دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کشمیریوں کی بے اختیار حکومت، خطاکارتو اپوزیشن بھی سزاوار
شاہد رہبر ، سرینگر
شاہد رہبر ، سرینگر
آج کل حزب اختلاف کی جماعتیں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ،پیپلز کانفرنس اور اپنی پارٹی حکمران جماعت نیشنل کانفرنس کو ہدف تنقید بنانے کا کوئی بھی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتی ہیں اور بات بات پر ساری خرابیوں کیلئے نیشنل کانفرنس کو ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت میں ناطے نیشنل کانفرنس کی جوابدہی زیادہ ہے تاہم یہاں سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا یہ نیشنل کانفرنس کے حد اختیار میں ہے کہ وہ راتوں رات سب کچھ ٹھیک کرے ؟۔ جواب نفی میں ملتا ہے کیونکہ نیشنل کانفرنس حکومت کے اختیارات محدود ہیں. اور وہ چاہ کر بھی کچھ زیادہ نہیں کرسکتی ہے کیونکہ یوٹی سیٹ اپ میں حکومت کا رول محدود ہوتا ہے ۔ لیکن یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوجاتا ہے کہ آخر جموں کشمیر کو اس حالت تک پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے ؟۔ بلاشبہ یہ 5اگست 2019کو مرکزی حکومت نے جموں کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اس کی خصوصی حیثیت ختم کر ڈالی تاہم کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہماری ساری سیاسی جماعتوں نے 2024کے اسمبلی انتخابات میں بغیر کسی پیشگی شرط کے شرکت کرکے 5اگست2019کے مرکزی حکومت کے فیصلوں پر مہر ثبت کرلی ۔حق تو یہی ہے کہ یوٹی کے اُن انتخابات میں شرکت کرکے سبھی سیاسی جماعتوں نے اُن فیصلوں کو سر خم تسلیم کرلیا جو 5اگست2019کو لئے گئے تھے اور اب جو کچھ ہورہاہے ،وہ ان فیصلوں کا محض قانونی یا انتظامیہ نتیجہ ہے۔ جمہوری نظام میں یہ بات مقبول عام ہے کہ ساری طاقت عوام سے آتی ہے ،یعنی عوام طاقت کا سرچشمہ ہوتے ہیں لیکن پھر وہ طاقت کہاں جاتی ہے ؟۔ظاہر ہے کہ الیکشن کے نتیجہ میں عوام اپنی اُس طاقت کو اپنی من پسند جماعت کے سپرد کردیتے ہیں اور جو پھر برسر اقتدار آتی ہے ۔جموں وکشمیر کے لوگوں نے بھی کچھ ماہ قبل اپنی یہ طاقت ینشنل کانفرنس کو سونپی اور اُنہیں اقتدار کی کرسی پر بٹھادیا لیکن پھر اُس عوامی طاقت کی رو پر سوا ر نیشنل کانفرنس حکومت کی طاقت کہیں نظر نہیں آرہی ہے۔نیشنل کانفرنس کے سیاسی مخالفین آج کہتے ہیں کہ عوام کی طاقت غلط جماعت اور غلط شخص کے پاس چلی گئی ۔اس سلسلے میں دور کی کوڑیاں لائی جارہی ہیں ۔اول تو یہ کہاجارہا ہے کہ دھوکہ دہی عبداللہ خانوادہ کے جینز میں ہے ،دوم تاریخی حوالے دیکر یہ کہنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ نیشنل کانفرنس نے ہمیشہ عوام کے منڈیٹ کا سودا کیا ہے چاہے وہ1975ہو،1986ہویا1996۔ کیا نیشنل کانفرنس کے سیاسی مخالفین کی یہ دلیل صحیح ہے ؟۔ کیا واقعی کشمیر کو ملنے والی سیاسی اشرافیہ موجودہ منتخب حکومت سے کچھ مختلف ہوسکتی ہے ؟۔