سید شبیر احمد
میرے جیسے نو آموز کے لیے کرشن چندر جیسے شہرہ آفاق ادیب کے لیے کچھ لکھنا سورج کو چراغ دکھانے والی بات ہے لیکن میری نظر میں کرشن چندر اردو ادب کا سب سے بڑا افسانہ اور ناول نگار ہے۔ ان کے افسانے اور ناول جب جب پڑھیں ایک نئی لذت اور چاشنی ملتی ہے۔ ان کا ہماری ریاست جموں وکشمیر سے گہرا تعلق رہا ہے۔ ان کے والد شنکر چوپڑا مہاراجہ پونچھ کے طبی معالج رہ چکے ہیں۔ کرشن چندر نے اپنے والد کے ساتھ پونچھ سے دہلی جاتے ہوئے کوٹلی کے راستہ میرپور کے نزدیک گھٹیالی پتن سے دریا جہلم عبور کر کے جہلم ریلوے سٹیشن متعدد بار ریل کا سفر کیا تھا۔ گھٹیالی پتن میرے آبائی گاؤں کے بالکل نزدیک واقع ہے۔ ان کا افسانہ ”جہلم میں ناؤ پر “ گھٹیالی پتن کے پس منظر میں لکھا گیا جو اس سفر میں انھیں ملنے والی ایک الہڑ دوشیزہ کے معصوم جذبات کی کہانی ہے۔
ان کا سوانحی ناول ”میری یادوں کے چنار“ میں نے اپنے کالج کے دنوں میں پڑھا تھا جس کے بہت سے کردار ذہن میں گھر کر گئے تھے۔ کل بک کارنر جہلم پر اس ناول کا نیا ایڈیشن مصور آفتاب ظفر کی بنائی ہوئی کرشن چندر کی خوبصورت تصویر سے مزین سرورق کے ساتھ دیکھ کر دل کو بہت بھایا تو پھر سے خرید لیا۔ جب پڑھنا شروع کیا تو ذہن کے دریچوں سے ماں جی، پتا جی، تاراں، رجا، رجی، صمدو، نیاز احمد تھانیدار، مہاراجہ کی بہن، فجا اور خانم سارے کردار باہر نکل آئے۔ تھانیدار نیاز احمد اور مہاراجہ کی بہن کی محبت کی لازوال داستان اور فجے اور خانم کے ان مٹ پیار کی کہانیوں کا انجام پڑھ کر آنکھوں سے آنسو کی جھڑیاں تھمتی ہی نہیں تھیں۔ دونوں میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ خانم اور مہاراجہ کی بہن نے اپنی محبت کا پاس رکھا اور اپنے چاہنے والوں کے لیے آخری حدوں کو چھو لیا۔
ان کے والد ریاست پونچھ کے ملازم تھے۔ پونچھ کی ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھی۔ ریاست پر ڈوگرہ راج تھا جس میں رعایا پر ٹیکسوں کے بوجھ کے علاوہ شخصی آزادی پر پابندی تھی۔ فجے کی کہانی بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں۔” کاکے کی ماں! جانتی ہو اس دنیا میں سب سے قیمتی شے کون سی ہے۔ سونا! اماں نے جواب دیا۔” نہیں آزادی“ کاکے دی ماں۔ اس دنیا میں سب سے مہنگی اور سب سے قیمتی چیز آزادی ہے اور تاریخ بتاتی ہے کہ انسان نے ہر موڑ پر اس کی پوری قیمت ادا کی ہے۔
عورت کی آزادی اور اختیار دینے کی بات دنیا میں سب ہی کرتے ہیں لیکن اس پر عمل عام معاشروں میں کم ہی ہوتا ہے۔ ان کی اس ناول میں کہی ہوئی یہ بات آج کی صورت حال میں بھی سچ نظر آتی ہے۔” مرد کے پاس تو بہت کچھ ہوتا ہے۔ اس کے دوست ہوتے ہیں۔ اس کا کام ہوتا ہے ایک بہت بڑی پھیلی ہوئی اور وسیع دنیا ہوتی ہے۔ لیکن عورت کے پاس تو صرف اس کا گھر ہوتا ہے۔“”میری یادوں کے چنار“ کے یہ اختتامی جملے اس ناول کا نچوڑ ہیں۔ ایسی تلخ اور حقیقت پر مبنی باتیں کرشن چندر کے قلم سے ہی نکل سکتی ہیں۔”جو سچ کے راستے پر چلتے ہیں ان کے لیے کوئی گھر نہیں ہوتا اور کوئی جائے پناہ نہیں ہوتی اور کوئی سایہ دار شجر ان کی راہ میں نہیں ہوتا ہے اور وہ ایک عزم راسخ اپنے سینے میں لیے اس راستے سے گزر جاتے ہیں اور پیچھے اپنے یادوں کے چنار چھوڑ جاتے ہیں۔ جو آگ کے شعلوں کی طرح دھرتی سے نکلتے ہیں اور آسمان کی طرف بلند ہو کر ان کی شہادت کی گواہی دیتے ہیں! “
واپس کریں