شاہد رہبر ، سرینگر
بڈھال راجوری میں 3گھروں کے صفایا میں کس کا ہاتھ 17انسانی جانوں کے اتلاف کاذمہ دارکون؟،تحقیقا ت جاری،بہت جلد معمہ حل ہوگا! رہبر ڈیسک راجوری ضلع کے کوٹرنکہ سب ڈویژن کے بڈھال گائوں میںقبرستان کی خاموشی ہے ۔ دہشت کے سائے ہر طرف منڈلا رہے ہیں ۔گائوں تقریباً خالی ہوچکا ہے اور بیشتر لوگ اپنے گائوں سے کافی دور ضلع صدر مقام راجوری کے نرسنگ کالج میں قائم قرنطینہ سینٹر میں اپنے شب وروز گزار رہے ہیں جبکہ کئی لوگ ہنوز زیر علاج ہیں۔ آخر یہاں ہوا کیا؟ بڈھال گائوں راجوری سے 69، کوٹرنکہ سے 15کلو میٹر اور تحصیل خواص سے بھی 15کلو میٹر دور بڈھال ، ایک دور افتادہ پہاڑی گائوں ہے۔یہاں 7 دسمبر سے تین خاندانوں میں ہونے والی اموات کا سلسلہ شروع ہوا۔
یہ واقعہ 7 دسمبر 2024 کو اس وقت سامنے آیا جب 7 افراد پر مشتمل ایک کنبہ کسی خاندانی تقریب میں کھانا کھانے کے بعد بیمار ہوگیا، جس کے نتیجے میں 5 افراد ہلاک ہوئے۔ 12 دسمبر 2024 کو9 افراد پر مشتمل ایک اور کنبہ متاثر ہوا، جس نے 3 جانیں لے لیں۔ تیسرا واقعہ 12 جنوری 2025 کو پیش آیا، جس میں 10 افراد کا ایک کنبہ شامل تھا جوکسی تقریب میںکھانا کھانے کے بعد بیمار ہو گیا ، جس میں چھ بچے ہسپتال میں داخل کرنا پڑے، جہاں 5کی موت واقع ہوئی۔پھر ایک ایک کرکے مزید 4اموات ہوئیں اور یوں مہلوکین کی تعداد 17تک پہنچ گئی جن میں 13بچے اور4بڑے لوگ شامل ہیں۔40روز کے بعد اب اس بات کا خلاصہ کیا گیا ہے کہ اہل خانہ نے شاید کھانے کیساتھ کوئی زہریلی شئے کھائی ہو ،جو موت کی وجہ بن گئی ہے لیکن وثوق کیساتھ ابھی کچھ نہیں کہا جارہا ہے۔گائوں میں 13بچوں سمیت17افراد ہلاک ہو چکے ہیں(دسمبر مہینے میں8 اور جنوری میں اب تک9)۔ 3گھر خالی ہوگئے! گائوں میں 3گھر تقریباً خالی ہوگئے ہیں اور ان میں سے کچھ اہل خانہ ہی بچ پائے ہیں۔جوگھر خالی ہوگئے ہیں وہ بھائی، بہن اور انکے ماموں کے ہیں۔سب سے بڑی افتاد فضل حسین کے گھر پر پڑی۔فضل حسین اس واقعہ میں فوت ہوگیا لیکن اسکے ساتھ اسکی 2بیٹیاں اور 2بیٹے بھی اس دنیا سے چلے گئے ہیں۔انکی اہلیہ شمیم اختر پاگل ہوچکی ہے۔اسکے دائیں بائیں کوئی نہیں ہے جس کو وہ پکار سکے۔اسکی ایک بیٹی زندہ ہے جس کی پہلے ہی شادی ہوچکی ہے۔ لیکن اب اسکے گھر میں شور مچانے، کھیلنے اور پڑھنے کیلئے کوئی نہیں بچا ہے۔ اس کا سب کچھ ختم ہوگیا ہے اور اسکی پوری دنیا اجڑ گئی ہے۔
سب سے زیادہ اموات محمد اسلم کے گھر میں ہوئی ہیں۔ اپنے ماموںمحمد یوسف اور ان کی اہلیہ جٹی بیگم سمیت 8افراد کو وہ دفن کرچکا ہے۔جس میں اسکے 6بچے( 2بیٹے اور 4بیٹیاں)بھی شامل ہیں۔محمد اسلم کے ہاں انکی اہلیہ سکیہ بیگم زندہ ہے تیسرا کنبہ محمد رفیق کا ہے۔محمد رفیق کی اہلیہ، ایک بیٹی اور 2بیٹے ابدی نیند سو گئے ہیں۔اب اسکے ہاں دو بیٹے اور تین بیٹیاں زندہ ہیں۔