شاہد رہبر ، سرینگر
براہ راست سفر نہ مال بردار ریل گاڑیاں کشمیر ریل پروجیکٹ مکمل تو ہوا لیکن عوام کو کیا ملے گا؟ رہبر ڈیسک کشمیر ریل پروجیکٹ بالآخر مکمل ہوچکا ہے اورکسی بھی وقت کٹرہ سے کشمیر تک ٹرین کو ہری جھنڈی دکھا کر روانہ کیا جائے گا۔ریلوے پروجیکٹ کے تمام معائنے ہوچکے ہیں اور اب صرف وزیراعظم سے وقت ملنے کا انتظار ہے تاکہ کسی مناسب وقت پر کٹرہ سرینگر سیکشن کا باضابطہ افتتاح کیاجاسکے۔یہ ایک امید افزا خبر ہے کہ بالآخر کشمیر ریل نیٹ ورک کے ذریعے بھارت سے جڑ جائے گا ۔ایک طویل انتظار کے بعد بالآخر وہ خواب حقیقت بننے جارہا ہے جس کا دہائیوں سے انتظار تھا۔کٹرہ اور سرینگر سیکشن کے درمیان مختلف رفتاروں پر ریل کی آزمائشی دوڑیں مکمل ہوچکی ہیںتاہم حتمی طور یہ طے ہوا ہے کہ اس سیکشن پر ریل زیادہ سے زیادہ85کلومیٹر رفتار سے چلے گی ۔اب جبکہ ریل چلنے والی ہے تاہم یہ خوابوں کی مکمل تعبیر نہیں ہے اور نہ ہی وہ سارے مقاصد پورا ہونگے جس کیلئے یہ ریل لائن بنائی گئی تھی۔
کشمیر ریل لنک کی تاریخ جموں سے سرینگر تک ریلوے پروجیکٹ کے تعمیر کی تاریخ 41سال پرانی ہے ۔پہلی دفعہ1983میںاُس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے ریلوے وزیر غنی خان چودھری کے ہمراہ54کلومیٹر ادھمپور جموں سٹریچ کا سنگ بنیاد رکھا۔اس کے بعد1986میں وزیراعظم راجیو گاندھی نے ریلوے وزیر مدھورا شنڈیا کے ہمراہ ایک بار پھر اسی سٹریچ کا سنگ بنیاد رکھا ۔1997میں دیوی گوڑا کی سربراہی والی مرکزی حکومت میں دیوی گوڑا نے ریلوے وزیررام ولاس پاسوان کے ساتھ مل کے ادھم پور کشمیر لنک کا سنگ بنیاد رکھا۔1997میں ہی وزیراعظم آئی کے گجرال نے رام ولاس پاسوان کے ہمراہ ہی دوبارہ اس پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا ۔2002میں وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے ریلوے وزیر نتیش کمار کے ہمراہ کشمیر ریل پروجیکٹ کے اہم پل کا سنگ بنیاد رکھا۔2008-09میں وزیر اعظم منموہن سنگھ نے سونیا گاندھی اور ریلوے وزرا لالو پرساد یادو اور ممتا بینر جی کے ساتھ مل کردومرتبہ بارہمولہ سے لیکر قاضی گنڈتک ریل لائن کا افتتاح کیاجس کے بعد قاضی گنڈ بانہال سٹریچ بھی تیار ہوا۔پھر اس کو سنگلدان تک وسعت دی گئی اور اس وقت بارہمولہ سے سنگلدان تک ریل چل رہی ہے تاہم سنگلدان سے ادھم پور تک چیلنجوں سے پُر ریلوے ٹریک کی تکمیل کا خواب شرمندہ تعبیر ہو نے میں مزید وقت لگ گیا۔مرکزی حکومت کی ایک رپورٹ کے مطابق کشمیر سے ریل رابطہ 20 سال سے زیادہ تاخیر کا شکار ہے اور 241 مہینوں کے دوران اس کی لاگت میں 25,449 کروڑ روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس پروجیکٹ کی منظوری کی تاریخ مارچ 1995 تھی جس وقت اس کی تخمینہ لاگت 2500 کروڑ روپے تھی۔نظرثانی شدہ لاگت اب 27,949 کروڑ روپے ہے جس کا مطلب ہے کہ تخمینہ لاگت میں اب 25,449 کروڑ روپے اضافہ ہواہے اور 241 مہینوں کے وقت کا بھی اضافہ ہوا ہے۔ 272کلومیٹر ادھم پور ۔