کہنے کو تو سب اپنے اپنے دلائل دیں گے لیکن اس کا اصل جواب نفی میں ہے کیونکہ کشمیر کا سیاسی اشرافیہ بھلے ہی الگ الگ خیموں میں بٹا ہوا ہو،لیکن ان کا ڈی این اے ایک ہی ہے اور یہ ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں اور ان کا ماضی کا ریکارڈ دیکھ کر وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اگر نیشنل کانفرنس حکومت میں نہ ہوتی تو بھی کچھ نہیں بدلا ہوتا ۔ شایدکچھ سیاسی قائدین ،حتیٰ کہ نیشنل کانفرنس کے اندر بھی، عوامی سطح پر محاذ آرائی کی سیاست کا مظاہرہ کرتے اور کر بھی رہے ہیں لیکن نجی محفلوں میں وہ بھی موافقت پسند ہیں اور یہ دکھاوے کے کھیل کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔آج کل ہمیں آغا روح اللہ بڑے پارسا لگ رہے ہیں حالانکہ وہ اسی نیشنل کانفرنس کے ممبر پارلیمنٹ ہیں جس پر اب عوام کا اعتماد ختم ہوتا چلا جارہا ہے ۔اسی طرح نیشنل کانفرنس کے کچھ دوسرے لیڈر بھی بہت زیادہ بیان بازی کرکے اپنے آپ کو دلّی مخالف ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاہم سچائی یہی ہے کہ باہر یہ کچھ بھی کریں ،اندر نجی محفلوں میں ان کا انداز اس کے عین برعکس ہوتا ہے ۔یہی حال محبوبہ مفتی اور سجاد غنی لون کا بھی ہے جو بھلے ہی بہت زیادہ چیخیں لیکن اُن ماضی گواہ ہے کہ وہ دلّی کے پروردہ رہے ہیں اور دلّی سے زیادہ دیر تک ناراض رہنے کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس نئے انتظامی اور آئینی ڈھانچے میں کسی تبدیلی یا متنازعہ پالیسیوں کو واپس لینے پر مجبور کرنے کا اختیار ہی موجود نہیں ہے اور یہ بات الیکشن سے پہلے ہی سب کو معلوم تھی لیکن اس کے باوجود انہوںنے الیکشن لڑے اور کمزور ترین یوٹی کے سیٹ اپ کے تحت ہی یہ الیکشن لڑے۔ایسابادی النظر میں لگتا ہے کہ ان تمام سیاستدانوں اور پارٹیوں، خاص طور پر انتخابات میں ہارنے والوں کو یہ خیال نہیں آیا کہ 5 اگست 2019 کا عمل قانون سے زیادہ طاقت کا عمل تھا۔ یہ احساس ان کو شاید اسی وقت آئے گا جب وہ خود اقتدار میں ہوں گے ۔یوں یہ سار ے اس گناہ میں شریک ہیں۔ آج نیشنل کانفرنس کی حکومت کو ’’ریاست کی موجودہ شکستہ حالی اور 5اگست2019کے فیصلوں پر مہر ثبت کرنے کیلئے ذمہ دا ر ٹھہرانا سیاسی طور پر مضحکہ خیز ہے۔ دراصل اس نئے نظام کی توثیق کرنے اور لوگوں کو اس کو قبول کرنے کی جانب راغب کرنے کا عمل اُس وقت شروع ہوا جب تمام سیاسی جماعتیں یونین ٹریٹری میں قانون سازیہ (نیا معمول) کیلئے انتخابات لڑنے کی خاطرایڑیوں کے بل گر پڑیں، اور لوگوں سے ووٹ دلوا کر اُن سے اس نئے نظام کو تسلیم بھی کروایا۔ الیکشن لڑنے والے تمام 407 امیدواروں نے قانون سازی اور انتظامی اداروں کی بے اختیاری کوجواز فراہم کیااور 64 فیصد رائے دہندگان، جنہوں نے 2024 میں اپنا ووٹ ڈالا، انہوںنے اس کو مطلوبہ جواز فراہم کیا۔ نمائندہ قانونی حیثیت سے ہٹ کر ان کی شرکت نے مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے ڈھانچے کو ادارہ جاتی بنا دیا۔5 اگست 2019 کواس سے بڑھ کر نارملائز کرنے کی کوئی مثال نہیں ہوسکتی ہے کہ ہم نے رضاکارانہ طور پر اس کی تخلیق کا انتخاب کیا جائے۔ جب تک قانون ساز اسمبلی کے انتخابات نہیں ہوئے تھے، یونین ٹیریٹری کی مقننہ ایک ایسی تخلیق تھی جس کا کوئی عملی وجود نہیں تھا۔ اسمبلی انتخابات کے نتیجہ میںمقننہ کے وجود میںآنے کے ساتھ ہی قانون سازبن گئے، اختیارات تفویض کئے گئے اور اب بزنس رولز بھی بنائے جارہے ہیں اور یوں وہ سبھی90ممبران ،جو اس وقت اسمبلی کا حصہ ہے ،حقیقی معنوںمیں 5اگست2019کے فیصلوں کوجواز فراہم کرنے اور اُن پر مہر ثبت کرنے کا کام کر گئے۔ہاں یہ بھی سچ ہے کہ ان نوے لوگوں میں عمر عبداللہ سرفہرست ہیںجنہوںنے سب سے پہلے الیکشن لڑنے سے انکار کرنے کے بعدبالآخر اسمبلی الیکشن دو حلقوں سے لڑا،اور و ہ بھی اُس نظام کے تحت جس کی وضاحت جموںوکشمیر تنظیم نو قانون میں کی گئی تھی اور یوں وہ پہلے مرحلہ پر ہی 2019کی تبدیلیوں کو قبول کرنے کے مرتکب ٹھہرے ۔پھر ایک قانون ساز کے طور پر اُس نظام سے وفاداری اور اس کی پاسداری کا حلف اٹھا یاجس نظام نے پہلے کی ہماری بااختیار پوزیشن کی جگہ لے لی تھی اور پھرآخر کار حکومت میں رہ کر بطور وزیر اعلیٰ بھی انہوںنے اُن تبدیلیوں کو جواز فراہم کیا۔اب عمر عبداللہ کچھ بھی کہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ انہوںنے بھی2019کے فیصلوں کو نارملائز کرنے میں اپنا کردار بخوبی نبھایا۔2019کے فیصلوں پر مہر ثبت کرنے کی ذمہ داری ہر کسی پر عائد ہوتی ہے۔ ہر سیاسی جماعت جس نے حصہ لیا، اور ہر امیدوار جس نے الیکشن لڑا ،اس سے قطع نظر کہ وہ جیت گیا یا ہارگیا،وہ عوام کا مجرم ہے کیونکہ اُس نے تبدیلیوں کو ٹھنڈے پیٹوںقبول کیا۔ وہ واحد راستہ جو ماضی کی پوزیشنوں اور مستقبل کے امکانات پر جبری بات چیت کا راستہ اختیار کرنے پر دلّی کو مجبور کرسکتا تھا،وہ تمام جماعتوں کی جانب سے اجتماعی طور پرالیکشن لڑنا تھا اور انتخابات کو آرٹیکل 370 کی منسوخی پر ریفرنڈم کے طور پیش کرنا تھا لیکن گپکار الائنس آپسی چپقلشوں کی نذر ہوکر بکھر گیا اور یوں سبھی جماعتوں کو اکیلے میدان میں آنا پڑا حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ ایسا جان بوجھ کر کیا گیا اور جان بوجھ کر وہ اتحاد ختم کیاگیا کیونکہ کوئی بھی سیاسی جماعت کسی دوسری جماعت کو سپیس دینے یا اکاموڈیٹ کرنے کیلئے تیار نہ تھی اور وہاں بھی سیاسی مفادات آڑے آرہے تھے۔پھر کیا تھا،سبھی جماعتیں انفرادی سطح پر سجدے میں گر گئیں اور دلّی کے سامنے جھک گئیں اور چنائو میدان میں ایسے اتریں جیسے کچھ ہوا ہی نہیںتھا۔اگرپی اے جی ڈی نے یونین ٹیریٹری کے مقننہ کے انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہوتا، تو اس نے الیکشن کے اس عمل کوہی بے اعتبار بنادیا ہوتا لیکن افسوس کہ ایساکچھ نہیں ہوا اور اقتدار کی ہوس حسب سابق سب پر سوار ہوئی اور اقتدارکیلئے اس گندمیں گر پڑے۔اب اگر ان کو الیکشن لڑنے ہی تھے تو گپکارالائنس کے تحت ایک ہی پرچم تلے چنائو لڑتے اور پھر ریاستی درجہ کی بحالی کی شرط رکھ کر اُس وقت تک حکومت بنانے سے منکر ہوجاتے لیکن افسوس کہ ایسا بھی نہ ہوا کیونکہ سب کو ااقتدار و اختیار جو پیاراتھا۔ پی اے جی ڈی کے خاتمے کا ذمہ دارکون تھا،وہ غیر متعلق ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ عین انتخابات سے قبل بکھر گئی حالانکہ کشمیر میں اتحاد اور یکجہتی کیلئے ماحول انتہائی سازگار تھا اور لوگوںکی بھی یہی خواہش تھی کہ یہ اتحاد بنا رہے۔