دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
برطانیہ ۔وارک کا قلعہ نما تاریخی کیسل(قسط نمبر۔01)
سید شبیر احمد
سید شبیر احمد
�� جہاں چار یار مل جائیں وہیں رات ہو گلزار ، فلم شرابی کے لیے یہ گانا کشور کمار نے گایا تھا جوفلم میں اداکار امیتابھ بچن پر فلمایا گیا تھا۔ یہ تو فلم کی بات تھی لیکن جب ہم کالج کے زمانے کے چارساتھی برمنگھم میں ایک عرصہ بعد اکٹھے ہوئے تو کالج کے دور کی باتیں اور شرارتیں یاد کر کے رات واقعی گلزار ہو گئی۔ اگلے دن گھر میں بیٹھنے کی بجائے کہیں باہر نکلنے کا پروگرام بن گیا۔ جگہ کا انتخاب میرے ذمے لگا تو میرا خیال فوراً وارک کیسل کی طرف گیا ۔میری وراکشائر کائونٹی میں واقع وارک کیسل کی سیر کی تجویز پیش پر سب نے اتفاق کیا اورچند منٹ میں ہی اگلی صبح دس بجے وارک کیسل جانے کا پروگرام فائنل ہو گیا۔ ہم سب نثار احمدخواجہ کے ڈورس روڈ پر واقع گھر میں قیام پذیر تھے۔ محمداشفاق اور نصیر خان ،نثارخواجہ اور میں صبح دس بجے وارک کیسل جانے کے لیے تیار تھے۔

یونائیٹڈبینک کی سروس کے دوران بینک کی طرف سے مجھے بہت سے ممالک کی سیر کا موقع ملا ۔جس ملک اور شہر کے ٹور کا اعلان ہوتا روانگی سے قبل میں اس شہر اور اس کی مشہور جگہوں کے بارے میں ضروری معلومات گوگل سے چیک کر کے لکھ لیتا تھا۔ وارک کیسل کی سیر کا پروگرام طے ہونے کے بعد میں نے رات کو اس کے بارے میں ضروری معلومات نوٹ کر لی تھیں۔برطانیہ میں یہ کہاوت ہے کہ برطانیہ کے موسم ،نوکری اور برطانوی خاتون کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔میں نے موسم چیک کیا تو گوگل نے اس دن وارک میںہلکی بارش ہونے کی پیش گوئی کر رکھی تھی۔ موسم کی اس پیش گوئی کے باوجود چاروں شوریدہ سر کیسل کی سیر تیار تھے۔ کچھ ضروری بندوبست کر کے صبح دس بجے ہم سب اشفاق کی نئی ہائی برڈ ٹویوٹا گاڑی میں سوار ہو گئے۔ گوگل سفر میں بھی آپ کی راہ نمائی کرتا ہے۔اس سے سفر کرنے والے اِدھر اُدھر بھٹکنے سے بچ جاتے ہیں اور یہ نزدیک ترین راستے سے آپ کی منزل مقصود پر پہنچا دیتا ہے۔

