وجاہت مسعود
مرحوم احمد شاہ پطرس بخاری کے مضمون ’مرید پور کا پیر‘ کو ان کا بہترین فن پارہ نہیں کہہ سکتے۔ اس لیے کہ اردو مزاح کی بائبل ’پطرس کے مضامین‘ میں کل گیارہ تحریریں ہیں اور کسی ایک تحریر کو بہترین قرار دینا اعتراف بدذوقی کے مترادف ہے۔ یوں ہے کہ اوائل اپریل میں پڑنے والی اماوس کی کسی رات کے شانت آسمان پر جھرمٹ کی صورت گیارہ ستارے ٹنکے ہیں۔ ایسے مختصر زاد راہ کے ساتھ ادب میں ایسا بلند مقام پانا پطرس ہی کا حصہ تھا۔ بیسویں صدی میں اچھی اردو نثر کا شاید ہی کوئی نمونہ ایسا ہو جس پر رتن ناتھ سرشار کے فسانہ آزاد کے ابتدائی صفحات اور پطرس کے مضامین کی چھوٹ نہ پڑتی ہو۔ ’مرید پور کا پیر‘ میں ایک جملہ سو برس پہلے کی سیاسی ثقافت کا بہترین خلاصہ ہے۔’کچھ عرصے بعد خون کی خرابی کی وجہ سے ملک میں جابجا جلسے نکل آئے جس کسی کو ایک میز، ایک کرسی اور گلدان میسر آیا، اسی نے جلسے کا اعلان کر دیا‘۔ یاد رہے کہ ہماری تاریخ کا یہ عشرہ تحریک خلافت، ستیہ گرہ، شدھی، تبلیغ، مجلس احرار اور خاکسار تحریک سے عبارت تھا۔ کوئی پون صدی بعد پاکستان میں صحافت پر بھی کچھ ایسی ہی واردات گزری۔ جسے ایک کیمرہ، چار کرسیاں اور خیبر میل کی رفتار سے بولنے والا کوئی نیم پختہ خربوزہ یا میرٹھ کی کوئی قینچی میسر آئی اس نے ایک ٹیلی ویژن چینل کھول لیا۔ الیکٹرانک میڈیا کی آمد سے کچھ صحافیوں کو فائدہ پہنچا، صحافت کی لٹیا ڈوب گئی اور سیاست جلسہ گاہ کی وسعتوں سے ٹیلی ویژن سکرین پر منتقل ہو گئی۔ سچ جھوٹ کا حال خدا جانتا ہے کیونکہ یہ کار سیاست کی ڈوریاں ہلانے والوں اور میڈیا مالکان کا زیر زمین معاملہ ہے۔
ان مباحثوں کو’ٹاک شو‘ کہا جاتا ہے اور شرکا کی تین قسمیں ہیں۔ سیاسی جماعت کی ترجمان شخصیات جو شام ہوتے ہی مخصوص لباس زیب تن کر کے درشنی جھروکے میں آ بیٹھتی ہیں، جانے کب دے دے صدا کوئی حریم ناز سے۔ دوسری صف میں واضح سیاسی جھکاﺅ کے حامل صحافی یا تازہ سازشی پلندا بغل میں دبائے بزرجمہر جنہیں سینئر تجزیہ کار کہا جاتا ہے، تیسرے خانے میں دفاعی تجزیہ کار کی تختی زیب گلو کر کے ڈھائی قدم کی چال چلنے والے ازکار رفتہ ہنرمند جلوہ دیتے ہیں۔ 2019ءمیں بندہ درویش نے ان ملکوتی ہستیوں کو ’قدوسی صاحب کی بیوگان‘ کا خطاب دیا تھا کیونکہ بوجوہ فارسی کا وہ محاورہ استعمال نہیں کر سکتا تھا جس میں ’پیر شود‘ کی بھلی سی ترکیب شامل ہے۔ علم مسہری میں درک رکھنے والی نیلی بار کی ان نجیب الطرفین اجناس میں گاہے گاہے طلب و رسد کا بحران پیدا ہوتا ہے تو گودام سے کسی قدر ارذل درجے کا مال بھی آواز دے کر طلب کیا جاتا ہے۔ آپ کا نیاز مند انہی ’بکار آید‘ صحافیوں میں شمار ہوتا ہے۔ اگلے روز ایک مباحثے میں بندہ بے مایہ حاضر ہوا۔ شرکا میں تحریک انصاف کے حامی ایک صاحب اور ایک خاتون بھی شامل تھے۔ دونوں محترم تجزیہ کاروں نے جمہوریت، انتخابی شفافیت، قانون کی عمل داری اور بنیادی شہری حقوق پر ایسے قاطع دلائل دیے کہ ’اکبر خوشی سے پھول گیا‘۔ فروری 2018ءکی ایک پھیکی شام یاد آئی۔ لاہور کے ایک چائے خانے میں ناچیز کسی سرکاری افسر کے ساتھ بیٹھا تھا۔ ہوا میں تعزیت کی تاثیر تھی۔ مہربان دوست نے کسی قدر دبے لہجے میں اس وقت کے نادیدہ سالار قوم کے کچھ فرمودات بتا کر گہرے ملال میں کہا، ’بس یہ کسر باقی ہے کہ براہ راست مارشل لا کا اعلان نہیں کیا۔ باقی سب بلائیں تو تمام ہو چکیں’۔
