دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کشمیر میں منشیات کی وبا ، نوجوان نسل کو نشے کی دلدل سے نکالنا عمر حکومت کیلئےایک چیلنج
شاہد رہبر ، سرینگر
شاہد رہبر ، سرینگر
جموں و کشمیر منشیات کی وجہ سے ایک شدید صحت اور سماجی بحران کی طرف دیکھ رہا ہے جس سے نوجوانوں کی پوری نسل کو خطرہ ہے۔عمر عبداللہ حکومت کو درپیش سب سے اہم چیلنجوں میں سے ایک منشیات کی بڑھتی ہوئی لعنت ہے جس میں خاص طور پر نوجوانوں میں ہیروئن کا بڑھتا ہوا استعمال انتہائی تشویشناک ہے۔صورتحال کس قدر سنگین ہے ،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2021 سے جموں و کشمیر میںنارکوٹکس ڈرگس اینڈ سائیکو ٹراپک سبسٹینس ایکٹ (این ڈی پی ایس اے) کے تحت6500 سے زیادہ مقدمات درج کئے گئے اور 9424 گرفتاریاں کی گئیں۔مزید یہ کہ گزشتہ پانچ برسوں میں تقریبا 8000کلو گرام منشیات تلف کی گئی۔یہ بات جمعرات 12دسمبرکو پارلیمنٹ میں مختلف سوالات کے جوابات میں وزارت داخلہ میں وزیر مملکت نتیانند رائے اور سماجی انصاف اور بااختیار ی کے وزیر مملکت بی ایل ورما کے جوابات سے سامنے آئی۔

سماجی انصاف اور بااختیاریت کی وزارت کے ذریعہ شیئر کردہ اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیرمیں سال 2021میں این ڈی پی ایس اے کے تحت کل 1543 مقدمات درج کیے گئے اور 2217گرفتاریاں کی گئیں۔سال 2022میں این ڈی پی ایس اے کے تحت درج مقدمات کی تعداد بڑھ کر 1857اور گرفتار افراد کی تعداد 2755ہوگئی۔ اسی طرح سال 2023میں این ڈی پی ایس اے کے تحت مجموعی طور پر 2149مقدمات درج کیے گئے اور 3072گرفتاریاں کی گئیں۔ رواں سال ستمبر تک مجموعی طور پر 985 مقدمات درج کیے گئے اور 1380افراد کو سخت قانون کے تحت گرفتار کیا گیا۔ اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر میں گزشتہ پانچ برسوں (2019-2023) میں کل 830کلو گرام چرس، 272کلو گرام ہیروئن اور 6722کلو گرام پوست کے بھوسے کو تلف کیا گیا۔ اس کے علاوہ مختلف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے یوٹی میں گولیوں جیسی نشہ آور اشیا کی بڑی مقدار کو بھی تلف کیا گیا۔اس میں سے 61,396 کلوگرام افیون پر مبنی منشیات تھیں۔آسان الفاظ میں، صرف تین برسوں میں جموں و کشمیر میں 61.4 ٹن اوپیوڈ (ہیروئن، مورفین، کوڈین) ضبط کیے گئے۔

سنگین صورتحال گزشتہ چند برسوں کے دوران کشمیر میں منشیات کے استعمال، خاص طور پر ہیروئن کی لت میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔سماجی انصاف اور بااختیار بنانے کی مرکزی وزارت کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، جموں و کشمیر ان ریاستوں میں شامل ہے جہاں بھارت میں اوپیئڈ منشیات کا استعمال سب سے زیادہ ہے۔ سماجی انصاف اور امپاورمنٹ کی وزارت کی ایک رپورٹ سمیت مختلف اندازوں کے مطابق جموں و کشمیر میں مختلف منشیات کا استعمال کرنے والے لوگوں کی تعداد 10 لاکھ سے 14 لاکھ کے درمیان ہے۔وزارت نے مزید بتایا کہ جموں و کشمیر میں 1.44 لاکھ لوگ بھنگ کے فعال صارفین ہیں جن میں 36000 خواتین شریک شراکت دار ہیں۔ یہ معاشرے کے ہر ذی شعور کیلئے عین صدمہ ہے کیونکہ معاشرے کا سب سے کمزور طبقہ تیزی سے منشیات کے استعمال کی لعنت کا شکار ہو رہا ہے۔5.34 لاکھ مرد اور 8000 خواتین کی کافی تعداد افیون کی لت میں مبتلا ہیں۔ مزید یہ کہ 1.6 لاکھ مرد اور 9000 خواتین سکون آور نشے کا شکار ہیں۔عملی طور پر ایک ہیروئن کا استعمال عام بن چکاہے ۔

انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنس، جی ایم سی سری نگر کی ایک بصیرت انگیز رپورٹ نے کشمیر میں ڈرگس پر انحصار کے پھیلاو کو آبادی کا 2.87 فیصد شمار کیا ہے۔ان میں سے، پریشان کن 2.23 فیصد اوپیئڈز کا غلط استعمال کرتے ہیں، ایک ایسی تعداد جو خطرے کی گھنٹی بجاتی ہے، اور صحت عامہ کی ممکنہ ہنگامی صورتحال کے بارے میں جنگی بنیادوں پر اقدامات شروع کرتی ہے۔ماہرین اس مسئلے کی وجہ منشیات کی آسان دستیابی، نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع کی کمی اور پچھلی دہائیوں میں موجود سماجی و سیاسی منظرنامے سمیت متعدد عوامل کو قرار دیتے ہیں۔ صحت کا بحران غور طلب ہے کہ80کی دہائی سے2000تک چرس کا استعمال عام تھا تاہم پھر معاملات بدل گئے ہیں اور اس کے بعد درد کش ادویات مثلاTapentadolاور Tramadolانجیکشنوںپر انحصاریت پر بڑھ گئی اور ایسے انجیکشنوںکا استعمال ہوا تاہم2010کے بعد پھر حالات بدل گئے اور اب عادی لوگ ان انجیکشنوں سے آگے بڑھ سخت گیر منشیات یعنی افیون اور ہیروئن کی جانب مائل ہوگئے۔گوکہ دردکش انجیکشن روزانہ450سے500روپے میں آتے تھے تاہم ہیروئن کا ایک گرام 3سے4ہزار روپے میںآتا ہے۔ڈاکٹر کہتے ہیں کہ2011اور2012میں ہیروئن کی دستیابی بڑھ گئی تاہم مریض اتنے زیادہ نہ تھے اور2015تک روزانہ 2یا3لوگ ہی علاج کیلئے رجوع کرتے تھے تاہم اب صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔

انسٹی چیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز سرینگر کی ایک تحقیق کے مطابق کشمیر میںسب سے زیادہ ڈیمانڈ نشہ آور اشیا کی ہے جو 85.30فیصد ہے اور اس میں52.3فیصد ہیروئن کا استعمال ہورہا ہے جبکہ اس کے علاوہ 11.6فیصد بھنگ اور2.1فیصد شراب نوشی کا سہارا لے رہا ہے ۔تحقیق کے مطابق انتہائی قلیل تعداد میں منشیات کے عادی لوگ دیگر چیزوں کا سہارا لے رہے ہیںجن میں0.2فیصد نشہ آور گولیوں اور 0.7فیصد دیگر اشیا جیسے بوٹ پالش وغیرہ کا استعمال کررہے ہیں۔پروفیسر یاسر حسین راتھر، ایس ایم ایچ ایس ہسپتال کے ڈرگ ڈی ایڈکشن اینڈ ٹریٹمنٹ سینٹر (ڈی ڈی ٹی سی) کے انچارج نے کہا کہ ہیروئن کا بحران ایک تباہی ہے۔وہ کہتے ہیںیہ (ہیروئن) کامیاب علاج کے لحاظ سے بدترین منشیات میں سے ایک ہے، کیونکہ یہ انتہائی نشہ آور ہے اور دوبارہ لت لگتی ہے، خاص طور پر اگر استعمال کرنے والا اسے نس کے ذریعے استعمال کر رہا ہو۔اس کے خوفناک صحت کے نتائج ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر یاسر راتھرکہتے ہیں کہ علاج کیلئے آنے والے عادی افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافے کی بنیادی وجہ ہیروئن کی سپلائی میں کمی کی وجہ سے اس کی قیمت میں اضافہ ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ریکارڈ شدہ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ 2022 میں ایک گرام ہیروئن کی قیمت 2000 سے 3000 روپے تھی لیکن 2023 میں قیمت بڑھ کر 6000 کے قریب پہنچ گئی ہے۔اس لئے بہت سے منشیات کے عادی افرادکے پاس علاج کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا ہے۔

