پاکستانی نژاد برطانوی بچوں میں کتابیں پڑھنے میں عدم دلچسپی
سید شبیر احمد
ڈاکٹر کرامت اقبال برطانیہ کے شہر برمنگھم میں مقیم ممتاز ماہر تعلیم اور دانشور ہیں جن کی عمر کا زیادہ تر حصہ درس و تدریس میں گزرا ہے۔ ان کا بنیادی تعلق ڈڈیال کے گاؤں سورکھی سے ہے۔ پاکستانی نژاد برطانوی بچوں کی تعلیم کے حصول میں دلچسپی اور اس میں حائل مشکلات کو دور کرنے میں انہوں نے بہت کام کیا ہے۔ اب وہ ان کشمیری نژاد برطانوی بچوں جن کی اکثریت کا تعلق میرپور سے ہے، میں کتاب پڑھنے میں عدم دلچسپی پر کام کر رہے ہیں۔ کتابوں کا مطالعہ حصول علم میں ایک بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ کتابیں کسی بھی فرد کی زندگی بدلنے میں ایک ہم کردار ادا کرتی ہیں، یہ میرا ذاتی تجربہ بھی ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے تعلق پچھلے سال کتابوں کے تبادلہ کے سلسلے میں ہی ان سے ملاقات میں قائم ہوا تھا۔ ان کی تحریک پر میں نے بھی کتاب کے حوالہ سے کچھ تحقیق کی جو پیش خدمت ہے۔
میری عمر پانچ یا چھ سال کی تھی، ہم میرپور شہر سے دور ایک دیہات میں رہتے تھے۔ اس وقت ہمارے گھر میں اردو کا ایک اخبار ”روزنامہ کوہستان“ ڈاک کے ذریعے آتا تھا۔ بڑی بہنوں، جنہوں نے گاؤں میں لڑکیوں کا سکول نہ ہونے کی وجہ سے لڑکوں کے سکول میں پرائمری تک تعلیم حاصل کی تھی، کے لیے اردو رسالے ”حور“ اور ”زیب النساء“ بھی ڈاک سے آتے تھے۔ گھر میں دو الماریوں میں والد محترم کی کتابیں پڑی ہوتی تھیں۔ بہنوں کو رسالے اور ابا جی کو کتابیں اور اخبار پڑھتے دیکھ کر میں نے بھی کتابوں کی ورق گردانی شروع کر دی تھی۔70 کی دہائی کے شروع میں جب میں نے ابا جی سے اپنے لیے کوئی رسالہ لانے کی فرمائش کی تو انھوں نے مجھے سیارہ ڈائجسٹ لا کر دیا۔ تب غالباً میں ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ گھر میں کتابوں کی موجودگی اور پڑھنے کے رجحان نے مجھ میں بھی کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا کر دیا اور پھر گریجویشن مکمل ہونے تک میں نے سیکڑوں رومانی، جاسوسی اور تاریخی ناولوں کے علاوہ دوسری بہت سی کتابیں پڑھ ڈالیں۔ ایک وقت میں انگریزی ادب پڑھنے کا شوق چرایا تو تقریباً سب ہی مشہور مصنفین کے ناول پڑھ ڈالے۔ اب بھی میری ذاتی لائبریری میں دو ہزار سے زیادہ کتابیں موجود ہیں۔ زندگی میں کپڑوں کے بعد سب سے زیادہ پیسے میں نے کتابوں کی خریداری، فلمیں دیکھنے اور میوزک اکٹھا کرنے میں لگائے ہیں۔
2005 ء میں برطانیہ میں مانچسٹر سے لندن کے کوچ کے سفر میں ساتھ والی سیٹ پر ایک انگریز خاتون براجمان تھیں۔ اس نے میرے ہاتھ میں سڈنی شیلڈن کا ناول دیکھ کر حیرت سے مجھے دیکھا اور بولی کہ بہت عرصہ بعد کسی ساؤتھ ایشین کے ہاتھ میں سفر کے دوران کتاب دیکھ کر خوشی ہوئی ہے۔ پچھلے بیس سالوں میں برطانیہ، یورپ اور ایشیاء کے مختلف ممالک کے سفر کے دوران میرے مشاہدے میں زیادہ تر یورپین لوگ ہی سفر کے دوران کتب بینی کرتے نظر آئے۔ ہم جیسے اس دوران ہونق بنے بیٹھے لوگوں کو گھورتے ہوئے نظر آئے۔ برطانیہ میں کچھ عرصہ قیام کے دوران مجھے اپنی کمیونٹی میں کتابیں پڑھنے کے رجحان میں شدید کمی محسوس ہوئی۔ برطانیہ اور یورپ جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں رہنے کے باوجود ہم پاکستانیوں کے بچے کتاب کی طرف راغب کیوں نہیں ہوتے، یہ جاننے کے لئے میں نے اس بارے میں تحقیق کی کوشش کی۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں برطانیہ میں آباد ہونے والے کشمیری اور پاکستانی تارکین وطن زیادہ تر ان پڑھ تھے۔ ان تارکین وطن میں ستر، اسی کی دہائی تک بچوں کو پڑھانے کا رواج کم ہی تھا۔
جیسے بچہ سولہ سال کا ہوا اسے کام پر لگا دیا۔ تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اور کچھ برطانوی حکومت کے دباؤ کی وجہ سے نوے کی دہائی میں بچوں کی تعلیم پر زور دیا گیا۔ بچے تعلیم یافتہ ہو گئے لیکن والدین کی زیادہ تر تعداد اب بھی ان پڑھ اور کتابوں سے نا بلد تھی۔ گھر میں علمی و ادبی ماحول میسر نہ ہونے کی وجہ سے بچوں میں کتابیں پڑھنے کا رجحان پیدا نہ ہو سکا۔میں پہلی بار 2004 ء میں برطانیہ آیا تھا۔ اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور بہت سے دوسرے افراد کے گھروں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک آدھ کے گھر میں فرنٹ روم میں پڑی الماری میں دو تین کتابوں کے سوا شاید ہی کسی اور کے گھر میں مجھے کتابیں نظر آئیں۔ چھوٹی عمر اور جوانی میں قدم رکھتے بہت سے بچوں سے بات چیت ہوئی، ان میں مجھے کتاب میں دلچسپی بہت کم نظر آئی۔ کتابیں پڑھنے میں عدم دلچسپی کی بڑی وجہ مجھے، گھر میں علمی و ادبی ماحول دستیاب ہونا، گھر میں کتابیں نہ ہونا، والدین کا کتابیں پڑھنے سے نابلد ہونا اور بچوں کی سکول کے علاوہ غیر نصابی سرگرمیوں میں عدم دلچسپی نظر آتی ہے۔
برطانیہ کے بڑے شہروں لندن، برمنگھم، مانچسٹر، لیڈز، بریڈ فورڈ اور ان شہروں کے گردونواح میں رہنے والے زیادہ تر تارکین وطن ٹیکسی، ٹیک اوے اور ہوٹلوں کے بزنس سے وابستہ ہیں۔ ان کاروباروں سے وابستہ خاندانوں کے سربراہ کا اپنے بچوں سے بہت کم میل جول رہتا ہے۔ وہ بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں سے بہرہ ور نہیں ہوتے۔ گھر کا ماحول بھی علمی نہیں ہوتا، ایسے میں گھر میں کتابیں کہاں سے آئیں گی۔ ایسے ماحول میں جہاں خواتین کا سارا دن ٹی وی ڈرامے دیکھنے، شاپنگ کر نے یا پھر سکول اور مسجد بچوں کو چھوڑنے اور لانے میں گزر جائے، وہاں کتابوں کی ہوش کسے رہتی ہے۔ والدین کی کتابوں میں عدم دلچسپی کی وجہ سے بچوں میں بھی کتب بینی کا رجحان کم ہوتا ہے۔ سکولوں اور کالجوں میں کتابوں پر توجہ دینے کے باوجود گھروں میں وہ ماحول نہ ہونے کی وجہ سے بچوں میں کتابیں پڑھنے میں دلچسپی پیدا نہیں ہوتی۔
کہتے ہیں کہ گیا وقت تو ہاتھ نہیں آتا لیکن میرے خیال میں اب بھی وقت ہے۔ ہم اپنے بچوں میں کتابوں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے مثبت قدم اٹھا سکتے ہیں۔ آپ بھی کوشش کر کے دیکھ لیں۔بچوں میں پڑھنے کی عادت ڈالنے کے لیے گھر میں چھوٹی سی لائبریری بنا لیں۔ پڑھنے کی جگہ بنائیں۔ اپنی پسند کی چند کتابیں گھر میں لا کر رکھیں اور بچوں کے سامنے وہ کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ بچوں کو اپنے قصبہ یا شہر کی لائبریری میں لے کر جائیں۔ اگر خود اس لائبریری کا ممبر بن سکیں تو وہاں سے کتابیں لے کر گھر آئیں۔ بچے سے کتابوں کی باتیں کریں۔ اسے کتابیں چننے کا موقع دیں اور دیکھیں کہ وہ کیا پڑھنا چاہتا ہے۔
