وجاہت مسعود
کسی قوم کے سیاسی شعور کی پختگی کا ایک بنیادی پیمانہ شہریوں کے مابین پرامن سیاسی اختلاف رائے کے حق پر غیر مشروط اتفاق ہوتا ہے۔ اختلاف رائے کی اسی روایت سے جمہوری ثقافت کا یہ پہلو بھی برآمد ہوتا ہے کہ شہری سے کسی سیاسی رہنما، سیاسی جماعت یا سیاسی نصب العین کی غیر مشروط حمایت یا مخالفت کی توقع نہیں کی جاتی۔ شہری اپنے علم، مشاہدے، فکر، معاشی سوچ، سماجی ترجیحات اور سیاسی تجزیے کی بنیاد پر کسی سیاسی جماعت یا نصب العین کی مشروط حمایت یا مخالفت کرتا ہے۔ درحقیقت کسی فرد، گروہ یا جماعت کی غیر مشروط تقلید شہری کے سیاسی شعور کی توہین اور شخصی احترام کی نفی کے مترادف ہے۔
ہمارے قومی سیاسی ارتقا کی سمت البتہ مجموعی طور پر اس جمہوری اصول سے متصادم رہی ہے۔ اس انحرافی رویے کے بنیادی اسباب سے ہم بخوبی واقف ہیں۔ خواندگی کی شرح کم ہے اور تعلیمی معیارپست ہے۔ چنانچہ شہریوں میں تنقیدی شعور کی بجائے موضوعی تاثر اور محدود معلومات کی بنیاد پر سیاسی فیصلے کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ نیم قبائلی اور نیم جاگیردارانہ معاشرت میں خاندانی تعلقات اور رشتے ناتے سیاسی فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ تمدنی اداروں پر ریاست کے طاقتور اداروں کی بالادستی نے سیاسی شعور کی نمود پر پہرے بٹھا رکھے ہیں۔ مذہب اور سیاست میں حد فاصل مٹانے کا پہلا نتیجہ یہ ہے کہ ریاستی فیصلوں میں مذہبی مصلحتوں کو دخل ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ عقیدے کی ناگزیر جکڑ بندی کا حامل ذہن انفرادی غور و فکر کی بجائے ہجومی نفسیات کا اسیر ہو جاتا ہے۔ غربت کی بلند شرح کے باعث دو وقت کی روٹی کی فکر میں غلطاں عوام کی اکثریت سیاسی عمل کی باریکیوں سے لاتعلق ہو جاتی ہے۔ دستوری تسلسل میں بار بار کھنڈت ڈالنے والے عناصر نے اپنے پیوستہ مفادات کی آبیاری کے لئے عشروں کی ریاضت سے جمہوری شعور کے خد و خال مسخ کر دیے ہیں۔ بظاہر جمہوری ادوار میں بھی مجموعی قومی بیانیے پر آمرانہ رجحانات کے تاریک سائے موجود رہتے ہیں۔ وفاق کی اکائیوں میں باہم اعتماد کے بحران کو فرقہ وارانہ، لسانی اور ثقافتی افتراق سے مہمیز کیا گیا ہے۔ صنفی امتیاز کو قانونی سائبان اور سماجی تائید دے کر آدھی قوم کو بے دست و پا کر دیا۔ خواب معاشی ترقی کا ہے اور عورت مرد میں غیرمنصفانہ امتیاز کے کیچڑ میں پاﺅں لتھڑے ہیں۔ غیر مسلم آبادی ایک کروڑ سے زیادہ ہے اور اسے گویا جسد اجتماعی میں فٹ نوٹ کا درجہ دے رکھا ہے اور وہ بھی بغیر حوالے کے۔ قانون کی بالادستی کیسے قائم ہو، جب عدلیہ پون صدی پر محیط تاریخ میں ایک بار بھی انصاف کے اعلیٰ ترین امتحان یعنی عوام کے حق حکمرانی کی حفاظت میں پوری نہیں اتری۔ اور اب تو ماتحت عدلیہ سے عدل کے اعلیٰ ترین مناصب تک پورا قانونی نظام ہی ماورائے قانون سیاسی گٹھ جوڑ میں فریق بن کر رہ گیا ہے۔ مستقل انتظامیہ یعنی بیوروکریسی عوام کی روزمرہ زندگیوں میں سہولت لانے کا قابل اعتماد بندوبست تھا لیکن آمریت کے طویل وقفوں نے حکومت اور ریاست میں حد فاصل ختم کر دی۔ بیوروکریسی قانون کے مطابق منتخب میعادی حکومت کی بجائے ریاست پر قابض جنتا کا آلہ کار بن گئی۔ صحافت سے تمدنی مزاحمت کی توقع باندھی جا سکتی تھی لیکن صحافت اقتدار کی حرم سرا میں داخل ہو گئی۔ لفظ بے آبرو ہو گیا اور صحافتی غیرجانبداری بازار کی جنس۔
