شاہد رہبر ، سرینگر
جموں وکشمیر خاص کر وادی ٔ کشمیر میں شادیوں میں تاخیر ایک بحرانی شکل اختیار کر چکی ہے اور غیر شادہ شدہ آبادی میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔جموں وکشمیر کی شادہ شدہ آبادی ملک میں سب سے کم بچوں کی پیداواری شرح میں بھی سب سے پیچھے،منزل تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔جموں و کشمیر میں دیگر ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے مقابلے ملک میں شادی شدہ آبادی کی سب سے کم شرح ریکارڈ کی گئی ہے۔ رجسٹریشن سسٹم شماریاتی رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر میں صرف 40.3 فیصد شادی شدہ آبادی ہے جو کہ قومی اوسط 45.2 فیصد سے بہت کم ہے۔اس میں 37.7 فیصد مرد اور 43 فیصد خواتین شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے)کی طرف سے کرائے گئے ایک سروے کے مطابق بھی کشمیر میں غیر شادی شدہ خواتین کی شرح بھی نمایاں ہے۔ 10 سال سے زیادہ عمر کی شادی شدہ آبادی میں، جموں و کشمیر میں 46.2 فیصد کے ساتھ سب سے کم شرح ریکارڈ کی گئی ہے۔
اعدادوشمار کے مطابق جموں و کشمیر ملک میں 15 سے 29 سال کی عمر کے غیر شادی شدہ نوجوانوں کا 29فیصد تناسب سب سے زیادہ ہے۔ سرکاری سروے کے مطابق، تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں جموں و کشمیر میں 15 سے 29 سال کی عمر کے اندر غیر شادی شدہ افراد کا سب سے زیادہ تناسب ہے۔ شماریات اور پروگرام کے نفاذ کی وزارت کے’یوتھ ان انڈیا 2022‘ کے مطالعہ کے مطابق، جموں و کشمیر میں 29.1 فیصد نوجوانوں (29 سال تک کی عمر) کا تناسب زیادہ ہے جو قومی اوسط سے شادی شدہ نہیں ہیں۔مطالعہ کے مطابق یہ ہندوستان میں کسی بھی ریاست یا مرکز کے زیر انتظام علاقے کے ذریعہ رپورٹ کردہ سب سے زیادہ فیصد ہے۔جموں و کشمیر میں 2011 میں 15 سے 29 سال کی عمر کے 25.3 فیصد نوجوان غیر شادی شدہ تھے۔ان میں 27.1 فیصد مرد اور 23.5 فیصد خواتین تھیں جو یا تو پسند یا ضرورت کے لحاظ سے اکیلے تھے۔شادی شدہ نہ ہونے والے نوجوانوں کا تناسب 2015 میں بڑھ کر 25.9 فیصد اور پھر 2019 میں 29.1 فیصد ہو گیا۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ جموں و کشمیر میں 15 سے 29 سال کی عمر کے درمیان خواتین کے مقابلے زیادہ مرد اکیلے ہیں۔
وجوہات شماریات اور پروگرام کے نفاذ کی مرکزی وزارت کے مطابق کشمیر میں دیر سے ہونے والی شادیوں کی پیچیدگیاں اور ان کے نتائج بہت گہرے ہیں۔ جہیز اور اسراف کی شکل میں سماجی برائیاں تاخیر سے شادی کے نئے سماجی اصولوں سے منسلک ہیں۔ تاریخی طور پر کشمیری بالکل دوسرے جنوبی ایشیائی معاشروں کی طرح، کم عمری کی شادیوں کو رجحان کو اہمیت دیتے تھے۔ تاہم گزشتہ چند دہائیوں کے دوران لوگوں کی شادی کی عمر میں نمایاں تاخیر ہوئی ہے۔ایک غیر سرکاری رضاکار تنظیم تحریک فلاح المسلمین کے اپریل 2020 میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق کشمیر میں 50,000 سے زیادہ لڑکیاں شادی کی عمر کو عبور کر چکی ہیں۔این جی او نے ابتدائی طور پر ایک سو غیر شادی شدہ غریب لڑکیوں کی شادی کے اخراجات کا بندوبست کرنے اور انہیں پورا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن پتہ چلا کہ ہزاروں پہلے ہی شادی کی قابل قبول عمر سے تجاوز کر چکی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر لڑکیوں کا تعلق پسماندہ خاندانوں سے تھا اور وہ مختلف نئے سماجی مسائل کا شکار ہو چکی تھیں۔ سروے میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ کس طرح جہیز جیسے رواج نے صورتحال کو مزید خراب کیا ہے۔
کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ سماجیات کی ایک تحقیق کے مطابق شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں شادی کی اوسط عمر میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق دیر سے شادیوں اور کبھی شادی نہ ہونے کی وجوہات میں جہیز کا نظام، آرام دہ زندگی کیلئے کیریئر پر مبنی نوجوان، ذات پات، بے روزگاری، تنائو اور جسمانی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے شادیوں کا متبادل شامل ہیں۔ لوگ شادی کی سنجیدگی کو کھو رہے ہیں جو دو افراد کے درمیان روحانی اور سماجی بندھن کی بجائے ایک معاشی مسئلہ بن گیا ہے۔ماہرین کے مطابق آج کل لوگوں کو بالخصوص والدین کو شادیوں میں دکھاوے کے لئے اپنی ساری کمائی اور پیسہ قربان کرنا پڑتا ہے۔لوگ شادی کو اس وقت تک ترجیح نہیں دیں گے جب تک کہ ان کے پاس اچھی نوکری، حیثیت اور دکھاوے کی چیزیں نہ ہوں، یہ مادہ پرست چیزیں معاشرے میں بوجھ بن چکی ہیں اور لوگ اس کے ذمہ دار ہیں۔
کشمیر میں شادی کے قابل اوسط عمر 30 سال سے زیادہ ہو گئی ہے۔ماہر سماجیات کے مطابق شادیوں پر پیسہ خرچ کرنے میں روک تھام کی کمی اور بے روزگاری جیسے سماجی مسائل ہیں جو دیر سے شادیوں کا موجب بنتے ہیں۔مالی استحکام، غربت، بے روزگاری، جہیز کا بوجھ، اسراف رسوم، اعلیٰ تعلیم تک رسائی اور سرکاری ملازمتوں کیلئے انتظار کی مدت جیسے عوامل تاخیر سے شادیوں کا باعث بن رہے ہیں۔خواتین کی زیادہ سے زیادہ کیریئر پر توجہ دینے کے نتیجے میں شادی بھی تاخیر کاشکار ہو گئی ہے۔پروفیسر ڈبلا کے 2007 کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ کشمیر میں دیر سے ہونے والی شادیوں کا ابھرنا گزشتہ تین سے چار دہائیوں کے دوران مردوں کے لئے شادی کی اوسط عمر 24 سے بڑھ کر 32 اور خواتین کیلئے 21 سے 28 سال ہو گئی ہے، جو کہ پہلے 23 اور 20 سال تھی۔تحقیق کے مطابق بیروزگاری، اعلیٰ تعلیم کا حصول اور دیگر عوامل شادی کی عمر میں اضافے کا سبب بنے ہیں۔
ذات پات کا عنصر کشمیر میں 2006 کے ایک مطالعہ ازدواجی تاخیر، نوشاد احمد وانی، سواتی پاترا اور رئیس محمد بھٹ کے ایک تحقیقی مطالعہ میں، کشمیر میں ازدواجی تاخیر کی تین نمایاں وجوہات تعلیم کی تکمیل، بے روزگاری اور شادی کی تیاری کے ارد گرد مالی رکاوٹیں ہیں۔تحقیق سے پتا چلا ہے کہ خواتین کی ملازمت کے نتیجے میں ازدواجی زندگی میں تاخیر ہوتی ہے، جس سے شادی کا نظام پیچیدہ ہوتا ہے۔جنوبی ایشیا میں ذات پات کا نظام اس حد تک مضبوط ہو چکا ہے کہ اس سے کسی بھی انحراف کو بغاوت کی شکل میں دیکھا جاتا ہے۔ کشمیر کا بھی یہی حال ہے۔ یہاں تک کہ برہمنوں اور راجپوتوں جیسی اشرافیہ ہندو ذاتوں سے اسلام قبول کرنے والوں میں بھی درجہ بندی کا ڈھانچہ برقرار رہا، جس نے انہیں اسلام کے نظریات کے باوجود اپنی مراعات برقرار رکھنے کی اجازت دی۔