دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
رٹھوعہ ہریام پل کی تعمیر میں تاخیر کے اصل حقائق اور اسباب
فرحت علی میر۔فکر آگہی
فرحت علی میر۔فکر آگہی
سال ٢٠٠٣ کے دوران خطہِ کشمیر میں ملک کے سب سے بڑے آبی ذخیرہ منگلا ڈیم میرپور میں پانی کے ذخیرہ کی مقدار بڑھانے کی ملکی ضرورت کے پیش نظر اہلیاں میرپور کو ایک بار پھر اپنے آبائی دیہاتوں ، کھیتوں ، صدیوں کی بود و باش اور گھروں کو ملکی ترقی اور خوشحالی کے لیے خیرآباد کہنا پڑا۔ ڈیم اپ ریزنگ منصوبہ پر عملدرآمد کے لیے حکومت پاکستان ، حکومت آزاد کشمیر اور واپڈا کے درمیان مورخہ ٢٧ جون ٢٠٠٣ کو سہہ فریقی معاہدہ ہوا جس کی شق نمبر٦ کے تحت (١) دہان گلی پل (٢) منگلا جھیل کی وجہ سے آرپار کے دیہاتوں کے مابین فاصلوں کو مٹانے کے لیے رٹھوعہ ہریام پل کی تعمیر (٣) میرپور شہر کے لیے گریٹر واٹر سپلائی اور سیوریج کے منصوبوں کو اعتماد سازی کے لئے منظور و تسلیم کیا گیا۔ دہان گلی پل کی تعمیر ہوئی لیکن شومئی قسمت دوسرے دونوں منصوبوں پر عملدرآمد پر شرمناک حد تک تاخیر و تعطل کا سامنا درپیش ہے جبکہ ان منصوبوں کے حوالہ سے سنگین بد اعمالیوں اور ہوشربا خامیوں کی شکایات اپنی جگہ فکر انگیز ہیں۔ اس کے مقابلہ میں منگلا ڈیم سے آب نوشی اور آبپاشی کے لیے محض ٦٣٤ کیوسک پانی کی نکاسی و فراہمی کے لیے معاہدہ کی شق نمبر٧ پر عملدرآمد کو ناممکن بنا دیا گیا ہے۔

ضلع میرپور اور بیرون ملک بسنے والے کشمیریوں میں رٹھوعہ ہریام پل کی تعمیر میں سالوں سے جاری تاخیر و تعطل پر شور و شرابہ ، تشویش بھری خبریں اور فوری تکمیل کے مطالبات کا سلسلہ جاری ہے۔ مگر افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ کسی ادارہ سے اصل حقائق ، تاخیر کے اسباب اور امکانی صورتحال سے لوگوں کو آگاہ نہیں کیا جا رہا ۔ گزشتہ روز جناب وزیر اعظم نے حکومت پاکستان سے فنڈز کی وافر مقدار میں فراہمی نہ ہونے کی شکایت کرتے ہوئے پل کی تعمیر میں کسی طور پیش رفت ہونے کی امید کا اظہار نہیں کیا گیا۔ لہذا کوشش ہو گی کہ اصل صورت احوال سے قارئین کرام کو آگاہ کیا جائے۔

