محمد اسلم میر
بلدیاتی انتخابات کے کامیاب انعقاد کے بعد پاکستان تحریک انصاف آزاد جموں و کشمیر کے اندر اور باہر بھی لوگ وزیر اعظم سردار تنویر الیاس خان کو اقتدار سے باہر کرنے کی دوڑ میں شامل ہو گے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر کے سینئر رہنماں بالخصوص قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر چوہدری انوار الحق اس وقت سر عام جماعت کے اندر تبدیلی کو یقینی بنانے کے لئے ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنے ہم خیال ساتھی ارکان قانون ساز اسمبلی کے ساتھ کوششیں تیز کر رہے ہیں۔ جبکہ صدر آزاد جموں وکشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اندرون خانہ اس تبدیلی کو یقینی بنانے کے لئے اب تک کھل کر سامنے نہیں آئے ہیں۔ صدر ریاست بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی اب بھی یہ خواہش ہے کہ کسی طرح سے انہیں پی ٹی آئی ٹیکنو کریٹ کی سیٹ پر واپس قانون ساز اسمبلی میں بھیج دے تاکہ وزیر اعظم سردار تنویر الیاس کی اقتدار سے بے داخلی کے بعد وہ وزیر اعظم بن جائیں۔ اس عمل کے لئے ٹیکنوکریٹ کی نشست پر منتخب رکن اسمبلی گو کہ صدر ریاست کے دیرینہ اور قابل اعتماد ساتھی ہیں لیکن انہیں ٹیکنوکریٹ کی نشست سے استعفی دلوانا شاید بیرسٹر سلطان محمود کے اختیار میں نہیں ہے۔ دوسری جانب جس قبیلے کے ساتھ رفیق نیئر کا تعلق ہے وہ آزاد جموں و کشمیر کی تیسری بڑی برادری ہے۔
آزاد جموں و کشمیر میں اقتدار اور اعلی عہدے ہمیشہ میرٹ کے بجائے قبائل کی بنیاد پر تقسیم ہوتے ہیں۔ اس وقت اگر اپوزیشن کی طرف سے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے تو وزارت اعظمی کے تین امیدوار جن میں اپوزیشن لیڈر چوہدری لطیف اکبر ، صدر پاکستان پیپلز پارٹی آزاد جموں وکشمیر چوہدری محمد یاسین اور پی پی پی کے ہی سینئر لیڈر سردار حاجی یعقوب ہیں۔ ان تینوں امیدواروں میں سے گجر برادری کا امیدوار چوہدری لطیف اکبر ہے اور اگر چوہدری رفیق نیئر کو یہ یقین ہو جائے کہ ان کی برادری کا پیپلز پارٹی کے طرف سے وزیر اعظم بن سکتا ہے تو وہ بیرسٹر سلطان کے لئے اپنی نشست نہیں چھوڑیں گے۔ آزاد کشمیر کی سیاسی تاریخ میں تیسری بڑی برادری گجر وں کو اس بار یقین ہے کہ شاید آزاد کشمیر کی وزارت اعظمی کا تاج لطیف اکبر کی صورت میں ان کی برادری کے سر پر سج جائے گا ۔ اس کے لئے پی ٹی آئی میں سے اگر انہیں کوئی چوہدری لطیف اکبر کے ساتھ تعاون کر سکتا ہے تو وہ گجر قبیلے کے ارکان اسمبلی ہیں۔
دوسری جانب صدرپاکستان پیپلز پارٹی چوہدری محمد یاسین واحد امیدوار ہیں جن کے جماعت کے اندر اور مرکزی سطح کی لیڈرشپ کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور 2011 میں وہ آخری لمحے میں صرف سابق صدر آصف علی زرداری کی نا کا شکار ہو کر وزارت اعظمی کی دوڑ سے باہر ہو گئے۔ لیکن چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی موجودگی میں چوہدری محمد یاسین شاید وزارت عظمی کے لئے مضبوط امیدوار کے طورپر سامنے آیں گے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی مرکزی رہنما اور آزاد جموں و کشمیر کے سیاسی امور کی سربراہ محترمہ فریال تالپور آج بھی آزاد جموں و کشمیر کی سیاست میں سردار یعقوب خان کو وزارت اعظمی کے لئے موزوں امیدوار قرار دے رہی ہیں۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف آخری دم تک جماعت کے اندر ہی تبدیلی کو یقینی بنانے کی کوشش کریں گے اور وزارت عظمی کا قرعہ خواجہ فاروق یا اظہر صادق کے نام نکل سکتا ہے۔
