محمد اسلم میر
آزاد جموں و کشمیر حکومت نے نئے مالی سال کا بجٹ منظوری کیلئے سوموار کو پیش کردیا، آئندہ مالی سال کے بجٹ کا حجم 2 کھرب 64 ارب اور تین کروڑ 30 لاکھ روپے رکھا گیا ہے، ترقیاتی اخراجات 44 ارب جبکہ غیر ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 2کھرب 20 ار ب روپے لگایا گیا ہے۔آزاد جموں وکشمیر کے وزیر خزانہ عبدالماجد خان نے نئے مالی سال کا بجٹ پیش کر تے ہوئے بتایا کہ نئے مالی سال کیلئے 73 ارب 9کروڑ 80 لاکھ روپے کا اضافہ کیا گیا ہے، صحت اور تعلیم میں تین تین ارب روپے ترقیاتی اخراجات کیلئے مختص کرنے کی تجویز ہے اور اگلے ماہ جولائی سے آزاد جموں و کشمیر میں صحت کارڈ کی سہولت دوبارہ دی جاے گی۔مالی سال 2024-25 کے بجٹ کا اگر طائرانہ جائزہ لیا جائے تو اس میں حکومت نے بہت سے شعبوں میں غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی لانے کا جو وعدہ کیا تھا اس میں وہ کامیاب نہ ہو سکے ۔ دوسری جانب بجٹ کی تیاری اور مشاورت میں شامل نہ کرنے پر اپوزیشن کا احتجا ج بھی بجا ہے۔
آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خواجہ فاروق نے بجٹ کو الفاظ کا گورکھ دھندہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بجٹ کی تیاری کیلئے ان سے تجاویز نہیں لی گئیں ۔ حکومت نے اپوزیشن کو ہر معاملہ میں دیوار کے ساتھ لگا دیا جو قابل افسوس ہے۔اپوزیشن لیڈر خواجہ فاروق نے حکومت پر یہ الزام بھی لگایا کہ بجٹ پیش کرنے کے بعد اس پر بحث کی جاتی ہے لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ وہ آئندہ مالی سال کے بجٹ کو بغیر بحث کے عجلت میں منظور کرنے کی کوششوں میں لگے ہیں جو ایک اچھا شگون نہیں ہے۔ اپوزیشن لیڈر نے مزید کہاکہ دنیا میں کہاں دس لاکھ روپے کے منصوبے پر اس کی نگرانی اور عملے کی تنخواہوں پر نوے لاکھ روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر کے بجٹ میں جب تک ترقیاتی اور غیر ترقیاتی اخراجات میں یکسانیت نہیں لائی جائے گی تب تک اس کے فوائد عام آدمی تک نہیں پہنچیں گے۔
حکومت نے نئے مالی سال 2024-25کے بجٹ میں رسل و رسائل کیلئے 14ارب جبکہ مقامی حکومت و دیہی ترقی کے منصوبوں کیلئے 3 ارب 70 کروڑ اور پن بجلی کے منصوبوں کیلئے 3ارب 20کروڑ روپے رکھنے کی تجویز پیش کی ہے۔ایک اندازے کے مطابق آزاد جموں وکشمیر میں دس ہزار سے زائد میگاواٹ پن بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے جن میں سے پانچ ہزار سے زائد میگاواٹ پن بجلی گھروں کے منصوبوں کے حوالے سے مختلف مقامات کی نشاندہی بھی کی جا چکی ہے۔ لیکن آزاد جموں و کشمیر میں پن بجلی کے منصوبوں کی تعمیر کے لئے پاور ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن پی ڈی او مبینہ کر پشن اور دیگر مالی و انتظامی معامالات کے حوالے سے اتنا بد نام ہوچکا ہے کہ اب اس محکمے کو پن بجلی پیدا کرنے کے بجائے غیر ترقیاتی اخراجات بڑھانے کے حوالے سے شہرت حاصل ہے۔ اس محکمے کے اندر ماہرین کی کمی کے ساتھ ساتھ انتظامی معاملات پر میرٹ سے ہٹ کر نچلی سطح سے لیکر اوپر تک ہر دور کے حکمرانوں نے اپنے کارکنان بھرتی کئے جسے اس اہم ادارے کی کارکردگی متاثر ہوئی ہے۔ اسی طرح کا حال محکمہ صنعت و حرفت کا بھی ہے جو آزاد جموں وکشمیر کے پورے نظام میں ایک بوجھ کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ اس محکمے میں موجود ملازمین و افسران بغیر کسی ویژن کے یہاں بیٹھکر تنخواہیں وصول کرتے ہیں ۔ حالانکہ آزاد جموں وکشمیر میں گھریلو اشیا بالخصوص اعلیٰ قسم کی دیودار اور اخروٹ کی لکڑی س بنی اشیا اور فرنیچر تیار کر کے نہ صرف مقامی سطح پر اس اہم صنعتی شعبہ کو مستحکم کیا جاتا بلکہ ہزار وں بے روز گار نوجوانوں کو روزگار کے بہترین مواقع بھی فراہم کئے جا سکتے تھے لیکن موجودہ حکومت نے اس انتہائی اہم شعبے کو بھی بجٹ میں اس طرح پزیرائی نہیں بخشی جس کا یہ مستحق تھا۔
