یاسر پیرزادہ
آپ اگر صبح شام کسی بچے کو نالائق ہونے کے طعنے دیں، فیل ہونے پر اس کی ڈنڈے سے پٹائی کریں، کسی مقابلے میں پیچھے رہ جانے پر اس کا کھانا بند کر دیں اور پھر اس سے یہ امید رکھیں کہ وہ اسکول کے سب سے قابل اور ہونہار بچے سے زیادہ نمبر لے کر آئے گا تو آپ کی امید پر فاتحہ ہی پڑھی جا سکتی ہے۔ لیکن آپ کی ان تمام بیہودہ حرکتوں کے باوجود اگر آپ کا بچہ پاس ہو جائے اور کسی مضمون میں نمایاں کارکردگی بھی دکھا دے تو آپ کو خوشی سے جھوم اٹھنا چاہیے۔ کچھ ایسا ہی حال میرا بھی ہے۔ لیکن ٹھہریے، اس سے پہلے کہ آپ کوئی غلط اندازہ لگائیں میں وضاحت کردوں کہ کیوں خوش ہوں۔ دو دن پہلے تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان کی عدالت عظمیٰ کی کارروائی ٹی وی پر براہ راست نشر کی گئی، کروڑوں لوگوں نے یہ کارروائی اپنے گھروں میں بیٹھ کر دیکھی، ان لوگوں میں یہ خاکسار بھی شامل تھا۔ جب میں یہ کارروائی دیکھ رہا تھا تو سوچ رہا تھا کہ ہم لوگ اکثر امریکی جمہوریت کی مثالیں دیتے ہیں کہ وہاں عوامی نمائندوں کی کمیٹیاں جرنیلوں اور طاقتور افسروں سے بازپرس کرتی ہیں اور یہ لوگ ان کانگریس ممبران کے سامنے بھیگی بلی بن کر وضاحتیں پیش کر رہے ہوتے ہیں۔
ایسی ہی ایک کمیٹی کی کارروائی مجھے یاد ہے جس میں کانگریس کے ممبران نے اس وقت کے امریکی جنرل کو ’کٹہرے‘ میں کھڑا کیا ہوا تھا اور اس سے پوچھ رہے تھے کہ شام میں امریکی پالیسی کس حد تک درست ہے مگر اس جنرل کے پاس کسی بات کا معقول جواب نہیں تھا۔ اسی طرح امریکی جج کی تعیناتی سے پہلے بھی سینیٹ کی کمیٹی امیدوار کا انٹرویو کرتی ہے، اس کی قابلیت کا جائزہ لیتی ہے اور اس بات کی پڑتال کرتی ہے کہ ماضی میں اس کا کردار، اخلاق اور رویہ کیسا رہا اور یہ تمام کارروائی بھی ٹی وی پر دیکھی جا سکتی ہے۔ لیکن ہمارا امریکی جمہوریت سے کیا مقابلہ، ہم نے تو اپنی جمہوریت کو مار مار کر اس قدر ادھ موا کر دیا ہے کہ اب وہ ٹھیک سے چل بھی نہیں پاتی، اس کا حلیہ بگڑ چکا ہے، چہرے پر جگہ جگہ بد نما داغ ہیں اور جسم اس قدر لاغر ہو چکا ہے کہ انتخابات کے ملٹی وٹامن ٹیکے بھی اثر نہیں کرتے۔ ان حالات میں اگر ملک کی سپریم کورٹ یہ فیصلہ کرے کہ اس کی عدالتی کارروائی ٹی وی پر براہ راست دکھائی جائے گی تو یہ خوشی سے جھوم اٹھنے کا دن نہیں تو اور کیا ہے! ہم لاکھ جمہوریت پر تبرا کریں مگر یہ ادھ موئی جمہوریت برا نہیں مناتی اور ہر قسم کی طعن و تشنیع کا جواب کارکردگی سے دیتی ہے۔ سپریم کورٹ کی براہ راست نشر کی جانے والی کارروائی جمہوریت کی ہی جیت ہے۔ کیسے؟ آئیں اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔
جس طرح ریاضی میں مساوات ہوتی ہیں (جیسے a 2 + b 2 = c 2 ) اسی طرح ہمارے ذہنوں میں جمہوریت کا تصور ہے، مساوات کی طرح، جس میں جمہوریت برابر ہے سیاستدان جمع کرپشن۔ اس تصور کو کئی دہائیوں سے جاری پراپیگنڈا نے ہمارے ذہنوں میں راسخ کر دیا ہے اور اب اسے ہم ایمان کی حد تک درست سمجھتے ہیں، رہی سہی کسر سول حکومتوں کی کارکردگی اور نالائقیوں نے پوری کردی ہے جس کی وجہ سے عوام یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اگر انہیں نے زندگی میں عذاب ہی جھیلنا ہے تو پھر یہ جمہوریت کس کام کی! لیکن جمہوریت کا یہ تصور ناقص ہے، جمہوریت صرف پانچ سال میں ایک مرتبہ انتخابی عمل میں حصہ لینے کا نام نہیں، جمہوریت کا ایک بنیادی جزو حکمرانی میں شفافیت کو یقینی بنانا بھی ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے اگر عوام کو یہ علم ہو کہ ریاستی ادارے کس طرح کام کر رہے ہیں اور ان کے ٹیکس کا پیسہ کہاں اور کیسے استعمال ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر آپ کسی سرکاری ادارے میں جائیں اور کوئی بھی معلومات حاصل کرنا چاہیں تو سرکاری اہلکار آپ کو شاذ و نادر ہی وہ معلومات فراہم کرتے ہیں کیونکہ اپنی