سید شبیر احمد
برطانیہ میں برمنگھم کے ہرٹ لینڈ ہسپتال کے بستر پر بیٹھا آج میں اپنی زندگی کی بیلنس شیٹ متوازن کرنے لگا ہوں تو پتہ نہیں ذہن کے کون کون سے کونوں کھدروں سے بے شمار یادیں اور چھوٹی چھوٹی باتیں نکل آئی ہیں۔ رات کی ڈیوٹی پر معمور افریقن نرس اکثر مجھ سے ہنسی مذاق کرتی رہتی ہے۔ آج شام مجھے پوچھ رہی تھی ”سر! آپ نے اپنے ہسپتال میں داخلے کا کسی کو بتایا نہیں، ایک ہفتہ سے آپ کو دیکھنے کوئی نہیں آیا“ ۔ ”میرا یہاں کوئی ہے ہی نہیں تو مجھے دیکھنے کون آئے گا۔“ میرا جواب سن کر وہ چپ ہو گئی تھی۔ پچھلے سال ڈاکٹر نے میری گرتی ہوئی صحت کو دیکھ کر بہت سے ٹیسٹ کرنے کے بعد بلڈ کینسر کی تشخیص کی تھی، جس کا علاج جاری ہے۔ دس دن پہلے نمونیہ کی وجہ سے میں ہسپتال داخل ہوا تھا۔ ڈاکٹر کہتا ہے کہ اب دو اؤں سے زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے لیکن میرے لیے دعائیں کرنے والا اب اس دنیا میں کون ہے۔
ذہن میں بچپن کی کچھ دھندلی سی یادیں ہیں۔ جہلم کے قریب دیہات میں ہمارا چھوٹا سا گاؤں تھا۔ ہمارا گاؤں کا ایک چھوٹا سا دین دار گھرانا تھا۔ اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے میں بڑا لاڈلہ بچہ تھا۔ والد نے محنت مزدوری کر کے مشکل سے مجھے گریجویشن کروائی تھی۔ یہ ستر کی دہائی کے آخری سالوں کی بات ہے۔ خوش قسمتی سے گریجویشن کے فوراً بعد مجھے اسلام آباد میں بغیر کسی سفارش کے اچھی نوکری مل گئی تھی۔ ان دنوں کا اسلام آباد گریڈوں میں بٹا ہوا چھوٹا سا لیکن ایک خوبصورت شہر ہوا کرتا تھا۔
جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کا ابتدائی زمانہ تھا۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی ابھی اتنی ریل پیل نہیں تھی۔ ہمارے دفتر کے بیسویں گریڈ کے افسر بھی فورڈ ویگن میں ہمارے ساتھ بیٹھ کر دفتر کے قریب اتر کر پیدل فاصلہ طے کر کے وقت پر دفتر پہنچتے تھے۔ نوکری کے پہلے سال ہی یکے بعد دیگرے پہلے امی جان اور پھر ابا جی کی وفات کے بعد میں بالکل اکیلا رہ گیا۔ والدین کی وفات کے بعد گاؤں میں اتنا آنا جانا نہیں رہا تھا۔ بس کچھ پرانے دوستوں کا ساتھ تھا۔اسلام آباد میں دفتر کے بعد میرا زیادہ وقت کتابیں پڑھنے اور شہر میں پیدل گھومنے میں گزر جاتا۔ ایسے حالات میں میری دلچسپی ادب بڑھ گئی تھی۔ بچپن سے ہی مجھے کہانیاں لکھنے کا شوق تھا، جو بچوں کی دنیا اور اخبار کے بچوں کے صفحے پر چھپتی رہی تھیں۔ میں نے لکھنے کی طرف دھیان دیا تو میرے افسانے اور کہانیاں دو ایک ڈائجسٹ اور ادبی رسالوں میں چھپنا شروع ہو گئیں۔