منصوبہ منگلا اپ ریزنگ پراجیکٹ سال ٢٠٠٣ کے تین سال بعد پلاننگ اور ڈیزاننگ کے مراحل عبور کر کے مورخہ ٢٣ اگست ٢٠٠٦ کو نیشنل اکنامک کونسل (ECNEC) سے مبلغ ایک ارب انتالیس کروڑ چھیالیس لاکھ ترپن ہزار روپے لاگت پر منظور ہوا۔ ابتداء میں پل کے منفرد محل و قوع کے پیش نظر کئی داخلی عوامل اور متضاد ترجیحات کی وجہ سے کام شروع ہونے میں تاخیری حربے کارِفرما رہے جن کی تفصیل اور روداد کے تذکرہ سے احتراز ہی مناسب لگتا ھے۔ قصہ مختصر ابتدا ئی منصوبہ بندی میں خامیوں کی وجہ سے مطلوبہ فنڈزکے لئے مورخہ ٢٦۔٥۔٢٠٢١ کو منصوبہ پر پہلی نظرثانی کرتے ہوئے لاگت مبلغ چار ارب تیئس کروڑ اٹھایئس لاکھ پچپن ہزار روپے اور دوسری بار مورخہ ٦۔١٠۔٢٠١٧ کو مبلغ چھ ارب اڑتالیس کروڑ ایک لاکھ انسٹھ ہزار روپے کی نظرثانی شدہ لاگت منظور کی گئی جس میں پل کے درمیانی ١٦٠ میٹر لمبائی کے حصہ کو سٹیل برج کے ساتھ ملانے کے تجویز کردہ فیصلہ کی منظوری کی شرط شامل تھی۔ منصوبہ کی تعمیر کا کام بین الاقوامی کنسٹرکشن کمپنی کو دیا گیا اور مئی ٢٠٢٣ تک پل کی تعمیرکردہ حصوں پر چار ارب آٹھ کروڑپینتالیس لاکھ چار ہزار روپے کی ادائیگیاں اور اخراجات ہو چکے ہیں جبکہ پل کی تکمیل کا ٢٥ فیصدی کام اوپر مذکورہ و منظور شدہ رقم سے مکمل کرنے کا فیصلہ دیا گیا۔ اس وقت منظور شدہ فنڈز کے خلاف ٦٣ فیصد اخراجات ہو چکے ہیں جبکہ فزیکل پراگرس ٧٥ فیصد ہے اس طرح رواں مالی سال میں دو ارب چالیس کروڑ اٹھہتر لاکھ اکتالیس ہزار روپے کا Throw-forward کے خلاف صرف دس کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ لیکن دوسری نظرثانی یعنی ٨ اگست ٢٠١٧ کے بعدتقریبا چھ سال تک ہنوز ١٦٠ میٹر لمبائی کے درمیانی حصہ کے فیصلہ کے مطابق سٹیل برج کے ڈیزائن ، فنی مشاورت اور تعمیراتی فرم کے ساتھ معاہداتی شرائط کے معاملات طے نہ ہونے پر کام بند اور منصوبہ تعطل کا شکار ہے۔

رٹھوعہ ہریام پل کا منصوبہ حکومت پاکستان کے سالانہ پبلک سیکٹر پروگرام میں شامل چلا آرہا ہے اور سال ٢٠٢٢ تک یہ منصوبہ وفاقی وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کی مالیاتی اور انتظامی نگرانی میں چلا آرہا ہے۔ منصوبہ کے پرنسپل اکاوئنٹنگ آفیسر سیکرٹری وزارت امور کشمیر تھے جن کے مالیاتی اختیار کے تابع کام ہوتا رہا ۔ البتہ پراجیکٹ پر فزیکل کام کروانے کے لیے پراجیکٹ منیجمنٹ یونٹ کے لیے آزادکشمیر کے محکمہ کمیونیکیشن و ورکس سے انجینئر کو پراجیکٹ ڈائریکٹر کے طور پر مامور کیا جاتا رہا جس کا انتخاب بھی سیکرٹری وزارت امور کشمیر کے دائرہ اختیاری تھا۔ محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات حکومت آزاد کشمیر ایسے منصوبوں کیلئے رابطہ کاری اور Sectarial functions کے طور پر فرائض انجام دیتا ہے۔ میری دانست اور یاداشت کے مطابق وفاقی وزارت امور کشمیر کے سیکرٹری کے حکم پر درجنون افسران کوگزشتہ سالوں کے دوران اسلام آباد سے منصوبہ کی نگرانی اور چھان بین کیلئے مامور کیا جاتا رہا جس کے نتیجہ میں کئی بار معائنہ جاتی / انکوائری رپورٹس کی تحریر و پیشگی کا سلسلہ جاری رہا۔ وزارت امور کشمیر کی سطح پر کئی اجلاس منعقد ہوتے رہے۔ سال ٢٠٢١ کے دوران بھی اسلام آباد میں متعدد اجلاس منعقد ہوئے مگر کمیٹیوں کی قیام اور رپورٹس کی طلبیوں کے سوا کسی حتمی اور قابل عمل پیش رفت کے بغیر کاروائی بے نتیجہ ہی ثابت ہوتی دکھائی دی۔ سال ٢٠٢١ اور ٢٠٢٢ کے دوران وزارت امور کشمیر اور آزاد کشمیر کی سطح پر وزیر اعظم، وزیر ترقیات اور چیف سیکرٹری کی زیر صدارت متعدد اجلاس منعقد ہوئے مگر پل کی تعمیر کے کام کو شروع کرنے کے مسئلہ پر اعلیٰ ، درمیانے اور اوپریشنل سطحوں پرگفت و شنید کا سلسلہ کوئی بارآور حل اور فیصلہ کئے بغیرجاری رہا۔