درویش نے بوجھل دل سے ایک کالم لکھا جو 24 مارچ 2018ءکو اسی ادارتی صفحے پر ’ تری نازکی سے جانا….‘کے عنوان سے شائع ہوا۔ اپنی تحریر کا حوالہ دینا بدذوقی ہے۔ پھر بھی ایک مختصر اقتباس دیکھ لیجیے۔ ’جب فرد اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کرتا ہے اور اس کا متعلقہ ادارہ اس کی پشت پناہی کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں جو تاریخ مرتب ہو گی، وہ صرف فرد کے کھاتے میں لکھی جائے گی یا اس کی ذمہ داری ادارے پر بھی آئے گی؟ ہم ریاست کے وفادار شہری ہیں۔ اپنے اداروں سے عناد پالنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے مگر جب کوئی ایسی ہستی‘ فری اینڈ فیئر الیکشن’ کرانے کا عزم ظاہر کرتی ہے، جسے آئین نے یہ ذمہ داری ہی نہیں سونپی تو میر تقی میر یاد آ جاتے ہیں! چشم خوں بستہ سے کل رات لہو پھر ٹپکا‘۔
عالمی جنگ کے بعد 73 سالہ کانریڈ ایڈنائر (Konrad Adenauer) 15 ستمبر 1949ءکو جرمنی کا پہلا چانسلر منتخب ہوا۔ ایڈنائر نے نازی اقتدار میں گیارہ برس قید کاٹی تھی۔ اس کا زندہ بچ رہنا معجزے سے کم نہیں تھا۔ اگلے چودہ برس میں ایڈنائر نے جرمن معیشت کو صحیح سمت دی نیز جمہوری اقدار کو فروغ دے کر جرمنی کو اقوام عالم میں قابل احترام مقام دلایا۔ 15 اکتوبر 1963ءکو 87 برس کی عمر میں ایڈنائر نے چانسلر کے عہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تو پارلیمنٹ میں ان کے شدید ترین سیاسی مخالف نے الوداعی تقریر کرتے ہوئے کہا۔ ’چانسلر ایڈنائر آپ نے مئی 1954ءمیں ناٹو کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا تو میں نے آپ کی مخالفت کی۔ آپ درست تھے اور میں غلط۔ 1957ءمیں آپ نے یورپین اکنامک کمیونٹی کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا تو میں نے مخالفت کی۔ آپ درست تھے اور میں غلط۔ جنوری 1963ءمیں آپ نے فرانس سے دوستی کا معاہدہ کیا تو میں نے مخالفت کی۔ آپ درست تھے اور میں غلط۔‘ بوڑھے چانسلر ایڈنائر نے اپنے مخصوص انکسار سے صرف یہ جواب دیا ’میرے دوست، مجھ میں اور آپ میں کم و بیش اتفاق پایا جاتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آپ درست نتیجے تک پہنچنے میں کچھ تاخیر کر دیتے ہیں‘۔ خدا جانے تحریک انصاف کے قابل احترام حامیوں میں 2011ءسے 2021ءتک کی سیاست پر نظرثانی کا احساس موجود ہے یا نہیں، لیکن ان سے عرض ہے کہ یہ ملک ہمارا ہے اور اسے جمہوریت اور معاشی ترقی کی طرف گامزن کرنے کے لیے ہمیں کسی مخصوص شخصیت یا جماعت کی غیر مشروط اطاعت نہیں، بلکہ دستور کی پاسداری اور جمہوری مکالمے کی ضرورت ہے۔
بشکریہ ہم سب
واپس کریں