وجاہت مسعود
ہمارے سیاسی رہنما اور خودساختہ قائدین قوم اٹھتے بیٹھتے ہمیں بتا رہے ہیں کہ ہمارا بنیادی قومی مسئلہ معیشت ہے۔ بات باون تولے پاؤ رتی درست ہے لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ ہماری معیشت کی نوعیت دراصل ہے کیا؟ الحمد للہ آج پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی 1992ء میں پیدا نہیں ہوئی تھی۔ تب معیشت کے ماہر ہمیں بتاتے تھے کہ ہم نے افغانستان کی جنگ جیت لی ہے۔ تاہم یہ بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے کہ امریکا بہادر اور تیل کے تاجر برادر ملک کو اب ہمیں ڈالر دینے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اس کے بعد دس برس ہم نے دہشت کی چھابڑی پر چوری کی میزائل ٹیکنالوجی سجانے میں گزاری۔ بچوں کی تعلیم ناخواندہ آڑھتیوں کے سپرد کر دی۔ غریب شہری کی صحت ان لوگوں کے سپرد کر دی جو سادہ لوح دیہاتیوں کے گردے بیچتے ہیں اور ہر سال اپنے خاندان کے ساتھ عمرہ کرنے جاتے ہیں۔ ہماری پیداواری معیشت کا مدار خراد پر بجلی کے پنکھے بنانے اور کپڑے دھونے کی مشینیں جوڑنے پر تھا، یہ کام ہم نے شمال کے ہمسایہ ملک کو دان کر دیا۔ بستر کی چادریں کوئی کہاں تک ہم سے خریدے۔ سو ہم نے دیہات کے دیہات خرید کر ہاؤسنگ سوسائٹی بنانے کا نفع آور کاروبار شروع کر دیا۔
جسٹس جاوید اقبال مرحوم ایک درویش باپ کے پاکستانی بیٹے تھے۔ ’اپنا گریبان چاک‘ کے عنوان سے ایک قابل مطالعہ خود نوشت لکھ رکھی ہے۔ جاوید اقبال کے مشاہدات چشم افروز ہیں۔ البتہ جہاں سیاسی تجزیہ پیش کرتے ہیں وہاں پانی مرتا ہے۔ کیمبرج کے دنوں کی ایک حکایت مزے لے لے کر بیان کی ہے۔ موقع ملے تو 4 جولائی 1954 ءکے اس دن کا بیان پڑھئے گا جب ان کی مالکہ مکان نے راشن بندی ختم ہونے کے بعد پہلی بار چاکلیٹ خریدی تھی۔ اہل برطانیہ نے دوسری عالمی جنگ جیت لی تھی اور نو برس تک راشن بندی کی پابندیوں سے گزرے تھے۔ ملک کے وزیراعظم کو بھی دو سے زیادہ سوٹ خریدنے کی اجازت نہیں تھی۔ ہمارے غریب ملک میں تو حاجی صاحب دن کے ایک بجے دکان کھولتے ہیں اور رات دس بجے اپنی دکان کے قمقمے بند کرنے کو مداخلت فی الدین جانتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو امریکا سے مالی مدد مانگنے والے برطانیہ نے جنوری 1940ء سے لباس کی خرید و فروخت پر حد مقرر کر دی تھی۔ مئی 1942ء میں چینی، پنیر اور پٹرول پر حد فروخت نافذ کر دی۔ گوشت خریدنے پر کارڈ جاری کر دیے۔ جنگ تو جیت لی مگر انڈوں، پنیر اور بیئر کی خریداری پر راشن بندی جولائی 1954ء تک جاری رہی۔ وجہ یہ کہ امریکا سے لیا گیا قرض واپس کرنا تھا۔ ایک فرق ہم میں اور برطانیہ میں موجود تھا کہ ہندوستان کے وائسرائے کی بیوی اور 10 ڈاؤننگ سٹریٹ میں بیٹھا وزیراعظم یکساں طور پر ان اقدامات کی پابندی کرتے تھے۔ ہمارے ہاں آدھی معیشت زیر زمیں ہاتھ بدلتی ہے۔
