خواجہ غلام محی الدین رہبرؒ تاریخِ صحافتِ کشمیر کا درخشاں باب
شاہد رہبر ، سرینگر
خواجہ غلام محی الدین رہبرؒ تاریخِ صحافتِ کشمیر کا درخشاں باب 39 ویں برسی پر شاندار خراجِ عقیدت (وفات: 11 جنوری 1986) ۔
آدم خور دیو کی طرح کشمیری مسلمانوں کو ستاتا اور کھاتا آرہا مسئلہ کشمیر اور اس کی کوکھ سے جنم لیتے آرہے دیگر مسائل کے حوالے سے ہوسکتا ہے کہ موجودہ پود یہ سمجھتی ہو کہ یہ مسائل بس انہیں ہی درپیش ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جموں کشمیر کے مسلمان دہائیوں سے ظلم کی چکی میں پستے آرہے ہیں۔آج جب نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اپنا سب کچھ دائو پر لگاکر اپنی مظلوم قوم سے داد تحسین پاتی ہے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ اس سے پہلے اس قوم میں غیرت مند نوجوانوں،کارکنوں یا رہنما ئوں نے شائد جنم ہی نہیں لیا ہے حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ظالموں نے گہرے اور وسیع مقاصد کے لئے جموں کشمیر کے ماضی کی تاریخ کو کچھ اس طرح پیش کیا ہے بلکہ اس طرح ”محفوظ“کیا ہوا ہے کہ اس میں شیخ عبداللہ کی سودا بازی کے سوا کچھ دکھائی ہیں نہیں دیتا ہے لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ اس قوم کی مائیں پہلے بھی غیرت مندوں اور نہ بکنے و نہ جھکنے والی روحوں کی جنم دیتی رہی ہیں۔
ہاں،آج کے جموں کشمیر میں ماضی کے کشمیر کی بات کی جائے تو سودا بازی کے سوا کچھ سنائی نہیں دیتا ہے لیکن وہ چودھری غلام عباس ہوں یا غلام محی الدین رہبر جیسے انکے ساتھی انہوں نے یقیناََ مسلمانان کشمیر کے حقوق کے لئے مقدور بھر کوششیں کی ہیں اور سمجھوتہ کئے بغیر دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔غلام محی الدین رہبر کی پوری زندگی پر نظر ڈالی جائے تو مسلمانان جموں کشمیر کی حق تلفی،زبوں حالی،ان پر ہورہے مظالم کی وسیع عبارت میں وقت وقت پر اس قوم کی جانب سے کی جاتی رہی مزاحمت اور جدوجہد کے نشاں بھی معلوم ہوجاتے ہیں۔رہبر صاحب در اصل جموں کے باشندہ تھے لیکن وہ نہ صرف وادی میں آکر یہاں رچ بس گئے تھے بلکہ کشمیر کی تاریخ کے کئی اوراق کے اس حد تک مستند اور مظبوط گواہ بنے کہ انکا نام لئے بنا تاریخ کے اس حصے کا تذکرہ نا مکمل تصور کیا جائے گا۔ رہبر صاحب کا خاندان در اصل کٹھوعہ جموں میں آباد تھا۔انکے دادا غفور الدین منہاس نے تاہم کٹھوعہ سے ہجرت کر کے سرینگر آکر بٹہ مالنہ میں سکونت اختیار کر لی۔
