یاسر پیرزادہ
اکثر اوقات جب گھر میں گاڑی نہ ہو تو میں ٹیکسی منگوا لیتا ہوں، عرف عام میں جسے اوبر کہتے ہیں، ڈرائیور حضرات نے اپنی گود میں موبائل فون رکھا ہوتا ہے اور وہ گوگل کے ذریعے راستہ تلاش کر کے آپ کو منزل مقصود پر پہنچاتے ہیں، چاہے وہ منزل بغل والی گلی میں ہی کیوں نہ ہو۔ مجھے اِس بات سے بے حد کوفت ہوتی ہے، خاص طور سے اُس وقت جب مجھے پتا چلتا ہے کہ ٹیکسی چلانے والا اسی شہر کا رہنے والا ہے۔ ایک دفعہ میں نے ایسے ہی ایک ڈرائیور سے پوچھا کہ آخر آپ لوگ گوگل کی مدد کے بغیر گاڑی کیوں نہیں چلا سکتے تو اُس نے جواب دیا کہ اُس صورت میں لوگ شک کرتے ہیں کہ ہم جان بوجھ کر لمبے راستے سے لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ پیسے زیادہ بنا سکیں۔ اِس بات نے مجھے لا جواب کر دیا۔ پوری قوم ایک دوسرے پر شک کرتی ہے اور کسی حد تک ٹھیک ہی کرتی ہے۔ تین دن پہلے وجاہت مسعود نے اپنے کالم میں یہی نوحہ لکھا تھا کہ ”پچیس کروڑ انفاس میں ڈھونڈنے نکلو تو بمشکل 2500 انسان ملیں گے۔“ ایسا کب ہوا، یہ زوال کیسے آیا، اٍس کا تسلی بخش جواب مجھے آج تک نہیں مل سکا۔ کچھ دوست اِس کی وجہ مذہب سے دوری بتاتے ہیں اور میں صدقِ دل سے چاہتا ہوں کہ اِس دلیل سے مطمئن ہو جاؤں مگر پھر مجھے ایک عالم دین کا بیان یاد آ جاتا ہے، انہی کے الفاظ میں سنیے :
”میں صحابہ کی باتیں نہیں کر رہا ہوں، میں نبیوں اور پیغمبروں کی باتیں بھی نہیں کر رہا ہوں، میں اُن کی باتیں کر رہا ہوں جن کو ہم اور آپ سب جہنمی سمجھتے ہیں اور ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچتے کہ جن کو ہم جہنمی سمجھ رہے ہیں اُن کی دنیا میں ترقی کا راز کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں کہتا کہ یہ جہنمی ہے اِس لیے اگر یہ ایماندار ہے تو میں دنیا میں بھی اِس کو جینے نہیں دوں گا، یہ اللہ کا قانون نہیں ہے، البتہ مسلمان کی تمنا ہے، اللہ کا قانون نہیں ہے۔“ اِس کے بعد اُس عالم دین نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک شخص ٹوکیو میں ٹیکسی میں بیٹھا، پہلے تو ٹیکسی ڈرائیور نے جاپانی روایات کے مطابق تعظیماً جھُک کر اسے سلام کیا اور پھر ٹیکسی کا میٹر چالو کیا، کچھ دیر بعد اُس شخص نے دیکھا کہ ڈرائیور نے میٹر روک دیا ہے، چونکہ اسے جاپانی زبان نہیں آتی تھی اِس لیے وہ ڈرائیور سے وجہ نہ جان سکا لیکن جب وہ منزل پر اترا تو وہاں اُس کا میزبان اسے لینے کے لیے موجود تھا، اُس شخص نے میزبان سے کہا کہ ڈرائیور سے پوچھے کہ اُس نے راستے کے درمیان میٹر کیوں بند کیا تھا۔ پتا یہ چلا کہ ڈرائیور اپنی غلطی کی وجہ سے کسی سڑک کی طرف مُڑنا بھول گیا تھا اِس لیے اُس نے مناسب سمجھا کہ سواری سے اُس دوران کرایہ وصول نہ کیا جائے، گویا جو مسافت ڈرائیور کی غلطی کی وجہ سے بڑھی اُس کے پیسے ”جہنمی“ ڈرائیور نے سواری کے کھاتے میں نہیں ڈالے۔ یہ واقعہ سنانے کے بعد اُس عالم دین نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”نہ اُس نے چِلاّ لگایا تھا، نہ وہ نماز پڑھتا تھا، نہ وہ کلمہ پڑھتا تھا، نہ اُس کے داڑھی تھی، نہ جُبّہ تھا، نہ ٹوپی تھی، نہ پگڑی تھی، مگر ایمانداری تھی۔ ہمارے پاس یہ سب ہے اور ایمانداری نہیں۔ ہم مسلمان تو ضرور ہیں مگر اِسلام ہمارے پاس نہیں ہے، مجھے صاف کہنے دیجیے کہ ہمارے پاس اِسلام نہیں ہے، اِسلام پگڑی کا نام نہیں ہے، اِسلام کُرتے پائجامے اور داڑھی کا نام نہیں ہے، اِسلام سچ بولنے کا نام ہے، اِسلام ایمانداری کا نام ہے، اِسلام صحیح ناپنے اور تولنے کا نام ہے، اِسلام وعدہ پورا کرنے کا نام ہے، اِسلام وقت کی پابندی کا نام ہے، اِسلام اِس کا نام ہے۔“