روزمرہ کی زندگی میں پڑھنے کے لمحات تلاش کریں۔ اپنی پسندیدہ کتابیں بار بار پڑھیں اور اس بارے میں جاننے کی کوشش کریں کہ بچے کیا پڑھتے ہیں یا کیا پڑھنا چاہتے ہیں۔ سکول میں بچوں کے استاد سے اس بارے میں بات کریں۔ چھوٹے بچوں کے لیے کہانیوں کی کتابیں لا کر دیں۔ ان کی سالگرہ پر ان کو کتابوں کا تحفہ دیں۔ اسی طرح بچوں میں کتابوں کے بارے میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے یہ اقدام بھی ہم اٹھا سکتے ہیں۔) بچوں تک کتابوں کی آسان رسائی ممکن بنائیں۔ اس کے لیے آپ اپنے گھر میں کتابیں رکھیں۔ اپنے بچے کو لائبریری کا دورہ مستقل بنیادوں پر کرائیں۔ اپنے ہر کمرے میں کتابیں رکھیں۔ چونکہ برطانیہ میں عموماً ً چھوٹے گھر ہوتے ہیں اور کمرے بھی اتنے بڑے نہیں ہوتے اس لئے فرنٹ روم اور ٹی وی لاؤنج میں کسی نمایاں مقام پر آپ کتابیں رکھ سکتے ہیں۔ آپ اگر اپنے خاندان میں پڑھنے کا کلچر پیدا کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے گھر میں کتابیں رکھنا اتنا ہی اہم ہے جتنا والدین کے تعلیمی پس منظر کا بچے کے داخلے کے وقت۔
پرانے وقتوں میں ماں باپ اور نانیاں دادیاں بچوں کو رات کو کہانیاں سناتی تھیں۔ جن کو سن کر بچوں میں ان کرداروں پر مبنی کہانیوں کی کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا ہوتا تھا۔ اب بچے کارٹون دیکھتے ہیں تو ایسے میں کارٹون کے کرداروں پر مبنی کتابیں مارکیٹ میں دستیاب ہوتی ہیں وہ نئی کتابیں بچوں کو لا کر دیں۔ بچوں کو وہ کتابیں پڑھنے کو دیں اور دیکھیں کہ بچہ کن موضوعات میں دلچسپی لے رہا ہے، اس پر توجہ دیں اور ان موضوعات پر نئی کتابیں انھیں لا کر دیں۔ بچوں کی دلچسپی کے مطابق ان کو کتابیں پڑھنے کو دیں۔ اگر بچہ شہزادیوں کو کچھ نہیں سمجھتا، ان میں دلچسپی نہیں رکھتا تو اسے شہزادی کی کتاب دے کر پڑھنے کی ترغیب دینے کی کوشش نہ کریں۔ اگر آپ اپنے بچوں میں پڑھنے کی عادت ڈالنا چاہتے ہیں تو انھیں ان کے شوق اور دلچسپی کے بارے میں کتابیں لا کر دیں۔
اگر بچہ کھیلوں میں وقت گزارتا ہے تو کھیلوں کے بارے میں اور اس کے پسندیدہ کھلاڑیوں کی سوانح حیات سمیت بچوں کی حیرت انگیز کتابیں دستیاب ہیں۔ اگر بچہ حقائق کی دنیا دیکھنا چاہتا ہے تو کچھ غیر افسانوی (Non۔ Ficton) تصویری کتابیں اس کے لیے خریدیں جس سے بچے کو حیرت انگیز معلومات ملیں گی۔ اگر آپ کتابیں خرید نہیں سکتے تو برطانیہ کے ہر شہر میں پبلک لائبریریوں میں معلومات کے علاوہ وہاں موجود سب کتابیں بھی آپ کی دسترس میں ہیں۔ بچوں کی سالگرہ اور امتحان پاس کرنے پر بچوں کو کتابیں تحفہ میں دینے کا رواج ڈالیں۔ جب ہم اپنے گھر میں کوئی خاص موقع مناتے ہیں تو اس کی مناسبت سے بچوں کو کتابیں بطور انعام دینا شروع کریں۔ ایک ایسی کتاب لیں جسے آپ جانتے ہیں کہ بچہ پسند کرے گا، وہ کتاب اس کی بڑی جیت پر مبارکباد دینے کے لیے خصوصی نوٹ کے ساتھ بچے کودیں۔ بچوں کے ساتھ کتابوں کی دکانوں کا سفر کریں۔ پچھلے ماہ پاکستان میں کتابوں کے ایک میلے میں والدین کی اکثریت کو چھوٹے بچوں کے ساتھ میلے میں آتے دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی اور بچوں کو اپنی پسند کی کتابیں خریدتے دیکھ کر خوشی بھی ہوئی۔ ایسی جگہوں پر بچوں کو لے کر جانے سے ان میں کتابوں کے لیے دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔
چھوٹے بچوں کو ان کی دلچسپی کی کہانیوں، کارٹونوں کی کہانیوں، نمبروں والی کتابیں پڑھ کر سنائیں اور حروف کی شناخت کرنا سکھائیں جو بعد میں ان کی کتابوں میں دلچسپی کا باعث بنیں گی۔ بچے آپ کی آواز سنتے ہیں جب بھی آپ کتاب اٹھا کر پڑھنا شروع کریں گے بچے آپ کی طرف متوجہ ہو جائیں گے۔آپ جو پڑھتے ہیں اس بارے میں زیادہ سے زیادہ بات کریں۔ جتنا آپ زیادہ بات کریں گے اتنا زیادہ امکان ہے کہ آپ اپنے بچوں میں
پڑھنے کی عادت پیدا کریں گے۔ بچے جو کچھ پڑھ رہے ہیں اس کے بارے میں ان سے بات کریں وہ تفصیل سے آپ کو بتانا پسند کریں گے۔ اس کے بارے میں ان سے سوالات کریں وہ جواب دے کر خوش ہوں گے۔
سوتے وقت پڑھنے کی عادت بنائیں۔ پڑھنے کو اپنے سونے کے معمول کا ایک اہم جزو بنانے کی کوشش کریں۔ اگر آپ اس وقت شروع کرتے ہیں، جب آپ کے بچے جوان ہوں گے تو اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ جیسے جیسے وہ بڑے ہوتے جائیں گے وہ روشنی بجھانے سے پہلے پڑھنا جاری رکھیں گے۔ آپ اپنے بچوں کو ہمیشہ مختلف کتابیں تجویز کر سکتے ہیں جن میں ناول، تصوراتی اور سائنسی کہانیاں، افسانے یا حالات حاضرہ پر کتابیں شامل ہیں۔ ایسے کتابیں تجویز کرنا اچھا ہے جو آپ کے خیال میں انھیں پسند ہوں اور ان کی عمر کے مطابق ہوں۔
اگر آپ اپنے بچوں کو مہربان دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے آپ کو مہربان اور ہمدرد بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے شکر گزار بنیں تو بہتر ہے کہ آپ شکر گزاری کے رویہ کا نمونہ بنیں اور اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے کتابیں پڑھیں تو یقینی بنائیں کہ وہ آپ کو کتاب پڑھتا ہوا دیکھیں۔ آج کل جدید ٹیکنالوجی کے آلات جن میں موبائل فون، لیپ ٹاپ، آئی پیڈ وغیرہ دستیاب ہیں جن میں کنڈل اور پی ڈی ایف پر ہزاروں کتابیں دستیاب ہیں لیکن ٹیکنالوجی کا بھی اپنا ایک وقت ہوتا ہے۔اب بھی میرے گھر میں میرے بستر کے سرہانے چار پانچ کتابیں ہمیشہ پڑی ہوتی ہیں۔ میں ہمیشہ رات کو سوتے وقت کوئی نہ کوئی کتاب ضرور پڑھتا ہوں۔ مجھے دیکھ کر میرے تین سالہ نواسے میں کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا ہو گیا ہے۔ وہ میری کتابیں اپنی جھولی میں رکھ کر ان کی ورق گردانی کرتا ہے اور اب برطانیہ میں آ کر وہ سونے سے پہلے کتاب لے کر میرے پاس آتا ہے تا کہ میں اسے پڑھ کر سناؤں۔ کتاب کی کہانی سنتے سنتے وہ سو جاتا ہے۔
واپس کریں