معاشی اشاریے اس قدر مخدوش ہیں کہ کسی بھی معقول قوم میں فیصلہ سازوں اور اصحاب الرائے کے سر جوڑ کر بیٹھنے کی گھڑی تھی۔ معاملہ محض مختصر مدتی معاشی بحران کا نہیں، 75 برس سے قرض کی مے پیتے رہنے سے معیشت کے در و دیوار ’موئے آتش دیدہ‘ کے مانند خستہ ہو چکے ہیں۔ مئی ختم ہو رہا ہے اور جون کے آخر تک 3.7 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے واپس کرنا ہیں۔ اس وقت زرمبادلہ کے کل ذخائر 4.3 ارب ڈالر ہیں۔ چین سے کوئی دو ارب ڈالر بہم پہنچنے کی امید بندھی ہے لیکن معیشت کی معمولی شدبد کی بنا پر عرض ہے کہ عالمی منظر میں چین اور مغربی دنیا میں سے کسی ایک فریق کے ساتھ اپنے تمام سفارتی مفادات وابستہ کرنا شدید غلطی ہو گی۔ اب اس وسیع تصویر میں درون خانہ واقعات دیکھئے لیکن اس سے پہلے ایک پرانا منظر اور اس کا انجام یاد کر لیتے ہیں۔ صدر یحییٰ نے 3 مارچ کو ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا تھا۔ صدیق سالک سے روایت ہے کہ مشرقی پاکستان میں اعلیٰ حکام اس اجلاس کے لئے قومی اسمبلی کے منتخب ارکان کی آمد کے منتظر تھے مگر یکم مارچ کو ڈھاکہ میں ایک اور ہی چیز نازل ہوئی۔ صدر یحییٰ نے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کا حکم صادر کر دیا تھا۔ تین مارچ کو قومی اسمبلی کے اجلاس کی بجائے ڈھاکہ، کھلنا، سلہٹ اور رنگ پور میں کرفیو نافذ تھا۔ اس کھیل کا انجام آپ جانتے ہیں۔
سپریم کورٹ کی تجویز کے مطابق حکومت اور پی ٹی آئی مذاکرات میں ایک ہی روز قومی انتخابات کے انعقاد پر اتفاق ہو گیا تھا لیکن عمران خان تو درپردہ قوتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کے خمار میں تھے۔ نتیجہ یہ کہ نو مئی ہو گیا۔ سینکڑوں بے نام طفلان گلی کوچہ کیمروں اور دوسرے شواہد کی بنیاد پر گرفتار ہیں اور سخت سزائیں پائیں گے۔ دوسری طرف 2011 کے بعد جوق در جوق تحریک انصاف کا دو رنگا طوق زیب گلو کرنے والے ’رہنما‘ اب اسی نظم و ضبط سے قطار اندر قطار رخصت ہو رہے ہیں۔ انجام اس کھیل کا مخفی نہیں۔ جمہوری قوتیں کمزور ہوں گی۔ سیاست سے برگشتہ اور ذاتی اغراض کی اسیر ایک اور نسل نمودار ہوگی۔ بادشاہ سلامت کا اقبال مزید بلند ہو گا کیونکہ ان کے پشتینی وفادار2008 کی سیاسی فقہ کے مطابق ایک نئے پرچم تلے صفیں درست کریں گے۔ عمران خان تاریخ کا ایک گزشتہ نشان بن جائیں گے۔ زمان پارک کی گلیاں خالی ہیں ٹھیک اسی طرح جیسے قومی خزانہ۔ احمد مشتاق نے لکھا تھا۔
وہی گلشن ہے لیکن وقت کی پرواز تو دیکھو
کوئی طائر نہیں پچھلے برس کے آشیانوں میں
بشکریہ ہم سب
واپس کریں