سید مجاہد علی
وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی میں اعلان کیا ہے کہ ملک کے زرعی اور تعمیراتی شعبہ پر کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا جائے گا۔ اپنی تقریر میں انہوں نے واضح کیا کہ عالمی مالیاتی ادارے کی رپورٹ کے حوالے سے ملکی میڈیا میں ان دونوں شعبوں پر ٹیکس عائد کرنے کی خبر پھیلائی گئی ہے لیکن میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ حکومت کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کرے گی۔ بعد میں انہوں نے ایک ٹویٹ میں بھی اس عہد کا اعادہ کیا کہ زرعی اور رئیل اسٹیٹ شعبہ پر ٹیکس عائد نہیں ہو گا۔ تاہم وزیر خزانہ نے نہ تو یہ بتایا کہ آئی ایم ایف نے ملکی آمدنی میں اضافے، شاہ خرچیوں سے گریز اور ساختیاتی اصلاحات کے حوالے سے جو مشورے دیے ہیں، ان پر کیسے عمل کیا جائے گا؟ اسحاق ڈار یہ بتانے سے بھی قاصر رہے ہیں کہ جب ملک شدید مالی بحران کا شکار ہے، عام شہری مہنگائی کے علاوہ توانائی پر تسلسل سے عائد کیے جانے والے محاصل سے پریشان اور زیر بار ہیں اور قومی آمدنی میں اضافہ ناگزیر ہے تاکہ غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے علاوہ دیگر مالی ذمہ داریوں کو پورا کیا جا سکے تو کیا وجہ ہے کہ زرعی شعبہ اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو ٹیکس سے مسلسل چھوٹ دینے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ اسحاق ڈار کا بیان درحقیقت آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدے سے گریز کا پہلا اشارہ ہے تاکہ موجودہ حکومت میں شامل پارٹیاں اس بیان کو متوقع انتخابات کے دوران سیاسی مہم جوئی میں استعمال کرسکیں۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ میڈیا میں زرعی اور رئیل اسٹیٹ شعبہ پر ٹیکس کے حوالے سے شائع ہونے والی خبروں کے سبب دیہی علاقوں میں بے چینی پیدا ہوئی ہے کہ نہ جانے حکومت اب کون سے نئے ٹیکس عائد کرنے والی ہے۔ اس لئے ان کا کہنا تھا کہ وہ اس تاثر کو مسترد کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ پریشانی ختم ہو۔ وزیر خزانہ کے بیان کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وہ عوامی سطح پر ہونے والی پریشانی کا حوالہ دے کر وڈیروں، جاگیرداروں اور رئیل اسٹیٹ میں اربوں کی سرمایہ کاری کرنے والے سرمایہ داروں اور با اثر اداروں کو مطمئن کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ یہ اعلان عوام کے ساتھ محبت و ہمدردی کا اظہار نہیں ہے بلکہ کمزور پاکستانی حکومت کی ناقص حکمت عملی کا اشارہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسحاق ڈار نے میڈیا پر شائع ہونے والی خبروں کا بھی حوالہ دیا اور بار بار یہ اعلان بھی کیا کہ زرعی و تعمیراتی شعبہ پر کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا جائے گا لیکن انہوں نے ایک بار بھی نہ تو میڈیا میں شائع و نشر ہونے والی خبر کو مسترد کیا یا غلط قرار دیا اور نہ ہی یہ وضاحت کی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اس حوالے سے آخر کیا افہام و تفہیم ہوئی ہے۔
