یاسر پیرزادہ
رات کے نو بج رہے ہیں، ٹی وی پر خبریں نشر ہو رہی ہیں، اِن خبروں میں سوائے تباہی اور بربادی کی اطلاعات کے کچھ نہیں ہے، انہی خبروں میں ایک خبر افغان مہاجرین کی وطن واپسی سے متعلق ہے۔ نیوز کاسٹر بتا رہی ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو دی جانے والی ڈیڈ لائن میں ایک دن باقی رہ گیا ہے، پس منظر میں افغان مہاجرین کی فوٹیج دکھائی جا رہی ہے، اِس فوٹیج میں غریب، بے حال اور لُٹے پُٹے افراد اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں اور خاندان کی پردہ دار عورتوں کے ساتھ پاکستان کی سرحد پار کر کے ’اپنے ملک‘ واپس جا رہے ہیں۔ بچوں کو کوئی اندازہ نہیں ہے کہ اُن کے ماں باپ انہیں کیوں اور کہاں لے جا رہے، وہ بس حیرت سے کیمرے کی طرف دیکھ رہے ہیں جس نے اُن کی معصومانہ مسکراہٹ کو آنے والے برسوں کے لیے قید کر لیا ہے۔
میں نے چینل تبدیل کر دیا ہے مگر وہاں بھی یہی خبر ہے، سکرین پر ٹِکر چل رہے ہیں کہ افغان باشندے پاکستانیوں کی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کر کے اپنے وطن واپس جا رہے ہیں، تاہم شکریہ ادا کرتا ہوا کوئی شخص خبر میں نہیں دکھایا گیا ہے۔ اب میں اپنا سوشل میڈیا دیکھ رہا ہوں، کسی نے ایک اسکول کی ویڈیو اپ لوڈ کی ہے جس میں ایک افغان بچہ اپنے پاکستانی ہم جماعتوں سے بغل گیر ہو کر انہیں الوداع کہہ رہا ہے۔ یہ ایک اور فوٹیج ہے، اِس میں کچھ پشتون بھائیوں کا انٹرویو دکھایا جا رہا ہے جو کہہ رہے ہیں کہ ہم پاکستان میں ہی پیدا ہوئے، اسی کی گلیوں میں پلے بڑھے، یہی ہمارا ملک ہے، اسی سے ہمارا روز گار وابستہ ہے، ہم یہ سب کچھ چھوڑ کر افغانستان نہیں جانا چاہتے۔ میں نے ٹی وی بند کر دیا ہے اور اپنا موبائل بھی خاموش کر کے پرے رکھ دیا ہے۔ سوچ رہا ہوں کہ ہم کس دنیا میں جی رہے ہیں، اِس دنیا میں تو اسی صورت میں مسرور رہا جا سکتا ہے اگر ہم پتھر دِل اور خود غرض ہوجائیں!
افغان مہاجرین کے خلاف ہمارا مقدمہ کیا ہے؟ ہمارا مقدمہ یہ ہے کہ افغان جنگ کے بعد یہ مہاجرین ہمارے ملک میں آئے، ہم نے انہیں پناہ دی، انہوں نے ہمارے وسائل استعمال کیے، اُس کے بعد اِن کی اکثریت یہیں کی ہو کر رہ گئی، اِن مہاجرین کی تعداد اِس وقت سینتیس لاکھ کے قریب ہے۔ ہم ایک غریب ملک ہیں اِس لیے اب مزید اِن مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے، ویسے بھی اِن کی وجہ سے ملک میں منشیات، سمگلنگ اور اسلحے کے کلچر کو فروغ ملا اور دہشت گردی کا عذاب ہم نے جھیلا۔ رہی سہی کسر افغان ٹرانزٹ ٹریڈ نے پوری کردی جس کی وجہ سے ہماری معیشت کی کمر ہی ٹوٹ گئی۔ یہ لوگ ہمارا زر مبادلہ استعمال کر کے اشیا درآمد کرتے ہیں اور پھر اپنے ملک میں فروخت کرنے کی بجائے پاکستان میں بیچ دیتے ہیں، اِن میں سے بہت سے افراد جعلی سفری دستاویزات پر سفر کرتے ہیں، پاکستانی پاسپورٹ کو بدنام کرتے ہیں اور کسی سرکاری ادارے میں اپنا درست اندراج نہیں کرواتے۔ اِن کے کاروبار پورے ملک میں پھیلے ہیں مگر یہ کوئی ٹیکس نہیں دیتے اور کچھ تو ایسے جرائم پیشہ ہیں جو پاکستانی شہریوں سے بھتہ بھی وصول کرتے ہیں۔ اِن حالات میں کیا غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو ملک بدر نہیں کر دینا چاہیے؟
اِس سوال کا جواب دینے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے یہ دیکھ لیا جائے کہ یہ سوال کِس فورم پر پوچھا جا رہا ہے۔ اگر تو یہ سوال کسی اعلیٰ سطح کے اجلاس میں پوچھا جائے اور جواب میں پاور پوائنٹ پریزنٹیشن دکھائی جائے جس میں اِن مہاجرین کے خلاف مقدمے کو سرکاری اعداد و شمار کی عینک لگا کر دیکھا جائے تو پھر لا محالہ یہی فیصلہ کیا جائے گا کہ اِن سب کو ملک بدر کر دینا ہی قومی مفاد میں ہے۔ لیکن اگر یہ سوال آپ سے یوں پوچھا جائے کہ فرض کریں پاکستان میں جنگ چھِڑ جائے اور آپ کو اپنا گھر بار چھوڑ کر کسی ہمسایہ ملک میں مہاجر کی طرح پناہ لینی پڑ جائے تو کیا اُس صورت میں بھی آپ کا جواب یہی ہو گا کہ مہاجرین کو ملک بدر کر دینا چاہیے؟ ممکن ہے آپ کہیں کہ جنگ بند ہونے کے بعد کسی مہاجر کا غیر ملک میں رہنے کا کوئی جواز نہیں بنتا، یہ بات درست ہوگی مگر جو لوگ کئی دہائیوں سے ’غیر ملک‘ میں مقیم ہوں، اُن کے بچے بھی وہیں پیدا ہوئے ہوں، کیا اب بھی انہیں غیر قانونی ہی سمجھا جائے گا! ایسا تو ’کافر‘ ممالک بھی ہمارے ساتھ نہیں کرتے، کچھ برس کے بعد تو وہ بھی رو پیٹ کر شہریت دے دیتے ہیں۔