اسلام آباد میں قیام کے دنوں کی بات ہے۔ ایک دفعہ ایک کہانی پر تبصرہ کے ساتھ دوشیزہ ڈائجسٹ نے میرے گھر کا پتہ بھی چھاپ دیا۔ اگلے تین چار ہفتوں میں مجھے بہت سے خطوط موصول ہوئے۔ زیادہ تر قلمی دوستی کی درخواستیں اور اوٹ پٹانگ باتیں ہی لکھی تھیں، لیکن تین چار خطوط ایسے بھی تھے جن میں مجھے ادب کی کچھ چاشنی محسوس ہوئی اور ان خطوط کا جواب میں نے دے دیا۔ ان خطوں میں ایک خط لاہور سے مریم بلال کا بھی تھا۔ ان دنوں موبائل فون تو درکنار گھروں میں بھی ٹیلی فون خال خال ہی ہوتے تھے، ایسے میں خطوط ہی آدھی ملاقات اور ایک دوسرے سے رابطے کا ذریعہ تھے۔مریم کو لکھے میرے خط کا ایک لمبا چوڑا جواب آیا، جس میں اس نے اپنا پورا تعارف لکھ بھیجا۔ وہ کوئین میری کالج لاہور میں گریجویشن کر رہی ہے۔ والد پی آئی اے میں ایک بڑے عہدے پر فائز اور دوبئی میں تعینات ہیں۔ والدہ کا انتقال ہو چکا ہے، وہ اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ اپنے دادا اور دادی کے ساتھ رہتی ہے، بیوہ پھوپھو بھی اپنے دو بیٹوں سمیت ان کے ساتھ رہتی ہیں۔ پھوپھو اسے اور اس کے بھائی کو تنگ کرتی رہتی ہے۔ شاعری، ادب اور کتابوں کے علاوہ اسے بیلے کی کلیاں بہت پسند ہیں۔
اس نے بڑے سائز کے چھ صفحوں پر لکھے گئے خط میں میری کہانیوں کے علاوہ ادب اور شاعری کے حوالہ سے بہت ساری باتیں لکھی تھیں۔ بیلے کی دو تین کلیاں بھی اس نے خط میں ڈال دی تھیں۔ اپنے پسندیدہ شاعر مجید امجد کے بہت سے اشعار بھی لکھے تھے۔ میں نے بھی خط کا جواب تفصیل سے دیا اور اچھی خاصی علمی باتیں لکھ کراس پر اپنی ادب دوستی کا رعب جھاڑا۔ میں اچھے قلم اور کالی سیاہی سے ہمیشہ سفید رنگ کے اچھے کاغذ پر بہت ہی خوش خطی سے لکھتا تھا۔میرا لکھنے کا انداز اسے بہت پسند آیا اور یوں ہمارے درمیان قلمی دوستی شروع ہو گئی، خط و کتابت کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ ہر ہفتے چھ سات صفحوں پر مشتمل خط موصول ہوتا اور فوری جواب کے مطالبہ کے ساتھ علم و ادب کی بہت سی باتوں کی وضاحت، گھر میں اپنے بھائی اور پھوپھو کے بچوں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کی کہانیاں، اپنی ہم جماعت لڑکیوں اور کالج کی بہت سی باتیں اس کے خط کا حصہ ہوتی تھیں۔ ہر خط میں بیلے کی کلیاں وہ ضرور بھیجتی تھی، اس وجہ سے میں نے اس کا نام بیلا رکھ دیا تھا جو اسے بہت پسند آیا تھا۔
ایک دفعہ اس نے لکھا کہ اب اسے میرے جواب کا انتظار رہنے لگا ہے، وہ چار پانچ دفعہ میرا خط پڑھتی ہے، بس ایسی ہی بہت سی معصوم باتیں اس نے خط میں لکھی تھیں۔ ایک خط میں اس نے مجھ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا، چھ سات ماہ کی قلمی دوستی میں ابھی تک ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا نہیں تھا، نہ میں نے کبھی اس سے تصویر کا تقاضا کیا اور نہ ہی اس کی میری تصویر کے لئے فرمائش آئی۔ اس کے بہت اصرار پر ہم نے ملنے کا پروگرام بنایا۔ اگلے خط میں اس نے اپنی دو رنگین تصاویر بھیج دیں۔ میں نے دفتر سے دو دن کی چھٹی لی اور اسے ملنے لاہور روانہ ہو گیا۔ لاہور پہنچ کر رات کو ایک ہوٹل میں قیام کیا۔ اگلے دن طے شدہ وقت پر گیارہ بجے میں کوئین میری کالج کے گیٹ کے سامنے میں کھڑا تھا کہ وہ مجھے دور سے آتی نظر آئی، میں نے پہلی نظر میں اسے پہچان لیا تھا۔ وہ گیٹ سے باہر آ کر سیدھا میرے پاس آئی۔ سلام دعا کے بعد میں نے پوچھا کہ مجھے کیسے پہچانا تو وہ بولی ”میں نے گیٹ کے سامنے کھڑا دیکھ کر اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ آپ ہی ہوں گے۔“
