وجاہت مسعود
’پاکستانی ادب میں مزاحمتی روایت‘ پڑھا رہا ہوں۔ حبیب جالب پر بات میانی افغاناں (ہوشیارپور) سے شروع ہوئی۔ ایوب خان کی آئینی عنایت پر لکھی نظم ’دستور‘ پڑھی گئی۔ گفتگو بے ارادہ سنجیدہ ہو رہی تھی۔ گزشتہ لیکچر میں فیروز الدین منصور پر فیض صاحب کا غزل نما مرثیہ ’تیرے غم کو جاں کی تلاش تھی۔‘ پڑھتے ہوئے استاد کی آواز بھرا گئی تھی۔ کچھ لمحے خاموش رہنا پڑا۔ استاد کے لیے جذبات سے مغلوب ہونا مناسب خیال نہیں کیا جاتا۔ اچھا استاد تو وہی ہے جو ایل پی ریکارڈ پر رکھی نصابی سوئی کی نوک تلے سرکاری پریس ریلیز (نوٹ: جدید ایڈیشن) خبرنامے کی طرح دہرا دے۔ طالب علم گویا مٹی کے برتن ہیں جن میں تاریخ کی چھاچھ اور تنقیدی شعور کے تطہیری عمل سے لاتعلق رہتے ہوئے منظور شدہ مکھن کی تہ جما دینا ہے۔ اس سے کیا غرض کہ یہ صدری نسخہ اٹھائے طالب علم رزم زندگی میں اتریں گے تو سطح طوفان پر تیرتا مکھن دھوپ کی پہلی کرن کی تاب نہیں لا پائے گا، زیر آب پلتے طوفانوں کی پیش بینی اور بحران کا تجزیہ نہیں کر سکے گا۔
پڑھانے والے نے تجمل حسین، کالا باغ، شاہ ایران اور نیلو کے مابین فروری 1965ء کی واردات سمیٹتے ہوئے حفیظ جالندھری کا قصہ چھیڑ دیا۔ جالندھری صاحب کی عظمت کے بیان پر طالب علم نامعلوم کیوں ہنسے جا رہے تھے۔ خیر ہمیں تو انہیں جالب کی نظم ’مشیر‘ تک لانا تھا۔ حفیظ جالندھری اور حبیب جالب کا مکالمہ بیان کر کے پہلی صف میں بیٹھی طالبہ کو کتاب پکڑا دی کہ وہ ’مشیر‘ پڑھ کر سنائے۔ فاطمہ نظم پڑھتے پڑھتے جب اس حصے پر پہنچی۔ ’بولتے جو چند ہیں، سب یہ شرپسند ہیں‘۔ میں نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔ یہ بندوق کے اختیار اور قلم کی مزاحمت میں کشمکش بیان کرنے کا موقع تھا۔ 16 جولائی 1946ء کو لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پانے والا سکندر مرزا 23 اکتوبر 1947ء کو پاکستان کا سیکرٹری دفاع بن چکا تھا۔ کشمیری نژاد قیوم خان تو سیاسی پیادہ تھا۔ 12 اگست 1948ء کو بابڑہ کے مقام پر پختونوں کے قتل عام کا منصوبہ گر سکندر مرزا تھا۔ 13 فروری 1953ء کو ایوب خان امریکی قونصل جنرل گبسن (Gibson) کو یقین دلا رہے تھے کہ صورتحال خراب ہونے پر فوج فوراً حکومت سنبھال لے گی۔ عین اس وقت وزیراعظم ناظم الدین کی موجودگی میں سیکرٹری دفاع سکندر مرزا لاہور میں متعین اعظم خان کو ڈانٹ رہے تھے کہ ہنگاموں میں مرنے والوں کو ’شہری‘ مت کہو بلکہ ’شرپسند‘ قرار دو۔ یہ ہماری تاریخ میں شاید پہلا موقع تھا کہ جو سرکاری گولی سے مارا جائے وہ ’شرپسند‘ ہے۔ غدار کا اعزاز لیاقت علی خان دستور ساز اسمبلی میں حسین شہید سہروردی کو عطا کر چکے تھے۔ اصول یہ طے پایا کہ جو مارا جائے وہ ’شرپسند‘ اور جو ابھی سانس لیتا ہو وہ ’غدار‘۔ فہرست گن جائیے۔ فاطمہ جناح، مولوی فضل الحق، عبدالغفار خان، عطا اللہ مینگل، ایوب کھوڑو، مجیب الرحمن، جی ایم سید، فیض احمد فیض اور ذوالفقار علی بھٹو۔ دلچسپ یہ کہ ایک روز غدار قرار پانے والا اگلے روز محب وطن بھی ٹھہرا۔