وادی کے لوگ چاہتے تھے کہ ہمارے سیاسی لیڈر متحد رہ کر سیاسی محاذ تیار کریں اور دلّی سے دودوہاتھ کریںاور وہ اب کم ازکم اقتدار کی سیاست سے ہٹ کر شناخت کی سیاست کریں لیکن ایسا نہ ہوا۔ ان سب نے انفرادی طور پر اس کا وعدہ توکیا لیکن اجتماعی طور پر اس پر اتفاق کرنے میں ناکام رہے اور یوں برملا ظاہرکردیا کہ کس طرح پارٹی کی سیاست نظریاتی مفادات پر سبقت لے جاتی ہے اور یوں عوامی خواہشات کو سیاسی مفادات کی قربان گاہ پر ایک بار پھر قربان کیاگیا۔ بلا شبہ پھر الیکشن مہم میں اتحاد کے اس جذبہ نے نیشنل کانفرنس کے حق میں کام کیا اور نیشنل کانفرنس کو اس وجہ سے واضح منڈیٹ مل گیا کیونکہ پی ڈی پی کے خلاف لوگوں میں ناراضگی تھی اور لوگ اس حالت کیلئے یہ کہہ کر پی ڈی پی کو ذمہ دار ٹھہرا رہے تھے کہ انہوںنے ہی بی جے پی کو یہاں لاکر کشمیرکو اس مقام تک پہنچا دیا۔پی ڈی پی کو ہزیمت آمیز شکست مل گئی اور لوگوںنے متبادل کے طور نیشنل کانفرنس کا انتخاب کیا ۔نیشنل کانفرنس حکومت تو بن گئی لیکن کیا کچھ نہیں اور نہ کچھ کرسکتی ہے ۔پی ڈی پی اپنی سیاسی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے اور محبوبہ مفتی سے لیکر التجا مفتی اور وحید پرہ کے تیز و تند بیانات کا مقصد عوام کی ترجمانی کرنا نہیں بلکہ پارٹی کی کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبارہ بحال کرنا ہے اور اس عمل میں وہ خود کو مسیحا کے طور پیش کرناچاہتی ہے اور نیشنل کانفرنس کو گناہ گاروںکے صف میں کھڑا کردیتی ہیں حالانکہ حقیقت یہی ہے کہ جتنی قصور وار نیشنل کانفرنس ہے ،اتنی ہی قصور پی ڈی پی اور دیگر جماعتیں اور امیدوار ہیں۔ایک اور سطح پر یہ سیاسی انحطاط اتنا نیا بھی نہیں ہے۔ 1953 سے سیاسی انحطاط کا یہ سلسلہ چل رہا ہے ۔شیخ محمد عبداللہ ،بخشی غلام ،جی ایم صادق ،شمس الدین ،ڈاکٹر فاروق عبداللہ ،مفتی محمد سعید ،غلام نبی آزاد ،عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی تک جتنے بھی سیاسی لیڈر او ر وزیراعلیٰ آئے ،سب نے اپنے اپنے وقت پر اقتدار کی خاطر سمجھوتے کئے۔آج کشمیر جس حال میں ہے ،اس کیلئے یہ سب برابر کے ذمہ دار ہیں۔انہوںنے ہی وقت وقت پر محض اپنے اقتدا ر کی خاطر کشمیر کے مفادات کو بیچ کھایا اور اب یہ پارسا بننے کی کوشش کررہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اس حمام میں یہ سب ننگے ہیں اور کوئی کسی کو نہیں کہہ سکتا کہ آپ قصور وار ہیں جبکہ سچائی یہی ہے کہ یہ سب کشمیر یوںکے قصور وار ،گناہ گار اور سزاوار ہیں کیونکہ انہوںنے ہمیشہ کشمیر کا سودا کیا اور آج بھی تاریخ کے انتہائی نازک ترین موڑ پر انہیں کشمیری عوام کی ترجمانی کرنا تھی اور متحد ہوکر دلّی سے کچھ لینے کی جدوجہد کرنی تھی تو انہوںنے الیکشن میں حصہ لیکر اقتدار کو گلے لگانا بہتر سمجھا اور یوںایک بار پھر کشمیری عوام کے اعتماد کے ساتھ کھیلا گیا اور یہ صورتحال یہ ہے کہ کشمیر ی عوام کے ہاتھ بے اختیاری کے سوا کچھ نہیں ہے اور شاید ہی یہ بے اختیاری مستقبل قریب میں کبھی ختم ہونے والی ہے۔

واپس کریں