دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سقوط ڈھاکہ اور تاریخ کا فراموش کردہ سبق
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے زوال کے بعد منائی جانے والی سقوط ڈھاکہ کی برسی کے موقع پر پاکستان میں بنگلہ دیش کے ساتھ کنفیڈریشن کی نوید دی جا رہی ہے۔ ملک و قوم کے بہت سے بہی خواہ عوام کو یہ خوش خبری دینا چاہتے ہیں کہ اب ڈھاکہ میں ’پاکستان دوست‘ حکومت قائم ہو چکی ہے جو اس بات کا ادراک رکھتی ہے کہ 1971 میں لیڈروں کی غلطیوں اور دشمن ملک سازشوں کی وجہ سے وہ مغربی حصے میں اپنے بھائیوں سے علیحدہ ہو گئے تھے۔ حالانکہ بنگالی بھائیوں کے دل ہمیشہ سے پاکستان کے ساتھ دھڑکتے رہے ہیں۔

اگر کسی نے تاریخ اور ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ سیکھنے والی کوئی قوم نہ دیکھی ہو تو اسے پاکستان کے حالات کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہم بار بار اسی راستے پر چلنے پر مصر ہیں جس کے بارے میں ہمیں خبر ہوتی ہے کہ اس کا انجام خرابی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سابقہ مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے ساتھ اشتراک و الحاق کی باتیں کرنے والے درحقیقت احمقوں کی ایسی ہی جنت میں رہتے ہیں یا کم از کم پاکستان کے سادہ لوح عوام کو ایک نیا لولی پاپ دے کر گمراہی کے ایک نئے (درحقیقت پرانا) راستے پر دھکیلنا چاہتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں جاری دو مباحث میں یہ رویہ بہت نمایاں ہے۔

ایک بحث تو یہی ہے کہ بنگلہ دیش میں اگست کے دوران آنے والی سیاسی تبدیلی سے پاکستان کیسے متاثر ہو گا۔ کچھ لوگ بنگلہ دیش کا انقلاب پاکستان میں برپا کر کے یہاں وزیر اعظم ہاؤس میں ویسی ہی لوٹ مار کا خواب دیکھ رہے ہیں جیسی ڈھاکہ کے بنگلہ بھون میں حسینہ واجد کے زوال کے وقت دیکھنے میں آئی تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حسینہ واجد کی ناکامی درحقیقت بنگلہ دیش میں بھارتی پالیسیوں کی ناکامی ہے۔ بلکہ اسے یوں پڑھنا چاہیے کہ اس خیال کے مطابق شیخ مجیب الرحمان کے بعد ان کی صاحب زادی حسینہ واجد، بھارت نواز اور پاکستان دشمن ہتھکنڈوں پر عمل پیرا تھی حالانکہ بنگالی عوام تو پاکستان سے ’بچھڑنے‘ کے بعد سوگوار و ملول رہے ہیں۔ اب اس خواہش کی تکمیل کا خواب دیکھا جا رہا ہے۔

اسی طرح دوسرا پہلو ملکی سیاست میں آزمودہ طریقوں کے تحت تبدیلی لانے سے متعلق ہے۔ ویسے تو یہ تبدیلی سب ہی لانا چاہتے ہیں۔ خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور وفاق پر مسلح حملہ کر کے یہ تبدیلی لانا چاہتے ہیں اور انہوں نے اپنے لیڈر عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ اب امن کی باتیں بند کی جائیں پھر دیکھیں ان کی کمان میں لشکر جرار کیسے وفاق کو بندوق کے زور پر ڈھیر کرتا ہے۔ پاکستان میں ’ملک دشمنی یا غداری‘ کے الفاظ پہلے ہی کثرت استعمال سے مطعون ہو چکے ہیں لیکن اگر کسی شخص کی سیاسی ہرزہ سرائی کو قومی سلامتی کے مقصد اور جائز سیاسی اظہار رائے سے ماورا کہا جا سکتا ہے تو وہ علی امین گنڈا پور کی بیان بازی ہے۔ حالانکہ وہ وفاق پاکستان کے ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر متمکن ہیں۔ اس کے باوجود انہیں بات کرتے ہوئے کسی حد کا احترام کرنا نہیں آتا۔ یہ تو تاریخ کا منہ چڑاتے ہوئے تبدیلی لانے کا ایک طریقہ ہے۔ دوسری طرف جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پیپلز پارٹی اپنے اپنے طور پر گٹھ جوڑ کے کسی وسیع منصوبہ میں شامل ہونے کے لیے بے چین دکھائی دیتی ہیں۔ ایم کیو ایم کے سربراہ خالد مقبول صدیقی تو واضح کرچکے ہیں کہ وہ حکومت سے کبھی بھی ناراض ہوسکتے ہیں۔ بلوچستان کے کچھ عناصر بھی ایسے ہی اشارے دے رہے ہیں۔ ملک کو جس وقت استحکام اور سکون سے معاشی مسائل حل کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، عین اسی وقت ہر گروہ اپنی بساط کے مطابق اتنا شور ضرور مچا رہا ہے کہ دوست دشمن کسی کو بھی پاکستان کے بارے میں سلامتی و استحکام پر شائبہ نہ ہو پائے۔

پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ’طاقت کے خفیہ مراکز‘ قائم ہیں۔ یہ مراکز جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے نہایت خفیہ ہیں لیکن دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ ہر کس و ناکس کو ان کا اتا پتا اور مستقبل کے ارادوں کے بارے میں پوری طرح خبر رہتی ہے۔ آپ کوئی کالم پڑھ لیجیے، کسی ’باخبر‘ یوٹیوبر کا وی لاگ سن لیجیے یا کسی ٹاک شو میں اندر کی خبریں بتانے والے ماہرین کی گفتگو سماعت کر لیں، تو بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ملکی سیاست میں کب کون سا فیصلہ ہونے والا ہے۔ بعض ماہرین تو اتنی دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ وہ پاکستان میں طاقت کے مراکز کو بھی کم تر اور بے اختیار کہہ گزرتے ہیں کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ واشنگٹن میں قائم حکومت کو منتخب تو امریکی عوام کرتے ہیں لیکن اس کا اصل کام پاکستان میں مرضی کی حکومت مسلط کرنا ہوتا ہے۔ اور وہ یہ کام پاکستان میں ’طاقت کے خفیہ مراکز‘ سے لیتے ہیں۔ ان دعوؤں کو سازشی تھیوری کہہ کر بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ ملک کا سابق وزیر اعظم سال ڈیڑھ سال پہلے نہایت صراحت سے اہل پاکستان کو یہ پیغام ازبر کرواتا رہا تھا کہ کیسے امریکی حکومت اپنے ہرکاروں کے ذریعے پاکستانی آرمی چیف کو حکم دیتی ہے اور وہ اس پر عمل کرنے میں لمحہ بھر تاخیر نہیں کرتا۔ حیرت ہے ہر دوسرے وقوعہ پر عدالتی تحقیقاتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کرنے والوں نے کبھی امریکی حکومت کی پاکستانی معاملات پر دسترس کے بارے میں ’عدالتی تحقیقات‘ کا مطالبہ نہیں کیا۔

ان سب میں حیرت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ملک پر سول و ملٹری بیورو کریسی پر مشتمل اسٹیبلشمنٹ نے یا تو براہ راست حکومت کی ہے یا نام نہاد منتخب حکومتوں کو اقتدار تک پہنچانے یا وہاں سے اتارنے کا کام کیا ہے۔ گویا ’اصلی نے وڈے حکمران‘ جنہیں بعض دوست ’مالکان‘ کہہ کر خوش ہوتے ہیں، جب خود براہ راست امور مملکت کی ذمہ داری نہ سنبھال رہے ہوں تو وہ کٹھ پلی حکومتیں بنانے یا توڑنے کے مشغلے میں مصروف رہتے ہیں۔ ہر ایکشن کا ری ایکشن (عمل کا رد عمل) ہوتا ہے۔ اس لیے کٹھ پتلیاں بنانے اور انہیں نچانے کے کام میں بھی کچھ کمی بیشی ہوجاتی ہے تو اس رد عمل کا خمیازہ اس ملک کے عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ حالانکہ اس کھیل میں ان کا دوش صرف اتنا ہی ہے کہ وہ یہ گمان کیے بیٹھے ہیں کہ ان کا ووٹ ہی ملکی معاملات میں فیصلہ کن ہوتا ہے اور وہ جس پارٹی کو ووٹ دیں، اسی کو اقتدار سنبھالنے اور عوامی ضرورتوں و خواہشوں کے مطابق فیصلے کرنے کا اختیار مل جاتا ہے۔ یہ کنفیوژن یوں بھی پیدا ہوتا ہے کہ اختیار کے بغیر عہدے سنبھالنے والے مسلسل یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی طاقت ’عوام‘ ہیں۔ حتی کہ عوام کو مسلسل بے اختیار رکھنے والی عسکری قیادت بھی بار بار اعلان کرتی ہے کہ فوج کی اصل طاقت عوام کی تائید ہی ہوتی ہے اس لیے کسی بدخواہ کو عوام اور پاک فوج کے درمیان فاصلے پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