بارہمولہ ریلوے لائن منصوبے میں 38 سرنگیں شامل ہیں جن کی مشترکہ لمبائی 119 کلومیٹر ہے اور اس کے علاوہ 67 کلومیٹر اسکیپ سرنگیں بھی تعمیر کی جا رہی ہیں۔اس میں 927 پل ہیں جن کی مشترکہ لمبائی 13 کلومیٹرہے۔ ان پلوں میں مشہور چناب پل (مجموعی طور پر لمبائی 1315 میٹر، محراب کا دورانیہ 467 میٹر اور دریا کے بستر سے 359 میٹر کی اونچائی) شامل ہے جو دنیا کا سب سے اونچا ریلوے پل ہو گا۔ انجی کھڈ پر بھی ریلوے کا پہلا جھولا پل بنایا جا رہا ہے۔ کام کی حیثیت کو چار سیکشنوں میں تقسیم کیا گیا ۔پہلا مرحلہ ادھم پور ۔کٹرہ ہے جو25کلو میٹر طویل ہے اور اس کو4جولائی2014کو ٹریفک کیلئے کھولاگیا تھا۔دوسرا مرحلہ کٹرہ ۔بانہال 111کلومیٹر ہے جس پر کام اب کام مکمل ہوچکا ہے تاہم ٹرین چلنا باقی ہے۔تیسرا مرحلہ بانہال ۔قاضی گنڈ 18کلومیٹر سٹریچ ہے جبکہ چوتھا مرحلہ قاضی گنڈ بارہمولہ 118کلومیٹر سٹریچ شامل ہیں۔قاضی گنڈ بانہال اور قاضی گنڈ بارہمولہ سٹریچ بھی مکمل ہیں اور ان پر ٹرین چل رہی ہے جو فی الوقت بارہمولہ سے سنگلدان کے درمیان چل رہی ہے ۔
اب جہاں تک کٹرہ ۔سنگلدان111کلومیٹر سیکشن کا تعلق ہے تو یہ شاید برصغیر ہندوپاک میں شروع کیا جانے والا سب سے مشکل نیا ریلوے لائن منصوبہ تھا۔ اس حصے میں بنیادی طور پر 164 کلومیٹر (97.57 کلومیٹر مین ٹنل اور 66.4 کلومیٹراسکیپ ٹنل) کی سرنگوں اور کل 37 پلوں کی تعمیر شامل تھی جس میں دریائے چناب پرعظیم پل، انجی کھڈ ،پل نمبر 39 اورپل نمبر 43 شامل تھے تاہم اب یہ سارے کام ہوچکے ہیں۔ یہ منصوبہ کیوں اتنی تاخیر کا شکار ہوا ،اس کیلئے ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ابتداء سے ہی ناقص حکمت عملی کا شکار رہا۔ ریلوے ،خزانہ ،منصوبہ بندی کمیشن اور محکمہ شماریات کی ایک میٹنگ میں مرکزی ریلوے حکام نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس پروجیکٹ کی بڑھتی قیمت کیلئے ابتدائی ویری فکیشن میں نقائص کا ہونا ذمہ دار ہے۔اس کیلئے ریلوے محکمہ نے چار وجوہات بیان کئے تھے۔پہلی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ ریلوے کو رابطہ سڑکوں کیلئے957کروڑ دستیاب رکھنا پڑے کیونکہ اس علاقہ میں سڑک رابطوں کا فقدان تھالہٰذا ٹنلوں اور ٹریک کی تعمیر کیلئے سڑکیں تعمیر کرنا ضروری تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ریلوے لائن کی تعمیر کیلئے جتنی سڑکیں تعمیر کی گئیں،ان کی لمبائی کل ریل پروجیکٹ کی لمبائی سے دوگنی ہے۔دوسری وجہ یہ ظاہر کی گئی تھی کہ ارکان اور کون کان ریلوے پروجیکٹ کی قیمت سے دس فیصد زیادہ حصہ کی بنیاد پر کام کررہے تھے جس کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔قیمتوں میں اضافے کی تیسری وجہ کیلئے سیکورٹی خدشات کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا اور اس کے تدارک کیلئے ریلوے محکمہ کے بقول سیکورٹی پوسٹوں کی کثیر تعداد،بارکیں ،کوارٹر اور سازوسامان کو ترمیمی تخمینہ میں شامل کیا گیا تھاجبکہ ریلوے کے نزدیک چوتھی وجہ ادھم پور سے لیکر بارہمولہ تک پورے ٹریک پر بجلی کا انتظام کرنے کیلئے 301کروڑ روپے مختص رکھنا تھا جو ریلوے حکام کے نزدیک ابتدائی تفصیلی پروجیکٹ رپورٹ میں نہیں رکھا گیا تھا۔بہر حال ان سب عوامل پر قابو پالیاگیا اور ریلوے لائن بالآخر مکمل کرلی گئی۔