ہم جب وارک کی طرف روانہ ہوئے تو برمنگھم شہر میں ہی بوندہ باندی بند ہوکرد دھوپ نکل آئی تھی۔برمنگھم سے باہر راستہ میںکبھی دھوپ اور کبھی بارش والا موسم تھا۔اشفاق بڑے محتاط انداز میں گاڑی چلا رہا تھے۔ نثار خواجہ بڑے اچھے نعت گو ہیں۔ ان کے پاس غزلوں کا بھی ایک بہت بڑا خزانہ ہے ۔وہ اپنے اس خزانے سے بزم یاراں کے گروپ کو اچھے انتخاب سناتے رہتے ہیں۔انھوں نے سفر کے آغاز میں ایک خوبصورت نعت سنائی ۔اس کے بعدانھوں نے ایک خوبصورت غزل بھی بڑے ترنم سے سنائی۔ سب نے تالیاں بجا کر داد دی۔ اشفاق بھی بہت اچھا گلوکار ہے جو واٹساپ گروپ میں اکثرہمیں غزلیں سناتا رہتا ہے۔ نثار خواجہ کی گائی ہوئی غزل پھر اشفاق نے میوزک لگا کرگائی اور سماں باندھ دیا ۔ سفر کا لطف دوبالا ہو گیا ۔ باتوں میں ہمیں دھیان نہیں رہا اور گوگل ہمیں وارک کیسل کے مین گیٹ کی بجائے پچھلے گیٹ کی طرف لے گئی۔اس کے بعد ہم نے دوبارہ گوگل کو دہائی دی تو دس منٹ میں وہ ہمیں محل کے مین گیٹ تک لے گئی۔ محل سے باہر پارکنگ میں گاڑی کھڑی کی جس کی سات پائونڈ فیس تھی۔ پارکنگ سے محل کا گیٹ تقریبا ڈیڑھ کلو میٹر دور تھا۔ پارکنگ کے ساتھ ہی سیاحوں کو محل تک لے جانے کے لیے ایک چھوٹی کوچ کھڑی تھی جس میں بیٹھ کر ہم پانچ منٹ میں گیٹ پر پہنچ گئے۔یہ سروس محل کی طرف سے بالکل فری تھی۔ جیسے ہی ہم محل کے گیٹ پر پہنچے تو ایک دم ہلکی بوندا باندی شروع ہو گئی۔نثار خواجہ بڑے دل والے ہیں انھوںنے کسی کو ٹکٹ گھر کی طرف جانے نہیں دیا اور خود جا کر ایک سو بیس پائونڈ کے چا ر ٹکٹ لے آئے۔ اگلے دس منٹ میں ہم محل کے بیرونی دروازے پر پہنچے تو مطلع ایک دم صاف ہو گیا اور دھوپ نکل آئی۔

برصغیرپاک وہند کی طرح برطانیہ میں بھی قلعوں اور محلوں کی عمارات اونچی پہاڑیوں اور دشوار گزار جگہوں پر بنائے گئے ہیں۔ تا کہ حملہ آوروں کو آسانی سے دیکھا اور روکا جا سکے۔وارک محل برطانیہ کے بہت سے محلوں سے مختلف ہے۔ قلعہ نما اس محل کی بہت اونچی اونچی دیواریں ہیں۔ ایک طرف محل کی عمارت ہے جس کے ساتھ دریا ایون بہتا ہے۔ محل کے سامنے بہت بڑا صحن ہے۔ دوسری طرف ایک بڑی اونچی فصیل کے درمیان دو داخلی دروازے ہیں جن پر بڑی مضبوط لکڑی اور لوہے سے بنے ہوئے بڑے دروازے نصب ہیںجہاں سے گھڑ سوار آسانی سے محل میں داخل ہو سکتا ہے۔برطانیہ میں بیرونی حملہ آوروں نے چڑھائی نہیں کی اس وجہ سے یہاں کے قلعے اورمحل اپنی اصل حالت میں اب تک موجود ہیں۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں ان کو جو جزوی نقصان پہنچا ان کو مرمت کر کے ان کی اصل حالت میں برقر ارکھا گیا ہے۔ زیادہ تر قلعے ،محلات اور چرچ اب نیشنل ٹرسٹ کی ملکیت ہیں جنھوں نے ان کے دیکھنے پر ٹکٹ لگا رکھاہے۔ ٹکٹوںسے حاصل ہونے والی آمدنی انہی قلعوں، محلوں اور تاریخی چرچوں کی ضروری مرمت اور دیکھ بھال پر خرچ کی جاتی ہے۔ جس بات نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہاں بسنے والے لوگوں کی اپنے ملک اور اس میں موجود تاریخی اہمیت کی حامل عمارتوں اور ان میں پڑے ہوئے نوارات سے محبت ہے۔ بہت سے ادھیڑ عمر ریٹائرڈ مرد و خواتین یہاں رضاکارانہ ڈیوٹی دیتے نظر آئے۔ اس محل میں بھی ڈیوٹی پر معمورریچل نامی ستر سالہ خاتون نے بتایا کہ وہ ہفتے میں دو دن چار گھنٹے اس محل میں رضاکارانہ ڈیوٹی دیتی ہے۔

(جاری ہے۔کیسل کی سیر کے کچھ اورمناظراگلی قسط میں)


واپس کریں