یاسر پیرزادہ
لاس اینجلس میں اِس وقت تاریخ کی بد ترین آگ لگی ہوئی ہے۔ اِس آگ سے کتنے ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے، کتنے افراد ہلاک ہو چکے ہیں، کتنے لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اور کس قدر شاندار محلات راکھ کا ڈھیر بن چکے ہیں، یہ سب باتیں آپ ٹی وی چینلز اور انٹرنیٹ کے ذریعے جان سکتے ہی، یہاں لکھنے کی ضرورت نہیں، ویسے بھی آگ کی شدت اِس قدر زیادہ ہے کہ یہ اعداد و شمار ہر پَل تبدیل ہو رہے ہیں۔ لاس اینجلس کا اب یہ حال ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے اِس شہر پر ایٹم بم پھینکا گیا ہو۔ حسبِ توقع ہمارے معاشرے کا ایک مخصوص طبقہ (پورا معاشرہ نہیں ) لاس اینجلس کی آگ کو خدا کا قہر ماننے پر مُصِر ہے، اِس کا کہنا ہے کہ امریکہ چونکہ اسرائیل کا حامی ہے اور اسرائیل نے غزہ میں بربریت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں اِس لیے خدا کی بے آواز لاٹھی نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے لاس اینجلس کو سزا دی ہے۔ افسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ اِس منطق میں نہ پہلے کبھی دَم تھا اور نہ اب ہے اِس لیے اِس دلیل کا جواب دینے کی ضرورت نہیں۔ ایک منٹ کے لیے اگر ہم فرض بھی کر لیں کہ ایسا ہی ہوا ہے جیسا کہ اِس طبقے کا ماننا ہے تو بھی لاس اینجلس کے امراء کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا کیونکہ اُن کے لاکھوں ڈالروں کے قلعہ نما گھروں کا نقصان بیمہ کمپنیاں بھر دیں گی جبکہ برق گرے گی تو بیچارے غریب پر، جو کہ اِس علاقے میں تھوڑی تعداد میں ہیں۔ پھر یہ کیسا عذاب ہوا کہ جس سے امیر تو بچ نکلا مگر غریب کا جنازہ نکل گیا!
ہماری آج کی بحث یہ نہیں ہے کہ لاس اینجلس کی آگ مکافاتِ عمل ہے یا نہیں، موضوع بحث یہ ہے کہ کیا بیمہ کروانا ایسی کسی ناگہانی آفت کا بہترین حل نہیں ہے؟ اگر نہیں ہے تو قرآن کی کس آیت اور حدیث کا کون سا باب اِس کی ممانعت کرتا ہے؟ اِن سوالات کو جوابات جاننے کے لیے میں نے انٹرنیٹ سے دو چار فتوے ڈاؤن لوڈ کیے ہیں جن میں سے نمونے کے طور پر ایک فتویٰ یہاں نقل کیے دیتا ہوں : ”زمانے کی جدت کے ساتھ ساتھ ہر چیز کے اندر جدت اور تبدیلی آ رہی ہے، اسی حقیقت کے پیشِ نظر سودی کاروبار اور جوئے کی شکلوں میں بھی خاصی تبدیلی آ گئی ہے، لیکن ان شکلوں کے بنیادی عناصر کو دیکھا جائے تو ان کی اصلیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ مروجہ انشورنس کی تمام کمپنیوں کا معاملہ بھی بینک کے کاروبار کی طرح ایک سودی معاملہ ہے، دونوں میں صرف شکل و صورت کا فرق ہے، نیز انشورنس کے اندر ’سود‘ کے ساتھ ’جوا‘ بھی پایا جاتا ہے، اور اسلام میں یہ دونوں حرام ہیں، اِن کی حرمت قرآنِ کریم کی واضح اور قطعی نصوص سے ثابت ہے، کسی زمانے کی کوئی مصلحت اس حرام کو حلال نہیں کر سکتی۔ انشورنس میں ’سود‘ اِس اعتبار سے ہے کہ حادثہ کی صورت میں جمع شدہ رقم سے زائد رقم ملتی ہے اور زائد رقم سود ہے، اور ’جوا‘ اس اعتبار سے ہے کہ بعض صورتوں میں اگر حادثہ وغیرہ نہ ہو تو جمع شدہ رقم بھی واپس نہیں ملتی، انشورنس کمپنی اس رقم کی مالک بن جاتی ہے۔ اسی طرح اس میں جہالت اور غرر ( دھوکا) بھی پایا جاتا ہے، اور جہالت اور غرر والے معاملہ کو شریعت نے فاسد قرار دیا ہے، لہذا انشورنس کرنا اور کرانا اور انشورنس کمپنی کا ممبر بننا شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔“
آگے چلنے سے پہلے یہ بھی دیکھ لیجیے کہ فتویٰ دینے والوں نے انشورنس کو تو حرام کہا ہے مگر اُسی کی شکل میں تکافل کو حلال قرار دیا ہے : ”تکافل میں سود اور قمار کی صورت نہیں پائی جاتی بلکہ ممبران کا سرمایہ جمع کر کے اسے کاروبار میں لگایا جاتا ہے اور اس کے نفع کی ایک متعینہ مقدار امدادی فنڈ کے نام سے کر دی جاتی ہے، پھر شرائط کے مطابق اسی فنڈ سے حادثات وغیرہ کے پیش آنے کی صورت میں حادثہ کے شکار شخص کی مدد کی جاتی ہے، شرعاً یہ جائز ہے اور امدادی فنڈ کے نام سے الگ کی گئی وقف ہوتی اور دینے والوں کا تَبَرّع ہوتا ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے اس کی بنیاد وقف اور تَبَرّع ہوتا ہے۔“