آزاد جموں و کشمیر میں ہر سال بیس لاکھ سے زائد سیاح سیر و تفریح کی غرض سے آتے ہیں لیکن آئندہ مالی سال کے بجٹ میں بھی اس اہم شعبہ کو وہ اہمیت نہیں دی گئ جو اس کا حق بنتا تھا ۔ شعبہ سیاحت آزاد جموں وکشمیر کا واحد شعبہ ہے جسمیں ترقی کے بے پناہ مواقع پنہاں ہیں اور اگر حکومت اس اہم شعبہ کی سرپرستی کرتی تو آزاد جموں وکشمیر میں سالانہ پچاس ارب روپے آسانی سے کمایا جا سکتا ہے۔ اس وقت دو سو کلو میٹر طویل قدرتی حسن سے مالا مال وادی نیلم کے مختلف علاقوں میں نوسیری سے لیکر تاوبٹ تک ایک ہزار سے زائد گیسٹ ہاوسز نجی شعبے میں چل رہے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق پورے آزاد جموں و کشمیر میں سیاحت کے شعبہ میں سالانہ بیس ارب روپے کمائے جاتے ہیں جسمیں ٹور آپریٹرز ، گیسٹ ہاوسز کے مالکان ، ٹرانسپورٹرز کے ساتھ ساتھ عام دکاندار بھی ایک اچھی اور معقول رقم کماتا ہے۔ لیکن موجودہ حکومت اس اہم شعبہ کو ایک مرتبہ پھر ترجیح اول پر رکھنے میں ناکام رہی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے آزاد جموں وکشمیر کا مالیاتی نظام ان بنیادوں پر قائم نہ ہو سکا جسے عام آدمی کو فائدہ پہنچانے کے لئے سرکاری وسائل کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ اس سال مارچ سے پندرہ جون تک ساڑھے بارہ لاکھ سیاح آزاد جموں وکشمیر کا دورہ کر چکے ہیں اور اگر ایک سیاح صرف دس ہزار روپے خرچ کر چکا ہو تو یہ اربوں روپے بن جاتے ہیں جسے عام دکاندار سے لیکر چائے بنانے والے ہوٹل مالکان تک کمائی کرتے ہیں۔ آزاد جموں وکشمیر میں سیاحت واحد شعبہ ہے جہاں سو روپے لگا کر ایک ہزار روپیہ کمایا جا سکتا ہے لیکن موجودہ حکومت نے اس اہم اور بنیادی شعبہ کی ترقی کے لئے بجٹ میں کوئی خاص رقم مختص نہیں کی جسے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت بھی روایتی انداز میں سرکاری نوکریاں ریوڑیوں کی طرح بانٹ کر ہر گزرتے دن کے ساتھ غیر ترقیاتی اخراجات میں اضافہ کر کے ایک ایسا ڈھانچہ کھڑا کر رہی ہے جس کے نیچے کسی بھی وقت آزاد جموں وکشمیر کا پورا نظام آکر خود ہی دب جاے گا۔ دنیا میں بجٹ کی تیاری کو مالیاتی نظم و ضبط کے ساتھ مشروط کر کے بجٹ کا نصف حصہ ٹرقیاتی جبکہ باقی ماندہ حصہ غیر ترقیاتی اخراجات پر صرف کیا جاتا ہے لیکن آزاد جموں و کشمیر میں صورت حال اس سے کچھ مختلف ہے۔ یہاں نوے فیصد سے زائد بجٹ غیر ترقیاتی اخراجات جبکہ دس فیصد حصہ ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص کیا جاتا ہے جسمیں نصف سے زائد رقم کمیشن اور رشوت خوری کی نظر ہوتی ہے۔
موجودہ حکومت سے یہ امید لگائی گئی تھی کہ شاید یہ غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی لاکر ترقیاتی اخراجات میں اضافہ کر کے ایک اچھا اور متوازن بجٹ پیش کرنے میں کامیاب ہو گئی لیکن ایسا نہیں ہو سکا جسے ایک بار پھر واضح ہو گیا کہ رقبے میں ضلع چترال سے چھوٹے آزاد جموں و کشمیر میں سرکاری وسائل کو آزاد جموں وکشمیر کے عام آدمی کے نام پر بجٹ کی شکل دے کر در اصل چند با اثر قبائل اور بڑی بڑی برداریوں کے سیاست دانوں اور ان ہی سے جڑے انتظامی سیٹ اپ میں موجود اشرافیہ کو نوازنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کے نیچے کسی بھی وقت آزاد جموں وکشمیر کا پورا نظام آکر خود ہی دب جاے گا۔ دنیا میں بجٹ کی تیاری کو مالیاتی نظم و ضبط کے ساتھ مشروط کر کے بجٹ کا نصف حصہ ٹرقیاتی جبکہ باقی ماندہ حصہ غیر ترقیاتی اخراجات پر صرف کیا جاتا ہے لیکن آزاد جموں و کشمیر میں صورت حال اس سے کچھ مختلف ہے۔ یہاں نوے فیصد سے زائد بجٹ غیر ترقیاتی اخراجات جبکہ دس فیصد حصہ ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص کیا جاتا ہے جسمیں نصف سے زائد رقم کمیشن اور رشوت خوری کی نظر ہوتی ہے۔موجودہ حکومت سے یہ امید لگائی گئی تھی کہ شاید یہ غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی لاکر ترقیاتی اخراجات میں اضافہ کر کے ایک اچھا اور متوازن بجٹ پیش کرنے میں کامیاب ہو گئی لیکن ایسا نہیں ہو سکا ۔
بشکریہ روزنامہ دنیا
واپس کریں