وجاہت مسعود
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ دلچسپ شخصیت ہیں۔ سیاست کی ابتدائی منزلیں پیپلز پارٹی کے ساتھ طے کیں۔ 1993 میں مسلم لیگ (نواز) میں شامل ہو گئے۔ پرویز مشرف کی آمریت میں بدترین ایذا رسانی کا نشانہ بنے۔ قریب ڈیڑھ دہائی بعد عمران خان کی یک ورقی حکومت نمودار ہوئی تو محترم ثنااللہ یکم جولائی 2019 کو منشیات کیس میں گرفتار کئے گئے۔ یہ ابتلا 26 دسمبر 2019 کو ضمانت پر رہائی تک جاری رہی۔ دسمبر 2022 میں رانا صاحب بالآخر اس مقدمے میں بری کر دیے گئے۔ مورخ ورق الٹتا ہے۔ ہماری تاریخ کے بیشتر برسوں کی طرح 2013 بھی ایک عبرتناک برس تھا۔ مئی 2013 میں عام انتخابات ہونا تھے۔ 2008ء کے بعد طے پانے والے غیر علانیہ روڈ میپ کے عین مطابق منتخب حکومت کی میعاد مکمل ہونے سے ایک برس قبل وزیر اعظم تبدیل کیا جا چکا تھا۔ یہ تمثیل بعد ازاں جولائی 2017 اور پھر اپریل 2022 میں بھی دہرائی گئی۔ 2013 کے فروری میں عامر میر نے ’دی نیوز‘ میں ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ لب لباب یہ تھا کہ پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ نامی کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنا چاہتی ہے لیکن پنجاب میں وزیراعلیٰ شہباز شریف حیل و حجت سے کام لے رہے ہیں۔ وجہ یہ تھی کہ مسلم لیگ نے ان کالعدم تنظیموں کی نام نہاد سیاسی قیادت کے ساتھ انتخابی سمجھوتہ کر لیا تھا۔ اس کا ناقابل تردید ثبوت یہ تھا کہ رانا ثنااللہ اور مولوی احمد لدھیانوی انتخابی مہم میں شانہ بشانہ دیکھے جاتے تھے۔ گویا رانا ثنااللہ کو وہی کردار سونپا گیا تھا جو برسوں بعد تحریک انصاف نے کالعدم تحریک طالبان کے ضمن میں علی امین گنڈا پور کے سپرد کیا تھا۔
ان دنوں انتخابی رت کی آمد آمد ہے۔ خبر ہے کہ رانا ثنااللہ اور ایاز صادق نے تحریک لبیک پاکستان سے باقاعدہ مذاکرات کئے ہیں جن میں اہانت مذہب کے قوانین کو مزید سخت کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔ رواں برس جنوری میں قومی اسمبلی نے ایک متفقہ مسودہ قانون منظور کیا تھا۔ اس مسودہ قانون کے مطابق اہانت مذہب کے قوانین کا دائرہ کار بڑھایا گیا تھا نیز کچھ مبینہ جرائم کو ناقابل ضمانت قرار دے کر ممکنہ سزا کو تین برس کی بجائے عمر قید میں تبدیل کیا گیا تھا۔ اس ملک میں اہانت مذہب کے قوانین پر بحث مباحثہ قریب قریب ناممکن ہو چکا ہے کیونکہ درجنوں مبینہ ملزموں کے ماورائے عدالت قتل کے علاوہ پنجاب کے گورنر اس الزام میں قتل ہو چکے ہیں۔ ایک ملزم کو بری کرنے پر لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج عارف اقبال بھٹی کی جان لی گئی۔ وفاقی وزیر شہباز بھٹی کو بارہ برس قبل قتل کیا گیا۔ ملزم کا دفاع کرنے پر ملتان میں راشد رحمن ایڈووکیٹ کو شہید کیا گیا۔ 80ء کی دہائی میں اہانت مذہب کے قوانین میں تبدیلی کی علمبردار آپا نثار فاطمہ کے صاحبزادے احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ سابق وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کو وزارت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ موجودہ وفاقی وزیر جاوید لطیف بھی مشتعل ہجوم کے ہاتھوں مضروب ہوئے۔ بہاولپور کے صادق ایجرٹن کالج کا استاد اپنے طالب علم اور خوشاب کا بینک منیجر اپنے سکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے۔ سیالکوٹ میں سری لنکا کا شہری ہو یا داسو پاور پراجیکٹ پر مامور چینی انجینئر، کوئی بھی اس ’برمودا تکون‘ سے محفوظ نہیں رہا۔ ایسے میں رانا ثنااللہ چند ووٹوں کے لیے قانون میں مزید الجھاﺅ پیدا کرنا چاہتے ہیں تو یہی عرض کی جا سکتی ہے۔ ’پھر بھی کرتے ہیں میرؔ صاحب عشق/ ہیں جواں، اختیار رکھتے ہیں‘۔
ایک نظر تحریک لبیک کی نمود پر ڈال لیتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے سابق ارکان تو جانتے ہیں کہ 2017 کے موسم سرما میں کس صاحب اختیار نے تحریک لبیک کی تخلیق کا اقرار کیا تھا۔ تحریک لبیک کی بنا مارچ 2016 میں رکھی گئی۔ 26 جولائی 2017 کو اس جماعت کو الیکشن کمیشن میں باقاعدہ رجسٹر کر کے انتخابی نشان الاٹ کیا گیا۔ میاں نوازشریف کو ٹھیک ایک روز بعد 27 جولائی کو پانامہ مقدمے میں نااہل قرار دیا گیا۔ نواز شریف کی خالی نشست پر 17 ستمبر 2017 کو حلقہ این اے 120 کے ضمنی انتخاب میں مرحومہ کلثوم نواز شریف کے مقابلے میں تحریک لبیک نے سات ہزار ووٹ لیے تھے۔ ایک ماہ بعد اکتوبر 2017 میں تحریک لبیک نے فیض آباد راولپنڈی میں دھرنا دے کر حکومت مفلوج کر دی ۔ یہ وہی دھرنا تھا جس کے اختتام پر شرکا کو ایک ایک ہزار روپے تقسیم کئے گئے تھے۔ اکتوبر 2021 میں عمران خان کی ون پیج حکومت اور اس کے تخلیق کاروں میں اختلافات نمودار ہوئے تو تحریک لبیک پھر بروئے کار آئی۔ یاد رہے کہ اس دھرنے کو ختم کرنے کے لیے فیصلہ کن مذاکرات جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ، عقیل ڈھیڈی اور مفتی منیب الرحمن میں ہوئے تھے۔
پاکستان میں اہانت مذہب قوانین کے ناجائزاستعمال کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ ماتحت عدلیہ میں ملزمان کو سو فیصد سزا دی جاتی ہے۔ ماضی میں ہائیکورٹ نے اکا دکا ملزمان بری کئے لیکن ماضی قریب میں معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا۔ 2021 میں 84 افراد کے خلاف ایسے مقدمات قائم ہوئے جن میں سے 45 مسلم شہری تھے ۔ رواں برس میں 10 مئی تک ان قوانین کے تحت 57 مقدمات درج ہو چکے ہیں۔ ان قوانین سے حکومت کی رٹ ’موئے آتش دیدہ ‘میں بدل چکی ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کا تاثر مجروح ہوا ہے ۔ شہریوں میں عدم تحفظ پھیلا ہے۔ نظام عدل کی ساکھ پر گہرے سوال اٹھے ہیں۔ ایسے میں اگر رانا ثنااللہ سمجھتے ہیں کہ قوانین میں اصحاب زہد و اتقا کے حسب منشا تبدیلیاں کر کے اس آتش فشاں کو سرد کیا جا سکتا ہے تو درویش میں اختلاف کی تاب نہیں۔ نازک مزاج شاہاں تاب سخن ندارد۔ البتہ رانا صاحب کی عنایت خسروانہ پر میرا بائی کا ایک بھجن عرض کیا جا سکتا ہے۔
وش کا پیالہ رانا جی نے بھیجا
پیوت میرا ہانسی رے
بشکریہ ہم سب
واپس کریں