٢٥ اگست ٢٠٢٠ کو وزیراعظم آزادکشمیر کی زیر صدارت اجلاس میں میسرز نیسپاک مشاورتی فرم کو ١٦٠ میٹر لمبائی کے درمیانی حصہ پر سٹیل برج کے لئے لاگت کا تخمینہ پیش کرنے کے علاوہ تاخیر کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم ہوا اور مابعد ٢ فروری ٢٠٢١ کو نوٹیفکیشن کے ذریعے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی گئی تاکہ کنٹریکٹ ایگریمنٹ کی روشنی میں کوئی قابل عمل حل تجویز کیا جا سکے۔ مورخہ ١٦ مارچ ٢٠٢١ کو وزارت امور کشمیر کے ترقیاتی فورم نے منصوبہ کی تکمیلی میعاد میں ٣٠ جون ٢٠٢١ تک توسیع منظور کی اور حکومت آزاد کشمیر نے ٢٦ اپریل کو Fact Finding Commitee تشکیل دے کر ٦ ستمبر ٢٠٢١ تک منصوبہ کے تاخیر کے ذمہ داران کی نشاندہی اور سزا تجویز کرنے کا حکم سنایا گیا۔

یاد رہے کہ مورخہ ٢٣ اکتوبر ٢٠١٩ کو پراجیکٹ ڈائریکٹر نے Third party سے سٹیل پورشن کے ڈیزائن اور تخمینہ کی Vetting کے بعد چائینیز کمپنی کو ہی Variation order جاری کیا تھا جس کے خلاف مذکورہ فرم نے نظرثانی پی۔سی۔ون میں منظور شدہ رقم ایک ارب ٢٠ کروڑ کے مقابلے میں ٣ ارب ٧٦ کروڑ روپے تخمینہ لاگت دیا تھا۔ اس دوران Fact Finding Committee کی رپورٹ موصول ہونے پر وزارت امور کشمیر کے ترقیاتی فورم سے منصوبہ کی تکمیلی میعاد میں ٣٠ جون ٢٠٢٢ تک توسیع کی گئی۔ متعدد نظرثانی اجلاس ہا کے بعد پلاننگ کمیشن اور وزارت امور کشمیر کی جانب سے پراجیکٹ اتھارٹیز کو پل کے درمیانی حصہ کے لئے دو طرح کی تجاویز قانونی اور مالیاتی جائزہ کے بعد فروری ٢٠٢٢ تک پیش کرنے کا حکم دیا۔ مارچ ٢٠٢٢ کو طلبیدہ تجاویز وزارت ّ کو ممکن بنانے کے لئے کمیٹی تشکیل دی جس کا اجلاس مورخہ ٢٢ اکتوبر ٢٠٢٢ کو منعقد ہوا۔ اجلاس میں چیف سیکرٹری نے چائینیز ٹھیکیدار فرم کے ساتھ سٹیل برج کی تعمیر کے سلسلہ میں افہام و تفہیم کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ مستقبل میں ٹھیکیدار کی جانب سے قانونی پیچیدگی سے محفوظ رہا جائے۔ ازاں بعد وزیراعظم پاکستان انسپکشن کمیشن میں مورخہ ١٩ اکتوبر ٢٠٢٢ کو اجلاس منعقد ہوا جس میں آزادکشمیر اور اسلام آباد سے متعلقہ محکمہ جات کے افسران شریک ہوئے جس میں فیصلہ کیا گیا کہ پراجیکٹ اتھارٹیز چائنیز ٹھیکیدار فرم کے ساتھ کئے گئے معاہدہ کو ختم کر دیں کیونکہ فرم پہلے ہی عدالت میں مقدمہ دائر کر چکی ہے۔ اس طرح پلاننگ کمیشن نے مورخہ ٣٠ دسمبر ٢٠٢٢ کو منعقدہ میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا کہ میسرز نیسپاک سے سٹیل برج پورشن کے ڈیزائن کی دوبارہ Vetting کروائی جا کر پی۔سی۔ون کی تیسری نظرثانی کے لئے جملہ لوازمات پورے کئے جائیں۔ اس طرح آزاد کشمیر کے محکمہ ورکس میں پی سی ون کی نظرثانی اور حسب فیصلہ ڈیزائننگ پر کام شروع کیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں وفاقی ترقیاتی پروگرام ٢٠٢٤۔٢٠٢٣ میں مذکورہ منصوبہ کیلئے صرف دس کروڑ کی رقم مختص کی گئی ہے کیونکہ اندازہ لگا گیا کہ اس سال مطلوبہ لوازمات پورے کر کے ٹھیکہ کی الاٹمنٹ ہونے تک درکار عرصہ کی وجہ سے عملی طور پل کی نصبگی کا کام نہ ہو گا۔ ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اب سٹیل پورشن کی بجائے دوبارہ آر سی سی کے کام کو ترجیح دی جا رہی ہے۔

