لیفٹیننٹ گورنر یا عمر عبداللہ طاقت کا اصل محور کون؟
شاہد رہبر ، سرینگر
عمر حکومت کیلئے نہ پائے رفتن ،نہ جائے ماندن جیسی صورتحال بزنس رولز سے ابہام تو دور ہوگا لیکن بے بسی کے حالات نہ بدلیں گے! رہبر ڈیسک جموں وکشمیر میں راج بھو ن اور عوامی حکومت کے درمیان اقتدار و اختیار کے معاملہ پر کس قدر ابہام پایا جارہا ہے ،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دنوں 5دسمبر کو نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ محمد عبداللہ کے یوم پیدائش کے سلسلہ میں جموں میں منعقدہ ایک تقریب کے حاشئے پر نائب وزیراعلیٰ سریندر چودھری کو کہنا پڑا کہ ان کی حکومت بااختیار ہے اور وہ فیصلے لینے کی مجاز ہے ۔نائب وزیراعلیٰ نے کہا ’’ کون کہتا ہے کہ حکومت بے اختیار ہے ،ہمارے پاس بے پناہ اختیارات ہیں اور ہم کسی (ملازم)کے خلاف بھی کاروائی کرسکتے ہیں لیکن کرنا نہیں چاہتے کیونکہ ہم سب کو ساتھ لیکر چلنا چاہتے ہیں‘‘۔ نائب وزیراعلیٰ کی باتوں میں ہی سب سوالات کے جوابات تھے ۔
اُ ن کا یہ کہنا ہے کہ کون کہتا ہے کہ وہ بے اختیار ہیں،اپنے آپ میں اس بات کی دلیل ہے کہ وہ بے اختیار ہیں۔اس کے اُن کا یہ کہنا کہ وہ ملازمین کے خلاف کاروائی کرسکتے ہیں،اس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ شاید ملازمین کے سامنے ان کی اُتنی چلتی نہیں ہے ۔اس کے بعد سب کو ساتھ لیکر چلنے کا کہہ کر نائب وزیراعلیٰ خود یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اب جبکہ ان کے پاس اتنے اختیارات نہیں ہیں،تو وہ ایک دوسرے کو اعتماد میں لیکر چلنے کے متمنی ہیں۔ حکومتی ذرائع کی مانیں تو عمر عبداللہ حکومت اور راج بھون کے درمیان تضادات عیاں ہیں اور عمر حکومت میں بے چینی پیدا ہوگئی ہے ۔ذرائع کا کہناہے کہ گوکہ نائب وزیراعلیٰ سریندر چودھری نے کہا کہ عمر عبداللہ حکومت عوام کی توقعات پر پورا اترنے کیلئے مکمل اختیارات رکھتی ہے تاہم ایڈووکیٹ جنرل کی تقرری ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر کشیدگی مزید بڑھ گئی۔ایڈووکیٹ جنرل ڈی سی رینہ نے منتخب حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد استعفیٰ دے دیا تھا لیکن وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ان کا استعفیٰ مسترد کرتے ہوئے انہیں کام جاری رکھنے کی ہدایت دی تاہم، راج بھون کی منظوری نہ ملنے کی وجہ سے وہ اپنا عہدہ دوبارہ سنبھال نہ سکے۔حکومت میں موجودسینئر عہدیداروں کے مطابق ایڈوکیٹ جنرل راج بھون کی مخالفت کی وجہ سے عدالتوں میں جموں و کشمیر کی نمائندگی نہیں کرپارہے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ میڈیارپورٹس کے علاوہ ایڈوکیٹ رینہ کی تقرر ی سے متعلق ابھی تک کوئی سرکاری لفظ موجود نہیں ہے۔
