یاسر پیرزادہ
آپ نے اکثر ایسے بچے دیکھے ہوں گے جو کسی کے گھر جا کر خوب غل غپاڑہ کرتے ہیں، کبھی جوتے لے کر صوفوں پر چڑھ جائیں گے، کبھی برتن توڑ دیں گے، کبھی دیوار پر رنگ برنگی لکیریں پھیر دیں گے، کبھی دوسرے بچوں کو پیٹنا شروع کر دیں گے اور کبھی خواہ مخواہ چیزیں اٹھا کر پھینکنے لگ جائیں گے۔ ایسے بچوں کی مائیں عموماً وہیں پاس ہی ہوتی ہیں مگر مجال ہے کہ ان کے کان پر جوں بھی رینگ جائے، وہ ایسے مطمئن بیٹھی رہتی ہیں جیسے ان کا بچہ بالکل نارمل انداز میں کھیل رہا ہو۔ اگر بچے کی بیہودگی حد سے زیادہ بڑھ جائے تو بچے کی ماں بادل نخواستہ فقط اتنا کہہ کر اپنی ذمہ داری پوری کر دیتی ہے کہ ’ٹونی بیٹا، مت کرو۔‘ مگر ٹونی بیٹا بھی ایسا ڈھیٹ ہوتا ہے کہ ماں کی پروا نہیں کرتا اور یہ تماشا اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کوئی بڑا نقصان نہ ہو جائے۔
پاکستانی طالبان اور ان کے ہمدرد مذہبی رہنماؤں کا باہمی تعلق بھی ایسا ہی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) وہ شریر بچہ ہے جس نے ریاست پاکستان کو تگنی کا ناچ نچایا، پورے ملک میں بم دھماکے کیے، اسکولوں سے لے کر درباروں تک بلا تفریق قتل عام کیا، بچوں، بڑوں اور عورتوں کے چیتھڑے اڑائے، پولیس اور فوج پر حملے کیے مگر ان تمام ’شرارتوں‘ کے باوجود ان کے ہمدرد مذہبی رہنماؤں نے ان کے خلاف وہ سخت بیانیہ استعمال نہیں کیا جو یہ رہنما اپنے ہم وطن آزاد خیال مسلمانوں کے بارے میں استعمال کرتے ہیں، ان لوگوں نے مسلسل طالبان سے مذاکرات کی حمایت کی اور جب یہ مذاکرات ناکام بھی ہو گئے تو طالبان کو یوں پیار محبت سے سمجھایا جیسے کوئی ماں اپنے شریر مگر لاڈلے بچے کو سمجھاتی ہے، کسی نے افغان طالبان کو پیار بھرا خط لکھا تو کسی نے پاکستانی طالبان کے سامنے اپنی گزارشات رکھیں۔
طالبان نے بھی اس پدرانہ شفقت اور محبت کا کمال جواب دیا ہے، حال ہی میں ٹی ٹی پی کے ایک رہنما نے اپنے ویڈیو پیغام میں یہ ’گلہ‘ کیا ہے کہ ان کے اساتذہ اور علمائے کرام نہ جانے کیوں انہیں دہشت گرد کہتے ہیں جبکہ اصل میں تو وہ جہاد کر رہے ہیں، نائن الیون کے بعد یہ جہاد ان علمائے کرام کے فتاویٰ کی روشنی میں ہی تو شروع کیا گیا تھا، اب وہی جہاد ناجائز کیسے ہو گیا؟ ٹی ٹی پی نے اپنے بیان میں مذہبی علما سے وضاحت بلکہ رہنمائی مانگی ہے کہ اگر ان کے سمجھنے میں کوئی کوتاہی ہو گئی ہو تو اسے دلائل سے ثابت کیا جائے، ہم سننے کو تیار ہیں، ہم نے تو اپنا جہادی قبلہ تبدیل نہیں کیا البتہ آپ اگر کسی مجبوری کی وجہ سے ہماری رہنمائی نہیں کر سکتے تو خدارا ہمیں دشمن کے دیے گئے ناموں سے مت پکاریں۔ اور رہی بات مذاکرات کی تو چونکہ پاکستانی ریاستی اداروں نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی لہذا ہم نے مجاہدین کو ان پر حملوں کی اجازت دی۔ یہ ہے ٹی ٹی پی کے بیان کا لب لباب! سچ پوچھیں تو ٹی ٹی پی نے اپنے پاکستانی حامیوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے، پاکستان میں جو مذہبی رہنما امریکہ مخالف جذبات ابھارتے تھے اور لوگوں کو جہاد کی ترغیب دیتے تھے۔ وہ اب کس منہ سے ٹی ٹی پی کے بیانئے کی مخالفت کریں گے؟
طالبان کا بیانیہ تو بڑا سیدھا سادا ہے کہ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا، پاکستان نے اس جنگ میں طالبان کا ساتھ دینے کی بجائے کفر کی قوتوں کا ساتھ دیا لہذا امریکہ اور پاکستان میں فرق مٹ گیا، جس طرح امریکہ کے خلاف جہاد جائز تھا اسی طرح پاکستان کے خلاف بھی جائز ہے، امریکہ کو شکست ہوئی اور وہ بھاگ گیا، اب (خاکم بدہن) پاکستان کو بھی شکست ہوگی، رہی بات مسلمان کا خون بہانے کی تو وہ شخص مسلمان ہو ہی نہیں ہو سکتا جو اسلام کے مقابلے میں باطل کی قوتوں کے ساتھ کھڑا ہو اور وہ لوگ جو اس موقع پر خاموش رہتے ہیں ان کی خاموشی بھی کفر کی حمایت کے مترادف ہے، لہذا بظاہر بے گناہ مرنے والے دراصل بے گناہ نہیں بلکہ واجب القتل کافر ہیں۔ ٹی ٹی پی کے اس بیانئے کا جواب ان کے اساتذہ اور ہمدردوں نے نہیں دیا، وہ دے بھی نہیں سکتے کیونکہ یہ پودا انہی کا لگایا ہوا ہے، اب وہ پھل دے رہا ہے تو شکایت کس بات کی!
