دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کشمیرکونسل سے اثاثوں کی حالیہ جزوی منتقلی پرآئینی و قانونی جائزہ
فرحت علی میر۔فکر آگہی
فرحت علی میر۔فکر آگہی
گذشتہ چند ماہ سے آزادجموں وکشمیر کونسل کے ملازمین کی تنخواہوں اور دیگر فنڈز کی بندش سے شروع ہونے والے مذاکرات میں وزیر اعظم چوہدری انوارالحق کے آئینی اور اصولی موقف کے نتیجہ میں کونسل سے اثاثوں اور فنڈزکی حالیہ جزوی منتقلی کے لئے وزارت امورکشمیر سے جاری نوٹیفکیشن کا جائزہ لیتے ہوئے مجھے ستر کی دہائی میں ملک کی ایک بڑی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خیرات ابن رسا ( جو خود بھی بدرواہ جموں کے ریاستی باشندے تھے) کی بیان کردہ بات یاد آئی کہ صدیوں سے غلامی کے مضر اثرات کے نتیجہ کے طور پر باشندگان ریاست جموں وکشمیر بالعموم اپنا جائز حق بھی خیرات اور ہدیہ کے طور پر مانگنے کے عادی بن گئے ہیں ۔ چایئے تو یہ کہ انفرادی ، اجتماعی اور بالائی سطحوں پر اس بیماری جیسی روش سے چھٹکارا حاصل کر نا چائیے ۔

حقیقت کچھ یوں ہے کہ سال1974 کے چوالیس سالوں بعد 2018 میں آزادجموں وکشمیر عبوری آئین ایکٹ 1974 میں تیرہویں ترامیم کی صورت میں آرٹیکل 51-A کے تحت کونسل کے ماتحت بھرتی شدہ ملازمین کے معاملات حکومت آزادکشمیر کے دائرہ اختیار میں ہونے کے علاوہ کونسل کی ملکیتی قابل منتقلی و ناقابل منتقلی جائیداد اور اثاثوں ، کونسل کنسولیڈیٹڈ فنڈ (Council Consolidated Fund) اور کونسل کے نا م سے بنکوں میں جمع کردہ رقومات کا حکومت آزادکشمیر کو لازمی طور منتقل ہونا قرار دیا گیا ہے۔ تیرہویں ترامیم کی منظوری کے فوری بعد اولین کوشش میں ہمیں کونسل کنسولیڈیٹد فنڈ Council Consolidated Fund سمیت محکمہ انکم ٹیکس ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اور محکمہ حسابات کی حکومت آزاد کشمیر کو منتقل کرنے میں کامیابی نصیب ہوئی ۔ اس کے فوری بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں کونسل اور وزارت امورکشمیر کی تحریک پر وفاقی وزیر قانون کی سربراہی میں جائزہ کمیٹی تشکیل دی گئی جس کی آڑ میں اثاثہ جات ، ریکارڈ اور آئینی تقاضوں کے باوجود تعمیلی اقدامات کا سلسلہ التوا میں ڈال دیا گیا۔ وفاقی وزیر قانون نے مذکورہ کمیٹی کے سربراہ کے طور پر اجلاس طلب تو کیا مگر دوران تیرہویں آئینی ترامیم کے حوالہ سے ان کی گفتگو اور مخاصمانہ کلمات ریاست جموں وکشمیر کی حساس اہمیت کے برعکس ہونے کی بنا پر وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر اور سئیر وزیر طارق فاروق کے ردعمل کے باعث اجلاس کی کاروائی بے ضائقہ اور بے نتیجہ نوٹ پر ختم ہوئی۔ تاہم حکومت آزاد کشمیر کی جانب سے آرٹیکل 51-A کے تقاضے پورے کرنے کے لئے آزادجموں وکشمیر کونسل اور وزارت امورکشمیر سے رابطہ کرکے تعمیلی اقدامات کو یقینی بنانے کی خاطر چیف سیکرٹری کی سرکردگی میں اعلی سطحی کمیٹی قائم کی تھی مگر بوجوہ کوئی خاطر خواہ کاروائی نہ ہوسکی۔