الغرض تین کنبوں میں فضل حسین کے گھر میں 5،محمد اسلم کے گھر میں8بچے اور محمد رفیق کے گھر میں 4لوگ پُر اسرار بیماری کی وجہ سے اس دنیا سے چلے گئے ہیں۔ایک چھوٹے سے گائوں میں تین کنبوں کے 17فوت ہونا کسی قیامت سے کم نہیں ہے اور پچھلے 40روز سے بڈھال گائوں کی فضا مکمل طور پر سوگوار ہے۔ زیر علاج اس وقت جی ایم سی راجوری میں11لوگ زیر علاج ہیں جن میں9بجے اور 2بزرگ لوگ شامل ہیںجبکہ شالامارہسپتال جموں میں 3بہنیں داخل ہیں اور ایک اعجاز نامی نوجوان پی جی آئی چندی گڑھ میں زیر علاج ہے۔بتایا جاتا ہے کہ ان سبھی مریضوں کی حالت بہتر ہے اور نیرو ٹاکزن کیلئے دی جارہی دوائی کام کررہی ہے اور یوں یہ روبہ صحت ہورہے ہیں جبکہ ایک بچی ہی اب جموں میں وینٹی لیٹر پرہے۔
سکریننگ ابتدائی ہلاکتوں کے بعد محکمہ صحت نے دیہاتیوں کی گھر گھر سکریننگ شروع کی۔مقامی صحت حکام کے ساتھ ساتھ باہر سے تمام بڑی لیبارٹریوں سے حکام کو لایا گیا ۔لوگوں سے نمونے لئے گئے اور جموں و کشمیر کے اندر اور باہر مختلف لیبارٹریوں میں جانچ کے لیے بھیجے گئے۔ صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اموات کسی بیماری کی وجہ سے ہوتیں تو یہ فوری طور پر پھیل جاتی اور یہ تین خاندانوں تک محدود نہ رہتی، جو ایک دوسرے سے قریبی علاقوں میں رہ رہے ہیں۔اس کے بعد جنوری میں جب دوبارہ فوتگیاں ہوئیں تو ایک بارپھر مقامی اور بیرون ریاست تحقیقاتی ٹیموں کو کام پر لگایا گیا اور 10ہزار کے قریب نمونے حاصل کئے گئے جن میں خوراک سے لیکر تمام چیزوں کے نمونے شامل تھے۔ بین وزارتی ٹیم کچھ دن قبل جب معاملہ سنگین ہوگیا تو وزیر داخلہ امت شاہ نے وزارت داخلہ کی سربراہی میں بین وزارتی ٹیم تشکیل دیکر اُنہیں بڈھال جانے کی ہدایت دی ۔19جنوری کو وہ ٹیم راجوری پہنچ گئی اور تحقیقات کا عمل شروع کیا ۔اس کے بعد 4روز تک اُن کی تحقیقات چلی اور انہوں نے بھی لوگوں اور اشیائے خور دونوش کے علاوہ پانی سمیت سبھی چیزوں کے نمونے لئے ۔گزشتہ روز وہ ٹیم دہلی واپس روانہ ہوگئی اور200نمونے اپنے ساتھ لئے ہیں۔ اب نمونوں کے جانچ رپورٹو ں کا انتظار ہے اموات کیسے ہوتی ہیں؟
یہ امر قابل ذکر ہے کہ پہلے لئے گئے نمونوں میں وائرس ،بیکٹریا،مائیکرو فنگل بیماری کو نکارا گیا ہے اور صرف کچھ نمونوں میں نیروٹاکزن پائے گئے تھے۔ نیروٹاکزن وہ زہریلی کیمیات ہوتے ہیں جو انسان کے اعصابی نظام کو متاثر کرتے ہیں۔ نیرو ٹاکزن سانپ کے زہر، کھاد ،شراب ، ہیروئن اور کوکین ( منشیات)میں موجود ہوتے ہیں اور اس سے بے ہوش طاری ہوتی ہے، اور زیادہ مقدار میں ہوتو جان لیواثابت ہوتے ہیں۔لیکن ہسپتال میں جن بچوں کو داخل کیا گیا اور جن کی بعد میں موت واقع ہوئی،انکے بارے میں معلوم ہوا کہ انہیں بہت بخار چڑھا، اسکے بعد قے ہوئی اور بیہوشی طوری ہونے کے کیساتھ ہی کومہ میں چلے جانے کے دوران ہی موت واقع ہوجاتی ہے۔ گائوں کا لاک ڈائون گائوں میں تین حصوں میں تقسیم کرکے سخت لاک ڈائوںکانفاذ عمل میںلایاگیا ہے اور لوگوں کو کھانا تک سرکاری سطح پر فراہم کیاجارہا ہے ۔اس دوران کیڑے مار ادویات کے نمونے ملنے کے بعد گائوں کے چشمے اور ایک کنویں کو بھی سیل کردیاگیا ہے اور لوگوں سے کہاگیا ہے کہ وہ ان پانی کے ذرائع سے پانی استعمال نہ کریں۔