اِن فتاویٰ میں بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ بیمہ، سود اور جوئے کی ایک شکل ہے اور چونکہ یہ دونوں صریحاً حرام ہیں اِس لیے بیمہ بھی حرام ہے۔ یہ مفروضہ درست نہیں۔ ایک ایسی بستی کا تصور کریں جہاں ایک ہزار کچے پکے گھر ہیں، اِس بستی میں ہر سال سیلاب آتا ہے جس میں دو چار گھر تباہ ہو جاتے ہیں اور بستی والوں کے پاس اِس قدرتی آفت سے بچنے کا کوئی طریقہ نہیں۔ بہت سوچ بچار کے بعد بستی والے یہ طے کرتے ہیں کہ ہر گھر کا مالک اپنی ماہانہ آمدن میں سے ایک مخصوص رقم بستی کے سردار کو جمع کروائے گا، اُس رقم کا باقاعدہ حساب رکھا جائے گا اور پھر ایک سال کے بعد تمام گھروں سے اتنے پیسے اکٹھے ہو جائیں گے کہ سیلاب آنے کی صورت میں اگر چند گھر پانی میں بہہ بھی گئے تو پس انداز کیے گئے فنڈ سے اُن کی مرمت کی جا سکے گی۔ اِس فنڈ کا نام دراصل انشورنس ہے، اور بستی کے سردار کو آپ بیمہ کمپنی کہہ سکتے ہیں۔ یہ نہ جوئے کی کوئی شکل ہے اور نہ اِس میں سود کا کوئی مسئلہ۔دوسرا مفروضہ اِن فتاویٰ میں یہ ہے کہ نقصان کی صورت میں بیمہ کمپنی زائد رقم ادا کرتی ہے جو کہ نا جائز ہے۔ یہ مفروضہ بھی غلط ہے۔ اگر آپ آج اپنی گاڑی کا بیمہ کروائیں جس کی قیمت پچاس لاکھ ہو تو چوری یا حادثے کی صورت میں آپ کو گاڑی کی قیمت کے برابر ہی ادائیگی کی جائے گی اور وہ بھی اُس صورت میں اگر آپ نے معاہدے میں یہ شرط رکھی ہو گی ورنہ گاڑی کی فرسودگی (depreciation) منہا کر کے آپ کو پیسے دیے جائیں گے۔
اب تکافل کی بات بھی کر لیتے ہیں۔ جس منطق کی رُو سے تکافل کو جائز قرار دیا گیا ہے بعینہ وہی منطق انشورنس کی بھی ہے، بالکل اسی طرح جیسے نام نہاد اسلامی بینکاری میں سُود کو منافع کہہ کر جائز قرار دیا گیا ہے، حالانکہ اسلامی بینکاری کے دعوے دار تمام بینک اسلام کے نام پر اپنے صارفین کا استحصال کر رہے ہیں۔ جس وقت کمرشل بینک بیس فیصد ’سُود‘ دے رہے تھے اُس وقت اسلامی بینک بمشکل بارہ فیصد ’منافع‘ دے رہے تھے لیکن انہی اسلامی بینکوں سے اُس وقت اگر آپ گاڑی لیز کرواتے تو وہ آپ کو اسی شرح پر قرض دیتے جو کمرشل بینکوں کی تھی، یعنی تئیس سے چوبیس فیصد۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی بینکوں کا اپنا منافع دیگر بینکوں کے مقابلے میں زیادہ رہا، اور اُن کے مالکان گھر بیٹھے بیٹھے مزید ارب پتی ہو گئے۔ اِس بابت میں نے انٹرنیٹ پر فتویٰ تلاش کرنے کی کوشش کی مگر مجھے نہیں ملا، شاید اِس کی وجہ یہ ہے کہ فتویٰ دینے والے اِن بینکوں کے بورڈ میں بیٹھے ہیں۔
میں نے آج انشورنس کے فضائل تو بیان کر دیے ہیں مگر اِس کے ساتھ ہی ایک ’اعلانِ دستبرداری‘ بھی سُن لیں۔ دنیا بھر میں لائف انشورنس کا نظام خاندان کے سربراہ کی ناگہانی موت کی صورت میں پسماندگان کی کفالت میں مدد کرتا ہے، اِس نظام کی سب سے زیادہ افادیت ہم جیسے غریب ممالک میں ہے جہاں مرنے کے بعد بال بچوں کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہوتا۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی زیادہ تر بیمہ کمپنیاں دھوکہ دہی سے اپنے صارفین سے پیسے اینٹھ رہی ہیں، خاص طور سے وہ کمپنیاں جو زندگی کا بیمہ کرتی ہیں یا پھر کسی شاندار مستقبل کی نوید سنا کر آپ سے پیسے بٹورتی ہیں، اِن کمپنیوں سے دور رہیں، تاہم اپنے ذاتی یا کاروباری اثاثوں کا بیمہ ضرور کروائیں تاکہ کسی نقصان سے بچ سکیں۔ بیمے کے کاغذات کسی محفوظ جگہ پر رکھیں، ایسا نہ ہو آگ لگنے کی صورت میں بیمہ پالیسی ہی جل جائے۔
بشکریہ ہم سب
واپس کریں