رپورٹوں کے مطابق جموں و کشمیر ریزرویشن پالیسی سے متعلق ایک عرضی پر سماعت کے دوران جموں وکشمیرہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ کے استدلال کا ذکر کیا۔ذرائع نے ہائی کورٹ کے مشاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس مسئلہ پرایڈوکیٹ جنرل کو سننا ضروری تھا پھر بھی یوٹی ان کے بغیر ہے ۔یعنی بہ الفاظ دیگر عدالت یہ کہہ گئی کہ ایڈوکیٹ رینہ فی الوقت ایڈوکیٹ جنرل نہیں ہیں۔اگر حکومت نے اُنہیں اپنے عہدے پر مسلسل براجمان رہنے کے لئے کہاتھا اور خود ڈی سی رینہ نے بھی اس کی تصدیق کی تھی تو ایسا کیا ہوا کہ وہ اپنا کام نہیں کرپارہے ہیں۔وجہ صاف ہے کہ راج بھون نے ان کی تقرری روک دی ہے ۔ایک اور تنازع اس وقت پیدا ہوا جب وزیر اعلیٰ کے عمرہ پر سعودی عرب جانے کے دوران راج بھون نے تین آئی اے ایس افسران کے تبادلے کے احکامات جاری کئے۔ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ نے چند روز قبل جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کی میٹنگ کی صدارت کرتے ہوئے اس اقدام کو ناپسند کرتے ہوئے افسر کو جی اے ڈی کے ساتھ منسلک کرنے کا حکم دیا۔یہ مسائل یقینی طور پربزنس رولز کے حوالے سے وضاحت کی کمی کا بھی حوالہ دے رہے ہیں۔ تاہم مرکزی وزارت داخلہ کے مطابق راج بھون اور عوامی حکومت کے اختیارات کے دائرہ کار بالکل واضح ہیں اور کسی قسم کی تضاد کی گنجائش نہیں ہے۔مرکزی وزارت داخلہ کے ذرائع نے کہا کہ ’’ایڈووکیٹ جنرل کی تقرری کا حق لیفٹیننٹ گورنر کو جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019 اور 2023 کے ترمیمی ایکٹ کے تحت حاصل ہے اور اس پر اعتراضات بلاجواز ہیں۔ اسی طرح، آئی اے ایس/آئی پی ایس افسران کے تبادلے کا اختیار بھی لیفٹیننٹ گورنر کے پاس ہے‘‘۔ان ذرائع کے مطابق لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے بارہا واضح کیا ہے کہ وہ منتخب حکومت کے ساتھ تعاون اور ہم آہنگی سے کام کرنے کیلئے پرعزم ہیں۔وزارت داخلہ کے ذرائع نے کہا کہ جموںوکشمیرتنظیم نو ایکٹ 2019اور ترمیم شدہ رولز2023کے تحت ایل جی اور وزیراعلیٰ کے اختیارات واضح ہیں۔ دونوں دفاتر عوام کی بھلائی کیلئے کام کرنے کے پابند ہیں، اور کسی بھی قسم کے تصادم کو ہوا دینا عوام کے مفاد میں نہیں۔مرکزی وزارت داخلہ نے کہا کہ قواعد و ضوابط کو جلد عام کیا جائے گا تاکہ اختیارات کے دائرہ کار پر تمام قیاس آرائیوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔وزارت نے اس بات پر زور دیا کہ جب تک جموں و کشمیر یونین ٹیریٹری رہے گا، وزراء کو اپنے آئینی حدود کو سمجھنا ہوگا۔
غور طلب ہے کہ جولائی2024میں مرکزی وزارت داخلہ نے بزنس رولز میں ترامیم کرکے ایل جی کو جموں وکشمیر کامختار کل بنا دیاتھااور جموں و کشمیر کے نظام کو دہلی کی طرز پر چلانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ چنانچہ جموں و کشمیر کے ایل جی کو بھی دہلی کے ایل جی کی طرح انتظامی اختیارات دیئے گئے تھے ۔