دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
وزیراعلیٰ کی میڈیا ٹاک ، کھودا پہاڑنکلا چوہا،وہ بھی مراہوا!
شاہد رہبر ، سرینگر
شاہد رہبر ، سرینگر
جموں وکشمیر یونین ٹریٹری کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جب جمعرات2جنوری2024کو ڈل جھیل کے کنارے واقع ایس کے آئی سی سی میں اپنی پہلی میڈیاٹاک کی تو یہ کہاجارہا تھا کہ وزیراعلیٰ بہت سارے اعلانات کرنے جارہے ہیں اور وہ کئی چناوی وعدوں کو وفا کریں گے لیکن جیسے ہی پریس سے اُن کا خطاب شروع ہوا تو وہ ساری امیدیں کافور ہوگئیں کیونکہ انہوں نے اپنے ابتدائی کلمات میں ہی کہاکہ وہ کوئی وعدہ وفا یا اعلان کرنے نہیں جارہے ہیں بلکہ میڈیا کے ساتھ گفتگو کرنا اور حکومتی نکتہ نظر ان کے سامنے رکھنا مقصود ہے ۔اس میڈیا ٹاک میں وزیراعلیٰ نے بہت سارے معاملات پر بات کی اور اپنا موقف پیش کرنے کی کوشش کی تاہم کسی ایک چیز پر بھی وہ نہ کوئی یقین دہانی فراہم کرسکے اور نہ ہی کوئی چیز انہوںنے غیر مبہم انداز میں بیان کی بلکہ اُن کی ہر بات میں ابہام تھا اور غیر یقینی تھی ۔ایسے لگ رہا تھا کہ اُن کے ہاتھ بندھے ہیں اوروہ چاہ کر بھی کوئی بات ٹھوس انداز میں نہیں کرپارہے ہیں۔

ریاستی درجہ بحالی ۔ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اس امید کا اظہار کیا کہ جموں و کشمیر کی ریاست کا درجہ جلد ہی بحال ہو جائے گا۔عمر عبداللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 پر اپنے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے حکومت ہند سے کہا کہ وہ جلد سے جلد ریاست کا درجہ بحال کرے۔چنانچہ ایک سال گزر گیا اور یہ حکومت ہند کیلئے ریاست کا درجہ بحال کرنے کیلئے کافی ہے۔اپنے اس یقین پر زور دیتے ہوئے کہ مرکز کے زیر انتظام علاقہ کا درجہ صرف ایک عارضی انتظام ہے،وزیر اعلیٰ نے کہاکہ میں پختہ یقین رکھتا ہوں کہ جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری کی حیثیت عارضی ہے۔عمر عبداللہ نے جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد نئی دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امیت شاہ سمیت مرکزی قیادت سے ملاقات کی تاکہ ان پر جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ بحال کرنے پر زور دیا جا سکے۔ انہوں نے ریاست کی بحالی کو اپنی حکومت کا سب سے بڑا چیلنج قرار دیتے ہوئے کہاکہ عدالت جانا ہمارا آخری آپشن ہونا چاہئے۔ ہمارا پہلا آپشن مرکزی حکومت کو ان کے وعدے یاد دلانا ہے۔ یعنی وزیراعلیٰ دبے الفاظ میں بے بسی کا اظہار کررہے تھے اور ایک طرح سے فرسٹریشن کا بھی شکار تھے کہ آخر ایک سال بعد بھی ریاست کا درجہ کیوں نہیں ہورہا ہے اور اُن کی پہلی اور آخری امید مرکزی حکومت ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ مرکز وعدہ وفا کرے لیکن آثار و قرائن بتارہے ہیں کہ مرکز کو ریاستی درجہ بحال کرنے کی کوئی جلدی نہیں ہے اور وہ دلّی سے ہی کشمیر کو چلانا چاہتے ہیں۔

