وجاہت مسعود
محض ماہ و سال کا حساب ہوتا تب بھی اکرام اللہ لمحہ موجود میں بزرگ ترین اردو فکشن نگار قرار پاتے۔ اسد محمد خان 1932ء اور محمد سلیم الرحمن 1934ء میں پیدا ہوئے تھے۔ اکرام اللہ جنوری 1929ء میں جالندھر کے قصبے جنڈیالہ میں پیدا ہوئے۔ 1961ء میں اکرام اللہ کی پہلی کہانی ’اتم چند‘ ادب لطیف میں شائع ہوئی تو ان کے رنگ تحریر پر منٹو کا گہرا اثر تھا۔ موضوع اور اسلوب کے اعتبار سے اکرام اللہ کی یہ کہانی ’کھول دو‘ کا سایہ معلوم ہوتی تھی مگر پھر لکھنے والے نے قدم جما کر سفر شروع کیا اور اپنا لہجہ دریافت کیا۔ اس دوران جولائی 1977ء میں وطن کی گلیوں میں ’گرگ شب‘ نکل آیا۔ ’ماؤں نے اپنی گود میں بچے چھپا لیے‘۔ جواں سال اپنے خواب سر پر اٹھائے عقوبت خانوں کی غلام گردشوں میں گم ہو گئے۔ بہت سے دیس چھوڑ گئے۔ سہاگنوں کے بال چاندی ہو گئے۔ مسافر راستہ بھول گئے۔
وبا کے اس موسم میں اکرام اللہ نے ایک کہانی لکھی ’سیاہ آسمان‘۔ ایک شخص کسی جاننے والے کے مانوس مکان میں ملنے جاتا ہے مگر گردشی سیڑھیاں ایک آزمائش بن جاتی ہیں۔ ختم ہونے میں نہیں آتیں۔ یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اوپر جا رہا ہے یا نیچے اتر رہا ہے۔ جہاں تک آ گیا ہے کیا اس سے آگے بھی کچھ زینے باقی ہیں۔ ایسا تو نہیں کہ واپسی کا راستہ ہی اوجھل ہو گیا ہو۔ پورے چاند کی رات میں آسمان کا رنگ سیاہ کیوں ہو گیا۔ اکرام اللہ کو یہ کہانی لکھے آدھی صدی گزر گئی۔ میں یہ کہانی پھر سے پڑھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ یہ بلیغ استعارہ محض جولائی 77ء کے سپاہ گروں، ملاؤں، سیاسی مسخروں اور قلم فروشوں کے ٹولے کی کہانی نہیں، ہم نے اس اندھیرے کنویں میں اترتی سیڑھیوں پر بہت پہلے زوال کا سفر شروع کیا تھا۔ اب تو سیڑھیوں کی تعداد بھی یاد نہیں اور اندھیرا ہے کہ گہرا ہی ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ضرور ہوا کہ پون صدی کی اس اترائی میں کچھ زینوں پر لگنے والی تکلیف دہ ٹھوکریں یاد رہ گئی ہیں۔
ہمارے شاعر نے ’یہ داغ دار اجالا‘ لکھ کر طعن و دشنام کو دعوت دی تھی تو کون جانتا تھا کہ نقلی خواب فروشوں کی بھیڑ میں کتنے گرہ کٹ اور امیر علی ٹھگ بھیس بدل کر شامل ہو گئے ہیں۔ انگریز بہادر کی تربیت یافتہ سپاہ جس کا آزادی کی لڑائی میں کوئی کردار نہیں تھا، ساؤتھ بلاک کے کمروں میں آزادی کی راہ کھوٹی کرنے والے بابو لوگ، سیاست کے نام پر فسادات کی آگ بھڑکا کر اپنا گھر بھرنے والے لٹیرے، مذہب کے نام پر نئے ملک میں جعلی حق شفع دائر کرنے والے جبہ فروش اور یونینسٹ پارٹی کے قدیمی خدمت گار۔ پہلے ہی زینے پر آزادی کے مجاہد غدار ہو گئے، جمہور کی محکومی پر مہر لگ گئی اور زینے کے دونوں طرف کا حفاظتی جنگلہ منہدم ہو گیا۔ پچاس کی دہائی کے ابتدائی برس ٹوٹتی بنتی وزارتوں، مفلوج اسمبلیوں اور ون یونٹ سے ہوتے ہوئے ری پبلکن پارٹی تک پہنچے۔ ون یونٹ وفاق پاکستان کی موت کا اعلان تھا اور ری پبلکن پارٹی سیاست کے نام پر نوٹنکی کا آغاز۔
