وجاہت مسعود
کچھ حلقوں میں ان دنوں مزاحمتی ادب کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ غالباً تقاضا یہ ہے کہ ان احباب کے حالیہ سیاسی نقطہ نظر کی حمایت کی جائے۔ گویا تخلیقی عمل بھی کسی خانہ ساز لیڈر کی میز پر رکھی نیلی پیلی پنسلوں کا فرومایہ ڈھیر ہے جو کسی کاٹھ کے ارطغرل کی خواہش کے تابع حرکت میں آئے اور اس کے کاسہ سر کے خلائے بسیط میں اٹھتے ہذیانی بخارات کو جنبش کلک سے حسب ضرورت خد و خال میں ڈھالتا چلا جائے۔ اس تصور تخلیق کا دوسرا رخ یہ ہے کہ فنکار دربار کے روزن سے کان لگا کر کھڑا رہے اور اہل حکم کی ہر یاوہ گوئی کو قومی مفاد کی پامال دھن میں مرتب کر دے۔ اس موضوع پر مختصر گزارشات سے قبل تاریخ کی کچھ ورق گردانی ہو جائے۔
اکتوبر 1922 میں روم پر جعلی مارچ کر کے مسولینی وزیراعظم تو بن گیا لیکن اس کی خواہش مطلق العنان اقتدار کی تھی۔ جون 1923 میں اس نے آئین میں من مانی ترامیم کر کے ایسے انتخابی قوانین منظور کروا لیے جن سے اس کی دو تہائی اکثریت یقینی ہو گئی۔ اپریل 1924 کے انتخابات میں حسب توقع مسولینی بھاری اکثریت سے انتخاب جیت گیا۔ تاہم سوشلسٹ پارٹی کے رہنما جاکومو ماتیاوتی نے پارلیمنٹ میں سخت مزاحمت کی۔ ماتیاوتی کی تقریر اس قدر زوردار تھی کہ مسولینی بلبلا اٹھا۔ جاکومو ماتیاوتی کو اغوا کر کے قتل کر دیا گیا۔ اس قتل کی آڑ لے کر مسولینی کے لڑاکا دستوں (Squadrismo) نے ایسا قتل و غارت کیا کہ اٹلی میں مسولینی کا کوئی سیاسی مخالف باقی نہ رہا۔ عظیم مفکر گرامچی بھی داروگیر کی اس مہم میں گرفتار ہوا اور 1937 میں اپنی موت تک قید رہا۔ چند سال بعد مسولینی نے تسلیم کیا کہ ماتیاوتی اس کے حکم پر قتل ہوا تھا۔ اٹلی سے جرمنی کی طرف چلتے ہیں۔ جنوری 1933 میں سیاسی جوڑ توڑ کر کے ایڈولف ہٹلر جرمنی کا چانسلر تو بن گیا لیکن اسے مطلق اقتدار درکار تھا۔ 27 فروری 1933 کو جرمن پارلیمنٹ ’ریشتاغ‘ میں آگ بھڑک اٹھی۔ اس آتش زنی کو بنیاد بنا کر ہٹلر نے مطلق اختیارات حاصل کر لیے اور اپنی پارٹی کے مسلح جتھوں کی مدد سے تمام سیاسی مخالفین کو ملیامیٹ کر دیا۔ کئی برس بعد ہٹلر کے دست راست گوئرنگ نے اپنے زانو پر ہاتھ مارتے ہوئے اقرار کیا تھا کہ ریشتاغ میں اس نے آگ لگائی تھی۔ ایسا ہی واقعہ سوویت یونین میں پیش آیا۔ لینن کی موت کے بعد سٹالن نے حکومت تو سنبھال لی لیکن قدآور بالشیوک رہنماو?ں کی موجودگی میں اس کے آمرانہ عزائم ادھورے تھے۔ یکم دسمبر 1934 کو پولٹ بیورو کا رکن سرگئی کیروف قتل کر دیا گیا۔ کیروف کے قتل کی آڑ میں سٹالن نے ماسکو مقدمات کا سلسلہ شروع کیا اور کمیونسٹ پارٹی کی پوری قیادت قتل کر دی۔ پھر سیاسی کارکنوں، دانشوروں اور فوجی قیادت کے خلاف تطہیری مہموں کا سلسلہ شروع ہوا جن میں لاکھوں افراد قتل ہوئے۔ ان تینوں واقعات میں آمر کی حکومت کا ظہور ایک جیسے حالات میں ہوا اور مکمل آمریت کے سفر میں کسی ایک واقعے کا رونما ہونا بھی مشترک ہے۔ چین نواز دوستوں کی ناراضی کا اندیشہ ہے ورنہ بتاتا کہ اکتوبر 1949 میں ماﺅزے تنگ نے بھی اتحادی حکومت قائم کی اور پھر مختلف سازشوں کے ذریعے آمر مطلق بنا۔
