وجاہت مسعود
ثروت حسین کا ایک مصرع دیکھئے، ’رزم گہ وجود میں آنکھ جھپک نہیں سکی‘۔ ثروت حسین نے 47 برس عمر پائی۔ شاعر کی زندگی ماہ و سال کی اکائیوں میں شمار نہیں ہوتی، اس کی بصیرت اور حد نظر سے متعین ہوتی ہے۔ ثروت حسین نے 1971 کے قیامت خیز دنوں میں ’ایک انسان کی موت‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی، ’دھان کی پنیری فوجی بوٹ سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے…. مجھے مردہ آدمی کی ہنسی سے خوف آتا ہے‘۔ احتیاط سے عرض ہے کہ آج پاکستان کے حالات 1971ءکے بحران سے زیادہ گھمبیر ہیں۔ آپ کو چھ جنوری 1968 کو اگرتلہ سازش کیس کا انکشاف یاد ہے۔ بنگلا دیش کی پارلیمنٹ میں شیخ حسینہ واجد سمیت متعدد ارکان اس سازش کی تصدیق کر چکے ہیں۔ مگر ہمیں تو مغربی پاکستان میں یحییٰ خانی ٹولے کے سیاسی عزائم کو آگے بڑھانا تھا۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ 29 جنوری 1968 کو ہارٹ اٹیک کے بعد علیل صدر ایوب کو فوج کے سربراہ یحییٰ خان اور وزیر دفاع اے آر خان نے عملی طور پر ایوان صدر میں ایک ہفتے تک یرغمال بنائے رکھا۔ شیخ مجیب کا قد کاٹھ بڑھانے کے لئے بھٹو صاحب اگرتلہ مقدمے میں ان کی وکالت کرنے ڈھاکہ جا پہنچے تھے۔ مقدمے کی کھلی سماعت نے ملک کے دونوں حصوں میں علیحدگی کے سوال کو ایک خیال سے مقبول سیاسی بیانیے میں تبدیل کر دیا۔ آپ تو جانتے ہیں کہ اگرتلہ مقدمے میں عدالت کے سربراہ چیف جسٹس ایس اے رحمن کس حالت میں ڈھاکہ سے کراچی پہنچے تھے۔
روئیداد خان اپنے مضمون ’Role of the Military-Bureaucratic Oligarchy.‘ میں لکھتے ہیں کہ انڈونیشیا میں پاکستان کے سفیر شیر علی خان پٹودی نے یحییٰ خان کے نام ایک خط میں پاکستان میں اقتدار کے ڈھانچے میں فوج کے کردار کا فلسفہ بیان کیا تھا۔ یاد رہے کہ شیر علی خان اور یحییٰ خان 1948 میں جنرل میسروی کی قائم کردہ دو رکنی کمیٹی میں شامل تھے جسے پاکستانی فوج کا طویل مدتی بیانیہ مرتب کرنا تھا۔ شیر علی خان نے صدر یحییٰ کو لکھا کہ’ایوب خان کے بعد فوج کے اقتدار سنبھالنے کی وجہ اس کی فائر پاور نہیں تھی۔ ہم تو ڈھاکہ میں نواب پور روڈ پر بھی قبضہ نہیں کر سکتے تھے۔ فوج کی طاقت اس کے کرشماتی تاثر میں ہے۔ یہ وہ قیمتی سرمایہ ہے جو ایک دفعہ کھو دیا گیا تو دوبارہ حاصل کرنا بہت مشکل ہو گا۔ عوام کا فوج سے کبھی براہ راست رابطہ ہی نہیں رہا۔عوام کی نظر میں فوج ایک جادوئی قوت ہے جو ہر مشکل پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے برعکس عوام افسر شاہی اور سیاست دانوں سے روزمرہ رابطے کے باعث ان کی صلاحیت کو اچھی طرح جانتے ہیں…. عوام کا یہ تاثر غیر حقیقی ہی کیوں نہ ہو، اسے بہرصورت برقرار رکھنا چاہیے۔ فوج کو اپنے اختیارات سے دستبردار ہونے کی بجائے ایک منقسم پارلیمنٹ اور باہم دست و گریبان سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے۔‘ پٹودی کے ان فرمودات کا ثبوت صدیق سالک کی کتاب ’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘ میں تلاش کیجئے۔ لکھتے ہیں کہ’2 مارچ 1971 کی شام ڈھاکہ میں کرفیو نافذ کر دیا گیا لیکن فوجیوں کو گولی چلانے کی اجازت نہیں تھی۔ کرفیو کے انچارج 57 انفنٹری بریگیڈ کے کمانڈر بریگیڈیئر ارباب جہانزیب رات گئے غصے کی حالت میں مارشل لا ہیڈ کوارٹر پہنچے۔ انہوں نے داخل ہوتے ہی کہا۔ ’آپ نے میرے ہاتھ باندھ کر مجھے آگ میں دھکیل دیا ہے۔ فوجی جوانوں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ انہیں گالیاں دی جا رہی ہیں۔ ادھر آپ کا حکم ہے کہ گولی نہیں چلانا‘۔ صدیق سالک نے بریگیڈیئرصاحب کا اضطراب بیان کیا ہے، سراج گنج کے مرکزی بینک کا ذکر نہیں کیا۔ اس کے لئے حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ دیکھئے۔
یہ اشارے محض تاریخ کی باز خوانی نہیں۔ گزشتہ ایک برس میں عمران خان اور قانون کی آنکھ مچولی دیکھیئے۔ گلی کوچوں میں فوج اور عدلیہ کے بارے میں مباحث ملاحظہ کیجئے۔ لاہور، راولپنڈی اور پشاور میں فوجی تنصیبات پر مشتعل ہجوم کی یلغار دیکھئے۔ 1971 میں پاکستانی معیشت آج کے مقابلے میں کہیں بہتر تھی۔ دنیا کی دو بڑی طاقتیں امریکا اور چین پاکستان کے موقف کی ممکنہ حد تک حمایت کر رہی تھیں نیز پاکستان کی زمین پر تربیت یافتہ مذہبی دہشت گردوں کے ٹھکانے موجود نہیں تھے۔ کسی صاحب خبر سے معلوم کیجئے کہ کچے کے علاقے میں ڈاکوﺅں کے خلاف کارروائی کی حقیقت کیا ہے۔ اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال سرعام ایک پیغام کی اطلاع دیتے ہیں ’آپ کا گھر بھی جل سکتا ہے‘۔ ریاست کی علامت پشاور ریڈیو اسٹیشن جل گیا۔ محمد انور خالد یاد آئے۔ ’یہ گھر جل کر گرے گا/ تم نے لو دھیمی نہیں کی‘۔ ثروت حسین نے جس یورش کی افتاد بیان کی تھی ہم نے اپنے ہاتھوں سے اس غارت گری کی بنیاد رکھی ہے۔ ’باخبر صحافی‘ مسلسل مارچ 2022 کی تحریک عدم اعتمادپر حالات کی خرابی کا الزام دھر رہے ہیں۔ یہ نہیں بتاتے کہ اگر دستوری طریقہ کار کے عین مطابق رخصت ہونے والی حکومت کے بعد بحران کی موجودہ کیفیت یہ ہے تو نومبر 2022 میں کسی ’صادق اور امین‘ کے عزائم بر آنے کی صورت میں حالات کی صورت کیا ہوتی۔ کیا نواب شاہ کا بوڑھا مدبر غلط کہتا ہے کہ جمہوری قوتیں حرکت میں نہ آتیں تو صدارتی نظام اور 2035ءتک کا نقشہ تیار تھا۔ ٹیلی ویژن سکرین اسلام آباد میں عدل کے ایوانوں کی لمحہ بہ لمحہ خبر دے رہی ہے لیکن چشم بینا کو 30 جون 2023 کو موجودہ مالی سال کے اختتام پر معیشت کی فکر ہے کیونکہ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق چوبیس کروڑ کی قوم کو اسی زمین پر نان جویں تلاش کرنا ہے۔ جمہوری رہنماﺅں کے لیے تنگ و تاریک کوٹھریوں میں ننگے فرش کے بستر اور خلف الصدق کے لیے گیسٹ ہاﺅس کی میزبانی میں جو فرق ہے وہی آٹے کی بوری کے لیے قطاروں میں کھڑے عوام اور عالی شان دفتروں میں بیٹھ کر 2035 کا زائچہ نکالنے والوں میں پایا جاتا ہے۔ تاریخ مگر جانتی ہے کہ 2035 کس نے دیکھا ہے؟
بشکریہ ہم سب
واپس کریں