ڈیڈلائنیں جو گزر گئیں سابق ریاستی حکومت نے کہاتھا کہ جموں وکشمیرکو بیرون ملک کے ساتھ سال 2017تک ریل سروس کے ذریعے جوڑا جائیگا اور یہ کہ ادھم پور سے سرینگر تک ریلوے لائن 2017میں مکمل ہوگی تاہم یہ ڈیڈلائن بھی فیل ہوگئی اورپھر2020تک کٹرہ قاضی گنڈ 111کلومیٹر سٹریچ کو مکمل کرنے کا اعلان کیاگیا لیکن وہ ڈیڈلائن بھی پوری نہ ہوسکی جس کے بعد15اگست2022کی ایک اور ڈیڈ لائن خود وزیراعظم نریندر مودی نے مقرر کی تھی تاہم وہ امیدبھی بھر نہیں آئی۔پھر بارہا یہ اعلان کیاگیا کہ 2023کے آخر تک دلّی سے کشمیر تک براہ راست ٹرین چلے گی تاہم اس اعلان پر بھی عملدرآمد نہ ہوا اور اب2024چل رہا ہے تاہم اطمینان بخش امر یہ ہے کہ اب کام مکمل ہوچکا ہے اور معائنے بھی ہوچکے ہیں جبکہ اب صرف ٹرین چلنا باقی ہے۔ خواب مکمل ،تعبیر ادھوری! اب جبکہ خواب مکمل ہوچکا ہے اور کشمیر کو ریل لنک کے ذریعے باقی ملک کے ساتھ جوڑا گیا ہے اور کسی بھی وقت ریل چل سکتی ہے تاہم یہ خوابوں کی مکمل تعبیر نہیں ہے ۔چند روز قبل ریلوے وزیر اشونی ویشنو نے دلّی میں ایک پریس کانفر نس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال کشمیر بھارت کیا جموں سے بھی براہ راست ریل کے ذریعے نہیں جڑ پائے گااور فی الوقت ٹرین صرف کشمیر سے کٹرہ کے درمیان چلے گی ۔اُنہوں نے اس کیلئے جموں ریلو ے سٹیشن کی توسیع کاری کو ذمہ داری ٹھہرایا اورکہا کہ جموں ریلوے سٹیشن پر پلیٹ فارموں کی تعداد 3سے بڑھا کر 7کی جارہی ہے اور یہ کام ستمبر تک مکمل ہونے کی امید ہے جس کے بعد ہی کشمیر کو جموں ریلوے سٹیشن سے جوڑ اجائے گا۔
یہ تو ایک خواب ہے جو نامکمل ہی رہا کیونکہ ریل جموں تک بھی برا ہ راست نہیں جائے گی اور ہمیں کٹرہ تک ہی جانا نصیب ہوگا جہاں سے ریل بدلنا پڑے گی یا زمینی راستے سے بذریعہ گاڑی جموں جانا پڑے گا۔دوسرا اور اہم مسئلہ کشمیر کو دلّی سے برا ہ راست نہ جوڑنا ہے ۔وزیر نے واضح کیا کہ کشمیر سے دہلی یا ملک کے کسی اور حصے کیلئے کوئی براہ راست ریل نہیں چلے گی بلکہ پہلے کٹرہ اور اس کے بعد جموں میں ریل بدلنا پڑے گی جس کا مطلب یہ ہوا کہ کشمیر ی عوام کا براہ راست دلّی سے جڑ جانے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔وزیرنے اس کیلئے موسمی اور جغرافیائی حالات کو ذمہ دارٹھہرایا اور کہا کہ کشمیر کیلئے ریل گاڑیاں خصوصی طور پر ڈیزائن کی گئی ہیں جو منفی درجہ حرارت میں بھی بلا رکاوٹ چلنے کے علاوہ دھند اور برف باری میں بھی چل سکتی ہیں جبکہ ٹنلوں میں بھی چلنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر کا موسم قدرے مختلف ہے تاہم کشمیر دلّی ٹرین کو صرف اس لئے نہ چلانا کہ موسم آڑے آرہا ہے ،کوئی معقول وجہ نہیں لگ رہی ہے ۔
