دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزاد کشمیر میں ایک اور نئی سیاسی جماعت کی تیاری
محمد اسلم میر
محمد اسلم میر
آزاد جموں وکشمیر میں ڈسٹرکٹ جیل راولاکوٹ سے 19قیدی پولیس کی موجودگی میں فرار ہوگے، بھاگنے والوں میں سزا موت پانے والے چھ قیدی بھی شامل ہیں۔فرار قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کرنے کی کوشش میں پولیس اہلکار کی فائرنگ سے ایک ملزم جاں بحق بھی ہوگیا۔ راولاکوٹ جیل سے فرار ہونے والوں میں 6سزائے موت کے قیدی ہیں، 3 قیدیوں کو 25سال کی سزا سنائی گئی تھی جبکہ 3 قیدی 10 سال کی سزا کاٹ رہے تھے ۔ دہشتگردی اور قتل کے مقدمے میں ملوث غازی شہزاد سمیت 5 قیدی انڈر ٹرائل تھے۔ ملزمان کے فرار ہونے کے بعد راولاکوٹ پولیس نے ڈسٹرکٹ جیل کا کنٹرول سنبھال لیا ہے جبکہ جیل عملے کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے ۔دوسری جانب حکومت نے سپیشل سیکریٹری داخلہ و جیل خانہ جات بدر منیر کو معطل کر کے طاہر ممتاز کو سپیشل سیکریٹری داخلہ تعینات کر دیا۔رونامہ دنیا کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ سابق سپیشل سیکریٹری داخلہ بدر منیر نے اپریل کے مہینے میں ڈسٹرکٹ جیل راولاکوٹ کی عمارت اور وہاں پر سیکورٹی کے انتظامات کا خود جائزہ لیکر جیل کو غیر محفوظ قرار دیا تھا۔ سابق سپیشل سیکریٹری داخلہ بدر منیر نے 17 اپریل کو حکومت کو خط لکھا کہ راولاکوٹ جیل غیر محفوظ ہے لہذا وہاں پر سزا ئے موت اور دیگر سزا یافتہ خطرناک قیدیوں کے مقدمات میر پور منتقل کئے جایں۔ حکومت کی طرف سے جواب نہ ملنے کے بعد بدرمنیر نے ایک اور مکتوب قیدیوں کی میرپور منتقلی کے حوالے سے ہائی کورٹ کو لکھا جس نے 15 جون کو فیصلہ دیتے ہوئے حکومت کو کہا کہ قیدیوں کو میرپور منتقل کیا جاے۔ سابق سیکریٹری داخلہ کے دونوں خطوط اور ہائی کورٹ کے فیصلہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر داخلہ کرنل ریٹائرڈ وقار نور کی عفلت اور ہائی کورٹ کے فیصلے پر بر وقت عملدر آمد نہ کرنے کی وجہ سے قیدی راولاکوٹ جیل سے فرار ہو گئے۔ حکومت نے اس واقعہ کے بعد سپیشل سیکریٹری داخلہ بدر منیر کو او ایس ڈی کر دیا مگر وزیر داخلہ کرنل ریٹائرڈ وقارُنور جس کی غفلت کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا وہ تاحال اپنے عہدے پر قائم ہیں۔