غلام محی الدین رہبر کا جنم 4مارچ 1904ءکو ہوا ہے۔ مشن اسکول سرینگر میں پرائمری تک تعلیم حاصل کر لی، پڑھنے کا کافی شوق تھا،لیکن خاندان کی مالی حالت ایسی نہ تھی کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر پاتے۔ظاہر ہے کہ انہوں نے تعلیمی سفر کو مختصر کرکے کمسنی میںملازمت کے لئے کافی تگ و دو کی ، ڈوگرہ شاہی میں پڑھے لکھے کشمیری مسلمانوں کے لئے حصول ملازمت، اور وہ بھی سرکاری ، مشکل ہی نہیں ناممکن بھی تھا۔ایسے میں آدمی مسلمان ہو اور وہ بھی کم پڑھا لکھا، وہ سرکاری ملازمت کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتاتھا۔تاہم محی الدین صاحب کے لئے کسی طرح مہاراجہ ہری سنگھ کے یہاں سفارش لگی اور وہ مہاراجہ کے” سٹیٹ بینڈ “کے نام سے موسوم بینڈبجانے والے دستہ سے وابستہ ہوگئے ۔ مہاراجہ کے اس بینڈ میں مسلمانوں کی تعداد محدود تھی، البتہ محی الدین صاحب سے قبل کلائے اندر سرینگر کے سکندر خان بھی اس بینڈ میں ملازم تھے جو بعدازاںمحی الدین صاحب کےاچھے دوست بن گئے۔چونکہ ڈوگرہ حکمران گرمیوں کے چھ ماہ سرینگر میں اور سردیوں کے چھ ماہ جموں میں گزارتے تھے، لہذا ان کا عملہ بھی دربار مو کرتا تھا۔ جموں کشمیر کے مسلمان اگرچہ مدتوں سے غلامی اور مظلومی کی زندگی بسر کرتے آئے ہیں اور انہوں نے وقت وقت پر غیر مسلموں کے ماتحت مشکل حالات میں عمر گذاری ہے لیکن مذہب کے ساتھ جذباتی حد تک اس قوم کی وابستگی بھی پرانی ہے۔
جموں میں قیام کے دوران محی الدین اور سکندر خان نے ایک مسجد بنانے کی ٹھان لی، ایک تو اس لئے کہ وہ اس میں نماز پڑھا کریں اور دوسری یہ کہ یہاں وہ اپنی یاد گار رکھنا چاہتے تھے۔دونوں کے اس منصوبے کا انکے انگریز بینڈ ماسٹر کو علم ہوا تو انہوں نے ان دونوں کی اوپر جاکر شکایت کی۔مہاراجہ نے دونوں کی جانب سے مسجد بنانے کے منصوبے کو،جسکا ابھی عمل میں آنا باقی تھا،نا قابل معافی گناہ تصور کرتے ہوئے نہ صرف ان دونوں دوستوں کو نوکری سے نکال باہر کیا بلکہ مزید سزا کے طور پر انہیں سنٹرل جیل جموں بھیج دیا گیا۔یہ ان دونوں کے لئے زندگی کی پہلی غیر معمولی بات تھی اور انہوں نےمسجد بنانے کے بارے میں سوچنے کے جرم میں دو سال کی قید کاٹی۔ رہائی کے بعد دونوں واپس سرینگر آگئے۔ محی الدین صاحب نے اب نوکری کی بجائے کاروبار کی طرف توجہ دی، لیکن اس حوالے سے چونکہ کوئی تجربہ نہ تھا، کوئی کاروبار راس نہ آیااورکاروباری دنیا میں ٹک نہ سکے۔ چنانچہ تنگ آمد بہ جنگ آمد اپنے دوست سکندر خان کو ساتھ لیکر لاہور چلے گئے۔ لاہور میں انہیں برٹش آرمی میں نوکری مل گئی، جہاں وہ چارسال تک ملازمت کرنے کے بعد، 1927ءکے آس پاس لاہور سے واپس آگئے۔ کشمیر واپسی پر وہ مسلسل دو سال تک بالکل بے کار پڑے رہے جسکے بعد1929ءمیںاسلامیہ ہائی سکول راجوری کدل میں فزیکل یعنی ڈرل ماسٹر کے عہدے پر تعینات ہوئے۔یہ وہ دور تھا جب اس اسکول میں شیخ عبداللہ سائنس ماسٹر کے طور پر کام کرتے تھے۔
