وجاہت مسعود
علامہ اقبال اپنی فضائوں کے طائر خوش پرواز تھے، گاندھی جی اپنی روایت کے مہاتما تھے۔ کسی تقابل کا شائبہ ہی نہیں۔ اقبال نے 1924 میں اشاعت پذیر ہونے والی بانگ درا میں گاندھی جی پر چوٹ کی۔ ’یہ آیہ نو جیل سے نازل ہوئی مجھ پر‘ ۔ آپ سے کیا پردہ۔ یہ طالب علم کیسے جان پاتا کہ ’آیہ نو‘ فارسی ترکیب ہے اور اگلا لفظ جیل تو زنداں کا سیدھا انگریزی ترجمہ ہے۔ ہمیں اپنے نیم خوابیدہ قصبے میں جو کتاب میسر آتی، حرف آخر سمجھ کر حرز جان بنا لیتے تھے۔ سکول کی کسی تقریب میں پروفیسر حمید احمد خاں کی گراں قدر تصنیف ’اقبال کی شخصیت اور شاعری‘ عطا ہوئی۔ تاثر پذیر عمر تھی اور پھر پروفیسر صاحب کی انگریزی مزاج میں نتھری ہوئی کانٹے کی تول اردو نثر۔ نصف صدی بعد بھی متعدد جملے اصل لفظوں میں مستحضر ہیں۔
اسی گردش لیل و نہار میں فارسی کے معروف استاد ڈاکٹر محمد باقر کی ایک تحریر نظر سے گزری۔ اقبال کے مذکورہ مصرعے کی شرح کچھ یوں کی تھی کہ ’نئی انجیل کی یہ آیت مجھ پر نازل ہوئی ہے‘ ۔ یہ رائے ضبط تحریر میں لاتے ہوئے ڈاکٹر باقر کی عمر 40 کے لگ بھگ رہی ہو گی۔ بزرگوں کا احترام بہرصورت واجب ہے اور ادب کی تفہیم تو ایسا سنگ گراں ہے کہ انگریزی محاورے میں ’ہومر بھی لڑکھڑا جاتا ہے‘ ۔ علم میں ہم سب کوتاہ ہیں۔ انسانی معاشرے میں علم سے بلند تراگر کوئی قدر ہے تو وہ ذہنی دیانت ہے۔ نئے زمانے کی ذہنی دیانت مرزا قتیل کی ’کنج گرفت و یاد خدا را بہانہ ساز‘ سے مختلف ہے۔ اس بحر تلاطم میں گریز پائی کام نہیں آتی۔
جرمن ادیب Thomas Mann نے 1938 کے ہنگام کہا تھاIn our time the destiny of man presents its meaning in political terms۔ تب سپین میں خانہ جنگی جاری تھی۔ سوویت یونین میں سٹالن کی تطہیری دہشت عروج پر تھی۔ جرمنی میں ہٹلر اور اٹلی میں مسولینی کی فسطائیت سے دنیا دوسری عالمی جنگ کے کنارے پر کھڑی تھی۔ چین میں ماؤ کا 9000 کلومیٹر طویل لانگ مارچ ختم ہو چکا تھا لیکن جاپان کی قابض افواج سے جنگ جاری تھی۔ ایسے میں ہل چلاتا کسان، کارخانے کا مزدور، یونیورسٹی کا استاد اور محبت میں نوگرفتار جوڑا، کسی کے لئے سیاسی انتخاب سے جائے پناہ موجود نہیں تھی۔ سیاسی عمل نظری رائے سے بڑھ کر روز مرہ زندگیوں پر براہ راست اثر انداز ہو رہا تھا۔
نوبل انعام یافتہ ژیٹس بھلے ’سیاست‘ کے عنوان سے لکھی اپنی نظم میں محبت کو سیاست سے زیادہ بامعنی لکھ رہا تھا لیکن آگ کی بارش اور لہو کے سیلاب میں گھری تاریخ تو لورکا، نیرودا اور ناظم حکمت رقم کر رہے تھے۔ دو انسانوں کی ذاتی محبت کو برگ و بار کے موسم گل ریز کے لئے امن، انصاف اور شفاف سیاسی بندوبست کی ضرورت پڑتی ہے۔ گلی کوچوں میں زندگی بخش دھوپ اور کارگاہوں میں ہنر و حرفت کی گرم بازاری کے بغیر نیم روشن خواب گاہ کی سرگوشی بھی خوف کے سناٹے میں سمٹ جاتی ہے۔ ژیٹس اپنے تخلیقی رویے میں دروں بیں تھے ورنہ کیسے ممکن ہے کہ 1916 سے 1922 تک آئرلینڈ کی فضاؤں میں گونجتے Robert Dwyer Joyce کے گیت The Wind That Shakes the Barley کی بازگشت سے ناآشنا رہے ہوں۔