جولائی 1936 میں رجعت پسند جنرل فرانکو نے بائیں بازو کے منتخب پاپولر فرنٹ کے خلاف بغاوت کی تو پورے یورپ سے حریت پسند جمہوریت کے نام پر خانہ جنگی میں حصہ لینے سپین پہنچ گئے۔ فرانکو کو بیک وقت مسولینی، ہٹلر، پوپ اور سٹالن کی درپردہ حمایت حاصل تھی۔ ایسی طاقت کے سامنے انٹرنیشنل بریگیڈ کے درماندہ سپاہی کیا بیچتے تھے۔ 1939 میں فرانکو سپین کا ڈکٹیٹر بن گیا۔ اگست 1944 میں جنرل ڈیگال فرانس کی آزادی کا رہنما بن کر واپس لوٹا۔ مختلف شہروں کا دورہ کرتے ہوئے جنوب میں فرانسیسی شہر طولوس پہنچا تو حسب معمول اسے نازی قبضے کی مزاحمت کرنے والے سرفروشوں کے ایک دستے نے سلامی دی۔ جگمگاتی وردی میں ملبوس ڈیگال پھٹی پرانی وردی پہنے ایک سپاہی کے سامنے رکا اور سرپرستانہ لہجے میں پوچھا ’جوان، تم جنگ مزاحمت میں کب شریک ہوئے؟‘ سپاہی نے آنکھ جھپکے بغیر کہا۔ ’جنرل صاحب، میں آپ سے بہت پہلے مزاحمت کر رہا تھا۔ میں سپین کی خانہ جنگی میں فرانکو سے لڑا‘۔ فرانکو کی مزاحمت کرنے والا اپنے ایقان کے سہارے لڑا تھا۔ ڈیگال نے تو میدان جنگ سے محفوظ فاصلے پر لندن میں بیٹھ کر مزاحمت کی تھی۔
تخلیقی عمل بذات خود ناانصافی اور بدصورتی کے خلاف مزاحمت کی انسانی میراث ہے۔ اس مزاحمت کے لئے سیاسی شعور کے دیدہ بینا کی ضرورت پڑتی ہے۔ سیاسی شعور کیا ہے، لمحہ موجود میں جائز اور ناجائز مفاد میں بنیادی تضاد سمجھنا، علم اور جہالت میں فرق کرنے کی بصیرت، فریب کی دیوار کے پار سچائی کی پہچان۔ تخلیق انسانیت کے سفر کا زاد راہ ہے۔ تخلیقی مزاحمت ایک مسلسل عمل ہے، سہولت کے مطابق پڑاﺅ ڈالنے اور ہوا کا رخ دیکھ کر لنگر اٹھانے کا نام نہیں۔ پاکستان میں مزاحمت کرنے والوں نے بابڑا میں قیوم خان اور لیاقت علی کے پبلک سیفٹی ایکٹ کے خلاف مزاحمت کی۔ ون یونٹ کے خلاف آواز اٹھائی۔ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کی مخالفت کی۔ ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا الحق اور مشرف کی مزاحمت ان کے لمحہ ورود میں کی۔ 1968، 1972، 1988 اور 2007 میں مزاحمت تو مال غنیمت پر جھپٹنے کا اشارہ ہوتا ہے۔ اس ملک میں تخلیقی بصیرت سے بہرہ مند اذہان نے 1979 میں افغان مداخلت سے لے کر طالبان تک ظلمت کی مزاحمت کی۔ عمران خان کی مخالفت تب کی جب وہ جنرل مجیب الرحمن اور حمید گل کی چھتری تلے ایدھی کو دھمکا رہے تھے۔ مشرف کے ریفرنڈم کی حمایت کر رہے تھے۔ شجاع پاشا، ظہیر السلام، قمر باجوہ اور فیض حمید کے انتخابی جھرلو سے مستفید ہو رہے تھے۔ روحانیت کے نام پر ملکی معیشت ڈبو رہے تھے۔ نوجوان نسل کو گالی دشنام کی تربیت دے رہے تھے۔ مزاحمت کرنے والی آنکھ آج بھی سیاسی غبار کے پار اقتدار کی حقیقی کشمکش پہچانتی ہے۔ تخلیق کار کسی برخود غلط مجاور کی ہدایت کا پابند نہیں۔
بشکریہ ہم سب
واپس کریں