ہم کالج کے نزدیک شملہ پہاڑی پر جا کر ایک بینچ پر بیٹھ گئے۔ باتوں باتوں میں اس نے مجھے کہا ”آپ تو میری توقعات سے زیادہ ہینڈ سم اور خوش لباس ہیں، میں تو آپ کو گاؤں کا ایک عام سا لڑکا سمجھتی تھی“ ۔ مریم خود بھی آسودہ کشمیری خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک انتہائی خوبصورت اور سرو قد دوشیزہ تھی۔ اس کے مقابلہ میں، میں ایک سیدھا سادا غربت میں پلا بڑھا ایک عام سا گاؤں کا نوجوان تھا جو اسلام آباد میں ملازمت کرتا تھا۔وہ میری شرافت اور سچائی سے بہت متاثر ہوئی تھی۔ ہماری اس پہلی ملاقات میں دنیا جہاں کی باتوں میں دو گھنٹے گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔ ملاقات کے بعد میں نے رکشہ میں اسے بیڈن روڈ پر اتارا اور خود واپس اسلام آباد روانہ ہو گیا۔ اگلے خط میں اس نے میری بڑی تعریفیں لکھیں، میں اسے اس کی سوچ سے زیادہ مختلف، مہذب اور ہینڈسم لگا تھا۔
خط کتابت کے علاوہ اب میں نے ہر ماہ مریم سے ملنے لاہور جانا شروع کر دیا۔ یہ ہماری ایک دوسرے سے چاہت کا آغاز تھا۔ قلمی دوستی سے شروع ہونے والی راہ و رسم اب پسندیدگی اور چاہت کے جذبے میں ڈھل گئی تھی۔ آنے والے مہینوں میں ایک دفعہ اس نے مجھے اپنے دادا سے ملنے کا حکم صادر فرمایا۔ چند دن بعد میں اپنے ایک دوست کے ہمراہ اس کے دادا جان سے ان کے گھرمیں ملا۔ وہ مجھے بڑے حلیم طبع اور سادہ طبیعت کے مالک لگے۔ بڑی شفقت سے ملے اور میری نوکری اور خاندان کے بارے میں تفصیل پوچھنے کے علاوہ بہت سی باتیں کیں۔ ہماری چاہت پروان چڑھتی رہی اور میں سنجیدگی سے اپنے مستقبل کی تیاری کرنے لگا۔ میں اب مہینہ میں دو بار لاہور جانے لگا تھا۔ شملہ پہاڑی، یادگار پاکستان، شالامار باغ، لارنس گارڈن ہماری ملاقاتوں کے گواہ بن گئے۔
علیم میرا بچپن کا دوست اور خالہ زاد بھائی ہے۔ والدین کی وفات کے بعد خالہ جان میرا بہت خیال کرتی تھیں۔ میں بھی چھٹیوں میں اکثر ان سے ملنے ان کے گھر چلا جاتا تھا۔ میں خالہ جان سے ملا اور انھیں مریم کے بارے میں بتایا اور مریم کے گھر رشتہ لے کر جانے کی بات کی۔ انہوں نے مجھے خاندان میں دو تین رشتے گنوائے، لیکن یہ وہی رشتے دار تھے جو ہمیں غریب سمجھ کر اپنے گھر میں نہیں آنے دیتے تھے۔ میرے اصرار پر خالہ، مریم کے گھر جانے پر تیار ہو گئیں اور ایک دن خالو کے ساتھ لاہور چلی گئیں۔مریم کی پھوپھو نے یہ کہتے ہوئے رشتہ سے صاف انکار کر دیا ”لڑکے کا آگے پیچھے کوئی نہیں ہے۔ چھوٹی سی نوکری ہے، کوئی گھر بار نہیں ہے، ہماری لڑکی بڑی نازوں سے پلی ہے، وہ گاؤں میں نہیں رہ سکتی۔“ درپردہ حقیقت یہ تھی کہ وہ مریم کو اپنے بیٹے سے بیاہنا چاہتی تھیں۔ جب انھیں میری اور مریم کی چاہت اور ملاقاتوں کا پتہ چلا تو انہوں نے مریم کے اکیلا گھر سے نکلنے کے علاوہ دوسری بہت سی پابندیاں لگا دیں۔ انھوں نے مریم کے والد کے خوب کان بھرے جس پر انھوں نے اپنا تبادلہ پاکستان کروا لیا اور بچوں کے پاس رہنے لگے۔