اب کچھ بات ان بزرجمہروں کی ہو جائے جنہوں نے افغان طالبان کی جیت پر شادیانے بجائے تھے اور کہا تھا کہ یہ اسلام کی فتح ہے، اب ہماری مغربی سرحد محفوظ ہو گئی، پاکستان میں دہشت گردی ختم ہو جائے گی، افغان طالبان اپنی سر زمین سے کسی کو پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے، مذاکرات کے ذریعے ٹی ٹی پی کو رام کر لیا جائے گا، طالبان بدل گئے ہیں، وغیرہ۔یہ تمام باتیں ہزارویں مرتبہ پھر غلط ثابت ہوئیں۔ طالبان بالکل تبدیل نہیں ہوئے، افغانستان میں عورتوں کا جینا اسی طرح محال ہے جیسے بیس برس قبل تھا اور ان پر تعلیم اور روزگار کے دروازے بھی بند ہیں۔ یہ غلط فہمی بھی دور ہو گئی کہ افغان اور پاکستانی طالبان کا ایجنڈا مختلف ہے اور یہ دو علیحدہ گروہ ہیں جن کے مختلف نظریات ہیں۔ ہمیں تو پہلے بھی یہ غلط فہمی نہیں تھی البتہ ہمارے کچھ دوست اس غلط فہمی کا شکار تھے، امید ہے کہ ان کی یہ غلط فہمی اب ختم ہو گئی ہوگی۔ ہمیں یہ سبق بھی رٹایا گیا تھا کہ افغان سرحد پر بھارتی قونصل خانے ہیں، وہاں سے ’را‘ دہشت گردی کرواتی ہے، حامد کرزئی اور اشرف غنی بھارت سے محبت کی پینگیں بڑھاتے ہیں، اب نہ حامد کرزئی رہا نہ اشرف غنی، نہ قونصل خانے رہے اور نہ را کے ایجنٹ، اب تو افغان طالبان کی حکومت ہے، ان کے ہوتے ہوئے اب دہشت گردی کیسے ہو رہی ہے؟
یہ بھی ہماری خوش فہمی تھی کہ کابل میں ہماری دوست حکومت آ گئی ہے، اس دوست حکومت نے سرحد سے ہمارے فوجیوں پر کئی حملے کیے، سرحد پر لگی باڑ کاٹ دی اور اب یہ حال ہے کہ دھمکیاں بھی سننے کو ملتی ہیں، ایسا تو بھارتی سرحد پر بھی شاذ و نادر ہی ہوا کرتا تھا۔ اور رہی بات اسلامی نظام کی تو جو نظام طالبان نے افغانستان میں رائج کیا ہے، کیا وہ اسلامی نظام ہے، کیا وہاں غربت، بھوک اور افلاس ختم ہو گئی ہے یا اس میں اضافہ ہوا ہے، کیا وہاں لوگ دو وقت کی روٹی کی خاطر اپنے جسم کے اعضا فروخت نہیں کر رہے، کیا چھوٹے چھوٹے بچے وہاں بارہ بارہ گھنٹے مزدوری کرنے پر مجبور نہیں ہیں؟ ہاں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ مثالی نظام لانے میں وقت لگے گا مگر گزشتہ ڈیڑھ برس میں افغانستان میں جو کچھ ہوا ہے اسے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آئندہ پانچ برس میں کیا ہو گا!
یہ کالم افغان یا پاکستانی طالبان کے بارے میں نہیں ہے، یہ کالم ہماری سوچ اور فیصلہ سازی کی صلاحیت کے بارے میں ہے۔ ہم جانتے بوجھتے ہوئے بھی سچائی کا سامنا نہیں کرتے، افغانستان کا تجربہ اس کی مثال ہے، ماضی میں ہماری آنکھوں کے سامنے سب کچھ ہوا، اب بھی ہم اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہے ہیں، لیکن یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ہم سے کوئی غلطی ہوئی تھی / ہے۔ جب ہم غلطی ہی تسلیم نہیں کریں گے تو سبق کیا خاک سیکھیں گے۔
امریکہ کی نفرت میں ہم نے افغانستان میں طالبان کی جیت کا جشن منایا، قطع نظر امریکی فوج کی بربریت کے جس پر کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں، ہم نے کیا سوچ کر بھنگڑے ڈالے تھے؟ ہر فیصلے کی ایک قیمت ہوتی ہے جو چکانی پڑتی ہے، ذاتی زندگی میں ہم جو اچھے برے فیصلے کرتے ہیں ان کے نتائج بھی ویسے ہی نکلتے ہیں جن کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان نتائج سے مفر ممکن نہیں ہوتا۔ یہی کلیہ اجتماعی زندگی پر بھی لاگو ہوتا ہے، یہ ممکن نہیں کہ آپ غیر دانشمندانہ فیصلے کرتے چلے جائیں اور بحیثیت قوم ان کا نتیجہ نہ بھگتیں۔ آج ہم ایسے تمام فیصلوں کا نتیجہ بھگت رہے ہیں جو اپنے تئیں ’سپر سمارٹ‘ لوگوں نے کیے، کاش کہ یہ سپر سمارٹ ہماری قسمت میں نہ ہوتے اور ہمیں اوسط درجے کی فہم و فراست والا ہی کوئی شخص مل جاتا تو ہمارا یہ حال نہ ہوتا جو آج ہے۔ کاش!
بشکریہ ہم سب
واپس کریں