وجاہت مسعود
در عزیز طاہر یوسف سے ملاقات کم کم لیکن نیاز مندی قدیمی ہے۔ گزشتہ شام فون اسکرین پر ان کا نام جگمگایا تو خوشی ہوئی۔ درویش نے گزشتہ اظہاریے میں غریب بچوں کی تعلیمی محرومی کا ذکر کرتے ہوئے فارسی محاورے ’این خانہ ہمہ آفتاب است‘ میں آفتاب کو ’خوناب‘ میں بدل دیا تھا۔طاہر بھائی کو شکوہ تھا کہ پاکستان کے ایسے قابل احترام شہریوں کی مساعی کو نظر انداز کر دیا ہے جو کم وسائل رکھنے والے گھرانوں میں تعلیم کی روشنی پہنچا رہے ہیں۔ اخباری کالم ایک نیم رخ تاثر ہوتا ہے۔ اس میں صورت حال کے جامع بیان اور مبسوط تجزیے کی مقالہ جاتی سہولت میسر نہیں ہوتی۔ برادر عزیز کا گلہ بہرصورت جائز تھا۔ درویش نے بقدر توفیق شہری آزادیوں، انسانی حقوق اور جمہوریت کے خواب نیم روز میں زندگی بسر کی ہے۔ آنکھ نے جب بھی رستہ چاہا، شہریوں کی شرح خواندگی اور معیاری تعلیم کو اس خواب کی کلید پایا۔ آزادی اور جمہوریت کی طرح ہمارے اس اجتماعی خواب کی تاریخ بھی قریب دو صدیوں پر محیط ہے۔
انیسویں صدی کے اوائل میں راجہ رام موہن رائے نے ہندو بیوہ کو زندہ جلانے کی رسم ستی اور کمسنی کی شادی کی مخالفت کر کے ایک طرف تقلیدی ذہن سے ٹکر لی۔ دوسری طرف نافع تعلیم کے فروغ کی سعی میں درجنوں سکول اور کالج قائم کیے۔ہندوستان پر تاج برطانیہ کی حکومت قائم ہوئی تو سر سید احمد خان نے علی گڑھ میں محمڈن اینگلو اورینٹل مدرسے کی بنیاد رکھی۔ سرسید کی حیات جاوید تو حالی نے لکھ دی تھی لیکن اگر ان کے کارناموں کو جدید فکری اور تاریخی تناظر میں دیکھنا ہو تو مختار مسعود کی ’حرف شوق‘ دیکھیے۔ ہند مسلم ثقافت پر علی گڑھ کے تہذیبی اثرات جاننے کے لئے رشید احمد صدیقی کی تصانیف موجود ہیں۔ سرسید کے تین معنوی فرزند میں گنوا دیتا ہوں۔ حسرت موہانی، سر عبدالقادر اور مولوی ممتاز علی۔ ایک آزادی کا مجاہد بے بدل، دوسرا مقتدر ایوانوں تک مسلم رسائی کا نقیب اور تیسرا حقوق نسواں کا اولین پرچارک۔ مسلم بچیوں کی تعلیم میں اودھ کے چوہدری محمد علی ردولوی اور علی گڑھ کے شیخ عبداللہ کی مساعی خشت اول کا درجہ رکھتی ہیں۔ جوالا مکھی ڈاکٹر رشید جہاں شیخ عبداللہ ہی کی صاحبزادی تھیں۔
چوہدری محمد علی کے نواسے رضا کاظم اب لاہور میں سنجن نگر کے نام سے غریب بچوں کے لئے ایک منفرد تعلیمی ادارہ چلا رہے ہیں اور ان کی صاحبزادی بیلا جمیل ادارہ تعلیم و آگہی کی بانی ہیں۔ پنجاب میں جدید تعلیم کا پودا سر فضل حسین اور صوبہ سرحد (تب) میں صاحبزادہ عبدالقیوم خان (بانی اسلامیہ کالج پشاور) نے لگایا تھا۔ درویش کو 1980 کی دہائی میں سر فضل حسین کی صاحبزادی اصغری منظور قادر کے درشن کا اعزاز ملا۔ عورتوں کی تعلیم اور مساوات کے لئے حقیقی تڑپ کی ایسی زندہ تصویر نہیں دیکھی۔ اشرافیہ کو ہوائی گالی دینے کا چلن ہمارے حالیہ سیاسی شعور کا عکاس ہے مگر شاید ہی کوئی جانتا ہو کہ اردشیر کاﺅس جی، ڈاکٹر عبد الوحید (فیروز سنز والے ) ، خانوادہ سید مراتب علی، افتخار الدین فیملی، میاں شریف فیملی اور بھٹو گھرانے نے خاموشی سے تعلیم و تمدن کے کیسے چراغ روشن کیے ہیں۔
