سید شبیر احمد
سید شبیر احمد
ساٹھ کی دہائی میں ہمارے گائوں کے ایک نوجوان نے اپنی برادری کے ایک بندے کو قتل کر دیا تھا جس کی بنا پر اسے عمر قید کی سزاہوگئی۔ اس کا باپ گائوں کا ایک بڑا اور خوشحال زمیندار تھا جس کے بیلوں کی جوڑی پورے علاقہ میں مشہور ہوا کرتی تھی۔نوجوان مختلف جیلوں میں عمر قیدکی سزا کاٹتا رہا ۔اس دوران اس کے والدین اسے ملنے جیل جایا کرتے تھے۔ قیدی سے ملاقات ایک بڑا ہی تکلیف دہ عمل ہے۔دس پندرہ منٹ کی ملاقات کے لیے گھنٹوںانتظار کرنا پڑتا ہے۔ نوجوان کا والدبیلوں کا بڑا شوقین تھا لیکن بیٹے کی قید نے اس کے سب شوق ختم کرا دئیے تھے۔ دو تین دفعہ وہ والد مرحوم کے پاس آیا کہ مقتول کے خاندان سے صلح کرا دیں لیکن مقتول پارٹی معاف کرنے پر تیار نہ ہوئی ۔نوجوان عمرقید کی سزا بھگت کر جب باہر آیا تو جوانی ڈھل چکی تھی۔
ہمارے معاشرے میں دشمنیاں برسوں چلتی ہیں جس میں لڑائیاں ہوتی ہیں، قتل ہو جاتے ہیں، مقدمے بازی ہوتی ہے۔اکثر لوگوں کی زندگیاں کورٹ کچہری میں تاریخیں بھگتنے میں گزر جاتی ہیں۔ بدلے کی آگ ایسی شے ہے یہ جس خاندان کو اپنی لپیٹ میں لے لے وہ خاندان برباد ہو جاتا ہے۔ ستر کی دہائی میں مشرق وسطی میں ملازمتوں کے دروازے کھلنے کی وجہ سے دیہات سے ہزاروں افراد ملازمت کے لیے بیرون ممالک سدھارے ۔دیہات میں بہت زیادہ پیسہ آیا ۔چند لوگوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور اپنے آپ کو مالی طور پر مستحکم کر لیا لیکن بہت سے لوگوں نے اس پیسے کو کسی منفعت بخش کام میں لگانے کی بجائے اپنی دشمنیاں پالنے میں لگا دیا۔ بہت سے نوجوان ان دشمنیوں کی بھینٹ چڑھ کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ کچھ افراد جیلوں میں قید ہو ئے اورجو باہر رہ گئے وہ مقدمہ بازی میں الجھ کر رہ گئے۔ آپ شہر کی کسی بھی عدالت میں چلے جائیں ،کمرہ عدالت روزانہ سائلین سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ جیلوں کی اپنی ایک دنیا ہے ۔جیلوں میں بند قیدیوں کے والدین، بہنیں بھائی اور بیویاں کچہریوں اور جیلوں کے چکر اور اپنے پیاروں سے ملنے جیل کے چکر لگا لگا کر زلیل و خوار ہو جاتے ہیں۔تھوڑے سے صبر،ہمت سے کام لے کر اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر ان خرافات سے بچا جا سکتا ہے۔
پچھلے دنوں راجہ انور کی 1971 ء میں لکھی جانے والی کتاب "چھوٹی جیل سے بڑی جیل تک "نظر سے گزری۔ انھوں نے اپنی ابتدائی سیاسی زندگی میں جیلوں میں گزرے ہوئے وقت اورپیش آنے والے واقعات بیان کیے ہیں جنھیں پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ میں اس کتاب سے چھوٹے چھوٹے تین واقعات قارئین کی نذر کرتا ہوں۔
ا)۔ جس دن یونس کی آخری ملاقات تھی اس کے عزیز و اقارب کے ساتھ اس کی جوان اور خوبصورت بیوی بھی
اپنے جیون ساتھی کو الوداع کہنے کے لیے آئی۔ جب وہ ایک طرف کھڑے ہو کر ایک دوسرے کو الواع کہہ
رہے تھے تو فرطِ جذبات سے دیکھنے والوں کی آنکھیں تر ہو گئیں۔یہ حسین جوڑا بہت جلد ایک دوسرے سے
بچھڑنے والا تھا۔وہ اپنی بیوی سے بولا۔ " میں نے تمھارے عیش و آرام کے لیے ڈاکہ ڈالا ،لیکن مجھ سے قتل
ہو گیا اور آج میں پھانسی لگنے والا ہوں۔" بیوی زارو قطار روتے ہوئے شوہر سے لپٹ گئی اور کہنے لگی۔ " میں
تو بھوکی ننگی بھی تمھارے قدموں میں زندگی گزار دیتی،تم نے یہ کیوں کیا "۔یہ بات سن کر میری آنکھوں میں
بھی آنسو آ گئے۔
ب)۔ ایک اور جوان پھانسی لگا۔اس فوجی جوان سے زمین کے جھگڑے میں ایک بندہ قتل ہو گیا تھا۔ پھانسی سے ایک
ہفتہ قبل اس کی ماں اور بہن ملنے آئیں۔اپنے ہاتھوں سے اسے مہندی لگائی اور بازو پر "گانا "باندھا۔ اس کا
سہرہ لے کر آئیں۔اس بدقسمت دولہا کو دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے۔پھانسی کے بعداپنی ماں کا دیا