الغرض خلاصہ کچھ یوں ہے کہ رٹھوعہ ہریام برج کی تعمیر میں مرحلہ بہ مرحلہ ڈیزائن میں تبدیلیوں اور ١٦٠ میٹر درمیانی پورشن کی بروقت تعمیر میں تاخیر اور سنگین بے ضا بطگیوں اور مبینہ خرد برد کی شکایات پر بے نتیجہ رپورٹس سے قطع نظر منصوبہ پر شفاف طور بروقت تکمیل کی بنیادی ذمہ داری امور کشمیر ، گلگت بلتستان ڈویژن پر عائد ہوتی ہے کیونکہ منصوبہ وفاقی ترقیاتی پروگرام میں شامل اور مالیاتی کنٹرول سیکرٹری صاحب کے دائرہ اختیار میں رہا تاہم حکومت آزاد کشمیر کا عملدرآمد مین بطور سٹیک ہولڈر مایوس کن کردار بھی بوجوہ حرف تنقید رہا اور ہے۔ لیکن ہماری جانب سے پورے زورکے ساتھ کبھی وفاقی اداروں خاص کر وزارت امور کشمیر کی ذمہ داری کو اجاگر نہیں کیا گیا ۔ گذشتہ سال اس منصوبہ کی ذمہ داری امور کشمیر ڈویژن سے فنانس ڈویژن کو سپرد کیگئی ہے جبکہ حکومت آزاد کشمیر کے متعلقہ محکموں کا طفیلی کام جاری رہے گا۔ موجودہ وزیراعظم نے اپنے حالیہ بیان میں بادی النظر میں درست ہی فرمایا کہ حکو مت پاکستان سے پورے فنڈز کی فراہمی نہ ہونے کی صورت میں پل کی جلد تعمیر و تکمیل نہ ہو سکے گی ۔

اب دیکھنا ہو گا کہ وفاقی حکومت سے اعتماد سازی کے اس اہم منصوبہ کی تکمیل کے لئے نہایت سرعت لانے اور قلیل ترین مدت میں جملہ لوازمات کو پورا کرنے میں کس قدر دلچسپی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ وفاقی پلاننگ کمیشن کے فیصلہ سے چائنیز کمپنی کوپل کے مزید کام سے فارغ کر دیا گیا ہے ۔ نیسپاک سے ١٦٠ میٹر کی اب ڈیزائننگ اور Vetting کرائی جانا ہوگی گویا پہلے کیا گیا ڈیزائننگ ورک اور چائنیز کمپنی سے تجویز شدہ سٹیل پورشن کی تعمیر کیلئے حاصل کردہ مالی پیشکش بے سود اور موقوف ہو چکی ہے۔ اب از سر نو ڈیزائننگ سے لے کر نیشنل اکنامک کونسل (ECNEC) سے تجویز کردہ حال کے ساتھ منصوبہ پر نظرثانی کی منظوری کے حصول اور ٹھیکیدار کے انتخاب اور کام کی الاٹمنٹ کے مراحل کو روایتی انداز میں کرنے کی صورت میں کئی سالوں کا انتظار احتمالاً یقینی ہے۔ مگر عوامی ضرورت اور تشویش کے پیش نظر اس مدت اور ممکنہ تاخیر کو کم کرنے کے لئے وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف کی فوری توجہ حاصل کرنا ہو گی جس سے زیربحث منصوبہ کی تکمیل ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ اب یہ کام سیاسی جماعتوں کے اشتراک سے قائم موجودہ حکومت آزاد کشمیر کیلئے ایک چیلنج ہے؟ آزادکشمیر کی عوام بالخصوص اہلیاں میرپور موجودہ حکومت کے متوقع کردار کے بارآور ہونے کی امید لگا سکتے ہیں۔

واپس کریں