دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
افراط زر میں کمی کتنی بڑی خوش خبری ہے؟
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
ادارہ شماریات نے اگست کے دوران میں پاکستان میں افراط زر کی شرح دس فیصد کے لگ بھگ رہنے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے اس بہتری پر خوشی و اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے حکومتی معاشی پالیسیوں کی کامیابی قرار دیا ہے۔ تاہم عوام اسی وقت کسی حکومت کو کامیاب مانیں گے جب معاشی اشاریوں کی بحث محض اعداد و شمار کا گورکھ دھندا نہ ہو بلکہ عام گھر کے بجٹ پر اس کے اثرات دکھائی دینے لگیں۔ماہرین کی رائے میں افراط زر پر کنٹرول ایک صحت مند معیشت کی علامت ہے۔ کیوں کہ افراط زر یا قیمتوں میں مسلسل اضافے سے عام شہریوں کی قوت خرید محدود ہوجاتی ہے اور منڈیوں میں سرگرمیاں کم ہونے لگتی ہیں۔ اس طرح اس کا اثر کسی ملک کی پیداواری صلاحیت پر نمودار ہوتا ہے۔ یعنی اشیا بنانے والے کارخانے بند ہونے لگتے ہیں اور بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ گویا اس ایک علت سے کئی مشکلات بندھی ہوئی ہیں۔ اسی لیے دنیا کی بیشتر حکومتیں افراط زر کو کم تر سطح پر رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ عام طور سے دو سے تین فیصد سالانہ افراط زر کی شرح کو کسی معیشت کے لیے قابل قبول سمجھا جاتا ہے۔ اس سے صارفین کی خریداری کی صلاحیت بھی متاثر نہیں ہوتی اور مانگ، پیداوار اور شرح مبادلہ میں توازن پیدا کرنا آسان ہوتا ہے جس سے معاشی ترقی منسلک ہے۔

البتہ پاکستان میں چند ماہ پہلے تک افراط زر کی شرح تیس فیصد سے بھی بلند ہو گئی تھی جو انتہائی خطرناک اور وسائل سے عاری ملک کے عوام کے لیے شدید مشکلات کا سبب تھی۔ اسی لیے شہباز شریف حکومت کی پہلی ترجیح افراط زر کو کم کرنا تھا تاکہ دیگر معاشی اشاریے بھی بہتر ہو سکیں اور عوام کے مالی حالات کے علاوہ پیداواری صلاحیت میں اضافہ کا امکان پیدا ہو۔ وزیر اعظم کی اس بات سے تو اتفاق کرنا چاہیے کہ افراط زر میں قابل ذکر کمی ایک مثبت اشارہ اور کسی حد تک حکومتی حکمت عملی کی کامیابی ہے۔ لیکن اکثر معاشی ماہرین یہ بھی بتاتے ہیں کہ کوئی بھی معیشت اسی وقت افراط زر میں کمی کا فائدہ اٹھا سکتی ہے اگر وہاں مہنگائی میں کمی کے علاوہ پیداواری صلاحیت میں بھی اضافہ ہو۔ اس پیمانے پر دیکھا جائے تو پاکستان یہ مقصد حاصل کرنے میں کامیاب دکھائی نہیں دیتا۔ ملکی پیدا واری صلاحیت میں مسلسل انحطاط کی ایک وجہ ملک میں پائی جانے والی سکیورٹی کی صورت حال، سیاسی بحران اور مختلف سیاسی پارٹیوں میں حقیقی مسائل پر مکالمہ کی بجائے ایسے امور پر طعن زنی کا ماحول دیکھا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد کیوں بڑھائی جا رہی ہے یا حکومت عمران خان سے ’جان چھڑانے‘ کے لیے انہیں فوجی عدالت کے حوالے کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

