سید شبیر احمد
بک کارنر جہلم پر اکثر ادبی محفلیں سجتی رہتی ہیں۔حسبِ روایت پچھلے ہفتے گگن شاہد کی طرف سے فرخ یار کی کتاب "عشق نامہ شاہ حسین" کی تقریب رونمائی کا دعوت نامہ اردو ادب کی شہرہ آفاق شخصیات جناب افتخار عارف اور محترمہ کشور ناہید کے علاوہ ممتاز شاعر اور کالم نگار محمد اظہار الحق و صاحبزادہ سلطان ناصر کی تقریب میں شمولیت کی نوید کے ساتھ ملا۔ ادب پڑھنے اور اساتذہ سے ملنے کا شوق عمر کے ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔ایتوار کومیں اپنے بینکر ساتھی اور عزیز آغا شبر حسین کے ہمراہ بروقت تقریب میں پہنچ گیا تھا۔ کتابوں سے اُنس رکھنے والے خواتین و حضرات کی بڑی تعداد تقریب میں موجود تھی۔فرخ یار اپنے پیٹی بھائی یعنی بینکر نکلے جن سے مل کر بہت اچھا لگا۔مصنف سے دستخط شدہ "عشق نامہ شاہ حسین " مصنف کے ہاتھوں موصول ہوئی جو میری ذاتی لائبریری میں ایک قیمتی اضافہ ہے۔
تقریب کی کاروائی فیس بک پر براہ ِراست پیش کی گئی ۔تقریب کے آغاز میںفرخ یار نے کتاب کی تیاری کے مراحل اور شاہ حسین پراپنی تحقیق سے سامعین کو آگاہ کیا۔سلطان ناصر نے فرخ یار کی شاعری اور تحریری اسلوب پربڑی ادبی اور پر مغز گفتگو کی۔ محمد اظہار الحق جو فرخ یار کے دوست بھی ہیں، نے فرخ یار کے خاندانی پس منظر اور ان کی علمی استعداد ،راگ راگنیوں اورموسیقی کے بارے میں ان کی تحقیق اور شوق پرتفصیل سے روشنی ڈالی۔جناب افتخار عارف کی شاہ حسین اور اردو ادب پر گفتگو انتہائی علمی و ادبی تھی جو حاضرین نے بہت دلچسپی سے سنی۔کشور ناہید صاحبہ نے ساٹھ کی دہائی میں شاہ حسین کے مزار پر مختلف ادوار میںمیلہ چراغاں پر بات کرتے ہوئے شاہ حسین اور ان کی شاعری پر بڑی عالمانہ اور دلحسپ باتیں کیں جنھیں سننے کے لیے حاضرین خصوصا خواتین ہمہ تن گوش رہیں۔
"عشق نامہ شاہ حسین "فرخ یار کی نئی تصنیف ہے ۔ انھوں نے انتہائی عرق ریزی سے شاہ حسین پر اپنی سالوں کی تحقیق کے بعد ایک خوبصورت کتاب لکھی ہے جس میں انھوں نے شاہ حسین کی زندگی اور ان کی شاعری کے تین رنگوں تصوف،ملامت اور سنگیت پر بڑے منفرد انداز میں گفتگو کی ہے۔امر شاہد کتاب کو جاذب نظر بنانے پر بہت محنت کرتے ہیں اورمتن میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتے ۔ سرخ،سبز اور غالب پیلے رنگ کے حسین امتزاج سے آبی رنگوں کو استعمال کر کے تصوف کے پس منظر میں پاکستان کے ممتاز مصور علی عباس سید(صدارتی تمغہ امتیاز) نے خوبصورت سرورق بنایا ہے۔ 416صفحات پر محیط کتاب پر فکری اور دانشورمصنفین نے اپنی رائے کا اظہار کیاہے۔ پیش لفظ کے بعد فرخ یار نے تصوف میں فتوت اور ملامت کی تخلیقی روش کا شاہ حسینی اسلوب پر بہت تفصیل سے لکھا ہے۔دوسرے حصہ میں سنگیت کی جنوب ایشائی عارفانہ روایت میںحسین بانی کا چرچا کے عنوان سے شاہ حسین کے کلام میں موجود موسیقیت پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔شاہ حسین کے متن کا کیفیتی تجزیہ لکھتے وقت انھوں نے شاہ حسین کی کافیوں میں استعمال کیے گئے مختلف الفاظ کے اجزائے ترکیبی پر دوسرے مصنفین کی تحقیق کی روشنی میں بڑی مدلل باتیں لکھی ہیں۔عشق نامہ کے چوتھے حصہ میں انھوں شاہ حسین کی کافیوں کا اردو میں ترجمہ پیش کرتے ہوئے قارئین کی راہنمائی اور سمجھنے کے لئے کافیوں میں استعمال کیے کئے پنجابی کے مشکل الفاظ کا معنی بھی لکھے ہیں۔
