دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا قوم جنرل ضیا کے بھوت سے نجات پا سکے گی؟
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
47 سال پہلے 5 جولائی کو جنرل ضیا الحق کی شکل میں اس ملک پر طاری ہونے والی سیاہ رات ابھی تک مسلط ہے۔ نہ صرف ایک منتخب حکومت کے خلاف فوج کی بغاوت غلط تھی بلکہ اس دور حکومت میں بعض ایسی روایات کا آغاز ہوا اور بعض ایسے فیصلے کیے گئے کہ پاکستانی قوم ابھی تک ان کے چنگل سے باہر نہیں نکل سکی۔ اس مشکل کا ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس حوالے سے ابھی تک کوئی شعوری کوشش بھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ہر قوم آگے بڑھنے کے سفر میں غلطیاں کرتی ہے لیکن پاکستانی قوم کے ساتھ معاملہ اس سے الٹ ہو چکا ہے۔ ہم پسپائی کے سفر میں بھی غلطیوں سے گریز نہیں کرتے اور نہ ہی اس مقام سے درگزر کا ارادہ رکھتے ہیں جہاں سے بار بار ٹھوکر کھا چکے ہیں۔ یہ جاننا مشکل ہے کہ پاکستانی اسکولوں اور درس گاہوں میں ضیا دور کے ان سیاہ گیارہ برسوں کے بارے میں کیا پڑھایا جاتا ہے یا اساتذہ نے شعور کی کون سی نئی راہ کی طرف ملک کے معصوم ذہنوں کی تربیت کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا ہے۔ لیکن تہ در تہ مشکلات کا انبار واضح کرتا ہے کہ پاکستان نے ابھی تک ماضی قریب کی غلطیوں سے سبق سیکھنے اور نیا راستہ کھوجنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

اگست 1988 میں ضیا الحق کی حادثاتی موت کے بعد اگرچہ متعدد بار نام نہاد جمہوری ادوار دیکھنے کو ملے لیکن اس تمام عرصے میں اسی اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی عمل کو مسلسل اپنی باندی بنائے رکھا جس کی بنیاد، ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کے خلاف ضیا الحق کی بغاوت کے ذریعے رکھی گئی تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کوئی بھی سیاسی حکومت اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی ضیا دور کے تمام قوانین اور طریقوں کو ترک کرنے اور ان 11 برسوں کے دوران میں ہونے والے اقدامات، آئینی و قانونی تبدیلیوں، افغان جنگ جیسے دوررس نتائج کے حامل مہلک فیصلوں کا جائزہ لینے کے لیے کسی اعلیٰ سطحی تحقیقات کا آغاز کرتی۔ اس سے ان تمام غلطیوں کی تفہیم سے مستقبل کا راستہ ہموار کیا جاسکتا تھا۔ لیکن سیاست دانوں نے جزوی یا محدود اقتدار کو ’اسٹیبلشمنٹ‘ کا احسان سمجھا اور ملکی سیاست میں اس اصول کو ’صراط مستقیم‘ کے طور پر تسلیم کر لیا گیا کہ ملک میں فوج ہی واحد منظم ادارہ ہے جو طاقت ہی کا نہیں بلکہ ’علم و دانش‘ کا بھی سرچشمہ ہے۔ اسی سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے اور اسی کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھنا چاہیے۔

ضیا کی موت کے بعد فوری طور سے اس دور کی غلطیوں کی اصلاح نہ کرنے کا نتیجہ ہی تھا کہ مزید گیارہ سال بعد اکتوبر 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے ایک بار پھر سیاست دانوں کو بدعنوان قرار دیتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ حالانکہ اس وقت ملک پر نواز شریف کی حکومت تھی جو ایک طرح سے پاکستانی سیاست کو فوج ہی کی دین تھے۔ البتہ عوام سے ووٹ لے کر حکومت بنانے والا کوئی شخص یا جماعت کسی نہ کسی سطح پر عوامی احساسات کا خیال رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ لیکن کسی فوجی آمر کو ایسی کوئی مجبوری لاحق نہیں ہوتی۔ پرویز مشرف نے ملک کے دونوں اہم سیاسی لیڈروں کو بدنام کرنے کی پوری کوشش کی اور انہیں جلاوطن کر کے ملکی سیاست سے بے دخل کرنے کا اہتمام بھی کیا گیا۔ البتہ یہ کوششیں پوری طرح بارآور نہیں ہوئیں۔ اگر فوجی آمر اپنے عزائم میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوا تو ملکی سیاست دان بھی کوئی واضح حکمت عملی بنا کر ملک کے سفر کو آسان بنانے میں سرخرو نہیں ہوئے۔