بات سے بات یوں نکلی کہ ہم کچھ گہرے پانیوں میں اتر گئے۔ مدعا یہ تھا کہ بیسویں صدی کی رستاخیز اٹھارہویں صدی کی روشن خیالی اور انیسویں صدی کی مخاصمانہ نظریاتی کشمکش کا ناگزیر نتیجہ تھی۔ ان تین صدیوں کی پشت پر نشاة ثانیہ سے برآمد ہونے والے تین اصول کارفرما تھے۔ ( 1 ) منقولی منہاج ترک کر کے انفرادی غور و فکر کے ذریعے تحقیق، دریافت اور ایجاد کی بنیاد پر علمی سند کا قابل تصدیق رویہ اختیار کیا گیا۔ ( 2 ) شہریوں کے حق حکمرانی کا اصول تسلیم کر کے وسائل کی تقسیم کے لئے فیصلہ سازی میں وسیع تر شرکت پر مبنی جدید سیاسی بندوبست قائم کیا گیا۔ یہ حق حکمرانی پر کسی فرد یا گروہ کے اجارے کا اختتام تھا ( 3 ) کرہ ارض پر تاریخی اور ثقافتی تنوع کو مشترکہ انسانی میراث تسلیم کرتے ہوئے نسلی، مذہبی یا علاقائی درجہ بندی کو رد کیا گیا۔ اکیسویں صدی حالیہ صدیوں کے تجربات کو ایک قابل عمل آمیزے میں ڈھالنے کی آزمائش ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسانی آزادیوں کو قائم رکھتے ہوئے معاشی اور سماجی انصاف کو کیسے یقینی بنایا جائے۔ ایک صدی قبل جمہوریت اور جمہوریت مخالف دھارے میں فکری اور عسکری مجادلہ تھا۔
مارچ 2023 میں 74 ممالک نے امریکہ سمیت 5 مالک کی مشترکہ میزبانی میں جمہوری انتظام کی مضبوطی کے لئے summit for democracy میں شرکت کی ہے، دوسری طرف چین جمہوری اقدار کے نام پر متوازی کانفرنس منعقد کر رہا ہے۔ اس افتراق کی نوعیت وہی ہے جو 1948 میں انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین تشکیل دیتے وقت سرد جنگ کے فریقین میں سامنے آیا تھا۔ پاکستان نے 2021 اور پھر 2023 میں امریکی کانفرنس کی بجائے چینی اجتماع میں شرکت کو ترجیح دی۔
2020ء میں پاکستان کی امریکا کو برآمدات ( 4.1 ارب ڈالر) کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ تھیں جب کہ پاکستان نے چین سے 12.4 ارب ڈالر کی درآمدات کیں۔ چین نے پاکستان کو 31 ارب ڈالر قرض دے رکھا ہے۔ گزشتہ 20 برس میں امریکہ نے پاکستان کو براہ راست 20 ارب ڈالر کی مدد دی ہے۔ امریکہ پاکستان کا واحد نفع بخش تجارتی پارٹنر ہے جب کہ پاک چین تجارت میں پاکستان کو گزشتہ برس 15 ارب ڈالر کا خسارہ رہا۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا یہ بیان محض سفارتی لفاظی ہے کہ ہم عالمی کشمکش میں فریق بننے کی بجائے سب سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ ہمارا حقیقی فیصلہ آج بھی وہی ہے جو 70 برس پہلے جان فاسٹر ڈلس کی سرپرستی میں طے کیا گیا تھا۔ ہم شفاف جمہوریت کے ذریعے معیشت کو ترقی دینے کی بجائے ریاست کو نیلامی پر دینے کا میلہ سجائے بیٹھے ہیں۔ نو مئی کی تفصیلات تو پردہ نہاں میں ہیں، یہ واضح ہے کہ ہماری جمہوریت اور معیشت 20 برس پیچھے چلی گئی ہے۔
بشکریہ ہم سب
واپس کریں