اس ضمن میںوزارت داخلہ نے جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019 کے سیکشن 55 کے تحت ترمیم شدہ اصولوں سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کر دیا تھا۔وزارت داخلہ کی طرف سے کی گئی ترامیم کے مطابق آل انڈیا سروس (اے آئی ایس) افسران کے انتظامی سیکرٹریوں اور کیڈر کے عہدوں کے تبادلے سے متعلق ایڈمنسٹریٹو سیکرٹری، جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کی تجاویز کو لیفٹیننٹ گورنر کو چیف سیکرٹری کے ذریعے پیش کیا جائے گا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق ’’انتظامی سکریٹریوں اور آل انڈیا سروسز کے افسران کے کیڈر کے عہدوں کی پوسٹنگ اور تبادلے سے متعلق معاملات کے سلسلے میں ایڈمنسٹریٹو سکریٹری جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ چیف سکریٹری کے ذریعے لیفٹیننٹ گورنر کو تجویز پیش کرے گا‘‘۔ نوٹیفکیشن میں مزید کہاگیاتھا کہ جن تجاویز پر لیفٹیننٹ گورنر کو صوابدیدی اختیارات حاصل ہیں ان معاملات پر محکمہ خزانہ کی پیشگی رضامندی کی ضرورت ہوتی ہے اس وقت تک اتفاق یا مسترد نہیں کیا جائے گا جب تک کہ اسے چیف سیکرٹری کے ذریعے لیفٹیننٹ گورنر کے سامنے نہیں رکھا گیا ہو۔ ترامیم میں کہا گیا ’’ کہ کوئی بھی تجویز جس میں پولی،پبلک آرڈر،آل انڈیا سروس اوراینٹی کرپشن بیورو کے حوالے سے محکمہ خزانہ کی سابقہ منظوری کی ضرورت ہو، ایکٹ کے تحت لیفٹیننٹ گورنر کی صوابدید کو استعمال کرنے کے لئے منظور یا مسترد نہیں کیا جائے گا جب تک کہ اسے چیف سکریٹری کے ذریعے لیفٹیننٹ گورنر کے سامنے نہیں رکھا گیا ہے‘‘۔ ترامیم کے مطابق محکمہ قانون، انصاف اور پارلیمانی امور عدالتی کارروائی میں لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری کیلئے چیف سیکریٹری اور وزیر اعلیٰ کے توسط سے ایڈووکیٹ جنرل کی مدد کیلئے ایڈووکیٹ جنرل اور دیگر لا افسران کی تقرری کی تجویز پیش کرے گا۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا’’پراسیکیوشن کی منظوری یا اپیل دائر کرنے سے متعلق کسی بھی تجویز کو لیفٹیننٹ گورنر کے سامنے چیف سکریٹری کے ذریعے قانون، انصاف اور پارلیمانی امور کے محکمے کے ذریعے رکھا جائے گا‘‘۔ اس میں مزید کہا گیاتھا کہ جیل خانہ جات، ڈائریکٹوریٹ آف پراسیکیوشن اور فارنزک سائنس لیبارٹری کے بارے میں تجاویز لیفٹیننٹ گورنر کو ایڈمنسٹریٹو سیکریٹری، ہوم ڈیپارٹمنٹ چیف سیکریٹری کے ذریعے پیش کی جائیں گی۔
ان ترامیم سے ایک بات واضح ہوگئی تھی کہ جموں وکشمیر میں ایل جی کا دفتر وزیراعلیٰ کے دفتر کے مقابلے میں انتہائی طاقتور ہوگا ۔گوکہ اُس وقت چنائو نہیں ہوئے تھے اور چنائو سے قبل ہی یہ عمل مکمل کیاگیا تاہم چنائو کے بعد اب جبکہ عوامی حکومت موجود ہے تو حکومت کو لگ رہا ہے کہ شاید ان کے اختیارات پر ڈاکہ ڈالاجارہا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے ۔