لاہور میں برٹش آرمی میں کام کے دوران انہوں نے وہاں سے جو اثاثہ لایا تھا، اس میں کچھ کپڑے اور ایک کیمرہ تھا۔ ایک دن اسلامیہ اسکول میں جب انہوں نے بچوں کو یہ کیمرہ دکھایا اور بتایاکہ اس سے کسی بھی آدمی کی ہو بہو تصویراتاری جاسکتی ہے معلوم ہوا کہ اکثرببچے پہلی باریہ” عجوبہ “دیکھ رہے تھے۔ کئی ایک نے تصویر بنوانے کی خواہش ظاہر کی،چناچہ کئیوں نے ایک آنہ دیکر تصویریں بنوائیں۔اس دوران محی الدین صاحب میں فوٹو گرافی کا شوق بڑھ گیا، کچھ مدت کے بعد انہوں نے ڈرل ماسٹری چھوڑ دی اورگاؤ کدل میں ایک واحد فوٹو گرافی کی دکان ، جسکے مالک گوپی ناتھ کول تھے،پر باضابطہ فوٹوگرافی کا کام سیکھنا شروع کیا۔ بعدازاں انہوں نے1930ءمیں چھہ روپیہ ماہانہ کرایہ پر اپنی دکان لی اور فوٹو گرافی کا کاروبار شروع کیا۔چناچہ یہ فوٹوگرافی کا کام ہی تھا کہ جس نے محی الدین صاحب کی زندگی کو نئی طرح دی اور وہ فکر معاش کے لئے مختلف سمتوں میں دوڑ بھاگ کرنے والے ایک عام شخص سے ان خواص میں بدل گئے کہ جنہوں نے کشمیری تاریخ کی کئی اہم پیش رفتوں یا کئی حادثوں کو ہوتے دیکھا بلکہ کہیں نہ کہیں خود بھی تاریخ کی ان تبدیلیوں میں حصہ ڈالا۔ 13 جولائی1931ءکو جب سنٹرل جیل سرینگر کا خونی واقعہ رونما ہوا، چندنو جوان دوڑتے بھاگتے محی الدین صاحب کی دوکان پر آگئے اور انہیں کیمرہ ساتھ لے کر سنٹرل جیل کے پاس لے آئے تاکہ وہ ان شہداءاور زخمیوں کی تصویریں لے سکیں کہ جو اس تاریخی واقعہ کا شکار ہوگئے تھے۔
غلام محی الدین رہبر نے فوٹو گرافی کی مختصر زندگی میں جتنے بھی فوٹو لئے تھے وہ سب کے سب زندگی سے متعلق تھے، آج اچانک ان کے سامنے جو منظر تھا ، وہ دل دہلادینے والا تھا ، خون میں لت پت انسان، سڑک پر بکھری لاشیں، زخمیوں کی کراہیں اور انسانیت کی بے بسی۔ظلم کی یہ انتہا دیکھ کر محی الدین صاحب سکتہ میں آئے ، ایک طرف ان کے گویا ہوش و حواس ہی اڑ گئے تھے اور وہ خلاف توقع یہ خونی منظر دیکھ کر سہم گئے تھے تو دوسری جانب وہ اس منظر کو کیمرہ میں قید کرکے ہمیشہ کے لئے حوالۂ تاریخ کرنے کو اپنا فرض سمجھ کر تصویریں اتارنے لگے۔ جم غفیر میں چیخ و پکار کے دوران انہوں نے اپنے پیشے کی لاج رکھ کرہر ایک شہید اور ہر ایک زخمی کی وہ تصویر یں لیںنہ صرف کشمیر کی خونین تاریخ کا اہم حصہ ہیں بلکہ خود محی الدین صاحب کی زندگی کے اس اہم واقعہ کی یاد گار بھی ہیں۔ چناچہ سینٹرل جیل کے اس واقعہ کی تصویریں انہوں نے ایک پیشہ ور فوٹو گرافر کے بطور لیں لیکن اس واقعہ نے محی الدین کو گویا جھنجھوڑ کے رکھا اور انکی سوچ اور زندگی کو نئی سمت دی۔انتہائی جذباتی ہوکر انہوں نے سر راہ پڑے شہیدوں کے سرخ لہو سے مخاطب ہو کر انہوں نے عہد کر لیاکہڈوگرہ شاہی کے خلاف لڑنے کے لئےوہ بھی میدان کا ر زار میں اتر جائیںگے.... اس عہد کے ساتھ ہی وہ ایک باغی بن گئے۔
یہ محی الدین رہبرکی زندگی کا نیا دور تھاتاہم بغاوت کرنے کا جو فیصلہ انہوں نے لیا تھا وہ جلد ہی ان آزمائشوں کا متقاضی ہوگیا کہ جو ظلم کے خلاف کھڑا ہونے والے کسی بھی شخص کے راستے میں آکر ہی رہتی ہیں۔ بغاوت کے جرم میں بھیم سین سنگھ کی عدالت میں انہیں تین ماہ قید سخت سنائی گئی اور دو سو روپے جرمانہ بھی کئے گئے ۔ جب یہ قیدی جرمانہ ادا نہ کرسکے ،سرکاری کارندے گھر کا اثاثہ، جس میں کھانے پینے کے برتن ، کپڑے اور پاکستانی نمک کی ایک سیر کی ڈلیا بھی شامل تھی،ضبط کرکے لے گئے۔چناچہ اس آزمائش کی وجہ سے محی الدین صاحب کا جذبہ نہ صرف اور جوش میں آگیا بلکہ انکے خیالات میں پختگی کے ساتھ ساتھ سنجیدگی بھی آگئی اور انہوں نے ظلم کے خلاف مزید موثر انداز میں کام کرنے کے لئے اخبارات اور پملفٹ بانٹنے کا کام اپنے ذمہ لیا۔ اسی دوران وہ دوبارہ گرفتارہوئے اور اب کے چھ ماہ قید کی سزا کاٹی۔” کوئٹ کشمیر تحریک “کے دوران چودھری غلام عباس ، اللہ رکھا ساغر، اور منشی یعقوب علی کے ساتھ انہیں بھی کوئی ڈیڑھ سال تک قید میں رکھا گیا۔ قیدوبند کی سعوبتوں سے خوفزدہ ہوئے بغیر محی الدین رہبرتحریک کے ساتھ مزید مصروف ہوتے گئے چناچہ مسلم کانفرنس کے لیڈر ان کے گھر میں خفیہ میٹنگ کر تے تھے۔دراصل13جولائی1931ءکے واقعہ کے بعد تحریک ہی ان کا اوڈھنا بچھونا بن گئی تھی۔چونکہ 13جولائی1931ءکے محی الدین صاحب کے شہیدوں کے لئے ہوئے فوٹو ریاست اور ریاست سے باہر مختلف اخباروں اور رسالوں میں شائع ہوکر ایک طرف کشمیریوں پر ہورہے اس ظلم کو کسی حد تک اجاگر کر گئے تھے دوسری جانب ان تصاویر کی شہرت نے محی الدین صاحب کے اندر اخبار نکالنے کا خیال ابھاراتھا۔
ڈوگرہ شاہی کے دور میں اخبارنکالنا،وہ جب جب اخبار کا مقصد بغاوت ہو،اور اس کے لئے اجازت نامہ حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ حکومت کو آمادہ کرنا،زر ضمانت کا انتظام اور اس طرح کے دیگر مراحل ایک سے بڑھکر ایک دشوار تھے۔ البتہ محی الدین صاحب نے یہ ٹھان لیا تھا کہ کچھ بھی ہو وہ اخبارنکال کر ہی رہےںگے اور اسے تحریک آزادی کا ترجمان بنائےںگے۔ چنانچہ کافی پاپڑ بیلنے کے بعد 1932ءمیں انہیں ”رہبر“عنوان کے اخبار کی اشاعت کا اجازت نامہ مل ہی گیا....