ان حالات کو دیکھ کر میں دادا جان سے مریم کی بات کرنے ان کے گھر گیا۔ ان سے تو ملاقات تو نہ ہو سکی لیکن مریم کے والد صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ انھوں نے میری اچھی طرح کلاس لی اور مجھ پر اپنی بیٹی کو ورغلانے کا الزام لگا کر بے عزت کر کے گھر سے نکال دیا۔ اس کے دو ہفتے بعد مریم کا خط ملا کہ والد اس کی شادی اگلے ماہ پھوپھو کے بیٹے سے کر رہے ہیں۔ آپ آ جاؤ، میں آپ کے ساتھ چلنے کو تیار ہوں، آپ کے گاؤں جا کر ہم وہاں شادی کر لیں گے۔خط ملتے ہی میں دفتر سے چھٹی لے کر لاہور پہنچا۔ مریم کے دادا جان سے ملا۔ انھوں نے بڑے تحمل سے میری بات سنی۔ مجھے پاس بٹھا لیا اور کہا بیٹا! مریم جذباتی سی لڑکی ہے اس کے کسی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے میری بڑی بے عزتی ہو گی۔ ”مجھے سارے لوگ برا کہیں گے کہ مریم میرے پاس تھی، میں نے اس کی تربیت صحیح نہیں کی۔ بیٹا جی! اس عمر میں، میں یہ گالیاں برداشت نہیں کر سکتا“ ۔ یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
پھر وہ میرے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو گئے اور کہا بیٹا میں التجا کرتا ہوں، آپ مریم کو بھول جاؤ۔ ان کے بندھے ہاتھ دکھ کر میرا دل رنج و غم سے بھر گیا اور میں ان سے کوئی غلط کام نہ کرنے کے وعدے کے ساتھ اٹھ کر چلا آیا۔ میں شاید بزدل تھا، غریب تھا یا میرے ضمیر نے ایسا انتہائی قدم اٹھانے کی اجازت نہ دی۔ واپس آ کر مریم کو آخری خط لکھا کہ جو دادا کہتے ہیں، مان لو۔ جواب میں وہ بہت ناراض ہوئی، بہت روئی اور مجھے بزدلی کا طعنہ بھی دیا لیکن میں اسے کیسے بتاتا کہ میں اسی سالہ بزرگ کی آنسو بھری التجا اور ان کے بندھے ہاتھوں کو دیکھ کر سب کچھ چھوڑنے پر مجبور ہو گیا تھا۔
اب میرا کسی کام میں جی نہیں لگتا تھا۔ ذہنی دباؤ کی وجہ سے مجھے شدید اداسی کا دورہ پڑا۔ دفتر والے حیران تھے کہ ایک ہنس مکھ ساتھی کو کیا ہو گیا ہے۔ اس کے چند ماہ بعد میں نے ملک چھوڑ دیا اور برطانیہ کیسے پہنچا یہ ایک لمبی داستان ہے۔ بس پیسہ کمانے کا ایک جنون ہو گیا اور امیر ہونے کے چکر میں اپنے آپ کو بھی بھول گیا۔ برطانیہ آ کر واپس جانے کو کبھی دل ہی نہیں چاہا، یوں بھی اپنے ملک میں کون تھا، جس کو میری پرواہ ہوتی اور میں اسے ملنے جاتا۔ مریم کے بعد کسی اور کو زندگی کا ساتھی بنانے کو دل نہیں مانا اور دل کی نگری ویران ہی رہ گئی۔
