سید مجاہد علی
اس ماہ کے شروع میں نارویجین ہیومین رائٹس کمیشن کے زیر اہتمام پاکستان میں ’قومی سلامتی اور انسانی حقوق‘ کے عنوان سے ایک سیمینار منعقد ہوا۔ سیمینار کے دوران میں یہ بات واضح ہوئی کہ ریاست کی سلامتی عوام کی بہبود کے ساتھ منسلک ہوتی ہے۔ اگر کسی ملک میں قومی سلامتی کے نام پر تشدد ہو گا، لوگوں کو غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنایا جائے گا اور نظام قانون پر اعتماد کم ہو جائے گا تو اسے کسی ملک کے تحفظ کا نام نہیں دیا جاسکتا کیوں کہ عوام ہی سے قوم کی سلامتی اور حفاظت وابستہ ہے۔
اس سیمینار میں ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر عرشی ہاشمی اور برطانیہ کی وارک یونیورسٹی میں قانون کی پروفیسر شاہین سردار نے خیالات کا اظہار کیا۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال، ریاست کی طرف سے ماورائے قانون طریقوں کے علاوہ ملک میں عوامی سطح پر پھیلنے والے تشدد کے رجحان اور مذہب کے نام پر قانون شکنی کے یکے بعد دیگرے متعدد واقعات کا حوالہ بھی سامنے آیا اور یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ اگر کسی خطے میں علاقائی قومیتیں جائز طور سے اپنے حقوق کے لیے جد و جہد کرتی ہیں تو کیا ریاستی جبر سے اس مطالبے کو کچل کر کوئی انسان دوست معاشرہ یا قوم تشکیل دی جا سکتی ہے۔ ایسی صورت حال پیدا ہونے پر کسی قوم یا ملک کو کون سے طریقے یا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
ظاہر ہے کہ کسی ایک سیمینار یا مباحثہ میں کسی مسئلہ کا کوئی حل تجویز نہیں ہوتا بلکہ ماہرین اور شرکا اپنے اپنے علم، نقطہ نظر اور مشاہدے کے تناظر میں مختلف پہلوؤں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس کے بعد ان مباحث پر قومی یا علاقائی سطح پر غور و خوض کے بعد کوئی متوازن اور قابل عمل حل تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاہم زندہ اور باشعور قومیں ایسے مسائل کو فکری و عوامی نقطہ نظر سے پرکھتی ہیں اور مسئلہ کی شدت، سنگینی یا گہرائی کا اندازہ کرتے ہوئے اس کے حل کے لیے عبوری یا مستقل آپشنز پر غور کیا جاتا ہے۔ اگر کسی ملک میں آباد مختلف قومیتوں کے درمیان مفادات کا ٹکراؤ اس قدر سنگین ہو جائے کہ ان کا مل کر ایک قوم کے طور پر کسی ملک کی حدود میں رہنا مشکل ہو جائے تو خود مختار اکائیاں قائم کرنے کا کوئی پر امن راستہ تلاش کیا جاتا ہے۔ اس کی متعدد مثالیں تلاش کی جا سکتی ہیں لیکن ایسے اختلافات کی صورت میں مسئلہ حل کرنے کی پر امن اور تشدد آمیز دو مثالیں برصغیر کی تاریخ میں ہی مشاہدہ کی جا سکتی ہیں۔
متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی مسلم لیگ نے جب محسوس کیا کہ مسلمانوں کا ایک ہی ملک میں ہندو اکثریت کے ساتھ رہنا ممکن نہیں ہو گا۔ اس کے لیے یا تو انہیں حقوق کے تحفظ کے لیے قابل قبول آئینی ضمانتیں فراہم کی جائیں یا مسلمانوں کے لیے علیحدہ مملکت کا مطالبہ منظور کیا جائے۔ طویل تاریخی حوالے دیے بغیر دیکھا جاسکتا ہے کہ اس خواہش کے نتیجہ میں بالآخر برطانیہ کی نوآبادیاتی حکومت مسلم لیگ کا مطالبہ ماننے پر مجبور ہو گئی اور ہندوؤں کی نمائندگی کرنے والی کانگرس کو بھی اسے قبول کرنا پڑا۔ اسے ایک بڑے ملک کی پر امن تقسیم کی مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔اگرچہ اس کے نتیجہ میں گروہی و علاقائی فسادات کا سلسلہ شروع ہوا اور نقل آبادی کے عمل کے دوران میں دونوں طرف مخالف عقیدہ کے حامل لوگوں کو قتل کیا گیا اور انہیں ہمہ قسم مظالم کا نشانہ بنایا گیا۔ تاہم یہ سیاسی فیصلہ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا افسوسناک سماجی رد عمل تھا جسے کچھ سیاسی عناصر نے بھی ہوا دی ہوگی۔ اس کے باوجود ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کا قیام بنیادی طور سے ایک مہذب سیاسی معاہدے کے بعد عمل میں آیا۔ اس تقسیم کو کسی ملک یا خطے میں آباد شہریوں کے درمیان اختلاف کی صورت میں علیحدہ جغرافیائی اکائیوں اور سیاسی و قانونی نظام میں رہنے کے پرامن اتفاق رائے کا نام دیا جاسکتا ہے۔
اس کے برعکس برصغیر میں ہی تقسیم کا ایک وقوعہ 1947 کی تقسیم کے 24 سال بعد رونما ہوا جسے پرتشدد تقسیم کا نام دیا جاسکتا ہے۔ 1970 کے انتخابات کے بعد پاکستان کے مشرقی حصہ میں جسے آبادی کی بنیاد پر قومی اسمبلی میں زیادہ نشستیں حاصل تھیں، عوامی لیگ کو انتخابی فتح حاصل ہوئی۔ اس تحریک کی قیادت شیخ مجیب الرحمان کر رہے تھے جو غداری کے الزام میں پہلے ہی گرفتار تھے۔ البتہ انتخابات میں عوامی لیگ کو متفقہ طور سے منتخب کروا کے مشرقی حصے کے عوام نے شیخ مجیب کے 6 نکاتی سیاسی ایجنڈے کی تائید کی۔اس وقت ملک کے حکمران اور مغربی حصے کے سیاسی لیڈر اس عوامی فیصلے کے سامنے جھکنے پر آمادہ نہیں ہوئے اور قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر انتقال اقتدار کا اہتمام کرنے کی بجائے مشرقی حصے میں عوامی خواہشات کو طاقت کے زور پر دبانے کی کوشش کی گئی۔ اس کے نتیجے میں شروع ہونے والی خانہ جنگی میں بالآخر بھارت کو ملوث ہونے کا موقع مل گیا۔ یوں مشرقی حصے میں لڑنے والی پاکستانی افواج کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں بھارتی کمانڈر کے سامنے ہتھیار پھینکنے اور گرفتاری دینے کے معاہدے پر دستخط کرنا پڑے۔ بنگلہ دیش ایک حقیقت بن گیا۔ اڑھائی سال بعد پاکستان نے بھی بنگلہ دیش کو خود مختار ملک کے طور پر تقسیم کر لیا۔ دونوں ممالک کے درمیان اس وقت برابری کی بنیاد پر سفارتی تعلقات استوار ہیں اور ماضی کی تلخیوں کو فراموش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ان دو مثالوں سے دیکھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی خطے کے عوام بے چینی محسوس کریں اور کسی سیاسی و آئینی انتظام میں انہیں اپنے حقوق کے حوالے سے شدید تحفظات پیدا ہوجائیں تو سب سے بہتر اور مناسب طریقہ یہی ہو سکتا ہے کہ انہیں سیاسی طور سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ قومی سلامتی یا یک جہتی کے کسی نام نہاد یا انسان کے ایجاد کردہ تصور کی بنیاد پر ایسی شکایات کو ہر صورت ملک دشمنی نہیں سمجھ لینا چاہیے۔ اس قسم کی صورت حال کسی ملک یا نظام کی ناکامی نہیں ہوتی بلکہ یہ اس وقت ناکام تصور ہونا چاہیے اگر 1971 میں پاکستانی حکومت کی طرح کوئی ریاستی طاقت عوامی خواہشات و مطالبوں کو نظر انداز کر کے اپنی مرضی مسلط کرنے پر بضد ہو۔ اس بات کو درجنوں مختلف انداز میں بیان کیا جاسکتا ہے لیکن ان سب مباحث یا بیانیوں کے بعد بالآخر اسی نتیجے پر پہنچنا پڑے گا کہ پاکستان میں رہنے والی چھوٹی قومیتیں اگر موجودہ آئینی، سیاسی یا انتظامی طریقہ کار سے مطمئن نہیں ہیں تو کیا اس خواہش کو طاقت کے زور پر دبایا جاسکتا ہے؟
