وجاہت مسعود
ہم خوش نصیب قرآن پاک کی تعلیم کے لئے ٹیکسٹ بک بورڈ کے “لازمی نصاب” کے محتاج نہیں تھے، ہم نے اپنے گھروں پر والدین اور دوسرے بزرگوں کی شفقت کے سائے میں کتاب مبین سے آگہی پائی۔ بڑے ابا شوکت علی خان (بھاجی) درویش کو آداب تلاوت بھی سکھاتے تھے، تلفظ درست کرتے تھے، اکثر کسی آیت کا پس منظر بھی آسان لفظوں میں بیان کر دیتے تھے۔ یہ نعمت ملائے مکتب کے سامنے بزاخفش کی طرح سر ہلاتے ان بچوں کو کہاں میسر آتی جو مولوی کے ڈنڈے سے لرزہ براندام رہتے تھے۔ علم کا راستہ شوق کے خوشبودار باغ سے ہو کر گزرتا ہے، خوف کی دھوپ میں حرف شناسی تو شاید حاصل ہو جائے، شعور کا وہ چراغ اپنی جھلک نہیں دیتا جو سوال کی گھاٹی سے گزرتے ہوئے اونچ نیچ سجھاتا ہے۔ نصف صدی پہلے موسم گرما کی ایک صبح تھی۔ معمول کے مطابق تعلیم دیتے ہوئے سورہ البقرہ کی اس آیت پر پہنچے، ثُـمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهٖ وَاَنْتُـمْ ظَالِمُوْنَ۔ مرحوم نے آہستہ سے حمائل بند کر کے ترجمہ کیا، پھر فرمایا کہ “حضرت موسیٰ اپنی قوم سے چالیس روز کی مہلت لے کر کوہ طور پر گئے۔ ان کی غیر موجودگی میں سامری شعبدہ باز نے سونے کا ایک بچھڑا بنایا۔ حضرت موسیٰ کی قوم مرعوب ہو کر اس بچھڑے کی پوجا کرنے لگی۔ حضرت موسیٰ واپس آئے تو یہ منظر دیکھ کر انہیں سخت افسوس ہوا۔ انہوں نے بنی اسرائیل سے کہا کہ تم نے ظلم کیا یعنی وہ کیا، جو نہیں کرنا چاہیے تھا”۔
اس بیان کا تعلق کسی مذہبی تعصب سے نہیں۔ درویش کسی عقیدے اور اس کے پیروکاروں کے لئے تعصب پر موت کو ترجیح دیتا ہے۔ تعصب شعور کی نفی ہے۔ تعصب کے فروغ اور شعور کی کمزوری ہی سے ظلم جنم لیتا ہے۔ ان دنوں ملک عزیز میں سامری کے بچھڑے کی پوجا کا موسم ہے۔ سامری نے بچھڑوں کا ریوڑ پال لیا ہے۔ فربہ اور دبلے، نوعمر اور فرتوت، ہریالے اور بنجر۔ کیسے کوئی کر سکتا ہے ان سب میں پہچان۔ یوں پہچان کی ضرورت ہی کیا ہے۔ سامری تو قدیمی آشنا ہے اور بچھڑے کی پوجا کا ظلم بھی ہمارے لیے نیا نہیں۔ قائداعظم کی موجودگی میں ہم نے متروکہ املاک کی چھین جھپٹ کا جو بازار گرم کیا، وہ سیم و زر کے بچھڑے کی عبادت ہی تھی۔ بے شک ہم نے خود پر اور آئندہ نسلوں پر ظلم کیا۔ جنہیں تالے پر تالا مار کر دوسروں کی املاک پر قبضے کا شغل خوش آ جائے، وہ ہاتھ پاﺅں ہلا کر رزق پیدا کرنے کا تردد کیوں کریں۔
ہم نے بابائے قوم کے حرف نصیحت سے منہ پھیر کر ملاﺅں کی اقتدا قبول کی تو کیا یہ ظلم نہیں تھا۔ مطالبہ پاکستان کی مخالفت کرنے والے احراری مولویوں نے 22 اکتوبر 1949 کو بیرون دہلی دروازہ لاہور میں سیاست سے کنارہ کشی کا جو اعلان کیا، وہ سامری کے اس بچھڑے کی تخلیق ہی تھی جو تین برس بعد قوم پر ظلم کی صورت میں نمودار ہوا۔ کیا 1955 میں ون یونٹ کی مہورت سامری کا وہ بچھڑا نہیں تھا جو مشرقی پاکستان کے ہم وطنوں کے وسائل ہڑپ کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ کیا ہم نے اکتوبر 58ء میں سامری کے بچھڑے کو سجدہ نہیں کیا تھا۔ کیا ہم نے کنونشن لیگ کے سامنے سر تسلیم خم کر کے حرف حق سے انحراف نہیں کیا تھا۔ کیا ہم نے جنوری 65ء میں سیم و زر کے لالچ میں سامری کے بچھڑے کو ووٹ نہیں دیے تھے۔ کیا ہم نے شیر علی پٹودی کے اشارے پر سامری کے بچھڑے کا زرق برق جلوس نہیں نکالا تھا۔ 1971 کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں۔ کیا ہم سامری کے بچھڑے کی اطاعت میں اپنے ہم وطنوں کے قتل عام پر خاموش نہیں تھے۔ ملک کی پہلی زخم زخم جمہوریت کو سینگوں کی نوک پر رکھ کر ہم نے سامری کے اس بچھڑے کو کھیتی اجاڑنے کی اجازت نہیں دی تھی جو فصیل شہر پر نتھنے پھلائے کھڑا تھا۔
کیا افغان جہاد میں ملنے والے ڈالر سامری کا بچھڑا نہیں تھے جنہوں نے ہمیں قومی ترقی سے غافل کر کے سکیورٹی سٹیٹ میں بدل دیا۔ ضیا کے عہد تاریک میں ہم نے جمہوریت کی دودھیل گائے ذبح کر ڈالی اور سامری کے بچھڑوں کے لئے سرسبز قطعات وقف کر دیے۔ دستور کے بچھیرے کی ٹانگ توڑ ڈالی۔ افغان جنگجوﺅں کی سرپرستی کی۔ فرقہ وارانہ اور لسانی تنظیمیں کھڑی کیں۔ غیر جماعتی سیاست کی بنیاد رکھی۔ سیاسی عمل کو مقامی غنڈوں اور کاروباری نوسربازوں کے ہاتھ رہن رکھا۔ دنیا سرد جنگ ختم ہونے کے بعد نئی راہیں تراش رہی تھی اور ہم آنکھیں بند کئے سامری کے بچھڑے کی دم پکڑ کر اندھیروں کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ہم نے فروری 99ء میں فلاح کے دروازے پر اینٹیں برسائیں اور عقبی دروازے سے سامری کا بچھڑا صحن میں لا کھڑا کیا۔ ہم نے 14 مئی 2006 کو کھلنے والی کھڑکی کے پٹ اکھاڑ کر لیاقت باغ راولپنڈی کے باہر پھینک دیے اور سامری کا نیا بچھڑا تخلیق کیا جس نے آج پوری قوم کو سینگوں پر اٹھا رکھا ہے۔
کیا ہم نے بندگان درہم و دینار کو قطار اندر قطار سامری کے بچھڑے کو سجدہ کرتے نہیں دیکھا۔ کیا ہم نے اخبارات کے صفحات کو سامری کی مدح میں سیاہ نہیں کیا۔ کیا ہم نے ٹیلی ویژن سکرینوں پر سامری کی تخلیق کے قصیدے نہیں گائے۔ کیا ہم نے سوشل میڈیا پر جھوٹ کا بازار گرم نہیں کیا۔ کیا لمحہ موجود میں ہم سامری کے ازلی خدمت گاروں کو نئے دیوتاﺅں کی تلاش میں سرگرداں نہیں دیکھ رہے۔ فیض صاحب اپنے شعر میں بیان نہیں دیتے تھے، محض اشارہ کرتے تھے۔ “اس طرح ہے کہ پس پردہ کوئی ساحر ہے / جس نے آفاق پہ پھیلایا ہے یوں سحر کا دام”۔ اور دام بھی ایسا سخت کہ مہنگائی کے ہشت پا کی شرح 38 فیصد کا ہندسہ پار کر گئی اور ہم چوک چوراہوں میں سامری کے قصیدے گا رہے ہیں۔ بے شک ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور بے یقینی کے صحرا میں بھٹک رہے ہیں۔ شعور کا دیا بجھا دیا جائے تو ظلم کی تاریکی مقدر ٹھہرتی ہے۔
بشکریہ ہم سب
واپس کریں