گورننس۔ گورننس کے بارے میں، عمر عبداللہ نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں کے جذبات اور امنگوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے اور وہ اچھی حکمرانی کو یقینی بنانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بہت ساری چیزیں ہیں جو ہمیں سامان کے طور پر ملی ہیں، لیکن میں ایک ایک کرکے ان مسائل کی نشاندہی نہیں کرنا ۔انکاکہناتھا کہ طاقت کے دوہرے مراکز کسی کے فائدے کیلئے نہیں۔انہوں نے کہا کہ مرکز کے زیر انتظام علاقے میں گورننس کا ہائبرڈ ماڈل کسی کے فائدے میں نہیں ہے اور نظام اس وقت بہتر کام کرتا ہے جب وہاں ایک ہی سینٹر آف کمانڈ ہو۔ گورننس کے مسئلہ پر طاقت کے دوہرے کنٹرول کی بات کرکے وزیراعلیٰ کہنا چاہتے تھے کہ اُن کے ہاتھ بندھے ہیں اور وہ راج بھون کے سامنے بے بس محسوس کررہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیںکہ یوٹی میں راج بھون انتہائی مضبوط ہوتا ہے اور لیفٹیننٹ گورنر کے پاس بے پناہ اختیارات ہوتے ہیں جس کا عمر عبداللہ کو پہلے ہی ادراک تھا لیکن اسکے باوجود انہوںنے وزیراعلیٰ کی کرسی پر بیٹھنا ضروری سمجھا اور اب اس کرسی سے جڑی بے بسی پر حسرت ظاہرکرنا بے معنی ہے کیونکہ وہ پہلے سے ہی جانتے تھے کہ یہ لولی لنگڑی کرسی ہے جس پر بیٹھ کر نام کیلئے حاکم تو بن سکتے ہیں لیکن عملی طور اختیارسے عاری ہی رہیں گے ۔اب جب وزیراعلیٰ بے بسی اور بے اختیاری کی کڑوی گولی نگل رہے ہیں تو اُنہیں یاد آرہا ہے کہ وہ بے بس اور طاقت کا یہ دوہرا نظام اُنہیں کا م کرنے نہیں دے رہا ہے ۔دراصل ایسا کہہ کر وزیراعلیٰ خود کو بیل آئوٹ کرنا چاہتے ہیں اور عوام پر یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ اُن سے زیادہ امیدیں نہ باندھیں کیونکہ اُن کے ہاتھ میں کچھ زیادہ نہیں ہے ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب وزیراعلیٰ کو معلوم تھا کہ وہ کچھ زیادہ نہیں کرسکتے ہیں تو اُنہیں عوام سے آسمان سے تار ے توڑ کر لانے کے وعدے نہیں کرنے چاہئے تھے کیونکہ اُنہیں معلوم تھا کہ ان کی پرواز میں کوتا ہی ہے اور وہ اونچی اڑان نہیں بھرسکتے ہیں۔

راج بھون کے ساتھ اختلاف۔ راج بھون کے ساتھ اختلاف کے مسئلہ پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگرچہ کچھ مسائل پر اختلاف رائے ہے لیکن کوئی تصادم نہیں ہے۔عمرعبداللہ نے کہاکہ جب کمانڈ کا واحد مرکز ہوتا ہے تو سسٹم بہتر کام کرتاہے۔انہوںنے کہاکہ بعض مسائل پر اختلاف رائے ضرور ہے لیکن اس پیمانے پر نہیں جس پر قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔مانا کہ زیادہ اختلافات نہیں ہیں لیکن وزیراعلیٰ خود مان رہے ہیں کہ راج بھون کے ساتھ اختلاف رائے موجود ہے ۔ویسے بھی ان اختلافات کا کھل کر مظاہرہ ہوا ہے ۔لیفٹیننٹ گورنر اہم معالات میں وزیراعلیٰ دفتر کو خاطر میں نہیں لارہے ہیں۔سیکورٹی کا ڈومین بلا شبہ ایل جی کے پاس ہے لیکن وہ وزیراعلیٰ کو اعتماد میں لینا ضروری نہیں سمجھتے ہیں اورمکمل طور وزیراعلیٰ دفتر کو اس عمل سے مستثنیٰ رکھا ہے۔اسی طرح انتظامی معاملات میں فیصلہ سازی کے اہم معاملات میں بھی وزیراعلیٰ دفتر کی کوئی وقعت نہیں رکھی جارہی ہے ۔حالیہ وائس چانسلروں کی معیاد ملازمت میں توسیع سے لیکر انتظامی افسران کے تبادلوں اور ایڈوکیٹ جنرل کی تقرری تک ایل جی آفس عملی طور مالک کُل کی حیثیت سے کام کررہا ہے اور وزیراعلیٰ کے کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی ہے۔عملی طور لیفٹیننٹ گورنر چھوٹے چھوٹے معاملات سے لیکر بڑے معاملات تک خود نگرانی کررہے ہیں ،یہاںتک کہ و ہ ترقیاتی عمل کی بھی نہ صرف نگرانی خود کررہے ہیں بلکہ معائنے بھی تواتر کے ساتھ کررہے ہیں جبکہ مسلسل عوامی ،سیاسی اور انتظامی وفود بھی اُن سے راج بھون میں ملاقی ہورہے ہیں اور یہ تاثر صاف ابھر رہا ہے کہ طاقت کا اصل محور وزیراعلیٰ دفتر نہیں بلکہ راج بھون ہے جہاں جموںوکشمیر کی تقدیر کے اصل فیصلے ہوتے ہیں۔ایسا کرکے یوں وہ عوامی حکومت کا قد چھوٹا کررہے ہیں اور ایل جی کے اس وطیرہ نے عمر حکومت کو ایک یوٹی حکومت سے محدود کرکے ایک میونسپلٹی کی حکومت تک محدود کرکے رکھ دیا ہے جہاں وزیراعلیٰ دکھانے کیلئے مصنوعی شوز تو کرتے ہیں لیکن عملی طور ان کے ہاتھ میں کچھ زیادہ نہیں ہے ۔