اب رہا سوال اسلحے کی تجارت، منشیات، سمگلنگ، دہشت گردی اور جعلی دستاویزات بنانے کا۔ سینتیس لاکھ مہاجرین میں سے کتنے لوگ ایسے ہوں گے جو اِن غیر قانونی کاموں میں ملوث ہوں گے؟ شاید چند ہزار۔ اور یہ تمام دھندے ہم پاکستانیوں کے ساتھ مل کر ہی کیے جا سکتے ہیں، اکیلے کوئی شخص یہ کام نہیں کر سکتا۔ بلوچستان یا خیبر پختونخوا کی سرحد پر اگر سمگلنگ ہوتی ہے تو یہ کام پاکستانی اہلکاروں کی ملی بھگت سے ہوتا ہے، افغان مہاجرین کے پاس کوئی سلیمانی ٹوپی نہیں کہ جسے پہن کر وہ نظروں سے اوجھل ہو سکیں۔ ہمارے ملک میں دہشت گردی اور بھتہ وصولی کی وارداتیں کرنے والے افغانستان فرار ہو جاتے ہیں اور یہ سب بارڈر سیکورٹی پر مامور اہلکاروں کی ناک کے نیچے ہوتا ہے۔ جن افغانیوں کو ٹی وی پر ملک چھوڑ کر جاتے ہوئے دکھایا جا رہا ہے اُن کی حالت قابل رحم ہے، یہ بیچارے کہاں سے جرائم پیشہ لگتے ہیں۔ بین الاقوامی قانون کی رُو سے یہ بات درست ہے کہ مہاجرین اور غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو اُن کے ملک واپس بھیجا جانا چاہیے مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ چھوٹے چھوٹے بچوں اور لاچار اور کمزور عورتوں کو در بدر کر دیا جائے۔ جو لوگ پاکستان میں پیدا ہوئے وہ اب اسی مٹی کے باسی ہیں، انہیں کیوں ملک بدر کیا جائے۔ ہاں، جو شخص غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہے، اسے ضرور قرار واقعی سزا دی جائے اور یہ اسی صورت ممکن ہو گا جب شریک ِ جرم پاکستانیوں کے گرد بھی شکنجہ کسا جائے گا۔
یہاں ریاست کے کچھ اقدامات کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی، سچ کہوں تو پہلی مرتبہ افغانستان کے معاملے میں چند بہترین فیصلے کیے گئے ہیں۔ مثلاً افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے پُر تعیش اشیا پر پابندی لگا دی گئی ہے، اِن اشیا کی کھپت صرف پاکستان میں ہی تھی جس کی وجہ سے ڈالر مہنگا ہو رہا تھا، اِس پابندی کی وجہ سے روپیہ مستحکم ہوا ہے۔ اِس تجارت پر دس فیصد فیس عائد کر کے بھی درست فیصلہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح سمگلنگ کی روک تھام کے لیے بھی موثر اقدامات کیے گئے ہیں جس کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ یہ وہ چند کام ہیں جنہیں کرنے کے لیے مہاجرین کو ملک بدر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور اِن کاموں کے مثبت نتائج بھی آنا شروع ہو گئے ہیں۔ آخری بات وسائل کی بھی ہو جائے، افغان مہاجرین اگر سینتیس لاکھ ہیں تو ہم پچیس کروڑ ہیں، دن رات سوائے بچے پیدا کرنے کے ہمیں کوئی کام نہیں، ایسے میں یہ واویلا کرنا کہ افغان مہاجرین ہمارے وسائل پر بوجھ بن گئے ہیں بے سروپا بات ہے۔
اِس دنیا میں گھر سے بے گھر ہونے سے بڑی کوئی مصیبت نہیں، خدا کسی دشمن کو بھی مہاجر نہ بنائے، ہم جس بے دردی اور بے رحمی سے تمام سینتیس لاکھ افغان مہاجرین کو پاکستان میں دہشت گردی، اسلحہ فروشی اور بھتہ خوری کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں وہ قابل افسوس ہے۔ اِس بات سے کسی کو اختلاف نہیں کہ ملک میں کوئی شخص غیر قانونی طور پر مقیم نہ رہے، تاہم اِس بات کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اِن مہاجرین کی مکمل ڈاکیومنٹیشن پاکستان میں ہی کی جائے اور اُس کے بعد اگر کوئی بغیر دستاویز ات کے پکڑا جائے یا کسی جرم کا مرتکب ہو تو اسے ویسے ہی ملک بدر کیا جائے جیسے ہمارے امارات والے بھائی کرتے ہیں۔ ہم غزہ میں محصور فلسطینیوں کے لیے تو کچھ کر نہیں سکتے، سو جو کام ہمارے بس میں ہے وہ تو کرنا چاہیے !
بشکریہ ہم سب
واپس کریں