دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جنگ اقتدار اور بارودی سرنگوں کی صفائی
وجاہت مسعود
وجاہت مسعود
عمر عزیز میں کسی مستقل روزگار کی صورت سے واسطہ نہیں رہا، کسی نے پرسش حال چاہی تو نگہ نیم باز سے طوطی ہند خسرو کا مصرع پڑھ دیا۔ آوارہ و مجنونے و رسوائے سربازارے۔ آوارگی اختیاری تھی، ’شوریدگی کے ہاتھ سے ہے سر وبال دوش‘ اور رسوائی میں مرزا ہادی رسوا سے سند پائی۔ ’آوارگی میں ہم نے زمانے کی سیر کی‘۔خیال رہے کہ آشفتگاں کی آوارگی بھی سیاحت کی دریافت اور تحیر کی مہمیز سے خالی ہوتی ہے۔ وقت کی موج بے نیاز نے پرکاہ سبک سر کو جس سمت چاہا، اذن پرواز دے دیا۔ کہیں تدریس کی وادی تھی تو کہیں کوئے سیاست میں حسرت تعمیر کی پاکوبی۔ کبھی کوچہ صحافت کی صدا پر لبیک کہا تو کہیں کتاب بینی کے بہانے تماشائے تاریخ سے شغل رہا۔ اگلے روز ایک طالب علم کی تحریر دیکھی۔ ایڈورڈ سعید اور حمید دباشی کے افکار کا تقابل کیا گیا تھا۔ معلوم ہوا کہ نوآموز ادیب کے استاد شاید خود بھی ایڈورڈ سعید اور ان کے متبع حمید دباشی کے افکار پوری طرح نہیں سمجھتے۔

بعد از نوآبادیات کی اصطلاح اس لئے نوک زباں ہے کہ ایڈورڈ سعید کے افکار کو توسن مغرب کی توبیخ کا آلہ سمجھ لیا ہے۔ آپ کے نیاز مند کی کوتاہ نظری سے انکار نہیں مگر یہ سوال اجتماعی احوال سے تعلق رکھتا ہے کہ پس از نوآبادیات کی اصطلاح پاکستان جیسے ملک پر کیسے منطبق ہو گئی۔ گزشتہ پچھتر برس میں کون سا لمحہ تھا جب ہم آزادی کی نعمت سے بہرہ ور ہوئے؟ جب تاریخ نے ہمیں یہ موقع دیا ہو کہ ہم نو آبادیاتی جوئے سے نجات پا کر اپنی شناخت کے خد و خال تراش سکیں۔ اپنے سفر کی سمت متعین کر سکیں؟ غالب یاد آتے ہیں۔ ’کون…. آزاد ہوا ہے۔ پہلے گورے کی قید میں تھا، اب کالے کی قید میں ہوں‘۔

1947 میں شب گزیدہ سحر کے داغ دار اجالے میں قدم رکھنے والوں کو آٹھ برس بعد ملک کی فیڈرل کورٹ کے سربراہ جسٹس محمد منیر نے 21 مارچ 1955 کو مطلع کیا کہ اے خطہ پاکستان کے ساکنو! تم کس خمار خام میں زندہ ہو۔ تم تو ملکہ معظمہ کی رعایا اور برطانوی تاج کے نمائندے گورنر جنرل غلام محمد کے تابع ہو۔ محمد علی جناح سے لے کر مذکورہ فیصلے تک جو قانون سازی ہوئی، بیک جنبش قلم منسوخ، کاروبار مملکت میں جو فیصلے ہوئے، سب بے بنیاد۔ جسمانی طور پر مفلوج لیکن سازش میں طاق غلام محمد انگریز بہادر کی ملازمت کے دوران بھوپال، حیدرآباد اور بہاولپور کی ریاستوں سے منسلک رہے تھے۔ جسٹس منیر پٹیالہ کی ریاست میں پیدا ہوئے تھے۔ مطلق العنان ریاستوں میں رعیت کے طور پر زندگیاں گزارنے والوں کا سیاسی شعور معلوم۔ جسٹس منیر کے فیصلے میں ایک جملے ’جو زمانہ معمول میں غیرقانونی ہو، وہ غیر معمولی حالات میں قانونی قرار پاتا ہے‘ نے ملک میں آئندہ سیاسی ارتقا کا دروازہ کھول دیا۔ غلام محمد کی نئی ’باصلاحیت کابینہ‘ میں ایوب خان وزیر دفاع اور سکندر مرزا وزیر داخلہ مقرر ہوئے۔ دستور ساز اسمبلی کا تیار کردہ مسودہ دستور منسوخ ہی نہیں ہوا بلکہ ’منظور شدہ تاریخ‘ سے غائب کر دیا گیا۔