بزنس رولز کی ترتیب ۔ عمرعبداللہ نے کہا کہ حکومت کیلئے کاروباری قواعد مناسب مشاورت کے بعد بنائے جائیں گے اور پھر اسے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کو بھیجا جائے گا۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اب کافی وقت سے بزنس رولز بنائے جارہے ہیں اور ابھی تک ان کو حتمی شکل نہیں دی گئی ہے جبکہ خود لیفٹیننٹ گورنر نے بھی حالیہ ایک انٹرویو میں ان رولز کے بارے میں کہا کہ وہ ترتیب دئے جارہے ہیں۔دراصل بزنس رولز بنانے کی نوبت بھی اس لئے پیش آئی کیونکہ عمر حکومت کو لگتا ہے کہ دائرہ اختیار میں ابہام ہے اور یہ ابہام ختم ہونا چاہئے ۔وزیراعلیٰ بزنس رولز بناکر ایل جی دفتر ،عوامی حکومت اور بیروکریسی کے حدود وقیود واضح کرنا چاہتے ہیں اور یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کی بساط کتنی ہے ۔یہ اپنے آپ میں اُس بے چینی کا مظہر ہے جو اس وقت حکومتی حلقوں میںپائی جارہی ہے۔آج کی تاریخ میں بیروکریسی عمر حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ عمر حکومت انکا بال تک بیکا نہیں کرسکتی ہے اور ان کے تبادلوںسے لیکر تقرریوں تک کا اختیار ایل جی کے پاس ہے تو بھلا وہ
کیوں کر عمر عبداللہ حکومت کے تلوے چاٹیں۔یہ صورتحال عمر حکومت کیلئے گلے کی ہڈی بن چکی ہے کیونکہ بیروکریسی پر ان کا اختیار نہیں ہے اور وہ اپنے آپ کو ان کے سامنے جوابدہ ہی نہیں سمجھتے ہیں جس کے نتیجہ میں ان کی پوزیشن مضحکہ خیز بن جاتی ہے ۔حد تو یہ ہے کہ جو میٹنگیں وزیراعلیٰ یا کابینہ وزراء کو لینی چاہئیں ،وہ چیف سیکریٹری اور دوسرے انتظامی سیکریٹری خود لے رہے ہیں اور ایک واضح پیغام دیاجارہا ہے کہ جموںوکشمیر میں حکومت تین خانوں میں تقسیم ہے جس میں ایک خانہ ایل جی ،ایک عمر حکومت اور بیروکریسی ہے تاہم بیروکریسی اصل میں ایل جی کا ذیلی خانہ ہے اور یوں عمر حکومت ہی تنہائی کا شکار ہے۔

مفت بجلی ۔ وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے رہائشیوں کو 200 یونٹ مفت بجلی فراہم کرنے پرکہا کہ یہ صرف اس وقت ممکن ہوگا جب 100فیصد میٹرلاگو ہونگے۔ انہوںنے کہاکہ جب ہم مارچ،اپریل میں اس سکیم کو شروع کریں گے تو صرف وہی لوگ فائدہ اٹھائیں گے جن کے پاس میٹر نصب ہیں۔انہوں نے کہاکہ میٹر والے گھرانوں کیلئے200 یونٹ مفت بجلی سکیم مارچ،اپریل میں شروع کی جائے گی۔عمر عبداللہ نے کہاہم صرف ان گھروں میں اکائیوں کی پیمائش کرتے ہیں جہاں ہمارے میٹر نصب ہیں۔ ہم ان گھروں کی اکائیوں کی پیمائش نہیں کر سکتے جن کے پاس مناسب معاہدے نہیں ہیں۔مطلب مفت بجلی کا خواب بھی چکنا چور ہوگیا ۔پہلے تو یہ سکیم مارچ اپریل سے شروع کرنے بات کی گئی ہے۔دوم واضح کیاگیا ہے کہ مفت بجلی صرف میٹر یافتہ صارفین کو ہی ملے گی اور میٹر ابھی تک 30فیصد سے کم صارفین کو ہی لگے ہیں جبکہ باقی ماندہ70فیصد سے زائد صارفین کے گھروں میں میٹر لگے ہی نہیں ہیں اور انہیں فلیٹ ریٹ پر ایگریمنٹ کے حساب سے بجلی ملتی ہے ۔تو مطلب صاف ہے کہ مفت بجلی کو ہمیں بھول جاناچاہئے کیونکہ وہ مٹھی بھر لوگوں کو ہی دینے کی بات جارہی ہے ۔جس صد فیصد میٹرنگ کے بعد وزیراعلیٰ سب کو مفت بجلی دینے کی بات کررہے ہیں ،وہ صد فیصد میٹرنگ آنے والے پانچ برسوں میںبھی مکمل نہیںہوپائے گی کیونکہ ابھی تک حکومت سرینگر اور جموں شہروں و قصبہ جات میں میٹرنگ مکمل نہیں کرپائی ہے تو گائوں دیہات کی باری کب آئے گی ،سمجھ سے بالاتر نہیں ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم اس معیاد ِ حکومت میں عمر عبداللہ اس چناوی وعدے کو مکمل طور وفا نہیں کرپائیں گے۔