مبصرین کہتے ہیں کہ دراصل عمر عبداللہ اور ان کی حکومت کو اس کی عادت نہیں تھی کیونکہ انہوں نے ماضی میں ایک طاقتور ریاست کی حکمرانی کی ہے لیکن اب جبکہ یہ ریاست سے یوٹی میں تبدیل ہوچکی ہے تو عمر عبداللہ اپنے آپ کو بے دست و پامحسوس کررہے ہیں اور وہ سمجھ نہیں پارہے ہیں کہ اُن کے اختیارات کیا ہیں اور ایل جی کے اختیارات کیا ہیں حالانکہ کافی حد تک اس ضمن میں وضاحت موجود ہے۔ مبصرین کے مطابق یونین ٹریٹری کے پہلے وزیراعلیٰ کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ انتظامی معاملات میں ایل جی کے رحم و کرم پر ہونے کے علاوہ قانون سازی کے معاملات میں بھی وہ بھی بحیثیت وزیراعلیٰ صرف چند محدود معاملات پر قانون سازی کرسکتے ہیں جن میں میونسپل قوانین (مثلاً جموں و کشمیر میونسپل ایکٹ)، پنچایتی راج قوانین (مثلاًجموں و کشمیر پنچایتی راج ایکٹ)، تعلیمی قوانین (مثلاًجموں و کشمیر ایجوکیشن ایکٹ)، صحت کے قوانین (مثلاًجموں و کشمیر ہیلتھ ایکٹ)، زرعی قوانین (مثلاًجموں و کشمیر ایگریکلچر ایکٹ)، سیاحت کے قوانین (مثلاًجموں و کشمیر ٹورازم ایکٹ)، ٹرانسپورٹ قوانین (مثلاً جموں و کشمیر ٹرانسپورٹ ایکٹ)، لیبر قوانین (مثلاًجموں و کشمیر لیبر ایکٹ)اور سماجی بہبود کے قوانین (مثلاً جموں و کشمیر سوشل ویلفیئر ایکٹ)شامل ہیں۔
اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ عمر عبداللہ بحیثیت وزیراعلیٰ زیادہ سے زیادہ 9معاملات پر قانون سازی کا حق رکھتے ہیں اور یہ نو معاملات بھی عمومی ہیں جن میں کوئی خاص سبجیکٹ نہیں ہے ۔میونسپلٹی اور پنچایت سے لیکر تعلیم ،صحت ،زراعت ،سیاحت ،ٹرانسپورٹ ،لیبر و سماجی بہبود سے متعلق معاملا ت ہی وزیراعلیٰ کی دسترس میں ہیں جبکہ دیگر سبھی اہم معاملات براہ راست مرکزی حکومت کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ قوانین جو جموں و کشمیر یونین ٹریٹری کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے عمر عبداللہ نہیں بنا سکتے،ان میں ٹیکس کے قوانین (مثلاًانکم ٹیکس، جی ایس ٹی)، دفاعی اور فوجی قوانین، خارجہ پالیسی کے قوانین، قومی سلامتی کے قوانین، شہریت کے قوانین، آئینی ترمیمی قوانین، یونین ٹیریٹریز سے متعلق قوانین (سوائے یوٹی کے مخصوص قوانین کے)، مرکز۔ریاست تعلقات سے متعلق قوانین، بین الریاستی تجارت سے متعلق قوانین اور قومی شاہراہوں اور ریلوے سے متعلق قوانین شامل ہیں۔اس سے واضح ہوگیا کہ عمر عبداللہ نہ ٹیکس راحت دے سکتے ہیں اور نہ ہی امن وقانون کی صورتحال میںکوئی مداخلت کرسکتے ہیں جبکہ شہریت کے قوانین بھی ان کی پہنچ سے باہر ہیں اور آئینی ترامیم کرنے کے بارے میں تو وہ سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔ایسے بھی قوانین ہیں جن میں عمر عبداللہ کو مرکزی سرکار کی منظوری درکار ہوگی ۔ان قوانین کومحدود قوانین کہتے ہیں اور ان میں پولیس قوانین ، لینڈ ریونیو قوانین ، بجلی کے قوانین اورآبی وسائل کے قوانین شامل ہیں ۔