قومی پیداوار میں کمی کی سب سے بڑی وجہ شہباز حکومت کی سیاسی کمزوری ہے۔ عام طور سے اس حکومت پر اعتبار نہیں کیا جاتا اور یہ قیاس آرائی عام ہے کہ فیصلے وفاقی کابینہ کی بجائے کہیں اور ہوتے ہیں۔ ملک کو اس وقت آئی ایم ایف سے قرض کا معاہدہ کرنے کی شدید ضرورت ہے لیکن اس معاہدہ کی حتمی منظوری مسلسل مؤخر ہو رہی ہے کیوں کہ عالمی مالیاتی فنڈ کے تقاضے کے مطابق پاکستان ابھی تک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم کرنے کے لیے حاصل کر دہ 9 ارب ڈالر پر روال اوور حاصل نہیں کر سکا۔ آئی ایم ایف کا خیال ہے کہ اگر یہ ممالک مزید ایک یا دو سال اپنے ڈالر پاکستانی اسٹیٹ بنک میں رکھنے پر آمادہ ہوجائیں تو پاکستان کی معاشی استعداد پر بھروسا میں اضافہ ہو گا۔ معاشی تحریک پیدا ہونے سے ہی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کا امکان ہوتا ہے تاکہ کوئی ملک اپنے بیرونی قرض کی ادائیگی کا اہتمام کرسکے۔

آئی ایم ایف کم شرح سود پر قرض فراہم کرتا ہے اور اس کی طرف سے قرض ملنے پر عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ کسی معیشت پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ ایسی صورت میں دیگر ممالک بھی اس ملک میں سرمایہ کاری کرنے یا اس کے ساتھ کاروبار فروغ دینے پر غور کرتے ہیں۔ کیوں کہ آئی ایم ایف معاشی اصلاح کے لیے سخت شرائط عائد کرتا ہے۔ ان شرائط کو معاشی بہتری کا نام دیا جاتا ہے اور انہیں نافذ کرنے سے معاشی ڈسپلن بھی پیدا کیا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف ان شرائط کے ذریعے یہ یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ جو وسائل فراہم کرے گا متعلقہ ملک اسے مقررہ مدت میں طے شدہ معاہدے کے تحت واپس کردے گا۔البتہ غریب ملکوں کی بیشتر حکومتیں یہ مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہیں کیوں کہ وہ سیاسی ضروریات اور آئی ایم ایف کی شرائط میں توازن قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوتیں۔ پاکستان کی حکومت بھی آئی ایم ایف پروگرام اسی لیے حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ عالمی مالیاتی منڈیوں میں اس کا اعتماد بحال ہو اور دوست عرب ممالک نے سرمایہ کاری کا جو ارادہ ظاہر کیا ہے، اس پر عمل درآمد ہو سکے۔ البتہ اس کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہی رہی ہے کہ حکومت کے بیشتر اقدامات عبوری ہوتے ہیں جو آئی ایم ایف کا پروگرام ختم ہوتے ہی اپنی افادیت کھونے لگتے ہیں۔ پاکستانی حکومت مستقل بنیاد پر اپنی آمدنی میں اضافہ کا کوئی منصوبہ نہ تو تشکیل دے سکی ہے اور نہ ہی اس پر عمل درآمد کرانے پر زور دیتی ہے۔ ان میں تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے علاوہ زرعی ٹیکس کا معاملہ بھی شامل ہے۔ لیکن سیاسی وجوہات اور کمزور حکومت کی موجودگی میں یہ مقصد حاصل نہیں ہو پاتا۔

پاکستان گزشتہ 75 سال میں آئی ایم ایف کے 23 پروگرام حاصل کرچکا ہے لیکن وہ اب ایک بار پھر آئی ایم ایف ہی طرف امید کی نگاہیں جمائے ہوئے ہے تاکہ کسی طرح موجودہ بحران سے نکل سکے۔ لیکن حکومت میں ملکی معاشی معاملات کو مکمل اتھارٹی کے ساتھ درست کرنے کا حوصلہ و صلاحیت نہیں ہے۔ شاید آئی ایم ایف کے کارپردازوں کو بھی اس صورت حال کا علم ہے۔ اسی لئے وہ ایسے عبوری اقدامات کو ضروری سمجھتے ہیں جن کے ہوتے ان کی فراہم کردہ رقم واپس مل جائے۔ انہی شرائط کی وجہ سے تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کے علاوہ سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات کے وسائل رول اوور کروانے کی شرط پر زور دیا جاتا ہے۔ تاکہ فوری طور سے حکومتی آمدنی میں اضافہ ہو اور عبوری معاشی استحکام کا مقصد حاصل ہو سکے۔ آئی ایم ایف کا پروگرام کامیابی سے ختم ہونے کے بعد کسی ملک کی معیشت کے ساتھ کیا ہوتا ہے، یہ آئی ایم ایف کا درد سر نہیں ہوتا۔ شاید پاکستان میں وقتاً فوقتاً اقتدار سنبھالنے والی حکومتوں کا مقصد بھی ملک کی طویل المدت بہتری سے زیادہ اپنے اقتدار کی مدت کو خوش اسلوبی سے پورا کرنا اور پھر اس عرصے کے دوران میں کی گئی ’کارگزاریوں‘ کو سیاسی طور سے فروخت کرنا ہی رہا ہے۔ اسی لیے پاکستان کی معیشت کو کوئی پائیدار بنیاد فراہم نہیں ہو سکی۔