یہ ایک خواب کی تعبیر بھی تھی اور کوششوں کی کامیابی کا مژد ہ بھی۔ یہ تمنائوں کے ساتھ نکالے گئے اس اخبار کی کامیابی ہی ہے کہ اسکا نام محی الدین صاحب کے نام کے ساتھ یوں جُڑ گیا کہ جیسے خود اس نام کا حصہ ہی ہو۔ البتہ تحریک آزادی میں انکے رول کے بعد اب ”رہبر“کی اشاعت محی الدین صاحب کے بار بار گرفتار ہونے کی ایک اور وجہ بن گئی۔ظاہر ہے کہ رہبرصاحب کے بار بار گرفتار ہونے کی وجہ سے رہبر کی اشاعت بھی بار بار رکتی گئی۔ 1932ءمیں اخبار ”رہبر“ کی اشاعت شروع ہوئی تومحض سال بھر بعد ہی 1933ءمیں رخنہ پڑا۔ اس طرح1936ء1938ء1946ء1959ءاور پھر1965ءمیں اس اخبار کی اشاعت رک گئی۔ بار بار اخبار کی اشاعت رک جانے سے رہبر صاحب کو دکھ اور افسوس ہوا تو انہوں نے اپنی غیر حاضری میں اخبار کی اشاعت جاری رکھنے کا یہ راستہ نکالا کہ دینا ناتھ مست ،جو ایک اچھے ایک اہل قلم تھے،کو ذمہ داری سونپی۔دینا ناتھ مست کے ساتھ نہ صرف رہبر صاحب کے دیرینہ تعلقات تھے بلکہ وہ اولالذکر کے انتہائی بھروسہ مند بھی تھے۔ایک تصدیق طلب بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ محی الدین صاحب نے دراصل اخبار” رہبر “دینا ناتھ مست سے ہی خریداتھا لہذا اپنی غیر موجودگی میں انہوں نے دینا ناتھ مست کو ہی اشاعت جاری رکھنے کی ذمہ داری سونپی۔
مسلم کانفرنس کے پرچم تلے تحریک آزادی میں سرگرم رول کے لئے محی الدین رہبر کو بار بار جیل جانا پڑا۔1932ءمیں اخبار رہبر کی اشاعت کے فوراً بعدہی انہیں گرفتار کیا گیا رہا ہوئے تو دوبارہ 1932 ءمیں ہی پھر سے حراست میں لئے گئے اس کے بعد1934ءمیں گرفتار کر کے پہلی بار سرینگر سے باہر ریاسی جیل بھیج دئے گئے۔ 1948 ئمیں پھر گرفتارکئے گئے اور اب کی بار جموںجیل میں رکھے گئے۔ 1959ءاور 1965ءمیں سرینگر سینٹرل جیل میں مقید رہے۔1965ءکیہندو پاک جنگ کے بعد صورتحال تبدیل ہوگئی ،جسکا مفصل خاکہ کھینچنا یہاں مقصود نہیں ہے۔ اس کے بعد بھی اگرچہ غلام محی الدین رہبر صحافت کے پیشے سے جڑے رہے لیکن یہ وہ دور تھا جب وادی میں تحریک مزاحمت کا زور ٹو ٹ چکا تھا۔تاہم خواجہ رہبر اپنے قلم کی وساطت سے مجروح جذبات کی ترجمانی کرتے رہے۔ بالآخر زمانے کے نشیب و فراز اور اپنوں کے ستم برداشت کرنے کے بعد آسمانِ صحافت کا یہ درخشاں ستارہ 11جنوری1986ءکو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا۔البتہ اس دوران وہ اپنے مشن کی اہمیت اور اس سے لگاو ¿ کی حدوں کے بارے میں اپنے بچوں تک بات پہنچا چکے ہیں جو ابھی تک ”رہبر“کی اشاعت کی شکل میں شمع کو فروزاں کئے ہوئے ہیں۔
واپس کریں