ہمیں یہ سمجھ لیناچاہئے کہ کٹرہ میں کشمیر ریل کیلئے پلیٹ فارم تک علیحدہ کر دیاگیا ہے جہاں تمام مسافروں کو نیچے اتار کرتلاشی کے سخت مراحل سے گزارا جائے گا جس کے بعد ہی اُنہیں دوسری ٹرین میں کشمیر کی طرف یا دہلی کی طرف جانے کی اجازت ہوگی جبکہ اسی طرح دہلی میں بھی ایک پلیٹ فارم اس کیلئے وقف ہوگا جہاں بالکل ایئر پوٹ طرز پر تلاشی کا عمل ہوگا اور اُس عمل سے گزرنے کے بعد ہی مسافروں کو کشمیر ریل میں سفر کی اجازت ہوگی تاہم وہ ریل کٹرہ میں ہی رُکے گی اور وہاں اُنہیں تلاشی کے دوسرے مرحلہ سے گزر کر کشمیر ٹرین پر سفر کرنے کی اجازت مل جائے گی اور یوں یہ سفر عمومی حالات میں ممکن ہی نہیںہے کیونکہ اس قدر سخت ترین مراحل سے گزر نا عام لوگوں کیلئے آسان نہیں ہوگا۔ دوسرا شاک کشمیری عوا م کیلئے یہ تھا کہ اس ریلوے لائن پر مال بردار ریل گاڑیاں نہیں چلیں گی اور یوں کشمیر سے کنیا کماری تک ریل گاڑی کے ذریعے مال برداری کا خواب ،خواب ہی رہ جائے گا ۔
کشمیر کے میوہ تاجروں کو امید تھی کہ ٹرین جب چلے گی تو وہ سستی قیمتوں پر اور بہت جلد اپنا میوہ ملک کی سبھی منڈیوں تک پہنچا پائیں گے لیکن یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا کیونکہ اس روٹ پر مال بردار ریل گاڑیاں چلیں گی ہیں نہیں اور یہ ریلوے ٹریک مال بردار ٹرینوں کیلئے بنا ہی نہیں ہے۔20سال تک اس ریلوے لائن کے فی کلو میٹر کی تعمیر پر اوسطاً 8ہزار کروڑ روپے خرچ کرنے کے بعدیہ ریلوے لائن مال بردار ٹریفک کیلئے محفوظ نہیں ہے جو ریلوے حکام کے منہ پر بہت بڑا طمانچہ ہے اور کشمیر ی عوام کیلئے مایوسی کا بہت بڑا سبب۔ریلو ے کے سابق انجینئروں کا کہناہے کہ یہ ریل لائن مکمل طور محفوظ نہیں ہے کیونکہ اس کے ڈیزائن میں خامیاں ہیں اور نہ ہی پلوں کا لوڈ برداشت کرنے کا ٹیسٹ نہیں کیاگیا ہے اور نہ ہی چناب پل پر ایسا ہوا ہے حالانکہ اکیلے اس پل پراس 40ہزار کروڑ روپے کے پروجیکٹ میں سے14ہزار کروڑ روپے لگے ہیں۔مجموعی طور پریہ ریلوے لائن ملک کی سب سے مہنگی ،سب سے غیر محفوظ اور سب سے کم فائدہ مندریلوے لائن ہے جو مسافرو ں کیلئے درد سر تو ہی ہے لیکن ساتھ ہی تاجرو ں اورکاروباریوں کی مایوسی کا بھی سبب بنی ہوئی ہے کیونکہ اُنہیں اس سے کوئی فائدہ ملنے والا نہیں ہے ۔ ایسے میں آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ یہ پروجیکٹ غیر یقینیت سے نکل کر کب حقیقت بن جائے گا تاہم جس رفتار سے کام ہورہاہے تو امید کی جانی چاہئے کہ اب کی بار ڈیڈلائن سے قبل ہی کام مکمل ہوگا لیکن زمینی صورتحال اس امیدکے سہارے جینے سے باز رہنے کیلئے مجبور کررہی ہے کیونکہ ابھی بھی بہت کام کرنا باقی ہے ۔گوکہ اعلیٰ حکام کہہ رہے ہیں کہ اس سال ے آخر تک یہ پروجیکٹ مکمل ہوگا تاہم زمینی سطح پر پروجیکٹ سے جڑے لوگ ایسا دعویٰ کرنے سے ہچکچارہے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ شاید ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ ان کے نزدیک ابھی بھی بہت کام باقی ہے ۔
واپس کریں