کشمیری ماہر سماجیات بشیر احمد ڈبلا نے اپنی کتاب ڈائریکٹری آف کاسٹ ان کشمیر میں مشاہدہ کیا کہ ان دعوؤں کے باوجود کہ کشمیر میں ذات پات کا نظام اب موجود نہیں ہے، یہ ایک فعال سماجی ادارہ ہے۔اگرچہ امتیازی سلوک میں کچھ کمی آئی ہے، لیکن ذات پرستی اب بھی شادیوں پر سخت اثر انداز ہوتی ہے۔ جو لوگ سب سے اوپر ہیں وہ بین ذاتی اتحاد سے گریز کرتے ہیں، جو لوگوں کے ذہنوں پر ذات پات کے نظام کی پائیدار گرفت کی عکاسی کرتے ہیں۔
شرح افزائش میں کمی شادی میں تاخیر کی وجہ سے جموں و کشمیر ایک خطر ناک آبادیاتی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے، جس کی نئی پیدائش کی کل شرح ملک میں سب سے کم ترین سطح پر ہے۔نیشنل فیملی ہیلتھ سروے 5 (NFHS-5) جو 2019-21 میں کرایا گیا تھا جموں و کشمیر میں کل شرح پیدائش (TFR) 1.4 بچے فی عورت ہے، جو کہ 2.1 بچوں پر متعین شرح زرخیزی کی تبدیلی کی سطح سے کم ہے۔ NFHS-4 اور NFHS-5 کے درمیان زرخیزی میں 0.6 بچوں کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس سے جموں اور کشمیر کو ان خطوں میں شامل کیا گیا ہے جن میں سب سے کم TFR ہے، جس کی وجہ خاندانی منصوبہ بندی، تاخیر سے شادیاں، اور چھوٹے خاندانوں کی ترجیحات جیسے عوامل ہیں۔نیشنل فیملی ہیلتھ سروے-5 کے کل نئی پیدائشی شرح کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جموں وکشمیر1.4 پر ہے جو کہ 2.1 کی متبادل سطح سے بہت نیچے ہے۔یہ تیز کمی پچھلے سروے NFHS-4 (2015-16) میں دیکھے گئے رجحان کا تسلسل ہے جس نے 1.7 کی نئی پیدائشی شرح ریکارڈ کی تھی جبکہ NFHS-3 (2005-06) نے 2.4 کی شرح دیکھی تھی۔نئی پیدائشی شرح موجودہ عمر کے لحاظ سے شرح پیدائش کی بنیاد پر اس کے تولیدی سالوں (15سے49سال) کے دوران ایک عورت کے بچوں کی اوسط تعداد کی پیمائش کرتا ہے۔زرخیزی کی شرح میں مسلسل کمی کا مطلب یہ ہے کہ جموں و کشمیر آبادی کے جمود اور حتمی کمی کی وجہ سے آبادیاتی مرحلے میں منتقل ہو رہا ہے۔اس طرح کا مسلسل نیچے کی طرف رجحان خطے میں جاری گہرے آبادیاتی بحران کو اجاگر کرتا ہے۔
کشمیر یونیورسٹی میں پاپولیشن ریسرچ سینٹر کے کوارڈی نیٹر سید خورشید احمد نے کم شرح پیدائش کے ممکنہ اثرات کی وضاحت کی۔وہ کہتے ہیں’’زرخیزی کی شرح میں کمی کے نتیجے میں کم پیدائش ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں آنے والی دہائیوں میں کم عمر کی آبادی کم ہوتی جا رہی ہے۔ یہ بدلے میں، کام کرنے کی عمر کی آبادی کو کم کر سکتا ہے، ممکنہ طور پر مزدوروں کی قلت اور اقتصادی پیداوار میں کمی کا سبب بن سکتا ہے‘‘۔ بھیانک خطرات معروف ماہر امراض نسواں نے خواتین کی دیر سے شادیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ مثالی عمر 23سے28 سال ہے۔ سرینگر میں مقیم ماہر امراض نسواںڈاکٹر فرح منفی اثرات پر روشنی ڈالتی ہوئے کہتی ہیں"دیر سے شادی ذہنی اور جسمانی خطرات سے دوچار کرسکتی ہے، اس لئے تجویز کردہ حد کے اندر شادی کرنا بہت ضروری ہے‘‘۔ڈاکٹر فرح کے مطابق دیر سے شادی عورت کے زرخیز سالوں میں نمایاں طور پر کمی لاتی ہے، جس سے حمل ٹھہرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں’’جیسے جیسے ایک عورت کی عمر بڑھتی ہے اور حاملہ ہوتی ہے، اسقاط حمل اور نقائص کے خطرات بڑھ جاتے ہیں، جو پہلے کی خاندانی منصوبہ بندی کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔ ان سالوں کے دوران زیادہ سے زیادہ زرخیزی ہوتی ہے، اور جیسے جیسے عورت بڑی ہوتی جاتی ہے، اس کے رحم کے ذخیرے میں کمی آتی ہے، جس سے حمل ٹھہرنے کے امکانات متاثر ہوتے ہیں‘‘۔
