یاسر پیرزادہ
دو نقطہ نظر ہیں۔ ایک یہ کہ LUMS (لمز) کے طلبا نے سچ کا بول بالا کیا، جابر نہ سہی مگر سلطان کے سامنے کلمہ حق بلند کیا اور اسے تند و تیز سوالات سے بے بس کر دیا۔ طلبا نے بلا خوف و خطر حاکم وقت سے سوالات کیے اور پوچھا کہ تم تقریب میں پچاس منٹ دیر سے کیوں آئے ہو، ہمارا وقت ضائع کرنے کا حق تمہیں کس نے دیا، کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ اور کسی نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کرنے پر صابر حکمران کے لتے لیے اور کہا کہ کیا یہ آئین کی خلاف ورزی نہیں، کیا تم نے آئین کے تحت حلف نہیں اٹھایا، کیا تمہیں جواب دہی کا خوف نہیں؟
اور ایک طالب علم نے تو حد کردی، اس نے تو یہ بھی پوچھا کہ جو سوٹ تم نے زیب تن کیا ہے یہ کہاں سے بنوایا ہے، ایک تو اس کی سلائی ٹھیک نہیں، پینٹ ٹخنوں سے نیچے زمین کو چھو رہی ہے اور کوٹ کے بازو اس قدر چھوٹے ہیں کہ آدھی قمیض نظر آ رہی ہے، اور دوسرے یہ کہ اس وقت ہمارے خطے میں نہ تو کوئی امریکی جنگ ہو رہی ہے اور نہ ہی ہمیں مال غنیمت مل رہا ہے تو پھر تمہارے پاس تھری پیس سوٹ کے لیے کپڑا کہاں سے آیا؟ خیر، یہ تیسرا سوال تو میں نے اپنی طرف سے لکھ دیا ہے، طلبا کا جوش و جذبہ کچھ اس قسم کا تھا کہ اگر کوئی مرد جری یہ سوال پوچھ لیتا تو یقینا امر ہوجاتا۔
دوسرا نکتہ نظر یہ ہے کہ لمز کے طلبا نے محض حاکم وقت کو نیچا دکھانے کی غرض سے سوالات کیے، انہیں نہ تو آئین کی الف ب کا پتا تھا اور نہ ہی وہ کسی موضوع پر عالمانہ سوال کر کے حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنا چاہتے تھے، ان کا مقصد تو محض یہ تھا کہ جب وہ سوال کریں تو ان کا ساتھی موبائل فون سے ریکارڈنگ کرے، جسے بعد میں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر کے وائرل کر دیا جائے اور یوں وہ راتوں رات چہ گویرا بن جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایسے سوالات کیے جو تقریب کے مہمان کو زچ کرنے کے لیے تھے، اگر اس نگران حاکم کی جگہ کوئی سچی مچی کا ’اصلی تے وڈا حاکم‘ ہوتا تو کسی کو ایسے سوالات کرنے کی جرات ہی نہ ہوتی۔دور کیوں جائیں، اسی لمز میں دو سال پہلے جب اصلی حاکم آیا تھا تو یاروں نے ان ننھے منے چہ گویروں کے موبائل فون ہی نکلوا کر رکھ لیے تھے، اس وقت کسی حق گو کو یہ پوچھنے کی جرات بھی نہیں ہوئی تھی کہ ’انکل آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں، یہ تو کوئی جمہوریت نہیں، اگر آپ ہی ایسے کریں گے تو ملک میں انقلاب کیسے آئے گا؟‘
یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ اس معاملے میں میرا نکتہ نظر کیا ہے۔ خدانخواستہ میں ان نوجوانوں کی تحقیر نہیں کر رہا اور نہ ہی یہ چاہتا ہوں کہ آئندہ یہ کسی محفل میں تند و تیز سوالات نہ کریں، سو دفعہ کریں، مگر اس سے پہلے ایک مرتبہ خود اپنے گریبانوں میں بھی جھانک کر دیکھ لیں۔ یہ لمز اور اس نوع کی دیگر جامعات میں پڑھنے والے وہی نوجوان ہیں جو گھر سے اپنی گاڑی میں نکلتے ہیں تو نہ کسی اشارے کی پروا کرتے ہیں اور نہ ون وے کی، کوئی غریب ٹریفک سنتری انہیں روک کر چالان کرنے کی کوشش کرے تو یہ اسے ماں بہن کی گالیاں دیتے ہیں، اسے اپنے باپ کے عہدے کی دھمکی دیتے ہیں اور کبھی کبھی تو اس پر گاڑی چڑھانے سے بھی نہیں چوکتے۔