بدعنوانی اور نالائقی کی وجہ سے وہ شفافیت کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ لیکن اگر کوئی ادارہ یا اس کا سربراہ دیانتدار ہو تو پھر وہ اس قسم کی حرکتیں نہیں کرتا بلکہ وہ اپنے کام کو عوام کے سامنے پیش کرتا ہے تاکہ عوام یہ جان سکیں کہ ان کا پیسہ، وسائل اور وقت کس طرح استعمال ہو رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست نشر کرنے سے یہی بنیادی مقصد حاصل ہوا ہے، اب لوگ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ کیسے کام کرتی ہے اور اس کام پر جو وقت اور پیسہ لگتا ہے وہ کس حد تک مناسب ہے۔ یہ تاریخ ہے جو پاکستان میں رقم ہوئی ہے اور اس پر فخر کرنا بجا ہے۔
سپریم کورٹ کی کارروائی دیکھ کر کچھ ضمنی فوائد بھی حاصل ہوں گے۔ ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ معزز جج اور وکلا صاحبان کی قابلیت کا اندازہ ہو جائے گا۔ کچھ وکلا کے بارے میں یہ غلط فہمی تھی کہ وہ بہت قابل ہیں، وہ غلط فہمی یہ کارروائی دیکھ کر دور ہو گئی، اسی طرح بعض لوگوں کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ وہ شاید آئین اور قانون کی اپنی مرضی سے تشریح کرتے ہیں، یہ تاثر بھی دور ہو گیا، ان کی نکتہ آفرینی دیکھ کر پتا چلا کہ قانون پر ان کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ اسی طرح بہت سے جج صاحبان کے بارے میں اس تاثر کو تقویت بھی ملی کہ وہ بہت قابل ہیں، جس طرح انہوں نے مقدمے کی پڑتال کی اسے دیکھ کر روح خوش ہو گئی۔ ایک اور بات جو شاید سب نے نوٹ کی وہ یہ تھی کہ معزز جج صاحبان نہایت شائستگی کے ساتھ آپس میں اختلاف رائے کا اظہار کر رہے تھے، یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ وہ آزاد ذہن کے ساتھ عدالت میں بیٹھے ہیں اور باریک سے باریک نکتے پر بھی پورا غور و خوض کر رہے ہیں تاہم اختلاف رائے کی یہ صورت مزید بہتر بھی ہو سکتی ہے کیونکہ ایک آدھ موقع پر یوں بھی لگا جیسے کسی معزز جج کو دوسرے برادر جج کی بات پسند نہ آئی ہو، لیکن ممکن ہے کہ میرا یہ تاثر درست نہ ہو۔ اسی طرح معزز جج صاحبان نے وکلا پر سخت جرح کی اور ان سے تیکھے سوالات کیے، یہ دیکھ کر کچھ لوگوں نے تبصرہ کیا کہ شاید یہ زیادتی ہے اور وکلا کو بولنے کا موقع نہیں دیا جا رہا۔ واضح رہے کہ وکلا کو اکثر ہائی کورٹ اور سیشن کورٹ وغیرہ میں بھی ٹف ٹائم دیا جاتا ہے اور یہ معمول کی بات ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض اوقات یوں پے درپے سوال کرنے کے نتیجے میں جج صاحبان اس بنیادی نکتے پر جلد پہنچ جاتے ہیں جو اصل مسئلے کی جڑ ہوتا ہے اور اگر مدعی سے اس کا جواب حاصل کر لیا جائے تو فیصلہ کرنے میں آسانی بھی ہوتی ہے اور انصاف بھی ممکن ہوجاتا ہے۔ اسی لیے معزز جج صاحبان نے وکیل سے ہر نوعیت کے سوالات کیے جن سے قانون کی تشریح کا ہر ممکنہ پہلو اجاگر ہو گیا۔ ان تمام باتوں کے باوجود یہ تاثر درست نہیں کہ کسی وکیل کو اپنا مقدمہ لڑنے کا مناسب موقع نہیں دیا گیا، عدالت عظمیٰ کی کارروائی میں کوئی سقم نہیں ہونا چاہیے، انصاف نہ صرف ہو بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔
یہ صرف شروعات ہے، اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو بہت جلد اس کے ثمرات بھی سامنے آئیں گے۔ ایک طویل عرصے بعد میں ملک میں روشنی کی کرن نظر آئی ہے، روشنی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اگر اسے اندھیرے کمرے میں داخل ہونے کا راستہ مل جائے تو پورا کمرہ یک دم روشن ہوجاتا ہے۔ میں شاید کچھ زیادہ ہی پر امید ہو گیا ہوں، اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ ہماری ناتوانی کا حال تو ایسا ہو چکا تھا جو غالب نے بیان کیا ہے کہ ’مر گیا صدمۂ یک جنبش لب سے غالبؔ، ناتوانی سے حریف دم عیسیٰ نہ ہوا۔‘ اب دیکھتے ہیں کہ دم عیسیٰ ہمیں کتنا راس آتا ہے!
بشکریہ ہم سب
واپس کریں