آزاد جموں وکشمیر کے مالی سال 2024-25 کے بجٹ اجلاس کو سمیٹتے ہوئے وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے ایک مدلل اور حقائق سے بھر پور تقریر کی جسے نہ صرف ان کے اپنے فارورڈ بلاک کے ارکان اسمبلی نے سراہا بلکہ اتحادی جماعت مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر لیڈرزنے بھی تاریخ ساز قرار دیا۔ وزیر اعظم کی بجٹ تقریر سے قبل پاکستان پیپلزپارٹی کے صدر چوہدری محمد یاسین نے حکومت اور وزیر اعظم کے انداز حکمرانی پر بھی سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ” یہ کمپنی اب زیادہ دیر نہیں چلے گی “۔ روایات کے مطابق امید تھی کہ قانون ساز اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے صدر کی تقریر کا جواب فارورڈ بلاک کا کوئی رکن دے گا لیکن ایوان میں اس وقت ہر شخص انگشت بدنداں ہو کے رہ گیا جب پاکستان پیپلزپارٹی کے سیکریٹری جنرل فیصل راٹھور نے نہ صرف اپنی جماعت کے صدر کی تقریر کے اہم نکات سے اختلاف کیا بلکہ یہاں تک کہا کہ موجودہ حکومت ماضی کی تمام حکومتوں سے بہتر ہے بلکہ کمپنی بھی چلے اور بہت اچھی چلے گی۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کے سینئر نائب صد میاں عبد الوحید ، جاوید ایوب اور قاسم مجید نے نہ صرف وزیر اعظم اور ان کی حکومتی کارکردگی کی تعریف کی بلکہ انہیں ہر ممکن تعاون اور ساتھ چلنے کی یقین دھانی بھی کرائی۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے صدر چوہدری یاسین کی حکومت کے خلاف تقریر کو فاروڈ بلاک کے بجائے پیپلزپارٹی کی اسمبلی میں موجود سینئر قیادت نے نہ صرف مسترد کیا بلکہ اپنی جماعت کے صدر کے بجائے وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کے حوالے سے تعریفوں کے پل باندھتے رہے جسے یہ ثابت ہوا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے اندر اختلافات موجود ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی جو کسی زمانے میں جماعتی نظم و ضبط اور سینئر قیادت کے احترام کے حوالے سے مانی جاتی تھی لیکن آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی میں اسی جماعت کے سینئر ارکان اسمبلی کی اپنی ہی جماعت کے صدر کی تقریر کی مخالفت ، وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کی تعریف اور مستقبل میں اس کے ساتھ چلنے کے عزم کا وعدہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ جماعت اور اسکے بیشتر رہنما اب نظریہ بھٹو ، جماعتی پالیسی اور نظم و ضبط کے بجائے زیادہ تر اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی جو اس وقت وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کی اتحاد ی حکومت میں سب سے بڑی اور اہم جماعت ہے لیکن اس جماعت کے بیشتر ارکان پارٹی کے اندر اور اب باہر بھی دھڑا بندی کے شکار نظر آ رہےہیں۔ اس وقت جماعت کے صدر چوہدری یاسین کے علاوہ جماعت کے سیکریٹری جنرل فیصل راٹھور ، سابق صدر و وزیر اعظم سردار یعقوب اور اسپیکر چوہدری لطیف اکبر اپنے اپنے آپ کو وزارت اعظمی کے امیدوار کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ان رہنماوں کو اس بات کا علم ہے کہ آزاد کشمیر میں وزیر اعظم کی تقرری کا فیصلہ ان کی جماعتوں کے قائدین اسلام آباد میں کرتے ہیں اور آزاد کشمیر میں سردار عبد القیوم نیازی ، سردار تنویر الیاس اور چوہدری انوار الحق اگر وزارت اعظمی کے منصب پر پہنچ سکتے ہیں تو ان کو بھی اس منصب سے کوئی دور نہیں رکھ سکتا ۔ یوں آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں اس وقت ہر رکن اسمبلی اپنے آپ کو وزارت عظمی کے لئے سب سے زیادہ اور موزوں امیدوار سمجھتا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی طرح اسی طرح کا حال مسلم لیگ نواز کا بھی ہے ۔ مسلم لیگ ن کے سینئر وزیر کرنل ریٹائرڈ وقار نور نے نہ صرف یہ کہا کہ موجودہ وزیر اعظم نہ صرف بقیہ مدت پوری کریں گے بلکہ انہوں نے وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کو اگلے پانچ سال کے لئے بھی وزیر اعظم بنانے کا ارادہ ظاہر کر دیا۔

وزیر اعظم کے چودہ ماہ کے دور اقتدار میں جہاں انہوں نے آزاد جموں وکشمیر میں کرپشن کے مبینہ سوراخ بند کر دئے وہاں بہت ہی کمال کے ساتھ وہ مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کے اندار اختلافات اور ایک دوسرے پر عدم اعتماد کی فضا کر برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گئے اور یقینا اس کا سب سے زیادہ فائدہ ان کو ہوگا۔مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کو جماعتی اختلافات میں الجھانے کے بعد وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے گزشتہ ہفتے اپنے سب سےبڑے حریف اور سابق وزیر اعظم سردار تنویر الیاس سے بھی ملاقات کی۔ دونوں رہنما اس بات پر پہنچ گئے کہ وہ مستقبل میں ایک نئی جماعت کی بنیاد ڈالنے کی کوشش کریں گے اور اسی نئی جماعت کو بنانے کے حوالے سے وزیر اعظم چوہدری انوار الحق ایک سال سے کوششوں میں مصروف ہیں۔ ادھر بدھ کو عدالت عظمی آزاد جموں و کشمیر کے چیف جسٹس راجہ سعید اکرم ، جسٹس خواجہ نسیم اور جسٹس رضا علی خان پر مشتمل فل بنچ نے سابق وزیر اعظم سردار تنویر الیاس خان کی ناہلی کیس کی سماعت شروع کی۔سردار تنویر الیاس کی طرف سے راجہ سجاد احمد خان ، سردار ریشم خان اور حکومت کی طرف سے ایڈوکیٹ جنرل اور وکیل طاہر عزیز عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ سابق وزیر اعظم کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ ان کے موکل کو ہائیکورٹ نے نااہل کیا تھا۔ دوسری جانب جب قانون ساز اسمبلی ان سیشن ہو تو کیا اسی سیشن میں نئے وزیراعظم کے انتخاب کو عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ یاد رہے موجودہ وزیراعظم چوہدری انوار الحق اس وقت سپیکر قانون ساز اسمبلی تھے اور اسمبلی ان سیشن تھی ۔ انہوں نے سیپکرکا عہدہ چھوڑا اور خود وزیراعظم کے امیدوار بن گئے اور اسی ان سیشن اسمبلی میں خود وزیراعظم منتخب ہو گئے۔ اس پر چیف جسٹس راجہ سعید اکرم نے کہا تنویر الیاس کو ہائیکورٹ نے 2 سال کے لیے نااہل کیا جس میں سے زیادہ وقت گزر چکا ہے ۔ چیف جسٹس راجہ سعید اکرم نے ایڈوکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ آئین کا آرٹیکل 17 کا مطالعہ کریں، وہ آرٹیکل کیا کہتا ہے کہ اگر اسمبلی ان سیشن ہو تو نئے وزیراعظم کا انتخاب کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اگر آئین اس عمل کو جائز قرار دیتا ہے تو ٹھیک ورنہ چوہدری انوار الحق کا بطور وزیراعظم انتخاب غیر قانونی ہے۔ سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت اگلی تاریخ تک ملتوی کر دی۔

بشکریہ روزنامہ دنیا
واپس کریں