اردو ادب کے دانشور اور مشہور مصنفین کی عشق نامہ کے بارے میں مستند رائے کے بعد میرے جیسے نوآموز لکھنے والے کا کتاب پرتبصرہ لکھنا سورج کو چراغ دکھانے والی بات ہے۔ سرمد صہبائی لکھتے ہیں "یہ کتاب استعاروںاور علامتوں کا دریا ہے جس کے بہائو کا کوئی انت نہیں۔ شاہ حسین انہی گہرے اور وسیع ماخذ کے سرچشموں سے سیراب ہوتے ہوئے پنجاب کا تہذیبی حافظہ بنتا ہے۔ " معروف ڈرامہ نگار اور افسانہ نگار نور الہدی شاہ کہتی ہیں "فرخ یار نے تصوف، ملامت، سنگیت اور کلام میں شاہ حسین اور کلام شاہ کی جامع تفسیر جس دل نشینی،گہرائی و گیرائی اور ندرت کے ساتھ بیان کی ہے وہ ورق ورق قاری کو مسحور کیے رکھتی ہے۔" ممتاز دانشور احمد جاوید نے ان الفاظ میں کتاب پر تبصرہ کیا ہے۔" عشق نامہ میں انسان اور مذہب کے تعلق کی روحانی، نفسیاتی،اخلاقی، تاریخی، معاشرتی اور تخلیقی پرتوں کو اعلی درجے کے جمالیاتی شعور کے ساتھ ادبی اسلوب میں کھولا گیا ہے۔" ناصر عباس نیر عشق نامہ کے بارے میں لکھتے ہیں " پنجاب میںنئی تہذیب کی نمائندگی کرنے والوں میں بابا فرید کے بعد دوسرا نام شاہ حسین کا ہے۔ ان کی ملامت گہرے عرفانی اور اخلاقی اسباب کے باعث تھی مگر اسے ان کی شخصیت اور کلام کو مسخ کرنے کی بنیاد بنایا گیا۔فرخ یار نے تصوف کی ارتقائی تاریخ کو محققانہ انداز میں بیان کرتے ہوئے، تمام سلاسل، صوفیہ،بھگتی اور خصوصا قلندریہ و ملامتی رجحانات ،شاہد بازی کے عجمی ذوق کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔"
عشق نامہ میں تصوف پر بات کرتے ہوئے فرخ یار لکھتے ہیں۔بعض مورخین کے خیال میں تصوف کا مادہ صوف یعنی اون ہے جو انبیاء اور عارفین کا شعار رہا ہے۔ اسے ترکِ دنیا کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے آٹھویں صدی صدی کواسلامی تصوف کی تشکیل کا عہد قرار دیا ہے اور حسن بصری سے لے کر شیخ حمدون قصار کے عہد تک تصوف اور ملامت پر بہت کچھ لکھا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ بغدادی تصوف عمومی طور پر حد درجہ ورع ،سکوت اور فنا کے تصورات پر استوار تھاجس سے پیدا ہونے والا عدم تحفظ کا احساس انسانی اعمال پر بسا اوقات سکتہ طاری کر دیتا ہے۔ عشق کو ہستی کا آئین بنانے میں مولانا روم نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ہندوستان میں اسلامی تصوف کے نفوذسے ہندوستانی اسلامی ثقافت ایک جداگانہ ذائقے میں ڈھلی۔ یہاں کے مقامی مذاہب ویسے بھی صوفیانہ مزاج رکھتے تھے۔مقامی باطنی مزاج کے ساتھ اسلامی تصوف کے اختلاط سے دونوں نے ایک دوسرے کا متاثر کیا۔سقوط بغداد کے بعد فروغ پانے والا رجحانی تصوف سب سے زیادہ ہندوستان کو اور ہندوستان اس تصوف کو راس آیا۔پنجاب کے تصوف پر کئی زمانوں تک بحیثیت مجموعی رومان پرور قصباتی چھاپ نمایاں رہی۔
ملامتی مسلک کے بارے میں انھوں نے بڑی تحقیق کے بعد بڑے محتاط انداز میں بہت کچھ لکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں اہل عرفان کے ہاں سماجی زندگی کا بے معنی تصنّع اُن کے معمولات شب و روز میں ہمیشہ غیر ضروی طور پر حائل رہا ہے جس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے انھوں نے دو راستے اختیار کیے۔ ایک مکمل خلوت نشینی اور دوسرا یہ کہ ارادتاً وہ ایسے افعال کے مرتکب ہوں ،جن کی بنا پر اہل دنیا ان کی طرف سے بے زار اور مایوس ہو جائیں۔