2006 میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے لندن میں میثاق جمہوریت پر اتفاق کر کے اگرچہ ماضی کی غلطیوں کی اصلاح کرنے کی اپنی سی کوشش کی۔ معاہدے میں طے کیا گیا تھا کہ میثاق جمہوریت میں فوج کا دائرہ کار محدود کیا جائے۔ آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس اور تمام دیگر خفیہ ایجنسیوں کو منتخب حکومت کے ماتحت لانے اور تمام خفیہ اداروں کے سیاسی شعبے ختم کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ اس کے علاوہ ملٹری لینڈ اور کنٹونمنٹ کو وزارتِ دفاع کے تحت کرنے اور ایک ایسا کمیشن بنانے کی سفارش کی گئی جو 12 اکتوبر 1999 کے بعد فوج کو الاٹ کی گئی زمین کے کیسوں کا جائزہ لے۔ اس معاہدہ میں تو ملکی جوہری اثاثوں کو بھی سول کنٹرول میں لانے کی بات کی گئی تھی اور سفارش کی گئی کہ ’ڈیفنس کیبنٹ کمیٹی کے تحت موثر کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم تشکیل دیا جائے تاکہ مستقبل میں جوہری رازوں کی چوری کے امکان کو ختم کیا جا سکے‘ ۔

دیکھا جاسکتا ہے کہ اس معاہدے کی بیشتر شقات پر عمل نہیں ہوسکا۔ اگرچہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبوں سے انصاف کرنے اور پارلیمنٹ کو خود مختار بنانے کی کوشش ضرور کی گئی لیکن وقت نے ثابت کیا ہے کہ پارلیمنٹ کی خود مختاری کو اصل خطرہ صدر کی بجائے آرمی چیف سے ہوتا ہے جسے اگرچہ وزیر اعظم مقرر کرتا ہے لیکن اس کے بعد وہ اسی کے اشارہ ابرو پر عمل کرنے کا پابند ہوجاتا ہے۔ میثاق جمہوریت کے بعد سیاست دانوں کی کمزوری کی ابتدا تو اسی وقت ہو گئی تھی جب بے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف سے این آر او لینے اور معاہدہ کرنے کے بعد وطن واپس آنے کا مشکل فیصلہ کیا۔ ان کے دماغ میں ضرور اصلاح احوال کا کوئی ٹھوس منصوبہ ہو گا لیکن تقدیر اور بعض درپردہ عناصر نے انہیں ان منصوبوں پر عملی جامہ پہنانے کی مہلت نہیں دی اور انہیں دسمبر 2007 کو لیاقت باغ راولپنڈی میں شہید کر دیا گیا۔ آصف زرداری نے ’پاکستان کھپے‘ کا نعرہ لگا کر اگرچہ ملک کو ایک بڑے سیاسی انتشار سے محفوظ رکھا لیکن بعد میں کسی بھی سیاسی لیڈر نے آمریت کے مضمرات سے نجات پانے کی کوشش نہیں کی۔

کہا جاتا ہے کہ پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے۔ لیکن یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ یہ بحران ایک دور حکومت یا چند سال میں پیدا نہیں ہوا بلکہ اس کا آغاز 5 جولائی 1977 کی اس تقریر سے ہوا تھا جس میں منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ایک فوجی آمر خلوص نیت سے 90 دن کے اندر انتخابات منعقد کروانے کا وعدہ کر رہا تھا لیکن بعد کے وقت نے ثابت کیا کہ اس وقت بھی اس کے دماغ میں ملک پر طویل حکمرانی کا منصوبہ چل رہا تھا۔ پاک فوج نے کبھی اپنے ایسے بدنیت اور آئین دشمن لیڈروں کا احتساب کرنے اور ان کے اقدامات سے لاتعلقی کا اظہار نہیں کی۔ بلکہ اگر ملک پر براہ راست حکومت قائم نہیں کی گئی تو بالواسطہ طور سے سیاسی حکومتوں کو اپنے اشاروں پر ناچنے پر مجبور کیا گیا۔ اسی کھینچا تانی نے ملک کو زوال کی ایسی منزل پر لا کھڑا کیا ہے جہاں دوست دشمن کی پہچان کرنا مشکل ہے اور منزل کا راستہ صرف آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدوں تک محدود ہو چکا ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف معیشت بحال کرنے، سرمایہ کاری لانے اور سیاسی مخالفین سے بات چیت کرنے کے اعلان کرتے رہتے ہیں۔ اب شنگھائی سربراہی کانفرنس میں وہ دنیا سے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی مدد کرنے اور طالبان حکومت سے مثبت حکمت عملی اختیار کرنے کی اپیل کر رہے ہیں لیکن پاکستان کی ایسی گزارشات صدا بہ صحرا ثابت ہو رہی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو جن اصلاحات کا آغاز اپنے گھر سے کرنا چاہیے، وہ اسے دوسرے ملکوں کی مدد سے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے نے قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں دنیا کی توجہ دہشت گردی کی علتوں کی طرف مبذول کروانے کی کوشش کی ہے لیکن ملک میں ان عوامل سے نمٹنے کا کوئی قومی منصوبہ پیش نظر نہیں ہے جس سے مذہبی بنیادوں پر شدت پسندی کی روک تھام اور اسی کے نتیجے میں ایسی خوں ریزی ختم کرنے کا اہتمام ہو سکے جسے دہشت گردی کہا جاتا ہے۔