روزگار۔ وزیراعلیٰ نے اس میڈیا ٹاک میں روزگار کے وعدے کی کوئی بات نہیں کی اور جن لاکھوںنوکریوںکے وعدے چنائو منشور میںکئے گئے تھے ،اُن کا ذکر تک نہ ہوا ۔حد تو یہ ہے کہ جن ڈیلی ویجروں کو مستقل کرنے کا وعدہ چنائو منشور میں ہوا ہے ،اُن کی بھی بات اس میڈیا ٹاک میں نہیں ہوئی اور وزیراعلیٰ نے اس سنجیدہ ایشو کو چھیڑنا تک مناسب نہیں سمجھا۔مانا کہ بھرتی کا عمل شروع ہوچکا ہے لیکن وہ محض چند پوسٹوں تک محدود ہے جبکہ بڑے پیمانے پر کوئی بھرتی شرو ع نہیںکی گئی ہے اور جو بھرتی عمل شروع ہوا ،وہ بھی انتہائی سست ہے ۔اسی طرح 60ہزار سے زائد عارضی ملازمین کی مستقلی کا کوئی بلو پرنٹ ذرائع ابلاغ کے ساتھ شیئر تک نہیں کیاگیا۔

اضافی راشن ومفت گیس
امید کی جارہی تھی کہ اس پریس کانفرنس میں وزیراعلیٰ اضافی راشن کے چناوی وعدے کا ذکر کریں گے اور کوئی ٹائم فریم دیں گے کہ کب تک یہ وعدہ وفا ہوگا لیکن اس پر بھی کوئی بات نہیں ہوئی ۔این سی کے چنائو منشور میں راشن کوٹا کو دوگنا کرنے کے علاوہ تیل خاکی اور چینی کی فراہمی کی بات کی گئی تھی لیکن تاحال اس حوالے سے حکومت خاموش ہے اور نہ ہی راشن کوٹا کو دوگنا کرنے کا ذکر ہورہا ہے اور نہ ہی راشن سٹوروںپر تیل خاکی اور کھانڈ کی دوبارہ فراہمی پر بات ہورہی ہے حالانکہ یہ معاملات براہ راست لوگوںکی زندگیوں سے جڑے ہوئے ہیں۔مفت گیس سلینڈروںکی فراہمی پر بھی مکمل خاموشی ہے اور وزیراعلیٰ نے اپنی میڈیا ٹاک میں اس کا بھی کوئی ذکر نہ کیااور یو ں رسوئی گیس کے بارہ سلینڈروںکی مفت فراہمی بھی ہنوز ایک خواب ہی ہے جس کی تعبیر دور دور تک نظر نہیں آرہی ہے۔

حاصل کلام۔ مجموعی طور پر وزیراعلیٰ کی پریس ٹاک اصل میں بے بسی کا نوحہ تھا اور وہ میڈیا کے ذریعے دبے الفاظ میں جہاں اپنی بے بسی ظاہر کرنا چاہتے تھے وہیں سارے مسائل کو ریاستی درجہ کی بحالی سے جوڑ کر لوگوں کے مسائل کے لئے مرکزی سرکار کی ہٹ دھری کو ذمہ دار ٹھہرا نے کی کوشش کررہے تھے۔کھودا پہاڑ ،نکلا چوہا ہے کے مصداق اس پریس میٹ سے عوام نے جو امیدیں باندھ رکھی تھیں ،وہ سب کی سب کافور ہوگئیں اور مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگا۔
واپس کریں