دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عمر عبداللہ حکومت اتنی بے بسی آخر کیوں؟
شاہد رہبر ، سرینگر
شاہد رہبر ، سرینگر
عوام کو انتظامی اور سیاسی وعدوںکی وفائی کا انتظار نیشنل کانفرنس حکومت دلّی سے دو دو ہاتھ کرنے کو نہیں تیار رہبر ڈیسک وزیراعلیٰ عمر عبداللہ اور اُن کے کابینی رفقاء ایک ایک کرکے دلّی دربار میں حاضری لگا رہے ہیں۔پہلے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے خود دو دفعہ دلّی کا طواف کیا اور مرکزی وزراء سے ملاقاتیں کیں جس کے بعد اُن کے کابینہ وزیر ستیش شرما نئی دہلی چلے گئے اور وہاں کئی مرکزی وزراء سے ملاقاتیں کرکے اُن سے اپنی وزارتوں کیلئے جموںوکشمیر کی خاطر فراخدلانہ امداد طلب کی ۔اس کے بعد آج کل جل شکتی ،جنگلات و ماحولیات اور قبائلی امور کے وزیر جاوید رانا دلّی میں خیمہ زن ہیں اور مرکزی وزراء سے ملاقاتیں کررہے ہیں جبکہ انہوں نے فوجی سربراہ سے بھی ملاقات کی ۔ گوکہ ان ملاقاتوں میں کوئی حرج نہیں ہے اور یہ معمول کا عمل ہے جس میں وزراء کی کوشش رہتی ہے کہ و ہ اپنی وزارتوں کیلئے زیادہ سے زیادہ مرکزی فنڈس حاصل کرسکیں تاہم ان ملاقاتوں کے دوران سیاسی مسائل پر معنی خیز خاموشی کئی سوالات کو جنم دیتی ہے اور ایسا عندیہ ملتا ہے کہ اس حکومت نے حساس سیاسی معاملات پر خاموشی کا روزہ رکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔

ویسے بھی اس حکومت کے سربراہ وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے بذات خود چند روزقبل کہا کہ وہ دلّی کے ساتھ لڑائی کے ساتھ متحمل نہیں ہوسکتے ہیں اور اُنہیں خصوصی پوزیشن کیلئے انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ بقول ان کے اس میں وقت لگے گا۔ جب حکومتی سربراہ کی یہ سوچ ہو تو اُن کے زیر نگراں وزیروں کا خاموش رہنا سمجھ سے بالاتر نہیںہے ۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ عمر عبداللہ حکومت نے ریاستی درجہ کی بحالی اور خصوصی پوزیشن کی واپسی جیسے اہم اور حساس نوعیت کے سیاسی نوعیت کو فی الوقت پس پشت ڈال دینے کا فیصلہ لیا ہے اور وہ کسی بھی طور ان مدعوں پر دلّی کے ساتھ کسی قسم کا جھگڑا مول لینے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔مبصرین کے مطابق یہ عمر عبداللہ کی ذاتی سوچ ہوسکتی ہے کہ ایسا کرکے وہ فی الوقت دلّی سے زیادہ سے زیادہ مالی مراعات حاصل کرسکتے ہیں تاہم مقامی سطح پر یہ وطیرہ عمر حکومت کیلئے گھاٹے کا سودا ثابت ہوسکتا ہے اور اس سے عوامی ناراضگی میں اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ عمر عبداللہ حکومت تعمیر و ترقی کے وعدوں پر عوام کے ووٹ لیکر حکومت میں نہیں آئی ہے بلکہ نیشنل کانفرنس کی پوری چناوی مہم خصوصی پوزیشن کی واپسی اور ریاستی درجہ کی بحالی سمیت اہم سیاسی مسائل پر مشتمل تھی جس میں جذباتی نعروں کا سہارا لیکرلوگوں سے یہ کہہ کر ووٹ بٹورے گئے کہ اگر نیشنل کانفرنس حکومت میں آتی ہے تو وہ ان چیزوں کے حصول کیلئے جدوجہد کرے گی تاہم جو موقف یہ حکومت اب اختیار کرتی نظر آرہی ہے ،وہ نیشنل کانفرنس کے چناوی منشور سے بالکل متصادم نظر آرہا ہے ۔