ضیا الحق کے دور کا بدترین کام ملکی سیاسی امور میں عسکری قیادت کا عمل دخل شروع کرنا تھا۔ ایجنسیوں کے ذریعے سیاسی گروہ بنانے یا سیاسی پارٹیوں کو زیر دام رکھنے کے لیے شدت پسند گروہوں کی حوصلہ افزائی کا طریقہ شروع کیا گیا۔ یہ سلسلہ اب تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ فوجی ادارے سیاسی پارٹیاں توڑنے اور بنوانے کے الزامات کا برا بھی نہیں مانتے لیکن شدت پسند گروہوں کے سلسلہ میں کنی کترانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ ملکی عدلیہ نے فیض آباد دھرنے کے تناظر میں اس کمزوری کو دور کرنے کی کوشش کی تھی لیکن عدالت عظمی کی خواہش و کوشش کے باوجود اس معاملہ کے ایک بھی اہم کردار کو براہ راست پوچھ گچھ کے لیے طلب نہیں کیا جا سکا۔اب عدالتوں میں ایجنسیوں کی مداخلت کی باتیں مختلف عدالتی فورمز سے ضرور سننے کو ملتی ہیں لیکن عدلیہ بطور ادارہ یا ملکی پارلیمنٹ اس معاملے پر کوئی لائحہ عمل بنانے میں کامیاب نہیں ہے۔ حتی کہ سیاسی تقسیم کے موجودہ ماحول میں اس اہم موضوع پر کوئی سنجیدہ مکالمہ بھی دیکھنے میں نہیں آتا۔ یوں لگتا ہے کہ ملک میں اہل دانش یا تو خوف سے منہ چھپانے اور بند رکھنے پر مجبور ہیں یا سیاسی تقسیم میں کسی ایک گروہ کا حصہ بن کر اپنی قدر و قیمت کھوتے جا رہے ہیں۔ ملک میں بنیادی مسائل پر توجہ دینے کی بجائے جزئیات پر دلائل و تقاریر کا طوفان واضح کرتا ہے کہ کیسے سیاسی، صحافتی اور دانشور طبقات خود ہی راستہ کھوٹا کرنے اور مسائل میں اضافہ کا سبب بن رہے ہیں۔

فوج کو ملکی سیاست میں اہم اسٹیک ہولڈر بنانا جنرل ضیا الحق کا تحفہ ہے۔ اس طریقے کو عملیت پسندی کا نام دے کر قابل قبول بنانے سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ ملکی سیاست کو ان بیماریوں سے نجات دلا کر ہی فلاح کا راستہ تلاش کیا جا سکتا ہے جو ایک طویل آمرانہ دور میں قومی مزاج، سیاست و سماجی رویوں کا حصہ بنائی گئی تھیں۔ ملک کو ضیا کے بھوت سے نجات دلانا ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ البتہ یہ کام کرنے کے لیے پہلے یہ تسلیم پڑے گا کہ ضیا الحق ملک میں اسلامی سربلندی کے کسی منشور پر عمل درآمد نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ مذہب کی آڑ میں انہوں نے سیاست و سماج پر اپنے پنجے گاڑنے کا اہتمام کیا تھا۔اس وقت جو بھی سیاست میں فوج کے تعاون کو مجبوری کہتا ہے، اور مذہبی انتہاپسندی کو سیاسی ضرورت کے لیے استعمال کرتا ہے، وہ درحقیقت ضیا الحق کے ورثے کو آگے بڑھانے کا کام ہی کر رہا ہوتا ہے۔ حالانکہ پاکستان کی مشکلات کا آغاز اس دور کے غلط فیصلوں سے ہوا جنہیں تبدیل کر کے ہی جمہوری نظام اور سماجی فلاح کا مقصد حاصل ہو گا۔

بشکریہ کاروان ناروے
واپس کریں