اس حد تک اسحاق ڈار کا بیان درست ہو سکتا ہے کہ موجودہ حکومت 12 اگست کو اپنی مدت پوری کرنے والی ہے۔ اس لئے آئندہ تین چار ہفتوں میں وہ ان دونوں شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا ارادہ نہ رکھتی ہو۔ بلکہ حقیقت تو یہ کہ یہ مشکل اور پیچیدہ کام چند ہفتوں کے دوران میں کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ آئی ایم ایف نے بھی معاشی اصلاح کے جو اشاریے ترتیب دیے ہیں، ان میں طویل المدت منصوبہ بندی کے حوالے سے ان دو شعبوں پر ٹیکس عائد کرنے کی بات کی گئی ہے۔ یا پاکستانی حکومت کے نمائندوں اور آئی ایم ایف کے وفد کے درمیان ہونے والی بات چیت میں اس بارے میں تفصیلی مشورہ دیا گیا ہو گا۔ ایسے مشورے یا مطالبے عام طور سے کسی رپورٹ کا حصہ نہیں بنائے جاتے بلکہ وہ باہمی ملاقاتوں کی کارروائی کی روداد میں دستاویز ہوتے ہیں۔ البتہ ان کی بھی اتنی ہی اہمیت ہوتی ہے جو قرض دینے والا کوئی ادارہ باقاعدہ رپورٹ میں بیان کرتا ہے۔
آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں سیاسی استحکام اور اصلاحات کے تسلسل کا بار بار ذکر کیا ہے۔ دیکھا جائے تو حکومت کا طرز عمل تو اس مشورے سے بھی متصادم ہے۔ ابھی تک معاشی مسائل کا حوالہ دیتے ہوئے مسلسل سابقہ حکومت پر الزام تراشی کی جاتی ہے۔ حتی کہ اسحاق ڈار نے آج کی گئی تقریر میں بھی تحریک انصاف کی حکومت کو معاف نہیں کیا اور دعویٰ کیا کہ عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ مسائل درحقیقت سابقہ حکومت کی طرف سے معاہدے کی خلاف ورزی کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔ حالانکہ انہیں یہ بتانا چاہیے تھا کہ جب مفتاح اسماعیل آئی ایم ایف، دیگر عالمی اداروں اور قرض فراہم کرنے والے ممالک کے ساتھ تعلقات مناسب طریقے سے طے کر رہے تھے تو شہباز حکومت کو انہیں اس عہدے سے ہٹا کر اسحاق ڈار کو لانے کی کیا ضرورت تھی؟ اقربا پروری کے سوا اگر اس کا کوئی جواز موجود ہو تو مسلم لیگ (ن) ، شہباز شریف، اسحاق ڈار بلکہ سب سے بڑھ کر نواز شریف کو ضرور عوام کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ اس وقت نواز شریف پارٹی میں اپنے نمائندوں کے ذریعے خود کو ملکی معیشت کا مسیحا بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ اگر نواز شریف ایک بار پھر وزیر اعظم بن گئے تو وہ ملکی معیشت کی کایا پلٹ دیں گے۔
البتہ یہ کایا پلٹنے کے لئے جس مشکل سیاسی راستے پر چلنے کی ضرورت اور جو اہم معاشی اصلاحات کرنا ناگزیر ہے، اسحاق ڈار کی قیادت میں موجودہ حکومت مسلسل ان سے گریز کا راستہ تلاش کرتی رہی ہے۔ بات ملکی معیشت کے وسیع البنیاد اصلاحی معاشی ایجنڈے کی ہو رہی ہے لیکن وزیر خزانہ کی سوئی صرف زرعی شعبہ اور رئیل اسٹیٹ کو مسلسل ٹیکس و محاصل سے محفوظ رکھنے پر ٹکی ہوئی ہے۔ کیوں کہ اس سے مسلم لیگ (ن) کو سیاسی فائدہ اٹھانے کی امید ہے۔ گویا حکومت اور وزیر خزانہ کے پیش نظر قومی معاشی اصلاح کا ایجنڈا نہیں ہے بلکہ فوری طور سے منعقد ہونے والے انتخابات ہیں تاکہ وہ ملکی سیاست میں طاقت ور عناصر کی ہمدردی و اعانت حاصل کرسکیں۔ بالفرض اگر مسلم لیگ (ن) انتخاب جیت گئی تو قومی اسمبلی کے آخری سیشن میں کی گئی اسحاق ڈار کی تقریر کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی اور اگر وہ انتخابات میں ہار جاتی ہے تو آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات چلانے کی ذمہ داری دوسری سیاسی قوتوں پر عائد ہوگی اور اسحاق ڈار جیسے لوگ یہ بڑک بازی کریں گے کہ ہم نے تو ان اہم شعبوں میں ٹیکس عائد نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن اب ان کا اختیار نہیں ہے۔