اکتوبر 1958ء میں ایوب خان نے بساط لپیٹ دی۔ یہ محض مارشل لا نہیں تھا ایک پوری سیاسی نسل کی اجتماعی تدفین تھی۔ اکتوبر 1958ء میں شروع ہونے والا ظلم ٹھیک تیرہ برس بعد ایک دھندلے کتبے پر ختم ہوا جس پر 16 دسمبر 71ء کی تاریخ کندہ تھی۔ جنازہ اٹھانے والوں کے چہرے شام کے دھندلکے میں پہچانے جا سکتے تھے لیکن ان کے عقب میں گھات لگائے نقاب پوش کردار راؤ فرمان علی پر کسی کی نظر نہیں پڑی جو تیرہ برس تک مشرقی پاکستان کے سیاہ و سفید کا مالک رہا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے چھ برس بعد جولائی 1977ء میں جمہوریت کے لڑکھڑاتے خواب پر شب خون مارا گیا تو لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی پر کسی کی توجہ نہیں گئی جو دسمبر 1971ء سے ستمبر 78ء تک قوم کے خلاف ہر جرم کا حقیقی معمار تھا۔ قوم گھپ اندھیرے میں جنرل مجیب الرحمن کی ’نظریاتی‘ آواز پر غلام جیلانی کے کھودے ہوئے گڑھے میں اترتی رہی۔ 1985ء میں اشتراک اقتدار کے نام پر جو تختہ تیار کیا گیا اس میں غیر جماعتی انتخابات، آٹھویں آئینی ترمیم نیز ذات پات کی جہالت میں لتھڑی ناجائز پیسے کی سیاست سے چونا گری کی گئی تھی۔
15 برس بعد فروری 1999ء میں اعلان لاہور ہوا تو کارگل کی مہم جوئی سے ایک صدی میں نمودار ہونے والا منفرد موقع گنوا دیا گیا۔ 1971 ہو یا 1977ء، 1985ء ہو یا 1999ء جماعت اسلامی اندھیرے گاؤں میں نقب زنوں کا تعاقب کرنے والوں کی وہ لالٹین تھی جو عین وقت پر گُل ہو جاتی ہے۔ 2001ء میں قوم کے لیے آج کی دنیا سے قدم ملانے کا ایک موقع پیدا ہوا تھا جو طالبان کا ہاتھ پکڑ کر دنیا کو دھوکہ دینے میں ضائع ہو گیا۔ 70 ہزار سے زائد جانیں گنوائیں۔ معیشت کی بدھیا بیٹھ گئی۔ قومی وقار دو کوڑی کا رہ گیا اور مشرقی سرحد کی دہائی دینے والے مغربی سرحد کے خاردار جال میں جا پھنسے۔ بچے کھچے سیاست دانوں پر زبان دشنام دراز کرنے والوں نے میثاق جمہوریت، کیری لوگر بل اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کی سزا دینے کے لیے قوم کو کاٹھ کی ہنڈیا میں ڈال کر پراجیکٹ عمران کے کوئلوں پہ رکھ دیا۔ دائرے میں گھومتی سیڑھیوں کا سفر اس قدر طویل ہو گیا کہ ریاست کی عمل داری مفلوج ہو گئی۔ معیشت کا راستہ سیاہ آسمان تلے گھنے جنگلوں میں کھو گیا۔ آگے کی طرف قدم بڑھانے کی کیا صورت ہو کہ راستہ دکھانے والوں کی فرد جرم بغیر مقدمہ چلائے نوشتہ تقدیر ہو چکی ہے اور اندھیرے کنویں میں زوال کے اس سفر میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔ اب یہ سیڑھیوں کا سفر نہیں، ڈھلان پر لڑکھنے کا مرحلہ ہے۔ کوئی ہے کہ کنویں کے دہانے کی طرف منہ اٹھا کر دستور کی رسی کو آواز دے۔ جرم اور سازش کی سیڑھیوں پر واپسی کا راستہ نہیں ہوا کرتا۔ دستار کی چادر کمر میں باندھ کر دستور کی رسی کا سہارا لیں تو شاید آسمان پر گھرے سیاہ بادلوں کا جادو ٹوٹ سکے۔
بشکریہ ہم سب
واپس کریں