واقعات و حادثات کی اس ست رنگی میں سال رواں فروری کے دوران بالآخر پاکستانی عوام سے کہا گیا کہ وہ ووٹ سے فیصلہ کریں کہ کسے ملک پر حکومت کرنے کا اختیار ہے۔ یہ فیصلہ ہو گیا تو یہ لڑائی ایک بار پھر شروع ہو گئی کہ فیصلہ کس کے حق میں دیا گیا اور کسے کامیاب قرار دیا گیا۔ تاہم شہباز شریف کے سر سے چونکہ ’ہما‘ گزر چکا تھا، اس لئے تقدیر کا لکھا کوئی ٹال نہ سکا اور انہوں نے 4 مارچ کو وزیر اعظم کے عہدے کا حلف لے لیا۔ اب شہباز شریف کے بلند بانگ دعوے سنیں تو گمان ہوتا ہے کہ پاکستان کی کشتی کو ان سے بہتر کھیون ہار کبھی ملا ہی نہ تھا۔ نہ کسی حکومت کا ’سپہ سالار‘ سے ایسا اعتماد و محبت کا رشتہ تھا اور نہ ہی کامیابیوں کے ایسے جھنڈے گاڑنے والی کوئی حکومت کبھی معرض وجود میں آئی تھی۔ البتہ اب سنتے ہیں کہ وہی لہریں شہباز شریف کے اقتدار کی نیا ڈبونے پر آمادہ ہیں جو محض چند ماہ پہلے انہیں اپنی آغوش شفقت میں لیے ہوئے تھیں۔

پاکستانی تاریخ کے کسی عہد پر انگلی رکھ کر یہ نشاندہی نہیں کی جا سکتی کہ اس وقت متبادل حکومت کے لیے کسی ’خفیہ مقام‘ پر منصوبہ بندی نہیں ہوتی رہی۔ ان کوششوں کے بھلے برے نتائج چونکہ اب تاریخ کا حصہ ہیں، اس لیے ان سے بحث نہیں۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ اس بار یہ سازش ایوان صدر میں ہو رہی ہے۔ لیکن ملک کا کون سا فرد اس حقیقت سے بے خبر ہو گا کہ معاملہ خواہ اپنے بیٹے کو وزیر اعظم بنانے کا ہی ہو، ملک کے آئینی عہدے پر فائز صدر اسی وقت کسی منصوبے پر عمل درآمد کا جائزہ لینا شروع کرے گا جب اسے کہیں نہ کہیں سے اشارہ مل چکا ہو۔ چونکہ اس منصوبہ کے سب کردار بے چہرہ و بے نام ہیں، اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ اشارہ کتنا واضح ہے اور اس کا اصل ہدف کیا ہے۔ البتہ عام تفہیم میں یہی بات موصول ہو رہی ہے کہ تمام تر بھاگ دوڑ کے باوجود شہباز شریف کو شاید حکومت کا ایک سال مکمل کرنا بھی نصیب نہ ہو۔ اگر ایک سال یا اس سے کچھ زیادہ مدت میں یہ نام نہاد منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے تو ایک بار پھر یقین کر لینا چاہیے کہ پاکستان میں تاریخ کسی ایسی دستاویز کا نام نہیں ہے جس سے سبق سیکھا جائے بلکہ ایسے بیانیہ کو کہتے ہیں جسے طاقت کے زور پر منوایا جائے۔

اس بیچ پاکستانی قوم ایک بار پھر 16 دسمبر کا سامنا کرے گی۔ یہ ایک ایسا دن ہے جب 53 سال پہلے آدھا ملک گنوا دیا گیا تھا۔ اور ایک دہائی پہلے جلاد صفت دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول پشاور کے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ بچوں کو بے دردی سے ہلاک کیا تھا۔ اس وقت دہشت گردی کا عفریت ایک بار پھر جوبن پر ہے لیکن پاکستانی قوم دشمن سے لڑنے کی بجائے ایک دوسرے سے حساب برابر کرنے میں مصروف ہے۔ سنگین سیاسی غلطیوں اور عاقبت نا اندیشی کے سبب 16 دسمبر 1971 کو 80 ہزار پاکستانی فوجیوں نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔اب قوم کو حوصلہ دیا جا رہا ہے کہ بھارت کی سازشیں ناکام ہو گئیں۔ بنگلہ دیش کے عوام اپنے بھائیوں سے گلے ملنے کو بے قرار ہوئے جاتے ہیں۔ اہل وطن جاگو بھائیوں کی صدا سنو اور ان کی آواز میں آواز ملاؤ۔ کون کہتا ہے کہ نئی تاریخ نہیں لکھی جا سکتی۔ لیکن پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جو نہ تو تاریخ سے سبق سیکھنے پر آمادہ ہے اور نہ ہی وہ زاد راہ جمع کرنے پر تیار ہے جو تاریخ کے کسی فیصلہ ساز مرحلے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

(بشکریہ کاروان ناروے)
واپس کریں