اس وقت وزیر اعظم اور وزیر خزانہ آئی ایم ایف کا پروگرام حاصل کرنے کی امید کر رہے ہیں اور اسے ملکی معیشت کے لیے ایک نیک شگون کہہ کر اسے اپنی معاشی پالیسیوں کی کامیابی قرار دے رہے ہیں حالانکہ صرف افراط زر میں کمی کسی کامیابی کا پیش خیمہ نہیں کہی جا سکتی۔ وزیر اعظم کا دعویٰ ہے کہ اس کے ثمرات لوگوں تک پہنچیں گے لیکن معاشی اقدامات کے ساتھ سیاسی طور سے مسلسل ناکامی شہباز حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ شہباز شریف کے پاس درپیش سیاسی بحران کا کوئی حل نہیں ہے۔ سکیورٹی سے متعلق تمام معاملات کو فوج کے سپرد کر کے حکومت سمجھتی ہے کہ اب امن و امان بحال ہو جائے گا حالانکہ ملک میں اطمینان کی فضا پیدا کرنے کے لیے لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا ضروری ہے جو بدقسمتی سے موجودہ حکومت کو حاصل نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو اس کی زیادہ پرواہ بھی نہیں ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ اگر اپوزیشن کو دبا لیا جائے، میڈیا کے بعد عدلیہ کو مینیج کر لیا جائے تو موجودہ حکومت کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں کیوں کے فوج اس کی پشت پر ہے۔ ممکن ہے یہ قیاس درست ہو لیکن اس سے عوام کو سہولت اور اطمینان حاصل ہونے کا امکان نہیں ہے۔

افراط زر میں کمی کو سود بند بنانے کے لیے پیداواری صلاحیت میں اضافے کے علاوہ عوام تک اشیائے صرف کی فراہمی یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ اگر خام مال یا پیداواری لاگت میں کمی ہوئی ہے تو صنعت کار اور تاجر اس کمی کو صارفین تک منتقل کریں۔ پاکستان کے بدعنوان انتظامی ڈھانچے میں یہ صورت حال دیکھنے میں نہیں آتی۔ نہ ہی ملک کا صنعت کار اور تاجر اتنا ایماندار ہے کہ وہ کسی نگرانی کے بغیر ازخود صارفین کو فائدہ پہنچائے تاکہ معاشی بحالی کا دائرہ وسیع ہو سکے اور بہتری کے ثمرات نیچے تک پہنچیں۔یہی وجہ ہے کہ افراط زر میں کمی سے ملک میں فوری طور سے عام مہنگائی کم ہونے یا عوام تک یہ پیغام پہنچنے کا امکان نہیں ہے کہ حکومت معاشی اصلاح میں کامیاب ہو رہی ہے۔ اسی بڑی تصویر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ملکی میڈیا سنسنی خیزی والی خبریں تو پھیلاتا ہے لیکن معیشت کے بارے میں شعور عام کرنے میں اس کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان حالات میں وزیر اعظم کی طرف سے افراط زر میں کمی کو بڑی اور اچھی خبر ماننے کے باوجود یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ ملک کے عوام کی اکثریت کے لیے کتنی بڑی خوشخبری ہے۔

(بشکریہ کاروان ناروے)
واپس کریں