پچھلے سال اچانک ہڈیوں میں درد ہونے لگا تھا، جس کی پہلے تو میں نے کوئی پرواہ نہیں کی لیکن جب وزن بھی کم ہونے لگا تو ڈاکٹر سے رجوع کیا۔ ڈاکٹر نے کافی سارے ٹیسٹ کرنے کے بعد انکشاف کیا کہ مجھے خون کا سرطان ہو گیا ہے۔ اس دن بڑے عرصہ بعد مجھے اماں اور ابا کی بہت یاد آئی۔ ان کی قبریں دیکھنے کی شدید خواہش دل میں جاگی اور برطانیہ آنے کے بعد پہلی بار میرا پاکستان جانے کو بے تحاشا دل چاہا۔ پاکستان میں میرا علیم سے ہی رابطہ تھا۔ اسے اپنے آنے کی اطلاع دی۔ علیم میرا خالہ زاد بھائی ہی نہیں میرا بچپن کا دوست بھی ہے۔ ہمارا بچپن گاؤں میں اکٹھے ہی گزرا تھا۔ گاؤں میں اس کی امی بھی میرا بہت خیال رکھا کرتی تھیں۔ علیم ایک پرائیویٹ بینک میں اعلی انتظامی عہدے پر فائز ہے، ڈیفنس لاہور میں رہتا ہے۔
لاہور پہنچنے کے اگلے دن رات ڈنر کے بعد ڈرائینگ روم میں بیٹھے میں اور علیم باتیں کر رہے تھے کہ شازیہ بھابھی بولیں چلو علیم! بھائی جان کو بیڈن روڈ سے آئس کریم کھلا کر لاتے ہیں۔ علیم مجھے تیار ہونے کا کہہ کر خود اپنے بیڈروم میں چینج کرنے چلا گیا۔ ہم گاڑی میں باہر نکلے تو میں نے دیکھا کہ پینتیس سال پہلے کے لاہور میں بہت زیادہ تبدیلیاں آ گئی تھیں۔ مال روڈ پر گاڑیاں کا ایک سیلاب تھا۔ بے ہنگم ٹریفک کے شور اور گاڑیوں کے دھویں کی وجہ سے علیم نے گاڑی کے شیشے بند کیے ہوئے تھے۔
علیم اور میں گزری ہوئی باتوں کو یاد کر رہے تھے۔ پچھلی سیٹ پر بیٹھی شازیہ بھابھی ہماری باتیں سن رہی تھیں۔ علیم نے گاڑی روکی تو سامنے مجھے بیڈن روڈ کا سائن بورڈ نظر آیا۔ میرے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا۔ بیڈن روڈ کی ایک بلڈنگ میں تو بیلا رہتی تھی۔ پتہ نہیں اب وہ کہاں ہو گی؟ ، کیسی ہو گی؟ ، کیا کرتی ہو گی؟ کتنے ماہ و سال گزر گئے، مدتوں بعد ایک دم بہت سے سوال میرے ذہن میں آئے تو آتے چلے گئے۔ ”کن خیالوں میں گم ہو بھائی؟ آئس کریم پارلر والا لڑکا کب سے تم سے فلیور پوچھ رہا ہے“ ۔ علیم نے مجھے سوچوں میں گم دیکھ کر کہا تو میں ایک دم چونک گیا۔
آئس کریم کھا کر علیم نے کہا۔ چلو یار آج بیڈن روڈ پر چہل قدمی کرتے ہیں۔ چمن آئس کریم سے نکل ہم مال روڈ کی مخالف سمت چل پڑے۔ اتنے سالوں میں یہاں بھی بڑی تبدیلیاں آ چکی تھیں۔ بازار کی وہ رونق نہیں رہی تھی جو کسی زمانے میں اس کا خاصہ ہوتی تھی۔ بیلا (مریم) کی بلڈنگ کے گیٹ کے سامنے پہنچ کر میرے قدم ایک دم رک گئے۔ میں ایک بار پھر ماضی کے دھندلکوں میں گم ہو گیا۔ ”بھائی جان! آپ کہاں کھو گئے۔“ شازیہ بھابھی نے پوچھا تو میں اپنی یادوں کو سمیٹ کر بولا کچھ نہیں بھابھی ویسے ہی کچھ پرانی باتیں یاد آ گئی تھیں۔
اگلے ایک ہفتے میں گاؤں جا کر والدین کی قبروں پر فاتحہ پڑھی اور شاید دوبارہ نہ آ سکنے پران سے معافی مانگ کر واپس لاہور آ گیا۔ برطانیہ واپس آنے سے ایک دن پہلے رات کو کھانے کی میز پر شازیہ بھابھی کہنے لگیں۔ ”بھائی جان! آپ واپس نہ جائیں ناں، ہمارے پاس رہ جائیں“ ۔ ”میں کوئی اچھی سی خاتون ڈھونڈتی ہوں آپ کے لیے۔ آپ شادی کر لیں“ ۔ اب بھابھی بیچاری کو کیا پتہ کہ میرے دل کی نگری تو کب کی اجڑ چکی اور دل کی نگری ایک دفعہ اجڑ جائے تو پھردوبارہ کب بستی ہے۔
واپس کریں