پروفیسر راتھر نے کہا کہ ان کی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ ہر 10 افراد میں سے تقریبا سات افراد جو ہیروئن کا استعمال کرتے ہیں وہ ہیپاٹائٹس سی سے متاثر ہیں، اور بڑھتی ہوئی تعداد ہیپاٹائٹس بی اور ایچ آئی وی انفیکشن کا شکار ہو رہی ہے۔ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ہیپاٹائٹس سی جیسے انفیکشن کا علاج صحت کی دیکھ بھال کے بنیادی ڈھانچے پر ایک اضافی بوجھ ہے۔پروفیسر راتھر نے کہایہ ایک مہنگا علاج ہے اور جب تک کسی شخص کی تشخیص ہوتی ہے اور اس کا علاج ہوتا ہے، وہ پہلے ہی بہت سے لوگوں کو متاثر کر چکا ہوتا ہے۔اگرچہ جموں و کشمیر کے تقریبا تمام ضلعی ہسپتالوں میں نشے کے علاج کی سہولیات (اے ٹی ایف) شروع کردی گئی ہیں، لیکن یہ سہولیات صبح 10 بجے سے شام 4 بجے تک کھلی رہتی ہیں، جس میں کسی مریض کو داخل کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔کشمیر میں جی ایم سی سری نگر کے صرف دو مراکز میں داخل مریض کی سہولت دستیاب ہے۔مزید برآں، ہسپتالوں کے ہسپتالوں میں کام کرنے والے جنرل پریکٹیشنرز کی طرف سے منشیات کے استعمال کے کیس کی نشاندہی کرنے کے لئے تربیت اور مہارت کا فقدان ایک خامی ہے جس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ضلعی سطح کے اے ٹی ایف میں کام کرنے والے ایک سینئر نفسیاتی ماہر نے کہانشے کا معاملہ براہ راست اے ٹی ایف کو رپورٹ نہیں کرتا ہے۔ وہ اکثر صحت کے مسائل میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اپنے قریبی ہسپتالوں کو رپورٹ کرتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر کو بدسلوکی کے معاملے کی نشاندہی کرنے اور اس کے مطابق رہنمائی کرنے کے لئے چوکس اور تربیت یافتہ ہونے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ مریض نشے کے علاج کے لئے اکثر دیر سے آتے ہیں۔اس کے علاوہ، پیشاب پر مبنی ادویات کے تجزیہ کی کٹس کو زیادہ قابل رسائی اور ضلعی ہسپتالوں میں دستیاب ہونے کی ضرورت ہے۔نشے کا مسئلہ صحت کی دیکھ بھال کے مناسب انفراسٹرکچر کی کمی کی وجہ سے بڑھ گیا ہے۔

ایک طویل مدتی بحالی مرکز کی ضرورت کا اظہار طبی ماہرین نے کئی بار کیا ہے لیکن گزشتہ پانچ برسوں میں اس سمت میں کوئی کام نہیں کیا گیا۔یہ باضابطہ طور پر جی ایم سی سری نگر نے تجویز کیا تھا۔بحالی طویل مدتی علاج کی ضروریات کو پورا کر سکتی ہے، اور پیشہ ورانہ سپورٹ سسٹم اور ان لوگوں کے لیے ماحول کی انتہائی ضروری تبدیلی فراہم کر سکتی ہے جو خود کو منشیات کے پنجوں میں پاتے ہیں۔ جرائم یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ منشیات کے استعمال کے واقعات میں اضافے کے رجحان نے معاشرے میں تیزی سے دیگر گھناونے واقعات کو جنم دیا ہے۔ انتہائی سکون آور ادویات کی خریداری کیلئے بہت زیادہ نقد رقم کی ضرورت ہوتی ہے اور اتنی مقدار کا انتظام منشیات کے عادی افراد کو منشیات کے حصول کیلئے تمام غیر قانونی طریقے اور ذرائع تلاش کرنے پر مجبور کرتا ہے، چاہے کچھ بھی ہو۔موجودہ دور میں منشیات کے استعمال کا سنگین اثر خاص طور پر کم عمر افراد میں قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات ہیں۔ ماہرین کی رائے بتاتی ہے کہ منشیات کے عادی افراد میں منشیات خریدنے کیلئے نقد رقم کی مسلسل روانی کو برقرار رکھنے کیلئے خاندان اور رشتہ داروں سے چوری کرنے کی عادت ڈالنا عام ہے۔پروفیسر ڈاکٹر یاسر راتھر نے واضح طور پر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کشمیر میں بڑھتے ہوئے جرائم کا گراف ہیروئن کے عادی افراد کی بڑھتی ہوئی وارداتوں سے منسلک ہو سکتا ہے، جس کے عادی افراد اپنی منشیات حاصل کرنے کی فرسٹریشن میں چوری اور یہاں تک کہ قتل تک جا رہے ہیں۔