ہو سہرا سر پر باندھے ،مہندی رچے ہاتھوں اور گانے سمیت دوسروں کے کندوں پر سوار ہو کر جب وہ دولہا جیل
سے باہر نکلا تو ہم سب کی آنکھیں اشکوں سے لبریز تھیں۔
ج)۔ ایک دن ملاقات کے دوران ایک جوان قیدی جو دس سال کی قید بھگت رہا تھا میرے ساتھ بیٹھا تھا۔ اس کے مقابل چند خواتین بیٹھی تھیں۔
ایک خاتون کے پاس ڈیڑھ دو سال کی بچی تھی جو اس جوان کو ابو، ابو کہہ رہی تھی۔ غالبا یہ اس جوان کی بیوی اور بیٹی تھیں۔ چھوٹی بچی نے رونا
شروع کر دیا تو ماں نے بچی کو خاموش رکھنے کے لیے اسے اپنا دودھ پلایا۔ میں نے محسوس کیا قیدی بے چین سا ہو گیا ہے۔ اُس کی بیوی کی اُس
جوان پر نظر پڑی تو اُس کی آنکھوں سے بھی آرزوئوں کا سیلاب امڈتا نظر آیا۔ لیکن اُن کے درمیان لوہے کی سلاخیں دیوار کی طرح حائل تھیں۔
ان کے چہروں پر لکھے ہوئے محرومی کے جذبات سے میں آبدیدہ ہو گیا۔
میرے اپنے مشاہدے میں اِن جیسے درجنوں واقعات گزرے ہیں۔ ہم ایک جذباتی قوم ہیں۔ وقتی ابال پر اپنے آپ کو قابو میں نہیں رکھ سکتے، قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں جس کا نتیجہ ہمیشہ برا ہی نکلتا ہے۔ میں سیالکوٹ کے ایک سید بادشاہ کو جانتا ہوں جو لوگوں کی شہہ پر بدمعاشی کیا کرتے تھے۔ اسی بدمعاشی میں ان سے پولیس کا ایک سپاہی قتل ہو گیا۔ وہ پکڑے گئے ،چار سال مقدمہ چلا اور انھیںعمر قید کی سزا ہو گئی ۔ ان چار سالوں میںاُن کی ماں اور بہن تھانوں اورکچہریوں کے چکر لگا لگا کر ُرل گئیں۔ شہہ دینے والے بھاگ گئے کسی نے بعد میں حال بھی نہ پوچھا اور ان کی ماں اور بہن کا برا حال ہو گیا۔ ہمارے معاشرے میں دو اکیلی عورتوں سے یہ دنیا کیسا سلوک کرتی ہے آپ سب جانتے ہیں۔
ہمارے ہاں زیادہ تر جھگڑے اور لڑائیاں زمین و جائیداد، اس کی تقسیم اور رشتوں پر ہوتی ہیں۔ جذبات میں کیے گئے فیصلے اور اس کے نتیجے میں اُٹھائے گئے جذباتی اقدام ہمیشہ تباہی و بربادی لے کر آتے ہیں۔ ہمارا انصاف کا نظام اتنا سست ہے کہ دیوانی مقدمات دو تین نسلوں تک چلتے ہیں۔ قتل اور دوسرے فوجداری مقدمات میں سیشن کورٹ ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک پہنچتے پہنچتے بیس پچیس سال لگ ہی جاتے ہیں۔ دونوں فریق مقدمے پرپیسہ پانی کی طرح بہاتے ہیں۔ وکیلوں کی فیسیں،منشیوں کے خرچے ، عدالتی اہلکاروں کی دھونس و رشوت خوری ،پولیس کے عملہ کی کارستانیاں، جیل حکام کا توہین آمیز رویہ ایک ایسی مشکلات ہیں جو ان سے دوچار ہوتا ہے ،وہ اپنی عزت ِنفس کو بھول جاتا ہے۔کورٹ کچہری ،تھانے اور جیل میں گزرا ہوا ایک ایک دن سالوں پر بھاری ہوتا ہے۔ گرمی سردی اور بارش میں بغیر سایہ کے عدالتوں کے باہر گھنٹوں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ وکیل حضرات بھی پیسے بٹورنے کے نت نئے طریقے ڈھونڈلیتے ہیں۔
میرا تو یہ مخلصانہ مشورہ ہے کہ اپنے معاملات کو مل بیٹھ کر طے کر لیں۔ کوئی بھی جذباتی قدم اُٹھانے سے پہلے اس کے نتیجے پر بھی غور کر لیں۔ دو چار گز زمین کے لیے کسی کی جان لے لینا، رشتہ نہ ملنے پر لڑکی کو مار دینا بہت ہی ظالمانا اقدام ہیں ان سے اجتناب کریں۔ بیس پچیس سال بعد مقدمہ جیت کر بھی آپ کو اتنی تسلی اور خوشی نہیں ہوگی جتنی مل بیٹھ کر معاملے کو صلح صفائی سے سلجھا لینے میں ہو گی۔ آزاد کشمیر کی تحصیل ڈڈیال کے چھوٹے سے دیہات پچوانہ کے بسنے والوں نے مہینے میں ایک دن مل کر بیٹھنے اور مکالمہ کر کے ایک دوسرے کو معاف کر دینے کی روایت کی داغ بیل ڈالی ہے۔ پچھلے دو سال سے اس گائوں میں کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوا۔ گائوں کے سب افراد مہینے کی پہلے ہفتے میں کسی طے شدہ تاریخ کو مل کر بیٹھتے ہیں اور اپنے معاملات صلح صفائی سے سلجھا لیتے ہیں۔ آئیں ہم بھی ایک ایسا ہی معاشرہ قائم کرنے میں اپنا پہلا قدم اٹھائیں۔
واپس کریں