اگر ماضی کے تجربات واقعی سبق سیکھنے کے کام آتے ہیں تو 1971 کے ناگوار تجربہ کے بعد پرامن انتقال اقتدار یا اختیارات کی تقسیم کے اصول پر پاکستانی عوام کا یقین مزید پختہ ہونا چاہیے۔ ملک کی ہمہ قسم قیادت یعنی سیاسی و عسکری لیڈروں کو یقین رکھنا چاہیے کہ سیاسی بات چیت ہی مسائل کا حل تلاش کرنے کا سب سے موثر، قابل قبول اور پرامن طریقہ ہے۔ قومی خود مختاری کی خواہش کو بدامنی پیدا کرنے والے گروہ یا تشدد کے حامی دہشت گرد قرار دینے سے مسئلہ مزید پیچیدہ اور حساس ہوجاتا ہے۔ بدقسمتی سے تاریخ کے اس موڑ پر پاکستان کو ایک بار پھر اس سنگین اور مشکل سوال کا سامنا ہے کہ کیا مختلف خطوں میں ابھرنے والی خود مختاری کی تحریکوں کو پرتشدد اور دہشت گرد گروہ مان کر ان کا طاقت کے ساتھ مقابلہ کیا جائے اور ان کی بیخ کنی کردی جائے۔ یا یہ جائزہ لیا جائے کی نام نہاد آزادی کے نام پر ہتھیار اٹھانے والے گروہ کیا واقعی کسی وسیع عوامی خواہش کو پیش کر رہے ہیں۔ اگر حالات کے مطالعہ اور سامنے آنے والے جائزوں سے یہ واضح ہو جائے کہ بلوچستان ہو یا خیبر پختون خوا، وہاں ابھرنے والے پر تشدد گروہ کسی نہ کسی صورت کسی ایسی عوامی خواہش کی بنیاد پر قوت حاصل کرتے ہیں جو ملک کے موجودہ سیاسی و آئینی انتظام سے مطمئن نہیں ہیں تو ان گروہوں کے ساتھ لڑائی میں قوت ضائع کرنے کی بجائے، عوام سے براہ راست رابطہ، مواصلت اور بات چیت کا راستہ تلاش کیا جائے۔
یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ کسی ملک کے قائدین اگر بروقت مناسب اور ٹھوس سیاسی فیصلے کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو علیحدگی سے پہلے ہی معاملات طے کیے جا سکتے ہیں۔ ہندوستان میں تقسیم کے مطالبے کے دوران کانگرس اور مسلم لیگ کے درمیان کسی مفاہمت کے ایسے متعدد مواقع سامنے آئے تھے جن میں ایک کیبنٹ مشن میں پیش کی گئی تجاویز بھی شامل تھیں۔ اسی طرح بنگلہ دیش کے قیام سے پہلے پاکستانی حکام کے پاس عوامی لیگ کے ساتھ بات کرنے یا قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر اسے سیاسی حل کی ذمہ داری سونپنے کا طریقہ اختیار کیا جاتا تو شاید پاکستان کے مشرقی و مغربی حصے مستقل طور سے علیحدہ نہ ہوتے بلکہ کسی نہ کسی ایسے آئینی انتظام پر متفق ہو جاتے جس میں علاقائی ضرورتیں بھی پوری ہوتی رہتیں اور متحدہ پاکستان کا تصور بھی موجود رہتا۔ لیکن دیکھا جاسکتا ہے کہ پر امن حل سے انکار کرنے کی صورت میں علیحدگی تو نوشتہ دیوار تھی لیکن ہزاروں بے گناہ لوگوں کی جانیں اور معاشی و فوجی تباہی کے بعد اس حل کو اس وقت قبول کیا گیا جب اسے طاقت کے زور پر ایک ہمسایہ فوج نے ہم پر مسلط کیا۔
پاکستان بلاشبہ اس وقت ایک ایسے ہی دوراہے پر کھڑا ہے۔ سیاسی تحریکوں کے مقابلے میں ریاستی طاقت کا استعمال قومی سلامتی سے منسلک کیا جا رہا ہے۔ لیکن ناروے میں منعقد ہونے والے سیمینار میں پیش کیے گئے خیالات کی روشنی میں پرکھا جائے تو کوئی قومی مفاد عوامی خواہشات و مفادات سے بالا تر نہیں ہو سکتا۔ پاکستانی لیڈروں کو بروقت اس حوالے سے مناسب اور انسان دوست فیصلہ کرنا چاہیے۔ ورنہ اگر کوئی بھی ملک اختلاف، تضاد اور تشدد کی اس سطح تک پہنچ جائے جس جانب اس وقت پاکستانی ریاست گامزن ہے تو اس کے لیے پرامن بقا کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔تشدد خواہ گروہی ہو یا ریاستی، کسی بھی خطے کے عوام کو ان لوگوں کے ساتھ مل کر رہنے پر مجبور نہیں کر سکتا جن کے خلاف نفرت میں اضافہ روز افزوں ہو۔
(بشکریہ کاروان ناروے)
واپس کریں