پچھلے سال، جی ایم سی سری نگر میں ایک تقریب میں، ڈپٹی کمشنر سری نگر نے کہا کہ پولیس نے جن چوری کے واقعات کی تفتیش کی ان میں سے 95 فیصد منشیات سے منسلک پائے گئے۔پولیس کے مطابق منشیات نے یوٹی میں بہت سے دوسرے جرائم کو ہوا دی ہے۔منشیات، خاص طور پر اوپیئڈز کا غلط استعمال، منسلک سماجی مسائل کی لہر کا باعث بنا ہے۔اس بحران کا خمیازہ خاندانوں کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔چھوٹے جرائم، گھریلو تشدد، اور دماغی صحت کے مسائل میں اضافہ منشیات کے استعمال سے منسلک ہے۔اوور ڈوز سے ہونے والی اموات کی بڑھتی ہوئی تعداد بھی تشویشناک ہے، جس سے صورتحال مزید خراب ہو رہی ہے۔ سماجی اور اقتصادی اثرات چند سال پہلے کی ایک رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ صرف سری نگر اور اننت ناگ اضلاع میں منشیات پر 3.7 کروڑ روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ منشیات کے بحران کے معاشی مضمرات دور رس ہیں۔ نوجوانوں کی آبادی کا ایک بڑا حصہ نشے میں پھنسا ہوا ہے، اس خطے کو کھوئی ہوئی نسل کے سنگین امکان کا سامنا ہے، جو جموں و کشمیر کی معاشی اور سماجی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے سے قاصر ہے۔بے روزگاری کی شرح بلند ہے، اور نشے کی وجہ سے ممکنہ افرادی قوت کا زیادہ تر حصہ ختم ہو گیا ہے، نئی حکومت پر خطے میں اقتصادی سرگرمیوں کو بحال کرنے کیلئے سخت دباو ڈالا جائے گا۔

یہ بنیادی طور پر معاشرے کی اجتماعی ناکامی ہے۔معاشرے کے ایک اٹوٹ شراکت دارکے طور پر بدقسمتی سے ہمارے ارد گرد ہونے والی ایسی کسی بھی سرگرمی کا نوٹس لینے اور اس کے مہلک نتائج کو نظر انداز کرنے میں ہمارا نقطہ نظر مایوس کن رہا ہے۔ ہم سوچتے ہیںکہ منشیات کی لعنت کا تعلق میرے قریبی گھر والوں سے نہیں اور اس لئے اس کے خلاف آواز کیوں اٹھائیں؟ انکار کے اس نقطہ نظر نے منشیات کی لعنت کو سماجی سیٹ اپ میں گہرائی تک سرایت کرنے میں سہولت فراہم کی ہے۔ اب صورتحال ہمارے قابو سے باہر ہوتی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ ہمارے پاس نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد منشیات کی لت میں مبتلا ہوچکی ہے۔ حکومتی ردعمل جب کہ پچھلی انتظامیہ نے منشیات کے بڑھتے ہوئے مسئلے کو تسلیم کیا ہے، جواب میں شدت کی ضرورت ہے، جس میں صحت کی دیکھ بھال، بحالی، اور کمیونٹی کی رسائی کو یکجا کرنے والے ایک جامع نقطہ نظر پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔نئی حکومت نے منشیات کی لعنت سے نمٹنے کیلئے مزید جامع حکمت عملی کا وعدہ کیا ہے اور منشیات کے خلاف جنگ نیشنل کانفرنس کے انتخابی منشور کا حصہ ہے۔حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ منشیات سمگلنگ کو روکنے کیلئے مرکزی حکام اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ تعاون کرے گی اور پہلے سے متاثرہ افراد کے علاج کیلئے ضروری وسائل مہیا کرے گی۔نشے سے متاثرہ خاندانوں کیلئے سپورٹ سسٹم کی ضرورت بھی ایک ایسا شعبہ ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔تاہم یہ بھی ہمیںماننا پڑے گا کہ جب تک ہم مجموعی طور بحیثیت سماج اس عفریت کے خلاف مل کر نہیں لڑینگے تو کچھ بدلنے والا نہیں ہے اور ہم اپنے نوجوانوں کے جنازے اٹھتے دیکھتے رہیں گے جو اس قوم کی تباہی کا آخری ذریعہ ثابت ہوگا۔


واپس کریں