فضل الحق اور سہروردی تو پرانے قصے ہیں۔ 2011ء میں حسین حقانی غدار تھے اور پھر انہی کی دہلیز پر سجدہ سہو کیا گیا۔ سرکاری اعزازات میں ’بدعنوان‘ کا مقام بہت بلند رہا ہے۔ تماشا یہ کہ قوم بدعنوان کا مطلب ہی نہیں جانتی۔ غلام محمد، یحییٰ خان اور غلام اسحاق خان مالی طور پر نہایت دیانت دار تھے۔ تاریخ ان کی ’بدعنوانی‘ پر گواہ ہے۔ ایم آر ڈی کے کارکنوں کو ’سندھ کے ڈاکو‘ قرار دیا گیا۔ وزرائے اعظم کے لیے ایک خصوصی اصطلاح ’سکیورٹی رسک‘ اختیار کی گئی۔ یہ خطاب عطا کرنے والا ایک شخص آج فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا سامنا کر رہا ہے۔ ایک نے سپریم کورٹ میں کھلے بندوں توہین عدالت کا اعتراف کیا اور جواب دہی سے بے نیاز منہ اٹھائے کمرہ عدالت سے باہر آ گیا۔
جو قوم سو برس میں یہ نہیں سمجھ سکی کہ الحاد ایک فلسفیانہ موقف ہے اور سیکولرازم ایک سیاسی بندوبست ہے، اسے ایک نئی گالی سکھائی جا رہی ہے، ’لبرل‘۔ ان اصحاب علم سے پوچھنا چاہیے کہ انہوں نے تحریر یا تقریر میں یہ لفظ 2001ء سے پہلے کبھی استعمال کیا؟ ہم نے ایک ہی گروہ کو مجاہدین، وار لارڈ اور پھر طالبان میں بدلتے دیکھا۔ برسوں دہشت گردی کی تعریف پر سر پھٹول رہی۔ اب ہر سیاسی مخالف ’دہشت گرد‘ ہے سوائے اس کے جو سجدہ تعظیمی بجا لائے۔ کل تک سوشل میڈیا ہی پر ففتھ جنریش وار فیئر لڑی جا رہی تھی۔ آج سوشل میڈیا ’انتشاری‘ ہو گیا۔ طالبان کی مخالفت کرنے والے ’خونی لبرل‘ کہلاتے تھے، اب ’فتنہ الخوارج‘ کا چرچا ہے۔ کبھی الطاف حسین ’پیر صاحب‘ تھے، پھر راتوں رات کوئی نام لیوا نہ رہا۔ آصف زرداری کی ذاتی زندگی کے قصے گھڑنے والا خود اپنے گھر سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ ہم ایک سادہ اصول کیوں نہیں سمجھ لیتے۔ قوم کی سمت نعروں سے نہیں، پالیسی سے متعین ہوتی ہے اور پالیسی قوم کے دستوری بندوبست سے استحکام پاتی ہے۔
گیانیوں نے کہا ہے کہ اس بے چہرہ ہجوم سے خوف کھانا چاہیے جو چوراہے پر سرخ بتی اور دستور میں آرٹیکل 6 کو یکساں طور پر بے وقعت سمجھتا ہو۔ جو ہر ہنگامے کو انقلاب قرار دیتا ہو۔ جو ایٹم بم کو کسی بدقماش کے نیفے میں اڑسا ہوا خنجر سمجھتا ہو۔ جو اخبار کے کالم کو رائے عامہ گمراہ کرنے کے لیے استعمال کرتا ہو۔ جو آئی ایم ایف سے قرض مانگتے ہوئے اسی ادارے کے فیصلہ سازوں کو دشمن قرار دیتا ہو۔ اس مشتعل انبوہ سے ڈرنا چاہیے جسے یہ خبر نہ ہو کہ ایران سے گیس پائپ لائن، چین کے ساتھ سی پیک اور امریکا سے امداد کا خواب بیک وقت پورا نہیں ہو سکتا۔ اس بے خبر گروہ سے ڈرنا چاہیے جسے سویڈن کی عدالت کے فیصلے کی خبر نہ ہو اور جو زیر حراست ملزم کو سرکاری اسلحے سے قتل کر کے جشن مناتا ہو۔ انہیں حبیب جالب نہیں، ویکلاف ہیول کا ڈرامہ ’یادداشت‘ (Memorandum) پڑھانا چاہیے۔ سرکار دربار سے گھڑی ہوئی لغت میں قوم کا بیانیہ دہرانے والوں کی عقل کمزور، سیاست مفلوج اور معیشت تباہ ہو جاتی ہے۔
بشکریہ ہم سب
واپس کریں