وزارت امورکشمیر سے حالیہ جاری نوٹیفکیشن کے مطابق حکومت پاکستان سے کونسل سروس میں تعینات مستعارالخدمتی اور قطعی عارضی یعنی Contigent Paid Staff کو کونسل اور حکومت آزاد کشمیر کی ملازمت میں تقسیم کرکے بدستور بحال اور برقرار رکھنے کا فیصلہ اور عمل آزادکشمیر کے آئین کی زیر تذکرہ واضح شقوں کی صریحا خلاف ورزی کے زمرہ میں آتا ہے۔ آزاد جموں وکشمیر کونسل آزاد کشمیر کے آئین کی پیداوار اعلی ادارہ ہے جس کے تحت محترم وزیراعظم یا چیف ایگریکٹیو پاکستان کونسل کے چئیرمین مقرر ہیں۔ چیئرمین کونسل کے طور پر 25 جنوری 2024 کو صادر کردہ منظوریوں کے تعمیلی نوٹیفکیشن ہا مصدرہ 29 جنوری کا وزارت امور کشمیر سے جاری ہونا آئینی اور قانونی طور پر درست نہ ہے۔ اور اگر کونسل کے سیکٹریل امور و فرائضSectarial Affairs and Duties وزارت امورکشمیر نے ہی انجام دینا ہیں توپھر کونسل میں 44 افسران اور عملہ ( جن میں 09مستعارالخدمتی بنیادوں پر تعنیات چلے آرہے ہیں) پر مشتمل دستہ (Contingent ( برقرار رکھنے کی کیا جوازیت ہے۔ جبکہ آزاد جموں وکشمیر کونسل کا دائرہ کار مشاورتی فرائض (Advisory Role)کی بجاآوری تک محدود ہے۔ واضح رہے کہ وزارت امورکشمیر و گلگت بلتستان حکومت پاکستان کی انتظامی وزارت اور ڈویژن ہے جس کو دیگر انتظامی ڈویژن ہا کی طرح حکومت پاکستان کے رولز آف بزنس 1973 کے تحت وضع کردہ امور و فرائض (Functions and Duties)تفویض ہیں اس طرح آئینی اور قانونی لحاظ سے وزارت امور کشمیر ْصرف اور صرف ان تفویض کردہ فرائض کی پابند ہے ان میں مسئلہ جموں وکشمیر کو ملک کے اندر اجاگر کرنا کلیدی فریضہ شامل ہے ۔ رولز آف بزنس 1973میں وزارت امور کشمیر کے فرائض میں کونسل اور حکومت آزادکشمیر کے درمیان رابطہ کاری یعنی Co-Ordination کے اندراج کی آڑ میں وفاقی سیکرٹری امورکشمیر و گلگت بلتستان ڈویژن گذشتہ کئی دہائیوں سے بلا شرکت غیرے بلحاظ عہدہ کشمیر کونسل کے سیکرٹری اورمالیاتی اور انتظامی امور کے لئے پرنسپل اکاوئنٹنگ آفیسرفرائض انجام دیتے چلے آرہے ہیں۔ جبکہ جائنٹ سیکرٹری سمیت دیگر گزیٹڈ عہدوں پر بھی حکومت پاکستان سے افسران مستعار لئے جاتے تھے۔ چند سال قبل وزارت امور کشمیر اور کشمیر کونسل کے سیکرٹری مسٹر احتشام خان نے کونسل سروس قواعد میں ترمیم کرتے ہوئے آزادکشمیر سے باشندگان ریاست جموں وکشمیر کی کونسل کی ملازمت کے لئے اہل نہ ہونے کی شرط عائد کر دی تھی ۔ اس غیرآئینی اقدام کو آزاد کشمیر عدالت العالیہ میں بصیغہ رٹ پٹیشن چیلنج کیا گیا ۔ جس کے نتیجہ میں ان قواعد کو کاالعدم قرار دیا گیا اور کونسل نے اپنی ہٹ دھرمی جاری رکھتے ہوئے آزاد کشمیر سپریم کورٹ میں اپیل بھی دائر کردی مگر فاضل عدالت العالیہ کا فیصلہ برقرار و بحال رہا۔ یاد دلانا ہوگا کہ ماضی میں چند کلیدی آئینی امور کی نسبت چیئرمین کشمیر کونسل کے احکامات کا وزیراعظم پاکستان کے سیکرٹریٹ اور وزارت امور کشمیر کی سطح پر پراسس ہونے اور خط و کتابت کو آزادکشمیر کے آئین کی روشنی میں درست ہونا تسلیم نہیں کیا گیا۔