اہل دنیا کی اس بے زاری نے ان عارفین کے لیے اپنی عارفانہ سرگرمیوں کی بلا تعطل انجام دہی کو آسان بنا دیا۔ایک تیسرا راستہ تخلیقی سرگرمی بھی تھا جس کا زیادہ اظہار شاعری اور حکایات میں ہوا۔ہمارے ہاں اس مسلک کو بابا فرید، سلطان باہو اور میاں محمد بخش نے اپنایا۔ملامتیہ مسلک پر فرخ یار نے اپنی تحقیق کا دائرہ بہت وسیع کیا اور قبل مسیح کے یونانی فلسفہ سے لے کر مختلف اسلامی ادوار پر بڑی عرق ریزی سے کام کیا۔ ان کی یہ تحقیق پڑھنے کے لائق ہے۔ میں کتاب پڑھنے والوں کو ہدایت کروں گا کہ اس باب کا بغور مطالعہ کریں۔ شاہ حسین کے ملامتی مسلک کی پیروی اور ان کے مدھو لال سے تعلق کو انھوں نے بڑی تفصیل سے مولانا رومی اورشمس تبریز، ہندوستان کے بادشاہ محمود اور اس کے غلام ایاز، خلیفہ ہارون ارشید ار اس کے وزیر جعفر یحیی برمکی اور بہت سے دوسرے عارفین کے تعلقات کے پس منظر میں بڑی تفصیل سے لکھا ہے ۔
فرخ یار کو راگ اور راگنیوں پر عبور حاصل ہے وہ موسیقی کی ابجد سے بھی بہت اچھی طرح واقف ہیں ۔وہ پنجابی کے الفاظ میں موجود سنگیت کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اس بات کا پتہ ہمیں ان سے کتاب کی تقریب میں اُن سے اُن کی اپنی نظم ترنم میں سن کر چلا۔کتاب کے دوسرے باب میں شاہ حسین کے کلام میں موسیقیت پر بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ کون سی کافی کس راگ میں لکھی گئی ہے ۔ ان کی تحقیق کے مطابق سب سے زیادہ کافیاں راگ تلنگ اور راگ رام کلی میں لکھی گئی ہیں جن کی تعداد بالترتیب بیس اور پندرہ ہے۔ میرے جیسے موسیقی کا واجبی سا علم رکھنے والے کے لیے راگ و رانیوں کی دنیا کو سمجھنے کے لیے ایک عمر درکار ہے۔ موسیقی اور راگ و رنگ سے لگائو رکھنے والوں کے لیے اس باب میں دلچسپی کا سارا سامان موجود ہے۔ کتاب کے چوتھے اور آخری باب میں شاہ حسین کی کل ایک سو تریسٹھ کافیاں اردوترجمے اور پنجابی کے مشکل الفاظ کے معانی کے ساتھ دی گئی ہیں۔ رسالہ تہنیت کا فارسی متن اردو ترجمہ کے ساتھ کتاب کے آخری صفحوں پر خاصے کی چیز ہے۔ عشق نامہ میں صفحہ نمبر 71 پر مولانا رومی کے شاگرد شمس تبریز کا کتابیں پانی میں پھینکنے کا واقعہ درج ہے۔مولانا رومی کے کہنے پر شمس تبریز نے کتابیں پانی سے واپس نکالیں تو وہ خشک تھیں ۔ میں نے شاہ حسین پر ایک مضمون لکھتے وقت ان سے منسوب کتابیں پانی میں پھنکنے والا واقعہ دو تین کتابوں میں پڑھا تھا۔تصوف کی کتابوں میںاس طرح کی کئی کرامتیں مختلف صوفیا کے ساتھ منسوب ہیں ۔ فرخ یار نے یہ واقعہ یقینا پوری تحقیق کے بعد لکھا ہو گا۔
قیمتی کاغذ پر چھپی خوبصورت اور مجلد کتاب کی قیمت 2500 روپے رکھی گئی ہے جو یقینا موجود ہ حالات میں مناسب ہی ہوگی لیکن میرے جیسے ریٹائرڈ آدمی، طالب علموں اور معاشرے کے عام فرد کی دسترس سے دور ہے۔ آج کل ویسے بھی کتابیں پڑھنے کے رحجان میں کمی دیکھی گئی ہے اس تناظر میں مغرب کی طرح ایسی تحقیقی کتابوں کا اگر ایک پیپر بیک ایڈیشن بھی چھپ جائے تو بہت سوں کا بھلا ہو جائے گا ۔فرخ یار کی یہ کتاب تصوف، ملامتیہ مسلک اور شاہ حسین پر تحقیق کرنے والوں کے لئے بہت کارامد ثابت ہو گی۔ اتنی خوبصورت تحقیقی کتاب لکھنے پر میں فرخ یار کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
واپس کریں