جائزہ نگار کہتے ہیں کہ عمر عبداللہ کو عمومی حالات میں کوئی عام منڈیٹ نہیں ملا ہے بلکہ اُنہیں بحرانی حالات میں ایک منفرد منڈیٹ ملا ہے اور عوام نے اُن کے چناوی نعروں کو قبول کرتے ہوئے اُنہیں بھاری منڈیٹ صرف اس امید کے ساتھ دیا کہ وہ ان وعدوں کی وفائی میں دن رات ایک کریں گے تاہم تاحال ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے بلکہ اس کے برعکس عمر عبداللہ فی الحال دلّی کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش میں نظر آرہے ہیں اور اس میں وہ کس حد تک کامیاب ہورہے ہیں،وہ ایک الگ موضوع ہے ۔تجزیہ کار مانتے ہیں کہ اپنی حکومت کے ابتدائی چند ماہ میں عمر عبداللہ عوام سے کئے گئے وعدوں سے منحرف ہوتے نظر آرہے ہیں اور یہ کوئی اچھی صورتحال قرار نہیں دی جاسکتی ہے کیونکہ منڈیٹ کا تقاضا بالکل مختلف ہے ۔ اب عمر عبداللہ سے لیکر ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور باقی نیشنل کانفرنس قیادت بار بار یہ کہہ رہی ہے کہ اُنہیںپانچ سال کا منڈیٹ ملا ہے اور وہ پانچ سال میں اپنے سارے چناوی وعدے وفا کریں گے تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نیشنل کانفرنس حکومت پانچ برسوں کے دورا ن کسی غیبی مدد کی منتظر رہے گی کہ وہ مدد آئے اور اللہ دین کے چراغ کے مصداق ان کے سارے چناو ی وعدے خود بخود حل ہوں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فی الوقت درون خانہ عمر عبداللہ حکومت اور نیشنل کانفرنس خود شش و پنج میں مبتلا ہے کہ آخر یہ حکومت چلائی جائے تو کیسے ؟۔اس میں کوئی شک نہیںہے کہ اس حکومت کو چلانے کے طریقہ کار کیلئے بزنس رولز بنائے جارہے ہیں اور اس ضمن میں ایک کمیٹی کام کررہی ہے جو شاید 4فروری کو ان رولز کو حتمی شکل بھی د ے گی تاہم یونین ٹریٹری میں جس طرح عمر عبداللہ کو قدم قدم پر راج بھون کی مداخلت کا سامنا ہے ،اُس نے اُنہیں ایک طرح سے بے بس کرکے رکھ دیا ہے اور اُن کے پاس کرنے کو کچھ زیادہ نہیں بچا ہے بلکہ حد تو یہ ہے کہ بیروکریسی اس حکومت کے سامنے بالکل بھی جوابدہ نہیںہے اور عمر عبداللہ چاہ کر بھی کسی ایک بیروکریٹ کا تبادلہ تک نہیںکرسکتے ہیں۔واقف کار حلقوںکا مانناہے کہ اس صورتحال نے حکومت کی پوزیشن مضحکہ خیز بنا دی ہے اور وزیراعلیٰ سے لیکر کابینی وزراء تک سبھی مذاق بنتے جارہے ہیں کیونکہ سیول سیکریٹریٹ میں کام بالکل ویسے ہی ہورہا ہے جیسے گورر راج کے دوران ہورہا تھا ،فرق صرف اتنا آیا ہے کہ ان چند وزیروں کو سیکریٹریٹ میں کمرے ملے ہیں تاہم عملی طور کچھ نہیں بدلا ہے اور آج بھی سارے کے سارے فیصلے بیروکریٹ ہی لے رہے ہیں اور بیروکریٹ براہ راست راج بھون کو جوابدہ ہیں۔

جانکار حلقوں کے مطابق گوکہ چیف سیکریٹری اتل ڈلو مقامی ہونے کی وجہ سے عمر حکومت کیلئے ذرا نرم گوشہ رکھتے ہیں تاہم وہ بھی جانتے ہیں کہ طاقت کا توازن کس جانب ہے اور وہ بھی کسی طور اپنے آقائوں کی ناراضگی مول نہیں لیناچاہتے ہیں بلکہ اُن کی جانب سے بار بار میٹنگوں کا انعقاد یہ اشارہ دیتا ہے کہ یہ عوامی حکومت علامتی ہے بلکہ اصل طاقت کہیں اور ہے ۔