیم کے لیے رائج العمل نظام سے متعلق اصل حقائق ،دستاویزی جوازیت اور اسباب و مسائل پرتفصیلی روداد قلمبند کرنے کے بعد ماحصل نتائج کی بنیاد پر مندرجہ ذیل تجاویز زیر غور لانے کی غرض سے پیش ہیں:ـ
(i) حکومت پاکستان واپڈا اور دیگر متعلقہ اداروں کے ذریعہ طے شدہ اصول اور طریقہ کار کے تحت آزادکشمیر کی ضرورت پورا کرتے ہوئے آزادکشمیر میں تعمیر کردہ پبلک سیکٹر منصوبوں منگلا اور نیلم و جہلم بجلی گھروں سے خالص پیداواری قیمت پر آزادکشمیر کو بجلی بلا تعطل و غیر مشروط طور پر فراہم کرنے کو یقینی بنا ئے رکھے ۔
(ii) حکومت آزادکشمیر سال 1977میںسے بجلی صارفین سے واجبات کے لئے ٹیرف کے نفاذ کے فیصلہ پر نظر ثانی کرتے ہوئے آزادکشمیر میں بجلی صارفین سے بجلی کی خرید و پیداوار اور تقسیم پر آمدہ اصل لاگت اور اخراجات یعنی بجلی کی ترسیل کے لیے قائم کردہ انتظامی ڈھانچہ پر اٹھنے والے اخراجات، بجلی کے نظام کو قابل بھروسہ انداز میں بحال رکھنے کے لیے سالانہ ترقیاتی اخراجات کو شمار کرتے ہوئے فی یونٹ ٹیرف مقرر کر کے حکومت آزادکشمیر کے صارفین کو بجلی کی ترسیل کا نظام وضح کرے۔ جبکہ حکومت آزادکشمیر بجلی کی پیداوار اور تقسیم و ترسیل کو کاروباری اور منافع بخش بنانے کے بجائے اس شعبہ کو عوام کے لیے سہولتی شعبہ یعنی Service-Provider Sector کے طور پر منظم کرے جیسا کہ دوسرے ممالک میں حکومتیں بجلی کے ترسیل کے نظام کو بلا نقصان اور بلا منافع(No Profit No Loss ) کے اصول کے تحت چلا رہے ہیں ۔ اسی اصول کے تحت حکومت آزادکشمیر چھوٹے بجلی گھروں سے بجلی کی ترسیل و فروخت لاگت کی بنیاد پر وصول کرے۔
(iii) مورخہ 11-02-2022ء میں واٹر یوز چارجز بحساب 01 روپیہ 10 پیسے کے حوالہ سے سال 2003ء کے معاہدہ کی شق 5.6 کی ذیلی شق کو تبدیل کرنے کے لیے کئے گئے معاہدہ نامہ پر نظرثانی کو یقینی بنائے تاکہ خالص منافع کے آئینی استحقاق یا متبادل واٹر یوز چارجز کو بجلی کی خریداری سے مشروط نہ کیا جانا طے ہو جائے۔
(iv) حکومت آزادکشمیر خصوصی اہتمام اور ترجیحی بنیادوں پر بجلی پیدا کرنے وا لے اپنے جاریہ منصوبوں کے لیے ہنگامی طور پر سالانہ ترقیاتی فنڈز مہیا کرنے کو یقنی بنائے تاکہ متعین عرصہ یا اس سے قبل جاریہ منصوبہ جات کی تکمیل ہو کر بجلی کی دستیابی ممکن ہو جبکہ آئندہ پانچ سالوں کے دوران مجوزہ منصوبوں کے لیے خصوصی طور پر فنڈز مختص کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ مقدار اور کم از کم دورانیہ میں حکومت آزادکشمیر اپنے منصوبوں سے ہی اپنی ضرورت کی بجلی مہیا کرنے میں کامیابی حاصل کریتے ہوئے نیشنل گرڈ سے صرف بجلی کی مقدار میں کمی کو پوار کرنے کے لیے خریداری کے عمل تک محدود ہونے کو یقینی بنایا جائے۔
(v) حکومت آزادکشمیر واپڈاکے پبلک سیکٹر منصوبوں سے بجلی کی پیداوار کے عوض دیگر صوبوں کے مماثل خالص منافع یا واٹر یوز چارجز( کسی ایک نام سے) حاصل کرنے کو یقینی بنائے اور اس طور ادائیگی کو کسی طور بھی واپڈا یا اس کے معاون سرکاری یا نجی اداروں سے آزادکشمیر کو بجلی کی فراہمی کے لیے اضافی ٹیرف سے مشروط نہ کیا جائے۔ کیونکہ حکومت پاکستان اور حکومت آزادکشمیر کے مابین بجلی کی پیداوار مخصوص شرائط کے معاہدہ جات کے علاوہ آزادکشمیرمیں بجلی کی تقسیم وغیرہ کے انتظام و انصرام حکومت آزادکشمیر کی اپنی ذمہ داری میں شامل ہونے کی بناء پر خالص پیداواری قیمت پر حاصل کر رہی ہے۔
(vi) آئندہ آزادکشمیر میں پن بجلی کے منصوبوں بالخصوص پبلک سیکٹر میں بڑے منصوبوں کی تعمیر سے ماحولیاتی آلودگی کے اثرات میں حد درجہ کمی کو یقینی بنانے کی خاطر آزاد جموں و کشمیر عبوری آئین 1974 کے آرٹیکل 52-C کی متقاضیات کے پیش نظر باقاعدہ قانون سازی کی جائے تاکہ مستقبل میں بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں کے لیے سپانسرز اور سرمایہ کاران کو پیشگی آگاہی ممکن ہو۔ تجویز کردہ قانون سازی کرتے ہوئے نئے منصوبوں کے لئے کل پیداواری استعداد میں سے ایک خاص شرح یعنی PERCENTAGE ( مثلا دس یا پندرہ فیصد) بجلی آزادکشمیر کو مفت یعنی بلا ادائیگی قیمت مہیا کرنے کی شرط عائد کی جا نا مناسب ہو گی۔ اور ایسی شرط واٹر یوز چارجز کا نعم البدل ہو سکتی ہے اور قبل ازیں تعمیر شدہ پبلک سیکٹر بجلی گھروں سے بھی ایسا معاہدہ ہونے کی گفت و شنید کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔


واپس کریں