ان کے احساس برتری کا یہ عالم ہے کہ سوشل میڈیا پر اب ان کے چٹکلے بنتے ہیں۔ اور رہی بات ان کی حق گوئی اور بیباکی کی تو اس کا پول تو اسی دن کھل گیا تھا جب اصلی تے وڈا حاکم لمز آیا تھا، اس روز یہ سب اچھے بچے بن کر انکل کی باتیں سنتے رہے، اس روز کسی کا ضمیر نہیں جاگا، کسی نے یہ پوچھنے کی ہمت نہیں کی کہ انکل آپ لمز میں کیا لینے آئے ہیں، آپ کا یہاں کیا کام، کیا آپ اتنے ویلے ہیں؟ اسی لمز میں مولانا حضرات بھی وعظ دینے آتے رہے ہیں، اس وقت بھی ایسی کوئی ویڈیو وائرل نہیں ہوئی جس میں کسی بچے نے یہ سوال کیا ہو کہ آپ نے دین کو کاروبار کیوں بنایا ہوا ہے، کیا آپ کا طرز زندگی اسلام کے مطابق ہے جس کا آپ ہمیں درس دینے آئے ہیں؟
چلیے میں مانتا ہوں کہ اصلی تے وڈے حاکم سے تلخ سوالات کرنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں، وہاں اچھے اچھوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں، (لمز کے بچے ان محاوروں کا مطلب لغت میں تلاش کر لیں ) ۔ اسی طرح مولانا حضرات بھی دیکھنے میں چاہے جتنے بھی شیریں مزاج اور حلیم الطبع کیوں نہ لگیں ان کے پیروکار اور مریدین بہرحال اپنے مرشد کی شان میں کسی قسم کی گستاخی برداشت نہیں کرتے لہذا ان سے بھی ترش سوالات کرنے سے پہلے ہمیں سو مرتبہ سوچنا پڑتا ہے۔سو ہم لمز کے بچوں کو یہ رعایت دے دیتے ہیں کہ وہ اس زمین میں نہ جائیں جہاں سب کے پر جلتے ہیں، لیکن میری تجویز ہے کہ اگلی تقریب وہ اپنی ہی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے اعزاز میں منعقد کریں، اس تقریب میں انہیں براہ راست سوال جواب کرنے کی اجازت ہو اور وہ اسے ریکارڈ بھی کرسکیں۔ وہاں وہ اپنے وی سی صاحب سے پوچھیں کہ آپ ماہانہ ایک کروڑ کے لگ بھگ تنخواہ لیتے ہیں جسے ڈالروں میں تبدیل کروانے کے لیے آپ کا زیادہ تر وقت یقیناً کرنسی ڈیلروں کے پاس گزرتا ہو گا، جبکہ یونیورسٹی میں کام کرنے والے خاکروب کو آپ حکومت کی متعین کردہ کم سے کم تنخواہ دینا بھی گوارا نہیں کرتے، تو کیا آپ کا ضمیر رات کو سوتے وقت کچوکے نہیں لگاتا؟
یہاں تک لکھنے کے بعد مجھے یوں لگ رہا ہے کہ میں کچھ زیادتی کر رہا ہوں۔ ایک طرف تو ہم نوجوانوں سے ہر وقت گلہ کرتے رہتے ہیں کہ ان میں کوئی سیاسی شعور نہیں ہے، وہ اپنی دھن میں مگن رہتے ہیں، ملکی معاملات سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور دوسری طرف اگر وہ چند تند و تیز سوالات پوچھ ہی بیٹھے ہیں تو ہم لٹھ لے کر ان کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ ہاں، انہیں اس بات کے نمبر دیے جا سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق حاکم وقت سے کم ازکم سوالات تو کیے، اس ریت کو چلنے دیں، آئندہ وہ اصلی تے وڈے حاکم سے بھی کچھ نہ کچھ پوچھ ہی لیں گے۔ لیکن کیا کروں، مجھے ایسی کوئی خوش گمانی نہیں رہی، ہمارا معاشرہ اب اس قدر اخلاقی پستی کا شکار ہو چکا ہے کہ یہاں سوال کرنے کا مقصد کسی بات کے بارے میں علم حاصل کرنا نہیں بلکہ اپنی قابلیت اور برتری ظاہر کرنا بن چکا ہے۔ غالباً بانو قدسیہ نے یہ بات کہی تھی کہ اکثر اوقات سچ کڑوا نہیں ہوتا، سچ بولنے کا انداز کڑوا ہوتا ہے، ہم سچ بولنے کے ساتھ ساتھ دوسرے کو ذلیل کر رہے ہوتے ہیں، اور توقع رکھتے ہیں کہ ہماری ذلیل کرنے کی حرکت کو صرف سچ ہی سمجھا جائے۔ لمز کے بچوں نے یہی کیا!
بشکریہ ہم سب
واپس کریں