معاملہ کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے گائوں میں اجتماعی تقریبات پر پابندی عائد کردی گئی ہے اور دفعہ144سختی سے نافذ کردیاگیا ہے جبکہ لوگوں سے واضح طور پر کہاگیا ہے کہ وہ کوئی اجتماعی کھانا نہ کھائیں بلکہ صرف سرکار کی جانب سے فراہم کیاجارہا ٹیسٹڈ کھانا ہی کھائیں۔ پولیس تحقیقات جب حکام کو کچھ ہاتھ نہیں لگ رہا تھا تو مجرمانہ زاویہ کی تحقیقات کیلئے پولیس کی خدمات بھی لی گئیں اور ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی جس کی سربراہی ایک ایس پی کررہے ہیں۔مذکورہ تحقیقاتی ٹیم مسلسل بڈھال میں خیمہ زن ہے اور معاملہ کی ہرزاویہ سے تحقیقات کی جارہی ہے۔ٹیم نے اب تک متاثرہ خاندانوں کے23افراد کے بیانات قلم بند کئے ہیں جبکہ ابتدائی طور پر فی الحال 150سے زائد افراد کی پوچھ تاچھ کی گئی ہے تاہم گزشتہ روز سے یہ تحقیقاتی عمل بھی قدرے ٹھنڈا پڑ گیا ہے کیونکہ یہ مسئلہ اب سیاست زدہ ہونے لگا ہے۔ آخر ماجرا کیا ہے؟ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹوکسیکولوجی ریسرچ لکھنؤ نے بڈھال راجوری میں ’پراسرار بیماری‘سے متاثرہ لوگوں سے جمع کیے گئے کچھ نمونوں میں ’کیڈمیم کی نمایاں سطح‘کی تصدیق کی ہے۔
ابھی تک اس علاقے کے 32 سے زائد افراد میں یہ دھات موت اور بیماری کی وجہ ہونے کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔مرکزی وزیر جتیندر سنگھ نے جمعہ کو کہا کہ بڈھال سانحہ کے متاثرین کی لاشوں میں کیڈمیم کا پتہ چلا ہے۔ پی جی آئی چنڈی گڑھ میں زیر علاج اعجاز احمد کے نمونوں میں بھی کیڈمیم پایا گیا ہے۔کیڈیمیم ایک نیوروٹوکسن ہے جو صحت کے سنگین اثرات کا باعث بن سکتا ہے۔ گورنمنٹ میڈیکل کالج راجوری میں، جہاں بہت سے نمونے لیے گئے ہیں اور تجزیہ کے لیے بھیجے گئے ہیں، کے وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر سید شجاع قادری نے کہا’’کیڈمیم ایک زہریلا بھاری دھات لگ بھگ 10 متاثرہ افراد میں زیادہ مقدار میں پایا گیا تاہم کیڈمیم پوائزننگ کا کلینیکل پروفائل متاثرین کی علامات سے میل نہیں کھاتا، جس سے ماہرین حیران رہ گئے ہیں‘‘۔متاثرین میں کیڈمیم کے علاوہ الڈی کارب( کاربامیٹ کیڑے مار دوا) اور سلفون کا بھی پتہ چلا ہے۔الڈی کارب ایک ایسا کیمیا ہے جو اعصابی سرگرمی کو منتقل کرنے میں مدد کرتا ہے جس کے نتیجے میں منفی زہریلے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔تاہم ان زہریلے مادوں کی موجودگی موت کی وجہ معلوم نہیں ہوتی، کیونکہ متاثرین کا کلینیکل پروفائل متوقع علامات سے میل نہیں کھاتا۔