لوگ کہتے ہیں کہ آپ مسئلہ مت بتایا کریں، حل بتایا کریں، گویا حل کسی کیپسول میں بند ہے، پانی میں گھولا اور پی لیا۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ ستتر برس کی یہ تنزلی کسی جادوئی چھڑی کے گھمانے سے نہیں رکے گی اور نہ ہی اِس مسئلے کا حل مختصر مدت میں ممکن ہے، یہ ایک طویل مدتی عمل ہے جس کی فی الحال شروعات کا بھی امکان نہیں۔ میں اِس قدر قنوطی کبھی نہیں تھا مگر اب کچھ عرصے سے ہو گیا ہوں اور مجھے اِس کیفیت سے نفرت ہے۔ تاہم اِس مایوسی کے باوجود میں اِس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اگر ہم معاملات کی درست طریقے سے پڑتال کرتے رہیں تو اِن حالات میں بھی بہتری کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ دنیا کی قومیں اِس سے بھی بدترین حالات سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئی ہیں، سو ہم بھی نکل سکتے ہیں۔ لیکن اِس کے لیے ایک بنیادی چیز ضروری ہے اور وہ ہے سیکھنے کا عمل۔ کوئی بھی شخص ماں کے پیٹ سے تمام باتیں سیکھ کر پیدا نہیں ہوتا، بچے کو ہم جو بات سکھاتے ہیں وہ سیکھ جاتا ہے، اسی طرح ریاست بھی اپنے شہریوں کو جو بات سکھاتی ہے وہ سیکھ جاتے ہیں۔
مثلاً مذہب کے معاملے میں ریاست نے اپنے شہریوں کو کیا سکھایا ہے؟ ریاست نے جہاد کرنا سکھایا اور شہری سیکھ گئے، ہم نے جذبہ ایمانی کے ساتھ سوویت یونین کے خلاف جہاد کیا اور سپر پاور کو افغانستان سے نکال باہر کیا۔ مگر جس ریاست نے اپنے شہریوں کو کامیابی سے جہاد کرنا سکھایا وہ ریاست شہریوں کو یہ معمولی بات نہیں سکھا سکی کہ سڑک کے کنارے ہمیشہ دائیں جانب پیدل چلنا چاہیے تاکہ سامنے سے آنے والی گاڑیوں پر نظر رہے۔ ہمارے لوگ یہ تو سیکھ گئے ہیں کہ وضو میں مسح کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے مگر کسی نے انہیں یہ نہیں سکھایا کہ ملک کا آئین اور قانون مقدس ہوتا ہے اور اِس کی پاسداری بے حد ضروری ہے۔ کبھی کسی منبر، مسجد، مدرسے، اسکول، کالج یا یونیورسٹی سے یہ صدا نہیں آئی کہ بطور شہری آئین کی تکریم ہم پر لازم ہے۔ سو، اگر کسی نے یہ بات سکھائی ہی نہیں تو پھر ہم کیسے امید رکھیں کہ کوئی قانون پر عمل کرے گا! اگلے روز سڑک پر کسی مذہبی جماعت کا جلوس نکلا ہوا تھا، سب کے ہاتھوں میں جھنڈے اور سروں پر ٹوپیاں تھیں، تاہم کسی نے ہیلمٹ نہیں پہنا ہوا تھا اور مجھے سو فیصد یقین ہے کہ کسی کے پاس لائسنس بھی نہیں ہو گا۔ مگر اِس میں اُن کا کوئی قصور نہیں، انہیں جو بات سکھائی گئی انہوں نے سیکھ لی، داڑھی رکھ لی، جھنڈا تھام لیا، ٹوپی پہن لی، مگر جو بات انہیں کسی نے بتائی ہی نہیں، اُس کی امید ہم اُن سے کیوں کر رکھیں!
اِس مسئلے کا حل طویل مدتی ہے۔ آج کی تاریخ میں اگر کوئی رہنما یہ انقلابی فیصلہ کرے کہ ابھی سے قوم کی تربیت شروع کرنی ہے اور پھر وہ پوری نیک نیتی اور خلوصِ دل کے ساتھ ایک جامع پروگرام تشکیل دے کر اِس پر عمل درآمد بھی شروع کروا دے تو جلد سے جلد بھی اِس کے نتائج دس بیس برس بعد سامنے آئیں گے۔ کون جیتا ہے تری زُلف کے سر ہونے تک۔ ویسے یہ باتیں میں نے یونہی آپ کا دل بہلانے کی غرض سے لکھ دی ہیں، ورنہ آپ کو اور مجھے اچھی طرح علم ہے کہ ایسا کوئی لائحہ عمل کسی کے ’ریڈار‘ پر نہیں ہے، یہاں تو کل کی خبر نہیں اِلّا یہ کہ بیس برس کی منصوبہ بندی کی جائے۔ ایک روشنی کی کرن البتہ یہ نظر آتی ہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے والی موجودہ نسل ہم سے نسبتاً پروگریسو ہے، اِس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مذہبی نہیں، وہ مذہبی ضرور ہیں مگر اُن میں وہ تعصبات قدرے کم ہیں جو ہم میں ہوتے تھے۔ انہوں نے جب آنکھ کھولی تو پوری دنیا انگلی کے اشارے پر سامنے کھُل جاتی تھی جس کی وجہ سے اُن کا مطمح نظر ہم سے بالکل مختلف ہے، سو اگر اُن پر کچھ محنت کی جائے تو نتائج بہتر اور جلد برآمد ہوسکتے ہیں۔ لیکن اِس محنت کا یہ مطلب نہیں کہ اُن کے ہاتھ میں ’زبردستی‘ لیپ ٹاپ تھما دیا جائے۔ باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔ والسلام۔
بشکریہ ہم سب
واپس کریں