یاسر پیرزادہ
ایک زمانہ تھا جب میں ملک سے ہجرت کر جانے والوں کو ناشکرا بلکہ احمق سمجھا کرتا تھا، میرا خیال تھا کہ جو لوگ پاکستان میں ذرہ برابر بھی خوشحال ہیں اور باہر جا کر ’کھجل‘ ہوتے ہیں وہ حماقت کے مرتکب ہوتے ہیں کیونکہ جو عیاشیاں ہمارے ملک میں میسر ہیں اُس کا عشر عشیر بھی باہر نہیں ملتا۔ یہ اُس زمانے کی سوچ ہے جب پاکستان میں دہشت گردی کا عفریت نہیں آیا تھا، ملک میں امن و امان تھا، ابھی ہمارے اسکولوں اور کالجوں کے گرد خاردار تاریں نہیں لگائی گئیں تھیں، روپیہ اتنا ذلیل نہیں ہوا تھا، ہم اپنے ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں قدرے بہتر تھے، ہندوستان سے آنے والے ہمارے عیش و عشرت کو رشک بھری نگاہ سے دیکھتے تھے، بمبئی میں ہماری فلموں اور گانوں کی نقالی کی جاتی تھی، ہماری موسیقی کا ڈنکا چار دانگ عالم میں بجتا تھا، ہماری سڑکوں پر کوئی غریب یا بے گھر شخص نظر نہیں آتا تھا، سرکاری درسگاہوں سے فارغ التحصیل ہونے والے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے تھے، کراچی کی شان و شوکت دبئی سے کہیں زیادہ تھی، پی ٹی وی اور پی آئی اے جیسے ادارے اپنے جوبن پر تھے، معاشرے میں بد عنوانی سرایت نہیں کی تھی، لوگوں کا رویہ عمومی طور پر سیکولر تھا، غیر ملکی سیاح بغیر کسی ڈر خوف کے سندھ سے بلوچستان تک گھوما پھرا کرتے تھے، ہمارے پاسپورٹ پر امریکہ اور یورپ کا ویزہ با آسانی لگ جاتا تھا، بس یوں سمجھیں کہ باقی دنیا کی طرح ہم بھی ایک نارمل ملک تھے۔ اِن حالات میں ملک چھوڑ کر جانے والوں کو احمق ہی سمجھنا چاہیے تھا۔
پھر آہستہ آہستہ حالات تبدیل ہوئے، معاشرے میں زوال آنا شروع ہوا اور ہم بتدریج پستی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ جس دن 12 اکتوبر 1999 ہوا اُس روز میرے خیالات میں ایک جوہری تبدیلی آئی، میں نے سوچا کہ جو لوگ ملک چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں انہیں طعنے دینا مناسب نہیں، جو چلا جائے اُس کا بھی بھلا اور جو نہ جائے اُس کی بھی خیر۔ میں نے تارکین وطن کو احمق اور ناشکرا کہنا چھوڑ دیا۔ اِس کے بعد بھی ملک کے حالات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا، اِس دوران کچھ عرصے کے لیے ایسا لگا کہ ملک درست سمت میں چل پڑا ہے مگر یہ غلط فہمی بھی جلد ہی دور ہو گئی کیونکہ بنیادی مسئلہ حل کیے بغیر بہتری کی امید رکھنا حماقت ہی تھی۔آج یہ حال ہے کہ اگر کوئی نوجوان مجھ سے اپنے مستقبل کے بارے میں مشورہ مانگتا ہے تو میں اسے صرف ایک مشورہ دیتا ہوں اور وہ یہ کہ کسی مغربی ملک کی شہریت حاصل کر کے وہاں سیٹل ہو جاؤ۔ گویا جس بات کو میں پینتیس چالیس سال پہلے مکروہ سمجھتا تھا، 12 اکتوبر کے بعد وہ میرے نزدیک مباح ہوئی اور اب جبکہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے تو وہ مباح سے فرض بن چکی ہے۔
اصولاً مجھے کسی شخص کو ایسا مشورہ نہیں دینا چاہیے، مایوس کُن باتیں مزید نا امیدی کا باعث بنتی ہیں، بائیس کروڑ عوام تو یورپ میں سیٹل ہو نہیں سکتے سو جو یہاں بچ جائیں گے وہ کیا کریں گے! لیکن سوال یہ ہے کہ جو شخص اپنے مستقبل کے بارے میں مشورہ مانگتا ہے، کیا اسے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق بہترین مشورہ نہیں دینا چاہیے، اور باہر سیٹل ہونے سے بہتر مشورہ بھلا کیا ہو سکتا ہے! جو بات مجھے چالیس برس پہلے سمجھ لینی چاہیے تھی اگر وہ آج سمجھ آئی ہے تو کیا اب بھی اُس پر عمل کرنے کا مشورہ نہ دوں؟ ایک عام آدمی کے لیے اِس ملک میں رہنا کس قدر اذیت ناک ہو گیا ہے اِس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر سال سینکڑوں پاکستانی اپنی جان پر کھیل کر یورپ میں نقل مکانی کی کوشش کرتے ہیں۔ ابھی دو روز قبل اٹلی کے قریب سرحد پار کرنے کی کوشش میں سو افراد کشتی میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے جس میں چھوٹے چھوٹے بچے بھی شامل تھے، اِس کشتی میں پاکستان، ایران، صومالیہ اور افغانستان کے باشندے سوار تھے۔ بی بی سی نے اِس سفر کی جو رپورٹ شائع کی ہے وہ دل دہلا دینے والی ہے کہ کیسے ایک شخص پاکستان، ایران اور ترکی کے راستے یونان پہنچا اور اِس دوران اسے کتنی تکالیف اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اِس سفر کے بعد اُس کے الفاظ تھے کہ ’پاکستان میں بے شک کوڑے سے کھانا تلاش کر لیں مگر یہ سفر نہ کریں۔ ‘
لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو گا، لوگ نقل مکانی کی کوشش جاری رکھیں گے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں اِس ملک میں عزت سے جینے کی امید نہیں۔ صرف سال 2022 میں 37 ہزار پاکستانیوں نے یورپی ممالک میں پناہ لینے کی درخواست جمع کروائی، روزگار کی تلاش میں یورپ اور امریکہ جانے والے لاکھوں نوجوان اِس کے علاوہ ہیں۔ یورپی یونین کا ادارہ برائے پناہ گزین ہر سال ایسے اعداد و شمار جاری کرتا ہے جن سے پتا چلتا ہے کہ یورپ میں پناہ لینے کے خواہش مند افراد کن ممالک سے آتے ہیں۔ 2022 کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ زیادہ تر مسلم ممالک کے افراد یورپ جانے کے خواہش مند ہیں، اِس بات کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان سے غیر قانونی طور پر یورپ کا سفر کرنے والے ایران اور ترکی جیسے مسلمان ممالک سے گزر کر جاتے ہیں مگر کوئی بھی اِن مسلم ممالک میں رہنا پسند نہیں کرتا۔ کیوں؟ اِس کیوں کا جواب ایک دودھ پیتا بچہ بھی جانتا ہے۔ ہم لاکھ کافروں کا گالیاں دیں، اُن کے نظام کو برا بھلا کہیں، انہیں بے حیائی اور عریانی کے طعنے دیں یا اُن کی اخلاقی اقدار کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے نفرت سے ناک سکیڑ لیں، اپنے دل میں ہم جانتے ہیں کہ جان، مال اور عزت کا تحفظ اگر کہیں مل سکتا ہے تو کفار کے اِن ممالک میں ہی مل سکتا ہے۔
اب ایک لطیفہ بھی سُن لیں۔ کافی عرصہ پہلے برطانیہ میں بسنے والے ایک پاکستانی مسلمان نے کالم نگاروں کو ایک خط لکھا جس میں موصوف نے اِس بات پر ماتم کیا کہ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا مگر افسوس کہ یہاں اسلامی نظام نافذ نہ ہو سکا لہذا بہت سال انتظار کرنے کے بعد میں ہجرت کرنے پر مجبور ہو گیا اور اب برطانیہ میں سیٹل ہوں۔ بندہ پوچھے کہ پاکستان میں تو اسلامی نظام نافذ نہیں ہوسکا، ٹھیک ہے، مگر برطانیہ میں کون سی شریعت نافذ تھی جو تم نے وہاں کی شہریت حاصل کی، اگر ہجرت ہی کرنی تھی تو سعودی عرب، افغانستان یا ایران جا کر سیٹل کیوں نہیں ہوئے، لندن جیسے ننگے پنگے شہر میں آپ کے بچے کیسے پرورش پائیں گے!
حاشا و کلا میرا مقصد طعنہ زنی نہیں، یہ وہ مسئلہ ہے جس کا دیار غیر میں مقیم پاکستانیوں کو سامنا ہے اور اِس سے مفر ممکن نہیں، بہت سے لوگ کئی دہائیاں باہر گزارنے اور کینیڈا کی مستقل شہریت حاصل کرنے کے بعد بوریا بستر سمیٹ کر پاکستان واپس اِس لیے آ جاتے ہیں کہ وہ اپنی بچیوں کو اُس مغربی طرز زندگی کا عادی نہیں بنانا چاہتے جہاں اُن کے اسکول میں پوچھا جاتا ہے کہ آج کل تمہارا بوائے فرینڈ کون ہے اور جواب ناں میں ملنے پر یوں اظہار افسوس کیا جاتا ہے کہ جیسے تیرہ چودہ برس کی عمر میں بوائے فرینڈ کا نا ہونا بے حد تشویش ناک بات ہے۔بہر کیف، باہر سیٹل ہونے کی یہ قیمت ہے جو چکانی پڑتی ہے، لہذا جو لوگ اپنا ملک چھوڑ کر وہاں جا کر بسنا چاہتے ہیں، وہ اِن حالات میں درست فیصلہ ہی کرتے ہیں۔ اور رہی اپنی بات تو ہم ملک چھوڑنا بھی چاہیں تو نہیں چھوڑ سکتے، ہم یہیں پیدا ہوئے اور ایک دن اسی مٹی میں سو جائیں گے، لاہور نے اتنے لوگ اپنے دامن میں سمیٹے ہیں، ہمیں بھی اِس شہر کے دامن میں جگہ مل ہی جائے گی۔
بشکریہ ہم سب
واپس کریں