ڈاکٹر قادری کے مطابق تحقیقات نے ایکیوٹ انسیفلائٹس یا ایکیوٹ انسیفلائٹس سنڈروم (AES) کا سبب بننے والے نیوروٹوکسن کے امکان پر زوردیا ہے تاہم اس زہریلے مواد کے جسم میں داخل ہونے کا طریقہ معلوم نہیں ہے۔ڈاکٹر قادری مزید کہتے ہیں’’اب تک ہم سمجھ چکے ہیں کہ اموات نیوروٹوکسن کی وجہ سے ہوئی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہ خوراک یا پانی کے ذریعے متاثرین کے جسموں تک پہنچی ہیں‘‘۔انکامزید کہناتھا’’ہو سکتا ہے، یہ محض ایک اتفاقی ہو۔ اب تک ہمارے پاس اس وجہ کو نمایاں کرنے یا اس کو ماننے کیلئے کوئی لیبارٹری شواہدنہیں ہیں‘‘۔ کیڈیمیم زہر کا ذریعہ بھی ابھی تک نامعلوم ہے، لیکن ممکنہ ذرائع میں آلودہ پانی، بیٹریاں یا پینٹ شامل ہیں۔جی ایم سی راجوری کی ٹیم نے فوت شدگان کے نمونے سینٹرل فارنسک سائنس لیبارٹری (سی ایف ایس ایل) کو مزید تجزیہ کیلئے بھیجے ہیں۔ڈاکٹر قادری نے کہا کہ 200 سے زائد زہریلے مادوں پر غور کیا جا رہا ہے تاہم انہوںنے تسلیم کرلیا کہ یہ تفتیش ایک انتہائی پیچیدہ عمل ہے۔ انہوں نے کہا’’ملک بھر سے معروف اداروں نے نمونے لئے ہیں اور ان کا تجزیہ کر رہے ہیں تاکہ پراسرار اموات کی وجہ کا تعین کیا جا سکے‘‘۔
اس ساری تحقیقات کا فی الوقت نتیجہ یہ ہے کہ کچھ بھی وثوق کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا ہے اور ابھی تک ان اموات کی کوئی ٹھوس وجہ سامنے نہیں آئی ہے اور یوں یہ گتھی تاحال سلجھنے کا نام نہیں لے رہی ہے جس کی وجہ سے اضطرابی کیفیت بنی ہوئی ہے اور پورے علاقہ میں غیر یقینی اور خوف کا ماحول بناہوا ہے ۔اب جبکہ مقامی ممبران اسمبلی اس ساری صورتحال کیلئے دوہرے کنٹرول کو ذمہ دار ٹھہرا کرالزام لگا رہے ہیں کہ حکومت اس بحران سے وقت پر نمٹنے میں ناکام ہوئی ہے ،ایسے میں یہ مزید پیچیدہ ہوتا چلا جارہا ہے تاہم ایک بات طے ہے کہ 16رکنی بین وزارتی ٹیم نے جو200نمونے اپنے ساتھ لئے اور دیگر ملک کی چار بڑی تحقیقاتی لیبارٹریوںکے علاوہ مقامی صحت حکام نے جو ہزاروں نمونے لئے ہیں ،اُن کی رپورٹ آنے سے یہ گتھی سلجھ جانے کا امکان ہے اور کم از کم یہ پتہ چل پائے گا کہ یہ آخر یہ اموا ت کیسے ہوئیں اور ان کی وجوہات کیا ہیں۔ہوسکتا ہے کہ یہ جان بوجھ کر یہ زہریلی مواد پانی یا کھانے میں ملائی گئی ہوں ،اُس کیلئے پولیس کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم تحقیقات کررہی ہے ۔فی الوقت یہ وثوق کے ساتھ نہیں کہاجاسکتا ہے کہ یہ اموات فطر ی ہیں یا ان میں انسانی ہاتھ ہے لیکن نمونوںکی رپورٹ آنے اور پولیس تحقیقات آگے بڑھنے کے ساتھ آنے والے دنوں میں تصویر صاف ہوجائے گی اور معلوم ہوجائے گی کہ آخر تین گھروں کے صفایا کیلئے قدرت یا انسانی ہاتھ ذمہ دار ہیں۔
واپس کریں