یہ وہ قوانین ہیں جنہیں عمر عبداللہ چاہ کر بھی اُس وقت تک اسمبلی میں نہیں لاسکتے ہیں جب تک پہلے مرکزی حکومت کی پیشگی منظوری حاصل ہو۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ پولیس سے متعلق کسی بھی تبدیلی کیلئے دہلی سے رجوع کرنا ناگزیر ہے ۔اسی طرح لینڈ ریونیو قوانین میں عوام کو راحت دینے کیلئے دلّی کا دروازہ کھٹکھٹانا ہوگاجبکہ بجلی پر راحت کیلئے بھی دلّی کی رضامندی حاصل کرنا ہوگی اور آبی وسائل کو جموں وکشمیر کے لوگوں کے فائدے کیلئے استعمال کرنے کی خاطر بھی مرکزی حکومت کی رضامندی ضروری ہے ۔تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مرکزی حکومت ایسے معاملات میں پیشگی منظوری دے گی ۔بظاہر ایسا نہیں لگ رہا ہے اور یوں قدم قدم پر عمر عبداللہ کو لیفٹیننٹ گورنراور دہلی کا محتاج رکھاگیا ہے۔ کچھ خصوصی شرائط ہیں جن کی تابعداری عمر عبداللہ کو کرنا پڑے گی ۔مثلاً ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 239کے مطابق مرکز کے پاس یونین ٹریٹریز کو ہدایت دینے کا اختیار ہے۔جبکہ اس کے علاوہ جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019کے مطابق مرکز کے پاس یوٹی کے قوانین کی نگرانی ہے۔اور تو اور بعض قوانین کیلئے لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری بھی درکار ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ریاستی وزیر اعلی کے مقابلے میں یوٹی کے وزیر اعلی کے اختیارات محدود ہیں۔مرکز کایوٹی کے قوانین پر اہم کنٹرول ہے اوریوٹی کے قوانین کو مرکز کی پالیسیوں اور رہنما خطوط کے مطابق اور ان سے ہم آہنگ ہونا چاہئے۔اس سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ عمر عبداللہ عملی طور جموں وکشمیر کی تاریخ کے سب سے کمزور ترین وزیراعلیٰ ہیںاور ان کے پاس اپنی سطح پر کرنے کو کچھ زیادہ نہیں ہے جبکہ اُنہیں قدم قدم پر راج بھون اور دہلی کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑے گا۔
حد تو یہ ہے کہ مالی مسائل سے متعلق تمام فائلیں لیفٹیننٹ گورنر کو بھیجنی ہیں جبکہ امن وقانون پر عمر عبداللہ کا کوئی اختیار نہیںہے اور کابینہ کے سبھی فیصلوں کو پہلے لیفٹیننٹ گورنرکو بھیجنا پڑ ے گا اور اگر وہ منظوری دیتے ہیں تو اس کے بعد ہی وہ فیصلے کابینہ میں پیش ہوکر منظور ہوسکتے ہیں۔منظر نامہ واضح ہے کہ بھلے ہی ابہام دور کرنے کیلئے بزنس رولز دوبارہ مرتب کئے گئے ہیں اور اُنہیں منظوری کیلئے مرکزی وزارت داخلہ کو بھیج دیاگیا ہے تاہم مرکزی وزارت داخلہ جموں وکشمیر تنظیم نو قانون2019اور ترمیم شدہ بزنس رولز2024کی روشنی میں ہی یوٹی حکومت کی جانب سے بزنس رولز کے مسودہ کو فائنل کرکے نوٹیفائی کرے گی اور یوں ان بزنس رولز میں بھی طاقت کا اصل محور راج بھون ہی ہوگا ،ہاں اتنا ضرور ہوگا کہ عوامی حکومت کا ابہام دور کرنے کی کوشش ہوگی اور پھر شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیںرہے گی۔
واپس کریں