وزیر اعظم سردار تنویر الیاس خان کو اقتدار سے باہر کرنے کے لئے پاکستان تحریک انصاف سے زیادہ متحرک مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلزپارٹی ہے۔ یہ دونوں جماعتیں وفاق میں پی ڈی ایم کی حکومت کی موجودگی میں آزاد جموں و کشمیر حکومت کی تبدیلی کے لئے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ادھر یہ بات اپوزیشن اور حکمران جماعت کے سینئر رہنمائوں کو بھی معلوم ہے کہ وزیر اعظم سردار تنویر الیاس کو وزارت عظمی سے ہٹا نا آسان کام نہیں ہے۔ وزیر اعظم سردار تنویر الیاس آخری دم تک اپوزیشن اور حکمران جماعت کے اندر تبدیلی کے خواہش مند افراد کو سر پرائز بھی دے سکتے ہیں۔ اکتیس سال کے بعد بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے بعد وزیر اعظم سردار تنویر الیاس آزاد جموں وکشمیر کے جملہ سیاست دانوں پر شہرت میں سبقت لینے میں کامیاب ہو گے ہیں جو روایتی سیاست دانوں اور بڑے بڑے قبائل کو ہضم نہیں ہو رہی۔
وزیر اعظم تنویر الیاس بلدیاتی انتخابات میں تیس فیصد کے قریب آزاد منتخب ہونے والے نوجوانوں کو نہ صرف اپنے قریب لانا چاہتے ہیں بلکہ ان کے بلدیاتی ترقیاتی بجٹ کو دو گنا بھی کرنا چاہتے ہیں۔ اس صورت حال میں اپوزیشن جماعتیں کسی صورت وزیر اعظم تنویر الیاس کو اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتی ہے اور اقتدار کے ایوانوں سے تحریک انصاف کو بے دخل کرنے لئے وہ کسی بھی سطح پر جا سکتی ہیں۔ میر پور میں منگلا ڈیم کی تقریب کے موقع پر وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی تقریر کے دوران وزیر اعظم آزدجموں و کشمیر سردار تنویر الیاس کا کھڑا ہونا اور احتجاج کرنا در اصل اپوزیشن اور مسلم لیگ آزاد جموں و کشمیر کے لئے نا قابل قبول ہے اور اس وقت مسلم لیگ نواز آزاد جموں و کشمیر کے قائدین پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کو نہ صرف تنویر الیاس کو ہٹانے کے حوالے سے یقین دلا چکے ہیں بلکہ اس منصوبہ پر سرعت کے ساتھ عمل پیرا ہونے کے لیے اسلام آباد سے لیکر مظفرآباد تک انہیں ہر قسم کا تعاون دینے کے لئے بے تاب ہیں۔
موجودہ وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد سے اگر ہٹایا بھی گیا تو چھ ماہ کے بعد یہ دوبارہ متحرک ہو کر اقتدار میں واپس آنے کی بھر پور کوشش کریں گے۔ گورننس کے مسائل آزاد جموں و کشمیر میں ہر حکمران کے ساتھ رہے ہیں۔ وزیر اعظم تنویر الیاس بھی تاحال بیورو کریسی پر گرفت مضبوط کرنے میں کامیاب نظر نہیں آرہے جس کا سب سے بڑا نقصان ان کی حکومت کے گورننس کے پہلو کو پہنچا ہے جو خود ان کے اور ان کے جماعت کے لئے پریشانی کا باعث ہے اور یہ وہ واحد پہلو ہے جو ان کو اقتدار سے بے داخلی کے عمل کو جائز قرار دے سکتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ دنیا
اسلم میر ، بیورو چیف دنیا نیوز مظفر آباد
واپس کریں