بدکاری بھی ایک نتیجہ کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ سماجیات کی طرف سے کئے گئے ایک حالیہ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ شادیوں میں تاخیر کی بڑی وجہ جہیز اور بے روزگاری ہے۔ ’’کشمیر میں دیر سے شادیوں کا ظہور‘‘ نامی مطالعہ کہتا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں لڑکوں میں شادی کی اوسط عمر 24 سے بڑھ کر 32 سال اور خواتین کی 21 سے 28 سال ہوگئی ہے۔ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ دوسرا تشویشناک پہلو ایک قدامت پسند کشمیری معاشرے میں شادی سے پہلے جنسی تعلقات کا ابھرنا ہے۔رپورٹ میں کہاگیا ہے "دیر سے ہونے والی شادیوں اور نوجوانوں میں شادی سے پہلے اور ماورائے ازدواجی تعلقات کے طریقوں کے درمیان ایک الٹا تعلق ہے۔ 1,500 جواب دہندگان میں سے64 فیصد سے زیادہ نے انکشاف کیا کہ دیر سے شادیاں نوجوانوں کے درمیان ازدواجی تعلقات کو متاثر کرتی ہیں۔ چونکہ سیکس ایک حیاتیاتی ضرورت ہے، اس لئے نوجوان کسی بھی ذریعے سے خود کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں‘‘۔کم از کم 182 جواب دہندگان نے کہا کہ جنسی کنٹرول ممکن نہیں تھا کیونکہ یہ چھوٹی عمر میں اپنے عروج پر تھا۔ 219 جواب دہندگان نے انکشاف کیا کہ دیر سے شادیاں غیر ازدواجی تعلقات کا باعث بنی ہیں، خاص طور پر معاشرے کے بزرگ اور شادی شدہ افراد کے درمیان۔
حاصل کلام مہنگے تحائف، طلائی زیورات، تانبے کے برتن، شادی کی تقریبات میں وسیع کھانے اور دیگر رسوم و رواج نے شادی کے مقدس ادارے کو محدود وسائل کے ساتھ والدین کیلئے بوجھ بنا دیا ہے، جس سے ان کیلئے ایک یا زیادہ بیٹیوں کی شادی کی ذمہ داریاں نبھانا مشکل ہو گیا ہے۔عمر رسیدہ جوڑوں میں تاخیر سے شادیاں اور بچے کی پیدائش عام طور پر ایک غیر صحت مند نئی نسل کا باعث بنتی ہے۔ وہ بعد میں ایک نئے سماجی بحران میں اضافہ کرتے ہیں کیونکہ دو نسلیں دور دور کے فریموں میں متعین ہوتی ہیں۔باوقار شادیوں کے لئے کافی وسائل نہ رکھنے والے طبقوں کو کسی قسم کی تسلی دینے کے لئے کچھ سماجی کارکنوں نے کشمیر میں اجتماعی شادیوں کا تصور شروع کیا ہے۔ تاہم یہ شادیاں کیمرے کے لئے زیادہ ہوتی ہیں اور تقلید کے پیچھے لوگوں کی تشہیر زیادہ ہوتی ہیں۔اس مسئلہ کا واحد علاج صحیح عمر میں شادی ہے جس کیلئے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا اور اس ضمن میں بیداری لانے کی ضرورت ہے تاہم جہاں ضرورت مندوں کی مدد کرکے صحیح وقت پر ان کی شادی یقینی بنائی جاسکے وہیں کیریئر کے خواہاں نوجوانوں پر بھی یہ باور کرایا جائے کہ کہیں بہتر زندگی کی تلاش میں وہ اپنی اصل زندگی کو ہی دائو پر مت لگا رہے ہیں۔
واپس کریں