قابل ذکر ہے کہ چیف سیکریٹری مسلسل محکموںکی میٹنگیں لے رہے ہیں اور بڑے بڑے فیصلے لئے جاتے ہیں حالانکہ عمومی طور عوامی حکومتوں میں یہ فیصلے اور یہ میٹنگیں وزیراعلیٰ لیتے ہیں لیکن یہاں بالکل برعکس ہورہا ہے اور وزیراعلیٰ محض تماشائی بن کررہ گئے ہیں۔ مبصرین کہتے ہیں کہ یہ صورتحال قطعی اس حکومت کیلئے اطمینان بخش نہیں ہے اور عمر عبداللہ کو اپنی بات منوانا ہی پڑے گی اگر اُنہیں عوام میں اپنی ساخت بنائے رکھنی ہے ۔یہ تجزیہ کار پریشان ہیں کہ اگر ممتا بینر جی اور اروند کیجریوال دلّی کی آنکھ سے آنکھ ملا کر حکومت ہی نہیں ،اپنی سیاست کرسکتے ہیں تو عمر عبداللہ کو ایسا کرنے سے کس چیز نے روکا ہے؟۔

جائزہ نگار کہتے ہیں کہ بلاشبہ جموں وکشمیر کی مالت حالت پتلی ہے اور عمر عبداللہ کو قدم قدم پر دلّی کی ضرورت پڑے گی تاہم ان کا ماننا ہے کہ مرکز سے فنڈس معمول کے مطابق سبھی یوٹیز اور ریاستوں کو ملتے ہیں اور فنڈس کا بہانہ بنا کر دلّی سے سینگ نہ لڑانے کا فیصلہ عمر عبداللہ حکومت کو مہنگا پڑ سکتا ہے ۔ان مبصرین کے مطابق عمر عبداللہ حکومت کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ جو لائن وہ اختیار کررہے ہیں ،وہ عوامی جذبات و خواہشا ت سے میل نہیں رکھتی ہے اور اس کا انہیں خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے ۔ تجزیہ کارکہتے ہیں کہ اگر عمر عبداللہ حکومت کو عوام میں اپنی مطابقت برقرار رکھنی ہے تو اُنہیں کچھ سخت فیصلے لینا ہونگے جس میں سب سے بڑا فیصلہ یہ ہوناچاہئے کہ اُنہیں ریاستی درجہ کی بحالی اور خصوصی پوزیشن کی واپسی کیلئے کوئی ٹھوس موقف اپنانا چاہئے۔درمیانی را ہ اپنا کر وہ بھلے ہی دلّی کو خوش کرنے کی کوششیں کریں لیکن تاحال اس طرح کی پوسچرنگ سے دلّی سے کچھ نہیں ملا ہے اور نہ ہی آگے ملنے کی کوئی امید نہیں ہے کیونکہ دلّی والے جانتے ہیں کہ اُنہیں کب ،کہاں اور کیا کرنا ہے۔مبصرین زیڈ موڑ ٹنل کی افتتاحی تقریب کے دوران سونہ مرگ میں وزیراعلیٰ کی تقریر پر بھی حیران ہیں کہ اُنہوں نے کیوں کر وزیراعظم کی خوش آمد میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے حالانکہ ان کے مطابق ایسا کرنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ان مبصرین کا کہنا ہے کہ موسم کی مہربانیوں کا ذکر کرنے سے لیکر وزیراعظم کے جموں وکشمیر دوروں کو یاد کرکے بھلے ہی عمر عبداللہ مودی کو خوش کرنا چاہتے تھے تاہم مودی بھی کوئی نوآموز سیاست دان نہیں ہیں کہ وہ نہ سمجھ سکیں کہ عمر عبداللہ اُن کی اتنی خوش آمد کیوںکررہے تھے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اس تقریب میں ایک مضبوط عوامی نمائندے کا رول ادا کرنے کی بجائے وزیراعظم کی خوش آمد کرکے عمر عبداللہ نے اپنی ہی پوزیشن مزید مضحکہ خیز اور کمزور کردی ہے اور اس کے صلہ میں اُنہیں اس کے سوا کچھ نہیں ملا کہ وزیراعظم مودی نے کہا کہ وہ اپنے وعدے نبھاتے ہیں اور صحیح وقت پر صحیح چیزیں ہونگیں ۔اب یہ صحیح وقت مودی کی نظر میں کب آئے گا ،اُس کا کسی کو پتہ نہیں تاہم وہ نزدیک نظر نہیں آرہا ہے اور یوں عمر عبداللہ کو طویل انتظار کے کرب سے گزرنا پڑسکتا ہے۔ کل ہی عمر عبداللہ کے قریب ترین ساتھی اور نیشنل کانفرنس کے ترجمان اعلیٰ تنویر صادق نے یہ کہہ کر ایک امید دلانے کی کوشش کی کہ جاریہ پارلیمنٹ سیشن کے دوران ریاستی درجہ بحال ہوسکتا ہے تاہم یہ امید بھی بھرآنے کی کوئی امید نظر نہیں آرہی ہے کیونکہ پارلیمانی سیشن کا جو کلینڈر جاری کیاگیا ہے ،اُس میں اس طرح کا کوئی بزنس نہیں رکھاگیا ہے اور نہ ہی ایسا کوئی بل یا مسودہ قانون اس سیشن میں پارلیمنٹ میں پیش ہونے کا کوئی منصوبہ ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پارلیمانی سیشن کے دوران بھی جموں وکشمیر کو سیاسی محاذ پر کچھ ملنے والا نہیں ہے اور اگر یہ سیشن بھی ایسے ہی جائے تو عمر عبداللہ کس سیشن کا انتظار کررہے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ عمر عبداللہ کی یہ خاموشی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے ۔کیا وہ یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ کچھ بدلنے والا نہیں ہے ؟یا کیا وہ یہ مان کر چلے ہیں کہ فی الحال کچھ ملنے والا نہیں ہے ؟ یا کیا وہ دلّی کی قربت حاصل کرکے فی الحال اقتدار کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں؟۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کا عمر عبداللہ کو دیر یا سویر جواب دینا ہی پڑے گا اور وہ جواب دینے میں جتنا جلدی کریں گے ،اُتنا ہی بہتر رہے گا اور جتنا تاخیر کی جائے گی ،اُسی قدر ابہام بڑھتا چلا جائے گا اور یہ ابہام پھر بد ظنی پر ختم ہوسکتا ہے جو عمر حکومت کیلئے کوئی اچھا شگون نہیں ہوگا۔

مبصرین کے مطابق وقت آچکا ہے جب عمر عبداللہ کو خاموشی کا روزہ توڑ کر کوئی پوزیشن لینا پڑے گی او ر یہ واضح کر ناپڑے گا کہ اُن کی اصل منشا ء کیا ہے کیونکہ وہ زیادہ دیر تک ایسے مبہم رویہ اپنا نہیں سکتے ہیں۔ان تجزیہ کاروںکے مطابق جو منڈیٹ نیشنل کانفر نس حکومت کو ملا ہے،وہ خاموشی یا دلّی سے پینگیں بڑھانے کیلئے نہیںملا ہے بلکہ دلّی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا حق مانگنے کیلئے ملا ہے اور عمر عبداللہ جتنا اس حق سے آنکھیں چرائیں گے ،اُتنا ہی اُن کیلئے مسائل بڑھتے رہیں گے اور وہ خود کو انتہائی سخت پوزیشن میں پائیں گے۔ظاہر ہے کہ عمر عبداللہ اب تک عوام کو ایک چیز بھی نہیںدے پائے ہیں ۔نہ پولیس راج ختم ہوسکا ہے ،نہ بیروکریسی کا دبدبہ کم ہوا ہے ۔نہ مفت راشن دوگنا ہواہے ۔نہ مفت بجلی ملی ہے اور نہ ہی عوام کو کوئی اور راحت ملی ہے ۔جب عوا م کو انتظامی اور سیاسی سطح پر کوئی راحت نہ ملے تو یہ حکومت کیا کررہی ہے ۔ایسے میں عوام شاید یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے گی کہ اس حکومت کا ان کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے اور یہ حکومت عوام کے انتظامی اور سیاسی مسائل سے لاتعلق ہوکر فقط اقتدار کے مزے لوٹنا چاہتی ہے ۔اس طرح کی سوچ کا پیدا ہونا تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے اور اس سے پہلے اس حکومت کو خواب خرگوش سے بیدار ہوکر اپنے چناوی وعدے وفا کرنے کیلئے عملی اقدامات کرنا ہونگے جس میں نہ صرف خود مقامی سطح پر فیصلے لینا ہونگے بلکہ دلّی سے بھی اپنی بات منوانا پڑے گی چاہے اس کیلئے دلّی کے ساتھ دو دوہاتھ بھی کیوں نہ کرناپڑیں۔

واپس کریں