وجاہت مسعود
اقبال کی عظمت سے کوئی کور مادر زاد ہی انکار کرے گا الا یہ کہ سنہ 1978 ہو، ضیا الحق کا عہد بے اماں ہو، اسلامی نظام کے نام پر قوم کا مردہ خراب ہو رہا ہو اور ہفت روزہ ’زندگی‘ میں عبدالغنی فاروق نامی کسی صحافی کی ایک تحریر اس مضمون کی شائع ہو کہ علامہ اقبال کے کلام سے مسلمہ دینی عقائد کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں لہذا نصاب سے اقبال کی نظمیں خارج کر کے نونہالان قوم کو نعیم صدیقی کے کلام معجز نظام سے ہدایت کیا جائے۔ ظالم نے بال جبریل کی بہترین غزل ’اگر کج رو ہیں انجم، آسماں تیرا ہے یا میرا‘کا حوالہ دیا تھا مگر ملائے مکتب کے دل میں اقبال کے وہ اشعار کھٹکتے ہیں جہاں شاعر نے جبر سلطانی، جہل ملائیت اور خانقاہی شعبدہ بازی کے بخیے ادھیڑے ہیں۔ آج کا عنوان ارمغان حجاز کے ایک ایسے ہی نشتر سے ماخوذ ہے…. باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری / اے کشتہ سلطانی و ملائی و پیری۔ آج قوم بیک وقت کئی ہنگامی صدمات سے جونجھ رہی ہے۔ دو مسودہ ہائے قانون کی منظوری دھند آلود ہونے سے ایوان صدر کا وقار مجروح ہوا ہے۔ جڑانوالہ میں ایک مشتعل ہجوم نے مسیحی عبادت گاہوں اور گھروندوں کو نذر آتش کیا ہے۔ اہل نظر اس سازش کے تار و پود میں گندھے سیاسی عوامل دیکھ سکتے ہیں۔ ادھر خیرپور کی خانقاہ غوثیہ کے مجاوران موسوم بہ پیر آف رانی پور پر ایک کمسن ملازمہ کے قتل اور دیگر سنگین الزامات ہیں۔ گویا سلطان، ملا اور پیر کی تیرہ و تاریک تکون کے تینوں زاویوں میں تزلزل پایا جاتا ہے۔ آئیے تاریخ کی بازخوانی کریں۔
22 جنوری 1952 کو کراچی میں نواب آف جونا گڑھ کی بڑی بیگم منور جہاں غسل فرما رہی تھیں۔ پچاس سالہ فربہ اندام بیگم صاحبہ کی حسن افزودگی پر تین کنیزین مامور تھیں۔ اچانک بیگم صاحبہ کے چہرے پر جلال نمودار ہوا اور انہوں نے چیخ کر کہا کہ کسی نامراد نے ان کا غسل خانہ استعمال کرنے کی جسارت کی ہے۔ بانو بیگم نامی 13 سالہ کمسن کنیز ملازمہ ملزم ٹھہری۔ بیگم صاحبہ نے منہ چڑھی ملازمہ اللہ رکھی کو حکم دیا کہ بانو بیگم کو زنجیروں سے باندھ کے اس کے نازک اعضا میں مرچیں بھر دی جائیں اور خوب پیٹا جائے۔ نادر شاہی حکم سنا کر منور جہاں ریس کلب تشریف لے گئیں۔ شام ڈھلے لوٹیں تو مظلوم بانو ابھی سانس لے رہی تھی اور پانی مانگ رہی تھی۔ منور جہاں نے اسے ٹھوکروں اور ڈنڈوں پر رکھ لیا۔ تشدد سے اس معصوم کی جان نکل گئی۔ راتوں رات بانو بیگم کی لاش دفن کر دی گئی۔ 28 جنوری کو پولیس منور جہاں بیگم کو گرفتار کرنے پہنچی تو سرکار پاکستان سے 3000 ڈالر ماہانہ وظیفہ پانے والے نواب مہابت خان کے ہاں ضیافت جاری تھی۔ پولیس کو دیکھ کر بیگم منور جہاں نے فرمایا۔ ’جونا گڑھ میں 500 کنیزیں اور غلام میرے رحم و کرم پر تھے اور یہاں ایک لونڈیا قتل کرنے پر میری شان میں گستاخی ہو رہی ہے‘۔ بیگم جونا گڑھ اور ان کے کئی ملازمین گرفتار ہو گئے۔ (تعجب ہے کہ بیگم صاحبہ کو اسلام آباد کے سول جج عاصم حفیظ جیسی طاقت میسر نہیں تھی جو پانچ بار طلبی کے باوجود جے آئی ٹی میں پیش نہیں ہوا۔) کراچی جیل میں بیگم صاحبہ کو ریڈیو اور برقی پنکھے سے آراستہ دو کمرے دیے گئے۔ کنیزوں اور مرد ملازم کے علاوہ دو رشتہ دار خواتین بھی دل جوئی کے لیے موجود تھیں۔ فروری 1953 میں سندھ چیف کورٹ کے جسٹس محمد بچل نے سماعت شروع کی تو بیگم صاحبہ دیوان پر نیم دراز تھیں۔ سماعت کے بعد فیصلہ ہوا کہ بیگم جونا گڑھ سزا کی مستحق ہیں۔ تاہم وہ اعلیٰ سماجی رتبے کی حامل ہیں۔ انہیں تابرخواست عدالت قید کی سزا دے کر رہا کر دیا جائے۔ آج پیپلز پارٹی کا امتحان ہے کہ رانی پور کے چہیتے پیرزادوں پر اب بھی دست شفقت رکھا جائے گا؟
جڑانوالہ سانحہ اس حقیقت کا اعادہ ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں مذہبی سیاست کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مشتعل ہجوم کو آتش زنی اور لوٹ مار کا سامان کیسے بہم پہنچتا ہے۔ نمائشی اشک شوئی سے قطع نظر جاننا چاہیے کہ اکتوبر 2021 میں آٹھ پولیس اہلکار مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ اس وقت کی حکومت کہاں تھی۔ اسلام آباد میں معاہدے کے دستخط کنندگان اس معاملے میں کیونکرفریق تھے۔ شنید ہے کہ اب ان صاحبان کا نام لینا روا قرار پایا ہے جنہوں نے نومبر 2017 میں شاہد خاقان حکومت کے احکامات ماننے سے انکار کر دیا تھا نیز فیض آباد دھرنے کے شرکا میں رقم بانٹی تھی۔تاہم اب ان کا نام کیا لینا کیونکہ پنجاب کی نگران حکومت جڑانوالہ کے گرفتار ملزمان کے نام ظاہر کرنے سے گریزاں ہے۔ چیف جسٹس (ر) تصدیق حسین جیلانی نے 19 جون 2014 کو جو تاریخی فیصلہ دیا تھا اس پر قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے سے اٹھنے والی گرد جم گئی ہے۔ کالعدم تحریک طالبان کی وطن دشمنی تسلیم لیکن ہم نے 19 دسمبر 2017 کو جن قوتوں کو بڑے دھارے میں لانے کا اعلان کیا تھا وہ تحریک طالبان سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوں گی کیونکہ سیاسی قوتوں میں داخلی اشتعال انگیزی کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کا معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچ گیا۔ زیر سماعت معاملے پر رائے زنی ممکن نہیں۔ البتہ اس افراتفری میں ہمیں یاد نہیں رہا کہ مجوزہ قوانین کے تحت سیاسی قوتوں کے لیے زمین مزید تنگ ہو جائے گی۔ شہری آزادیوں پر کڑی ضرب لگے گی اور ملک کا معاشی مفاد بری طرح مجروح ہو گا۔ امریکا میں Gore Vidal نامی ایک صاحب گزرے ہیں جو امریکی جمہوریت کی خامیوں پر کڑی تنقید کرتے تھے۔ وڈال کی موت کے بعد The United States of Amnesia (ریاست ہائے متحدہ فراموشی) کے عنوان سے ایک دستاویزی فلم بنائی گئی۔ اس فلم میں وڈال کا ایک مکالمہ قابل توجہ ہے۔
I don’t write about victims so much as I write about the people who have power, who exert the power, and who use the power against other people.
(مجھے مظلوموں کا ماتم نہیں کرنا۔ میں ان سے مخاطب ہو نا چاہتا ہوں جو اقتدار کے مالک ہیں اور اس اختیار کو عوام کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔)
کیا ہم میں بھی ایسی آئینہ ضمیری موجود ہے یا وہ بھی مجوزہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں دفن ہو چکی۔
بشکریہ ہم سب
واپس کریں