آزادجموں وکشمیر عبوری آئین 1974 میں تیرہویں آئینی ترامیم باالخصوص آرٹیکل 51-A کی مقتضیات کو پورا کرنے کے لئے موجودہ وزیراعظم چوہدری انوارالحق کی کاوش اورمحنت کے نتیجہ میں کونسل سے ملازمین اور اثاثہ جات کی منتقلی (جزوی ہی سہی) حکومت آزادکشمیر کے اصولی اور قانونی موقف کی کامیابی ہے جسکے لئے چوہدری انوارالحق اور انکے رفقاء کار اور معاونین داد تحسین کے مستحق ہیں ۔ شنید ہے کہ کونسل کے معزز اراکین کی جانب سے ملازمین اور اثاثوں کی اس طور منتقلی و تقسیم کے حوالہ سے پائی جانے والی آئینی اور قانونی خامیوں اور سقم پر معقول تحفظات ہیں اور انہوں نے غالبا تحریری طور پر بھی وزیر اعظم آزادکشمیر کو اصلاح احوال کی خاطر اپنے تحفظات اور خدشات سے آگاہ کردیا ہے۔

میرے علم اور عملی تجربے کے تناظر کشمیر کونسل کی بیوروکریسی کے زیرتسلط مادی اور مالی اثاثوں کی جزوی منتقلی قابل تحسین اقدام اور Breakthrough کے مترادف ہے۔ لہذا محترم وزیراعظم چوہدری انوارالحق کی خدمت میں تجویز اور بلا طلبی مشورہ ہوگا کہ موصوف محترم صدر گرامی جو کشمیر کونسل کے وائس چیئرمین بھی ہیں کی مشاورت سے کشمیر کونسل کے منتخب معززممبران کے تحفظات کو سنجیدگی اور پرخلوص انداز میں زیرغور لاتے ہوئے ایک ٹیم کے طور پر آئینی حدود و قیود کی پاسداری کی خاطر اصلاح احوال کو یقینی بنائیں۔ اس طرح ان کے مذکورہ بالا جزوی مگر کامیاب اور قابل تحسین قدامات کو استحکام ملے گا اور حکومت آزاد کشمیر کا مفاد بھی اسی اشتراک اور اتفاق بھرے جذبہ میں مضمر ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ فی الوقت آزادکشمیر میں باقاعدہ جمہوری و پارلیمانی نظام حکومت رائج ہے جس میں آئینی عہدوں اور اداروں پر منتخب عوامی نمائیندگان کی رائے اور مشاورت ہی جمہوریت کا حسن اور معراج ہوتی ہے۔ کونسل کے چھ اراکین کو آزاد کشمیر اسمبلی نے منتخب کیا ہے اور کونسل کے معاملات اور امور میں ان کا عمل دخل ، رائے اور مشاورت آئینی اور فطری تقاضا ہے۔ اسی طرح آزاد جموں وکشمیر عبوری آئین 1974کے آرٹیکل 12کے تحت تشکیلی حکومت میں شامل وزیراعظم اور اراکین کابینہ انفرادی اور اجتماعی طور پر عوام کے منتخب ایوان یعنی اسمبلی میں اور اسمبلی کے باہر عوام کے سامنے جوابدہ ہونے کا آئینی و جمہوری اصول طے شدہ ہے جسکی پاسداری ہر لحاظ سے ذمہ داران پر لازم ہے۔


واپس کریں