اہل یورپ کی قانون پسندی کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکا بہادر نے اپریل 1948ء میں مارشل پلان کے تحت سترہ ارب ڈالر دان کیے تھے، 1951ء کے اختتام تک مدد لینے والوں نے اعلان کیا کہ ان کی صنعتی پیداوار قبل از جنگ کی سطح سے بڑھ چکی تھی۔ اس نکتے پر غور کیجئے۔ یہ پیداواری معیشت اور کرائے کی معیشت کا فرق ہے۔ آج جرمنی یورپ کی سب سے بڑی معیشت ہے جس میں سالانہ برآمدات 1562 ارب یورو اور درآمدات 1352 ارب یورو ہیں۔ برطانیہ میں یورپین یونین سے الگ ہونے کے بعد معیشت میں کسی قدر مندی کا رجحان ہے لیکن تجارتی خسارے کی روایت کے باوجود 895 بلین یورو کی درآمدات کے مقابلے میں برآمدات 842 ارب یورو کے برابر ہے۔ قریب سات کروڑ کی آبادی کا کل تجارتی خسارہ صرف 53 ارب یورو ہے۔ قیاس کن ز گلستان من بہار مرا۔ یورپ کے چھوٹے ملکوں از قسم سوئٹزر لینڈ اور ناروے کا احوال تو کار تحصیل کے مترادف ہے۔
کرائے کی ریاست موقع ڈھونڈتی ہے کہ ہو کوئی مشتری تو دے آواز۔ ساٹھ کی دہائی میں ہم نے جان فاسٹر ڈلس نامی آڑھتی کو اپنی خدمات بیچیں۔ 1960 ءمیں پہلی بار اڑھائی کروڑ ڈالر مانگنے آئی ایم ایف کے دروازے پر گئے تھے۔ اب پھر چوبیسویں بار پندار کا صنم کدہ ویران کرنے کا ارادہ ہے۔ اگلے روز فیس بک پر کسی بزرجمہر نے لکھا کہ پاکستان نے 1960ء میں جاپان کو 12 کروڑ قرض دیا تھا۔ (یہ تصریح نہیں فرمائی کہ ڈالر دیے تھے یا روپے؟) خدا جانے ہمارے اہل وطن کس دنیا میں بستے ہیں۔ 1960ء میں جاپان 15 فیصد کی سالانہ شرح نمو کے ساتھ تجارتی نفع کی طرف بڑھ رہا تھا اور 1970ء میں امریکا کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت تھا۔ نامعلوم ہم نے کس کتاب سے اپنے معاشی اعداد و شمار اخذ کیے ہیں۔ 70 ءکی دہائی کے آخر میں پاکستان نے افغان جنگ میں اپنی خدمات کے عوض ڈالر کمائے۔ 90ء کی دہائی خشک سالی کا عشرہ تھی۔ نائن الیون کے بعد ہماری دعائیں مستجاب ہوئیں۔ پندرہ برس تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ڈالر بٹورتے رہے۔ پچھلے دس برس سے ہمارے دھان خشک ہیں۔ دنیا توانائی کے معدنی ذخائر کا متبادل تلاش کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت چوتھے صنعتی انقلاب کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ ہم بیسویں صدی کے آٹھویں عشرے کی پینک میں ریت پر لکیریں کھینچ رہے ہیں۔ عزیزو، ہمارے پاس کل ملا کے اٹھارہ کروڑ کی نوجوان نسل ہے۔ اسے قابل مسابقت یعنی معیاری تعلیم دے لی تو اگلے چالیس برس میں عالمی منڈی میں چند بڑی معیشتوں میں شمار ہو سکتے ہیں۔ دو کروڑ ساٹھ لاکھ بچے سکول سے باہر رکھ کے یہ کام نہیں ہو سکتا۔ اگر کسی کو عسکری طاقت پر غرہ ہے تو یوکرائن کے میدانوں میں روس کا حشر دیکھ لے۔ جنگ پیداواری عمل نہیں ہے۔ جنگ کا کاروبار اسلحہ بیچنے والوں کے کام آتا ہے۔ یہ سرمایہ دار معیشت کا کھیل ہے۔ ہمارے پاس تو اسلحہ خریدنے کے وسائل بھی نہیں۔ ہماری پارلیمنٹ وجود میں آ گئی ہے جہاں ہمارے معزز نمائندے ہماری بہنوں کے لیے ایک رات کی بولی لگا رہے ہیں۔ اس اخلاقی گراوٹ پر ہماری نفرین بھی کسی شمار میں نہیں۔ یہ بہرحال طے ہے کہ ہماری سوچ اور آج کی معیشت میں کوئی مطابقت نہیں۔ اس ملک کو ترقی دینا ہے تو علم، پیداوار اور فیصلہ سازی میں عوام کی شراکت کا راستہ ڈھونڈنا ہو گا۔
بشکریہ ہم سب
واپس کریں