حالیہ عشروں میں ڈاکٹر انیتا غلام علی (مرحومہ) اور ڈاکٹر قرة العین بختیاری نے سندھ سے بلوچستان تک تعلیم کی آبیاری کی۔ بھائی طاہر یوسف نے 1996 میں ٹرسٹ سکول کی بنیاد رکھی۔ وہ رفاہی اعداد و شمار کی بجائے معیاری تعلیم پر زور دیتے ہیں۔ لاہور میں دس ہزار سے زیادہ بچے ان کے تعلیمی اداروں میں روشنی پا رہے ہیں۔ ڈاکٹر سیما رضا کی کیئر فاﺅنڈیشن اور فرح دیبا کا عالم بی بی ٹرسٹ اپنی جگہ فعال ہیں۔ کراچی میں واحد بلوچ اور ان کی شعلہ بجاں بیٹی ہانی بلوچ لیاری کی گرد آلود گلیوں میں کتاب اور قلم کے فروغ کا تاوان ادا کر چکے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں سابق ڈائریکٹر تعلیم ڈاکٹر احتشام انور کو گویا شیخ منظور الہٰی اور مختار مسعود کا نیا جنم جانیے۔ درویش فہرست سازی سے طبعاً گریز کرتا ہے کہ اس میں نادانستہ نا انصافی کا امکان موجود رہتا ہے۔ ایک بطل جلیل کی حکایت اور ایک خبر پر بات ختم کرتے ہیں۔
4 اپریل 1968 کو اپنے قتل سے ایک رات پہلے مارٹن لوتھر کنگ نے میمفس شہر میں کوئی تین ہزار کے مجمع میں اپنی آخری تقریر کی تھی۔ بائبل مقدس کے استعاروں سے مزین اس تاریخی تقریر کا ایک جملہ انگریزی ادب کی معروف ترکیب سے مستعار تھا۔ ڈاکٹر کنگ نے لمحہ موجود کی مشکلات گنواتے ہوئے کچھ تامل کیا اور پھر اپنے مخصوص خروش سے کہا: ’But I know, somehow, that only when it is dark enough, can you see the stars‘
عزیزو، اوپر کی سطور میں مذکور ستاروں کی عظمت سے انکار نہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ چاند کہاں ہے؟ سکول سے محروم قوم کے دو کروڑ چالیس لاکھ بچوں کو لازمی اور مفت تعلیم فراہم کرنے کی کنجی ریاست کی تحویل میں ہے۔ قوم کے خیرخواہ شہریوں کی انفرادی سعی کیسی ہی تابناک کیوں نہ ہو، ریاست کی ذمہ داری کا متبادل نہیں ہو سکتی اور نہ ریاست دستور کی شق 25 (الف) میں کیے گئے وعدے سے بری الذمہ ہو سکتی ہے۔
خبر یہ ہے کہ ورلڈ بینک نے پاکستان میں انسانی سرمائے کی پسماندگی پر تشویش ظاہر کی ہے۔ پاکستان میں انسانی سرمائے کی حالت جنوبی ایشیا کی اوسط 0.48 سے بھی کم ہے۔ بنگلہ دیش اور نیپال کا درجہ بالترتیب 0.46 اور 0.49 قرار پایا ہے۔ سب صحارا ممالک میں ایچ سی آئی کی اوسط قدر 0.40 ہے جب کہ پاکستان میں یہ قدر 0.41 ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں معاشی طور پر مراعات یافتہ گروہوں کا انسانی سرمایہ بھی ہم مرتبہ ممالک کے کمزور طبقات سے کمتر ہے۔ حالیہ مردم شماری کے حتمی نتائج ابھی معلوم نہیں لیکن یہ واضح ہے کہ 25 کروڑ کی آبادی کو مشتعل ہجوم کی بجائے معیاری انسانی سرمائے میں بدلنے کا فیصلہ ریاست کو کرنا ہے۔
(بشکریہ: ہم سب لاہور)
واپس کریں