اسی برس اکتوبر 1955 میں مغربی پاکستان کی وفاقی اکائیوں کو ون یونٹ میں ضم کرکے مشرقی اور مغربی پاکستان میں دو قطبی سیاست کی بنیاد رکھی گئی۔ اکتوبر 1958 میں ایوب مارشل لا نے فیصلہ سازی میں غیر عسکری شرکت کا خاتمہ ہی نہیں کیا بلکہ فوج میں بمشکل پانچ فیصد نمائندگی رکھنے والے مشرقی پاکستان کو عملی طور پر مغربی پاکستان کی کالونی میں بدل دیا۔ اپنے عوام پر ناجائز بالادستی قائم کرنے کے لیے بیرونی مفادات کا طوق پہننا پڑتا ہے۔ سیٹو اور سینٹو میں شرکت اور بڈھ بیڑ کا اڈہ امریکا کے سپرد کرنا اس اس داخلی نظام کا عالمی چہرہ تھا۔ تیرہ برس اور ایک شخصی دستور کے انہدام کے بعد براہ راست فوجی اقتدار ختم ہوا تو پاکستان دولخت ہو چکا تھا۔ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ بھٹو حکومت میں بنیادی فیصلے سیاسی قیادت کر رہی تھی یا آئے روز فوجی مداخلت کے زیر زمین شاخسانوں سے مفاہمت پر مجبور تھی۔

5 جولائی 1977 کو یہ مہین پردہ ہٹا دیا گیا، آئین معطل کر دیا گیا اور عدلیہ نے غاصب حکومت کو دستور میں من مانی ترامیم کا اختیار دے دیا۔ ضیا مارشل لا کی آٹھ سالہ رات ختم ہوئی تو افغان جنگ نے ملکی سالمیت کو بیرونی مفادات کے ہاتھ رہن رکھ دیا تھا۔ آٹھویں ترمیم کے ذریعے دستور کا پارلیمانی تشخص مسخ کر کے صدارتی نظام نافذ ہو چکا تھا۔ انتقال اقتدار کی بجائے شراکت اقتدار کی اصطلاح متعارف کرائی جا چکی تھی۔ اس بندوبست میں کلیدی کردار دستور میں ایزاد شدہ شق 58 ٹو بی تھی۔ 1997 میں تیرہویں آئینی ترمیم کے ذریعے یہ شق ختم ہوئی تو کارگل سازش کو آڑ بنا کر 12 اکتوبر 99 کی آمریت نمودار ہو گئی۔

سیاسی قیادت نے میثاق جمہوریت کے ذریعے وسیع تر سیاسی مفاہمت کا راستہ اختیار کیا تو بینظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مذہبی دہشت گردوں کی درپردہ سرپرستی کا وہ خونی کھیل شروع ہوا جس نے اٹھارہویں آئینی ترمیم کے امکانات کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ لسانی اور فرقہ ورانہ جماعتوں کی کاشت سے حاصل کردہ تجربے کی روشنی میں آزمودہ سیاسی کٹھ پتلیوں کی مدد سے تیسری سیاسی قوت کھڑی کی گئی۔ پراجیکٹ عمران 2008 ہی میں شروع ہو گیا تھا۔ پندرہ سال پر محیط یہ کشمکش اب اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہی ہے لیکن اس لڑائی میں بچھائی گئی بارودی سرنگیں ملک کے طول و عرض میں موجود ہیں۔

ڈنمارک میں صرف ایک ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے پر بچھائی گئی بارودی سرنگیں صاف کرنے میں ہزاروں تربیت یافتہ فوجیوں کو کئی ماہ کام کرنا پڑا تھا۔ ہمارا رقبہ ڈنمارک سے سولہ گنا زیادہ ہے۔ ہماری موجودہ آبادی ڈنمارک کی آبادی سے چوبیس گنا زیادہ ہے۔ ڈنمارک کی موجودہ فی کس آمدنی 66 ہزار ڈالر ہے۔ ہماری معیشت آئی ایم ایف کے دروازے پر کشکول نظر کھولے بیٹھی ہے۔ شیکسپیئر نے ڈنمارک کی ریاست میں کسی خرابی کا اشارہ دیا تھا۔ ہماری ریاست کی خرابی علامت سے علالت کی حدود میں داخل ہو چکی۔ ہماری آزمائش طویل ہے۔

(بشکریہ: ہم سب لاہور)


واپس کریں