اگر وزیر خزانہ کی اس دلیل پر غور کیا جائے کہ دیہات کی سطح پر پائی جانے والی بے چینی کی وجہ سے انہیں زرعی شعبہ کے حوالے سے دو ٹوک اعلان کرنا پڑا ہے۔ پھر انہیں بتانا چاہیے کہ چلیں زرعی ٹیکس کے حوالے سے دیہی عوام کی پریشانی دور کردی گئی اور وزیر خزانہ نے پوزیشن واضح کردی۔ لیکن بار بار رئیل اسٹیٹ کو مسلسل ٹیکس سے چھوٹ دینے کا اعلان کر کے وہ ملکی معیشت کی کون سی خدمت کر رہے ہیں؟ اسحاق ڈار کو اگر عوام کی بے چینی و پریشانی کا اتنا ہی احساس ہے تو انہیں آئی ایم ایف کی رپورٹ کے اس حصے پر بات کرنی چاہیے تھی کہ حکومت فوری طور سے بجلی کی قیمتوں میں پانچ روپے فی یونٹ اور گیس کی قیمتوں میں 40 فیصد اضافہ کرے گی۔ کیا وزیر خزانہ بتا سکتے ہیں کہ انہیں اگر دیہی عوام کی پریشانی لاحق ہے تو بجلی و گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے ملک کے سو فیصد عوام پر جو بوجھ لادا گیا ہے، اس کی تکلیف کا اپائے کون کرے گا۔
کسی بھی ملک میں تمام شعبے قومی مصارف پورے کرنے کے لئے حصہ ادا کرتے ہیں۔ اس میں اسی اصول پر عمل کیا جاتا ہے کہ جو شعبہ جتنا بڑا ہے وہ اتنی ہی زیادہ ذمہ داری قبول کرے۔ جیسے آمدنی پر ٹیکس عائد کرتے ہوئے کم آمدنی والوں کو چھوٹ دی جاتی ہے اور امیر لوگوں پر زیادہ انکم ٹیکس عائد کیا جاتا ہے۔ زراعت ملک کا سب سے بڑا پیداواری شعبہ ہے لیکن جاگیرداروں کے سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے اس شعبہ پر ٹیکس عائد نہیں کیا جاتا حالانکہ قومی آمدنی میں اس شعبہ کو سب سے زیادہ حصہ دینا چاہیے۔ جب ملک میں زرعی ٹیکس عائد کرنے کی ہوتی ہے تو کوئی بھی کم آمدنی والے کاشتکار اور محدود پیمانے پر اپنا رقبہ کاشت کرنے والے کسانوں پر ٹیکس لگانے کی بات نہیں کرتا بلکہ وسیع و عریض رقبوں کے مالک خاندانوں اور جاگیرداروں کو قومی آمدنی میں حصہ ڈالنے پر مجبور کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ لیکن وزیر خزانہ نے ایک سادہ سے معاملہ کو دیہی عوام کی پریشانی سے منسلک کر کے افسوسناک سیاسی چال چلنے کی کوشش کی ہے۔
اسی طرح ملک کے رئیل اسٹیٹ شعبے میں سرمایہ کاری ایسے کسی بھی شعبہ سے زیادہ ہے جہاں سرمایہ کاری سے قومی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن پیداواری شعبوں کے برعکس اس شعبہ کو بھاری بھر کم سرمایہ داروں، مفاد یافتہ گروہوں اور عسکری اداروں کے مفادات کی وجہ سے ٹیکس سے چھوٹ دی جاتی رہی ہے۔ رئیل اسٹیٹ کی بات کرتے ہوئے بھی کوئی یہ نہیں کہتا کہ ساری زندگی کی پونجی صرف کر کے اپنا گھر بنانے والے کسی خاندان کو زیر بار کیا جائے لیکن یہ ضروری ہے کہ جائیداد کی خرید فروخت میں اربوں روپے کمانے والے افراد، اداروں اور سوسائٹیوں کو ٹیکس دینے پر مجبور کیا جائے۔ملکی معیشت کی بحالی کے لئے قومی وسائل میں اضافہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اس مقصد کے لئے ان تمام سرکاری اداروں کو بند کرنا چاہیے جو سالانہ اربوں روپے کا خسارہ کر رہے ہیں اور ان شعبوں کو ٹیکس دینے پر مجبور کیا جائے جنہوں نے دنیا بھر کے طریقہ کار سے برعکس مسلسل ٹیکس سے چھوٹ حاصل کی ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ حکومت کسی شعبہ کو ٹیکس میں مزید کوئی چھوٹ نہ دے۔ اس کا یہی مطلب ہے کہ کسی بھی شعبہ کو محض سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے ٹیکس سے ’معافی‘ نہ دی جائے۔
(بشکریہ کاروان ناروے)
واپس کریں