سید مجاہد علی
وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کی سربراہی میں سعودی عرب کے وفد نے پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا ہے۔ اس دورے میں پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری کے امکانات کا جائزہ لیا گیا اور سعودی حکام کو ان منصوبوں سے آگاہ کیا گیا جن میں سرمایہ کاری منفعت بخش ہو سکتی ہے۔ وزیرخارجہ اسحاق ڈار کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہزادہ فیصل بن فرحان نے مستقبل میں ’اہم فوائد‘ کی امید ظاہر کی البتہ سعودی عرب نے سرمایہ کاری کے کسی ٹھوس منصوبہ کا اعلان نہیں کیا۔دوسری طرف وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے مثبت اشارے دیے ہیں۔ سعودی عرب کے وفد سے ملاقات کے موقع پر بھی وزیر اعظم نے سرمایہ کاری کے منصوبوں پر تیزی سے کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ اگرچہ سعودی عرب پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کر رہا ہے تاہم وہ صرف قابل ذکر منافع بخش منصوبوں میں ہی سرمایہ لگائے گا۔ اسلام آباد میں اپنے قیام کے دوران سعودی وفد نے وزیر اعظم کے علاوہ صدر مملکت آصف زرداری اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ بھی ملاقات کی۔ اس کے علاوہ سرمایہ کاری میں سہولت کاری کی خصوصی کونسل (ایس آئی ایف سی) کی طرف سے بھی سعودی وفد کو سرمایہ کاری کے امکانات پر بریفنگ دی گئی۔
سعودی وزیر خارجہ نے اسحاق ڈار کے ساتھ پریس کانفرنس میں اپنے دورہ کو خوشگوار قرار دیا اور پاک سعودی تعلقات کی اہمیت و ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں بھی امید افزا باتیں کیں لیکن اس دورہ کے دوران میں نہ تو کوئی واضح اعلان کیا گیا اور نہ ہی سعودی وزیر خارجہ نے یہ اشارہ دیا کہ وہ کس شعبہ میں کتنی سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ شاید یہ نکتہ اس دورہ کے ایجنڈے میں شامل بھی نہیں تھا۔ اس دورہ کا مقصد درحقیقت دونوں ممالک کے درمیان سرمایہ کاری میں اضافہ کے امکانات کا جائزہ لینا تھا جس بارے میں پہلے سے اتفاق رائے موجود ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے رمضان المبارک کے آخری دنوں میں مکہ معظمہ میں سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کا مقصد بھی سعودی عرب کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ کرنا تھا۔ سعودی وفد کا موجودہ دورہ دونوں لیڈروں کے درمیان اسی ملاقات کا تسلسل کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں بعض حلقے یہ امید ظاہر کر رہے ہیں کہ مستقبل قریب میں ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان آئیں گے تو سعودی سرمایہ کاری کا باقاعدہ اعلان ہو گا۔ تاہم پاکستان کی طرف سے جس جوش و خروش کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، اس کا اظہار سعودی لیڈروں کی گفتگو اور طرز عمل سے نہیں ہوتا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے تو آج کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے سعودی سرمایہ کاری کے بارے میں بلند بانگ دعوے کیے اور کہا کہ ’اس دورہ سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان آئے گی‘ ۔ ظاہر ہے کہ پاکستان کو زرمبادلہ کی ضرورت ہے اور معاشی افزائش کے لیے بیرونی سرمایہ کاری بھی درکار ہے۔ تاہم سعودی عرب اور دوسرے ممالک تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر ہی کوئی وعدہ کریں گے۔ ان میں سر فہرست پاکستان میں سکیورٹی کی صورت حال اور سیاسی معاملات ہیں۔ پاکستان میں کام کرنے والے چینی انجینئرز پر حملوں اور افغانستان سے مسلسل پاکستانی اہداف کو نشانہ بنانے والے دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیاں سرمایہ کاری کے نقطہ نظر سے شدید تشویش کا سبب ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ سعودی عرب کی قیادت اس مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کرنا چاہتی ہو لیکن پاکستانی لیڈروں کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ اس قسم کی سرمایہ کاری محض انفرادی خیرسگالی کے طور پر ممکن نہیں ہوگی۔ بلکہ پاکستان کو یہ بھی واضح کرنا ہو گا کہ سرمایہ لگانے والے ممالک کو یہاں تحفظ حاصل ہو گا۔ امن و امان کی صورت حال قابو میں رہے گی تاکہ معاشی سرگرمیاں فروغ پا سکیں۔ اور سرمایہ لگانے والے اپنے منصوبوں سے منافع حاصل کرسکیں۔
حال ہی میں بشام میں چینی انجینئرز کے قافلے پر حملہ کیا گیا تھا جس میں پانچ چینی انجینئر ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں بھی اہم تنصیبات پر دہشت گرد حملوں نے تشویش میں اضافہ کیا ہے۔ گزشتہ روز کور کمانڈر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے سی پیک کے خلاف افغانستان سے دہشت گرد حملوں کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں موجود دہشت گرد چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے خلاف پراکسی کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق آرمی چیف کا یہ بیان افغان طالبان کے خلاف ایک اور چارج شیٹ ہے اور اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں تناؤ ظاہر ہوتا ہے۔ منگل کو کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے میں آرمی چیف کا مزید کہنا تھا کہ ’افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروہ نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہیں‘ ۔ اس بیان کو پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے تناظر میں بھی دیکھنا چاہیے۔ عین ممکن ہے کہ اس بیان کا مقصد کابل حکومت کو متنبہ کرنا ہو لیکن سرمایہ کار کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ملک کا فوجی سربراہ اہم سرمایہ کاری منصوبوں پر ممکنہ دہشت گرد حملوں کا ذکر کر رہا ہے۔ سرمایہ کاری کے منصوبوں پر غور کرنے والی ہر حکومت سرمایہ لگانے سے پہلے ان تمام پہلوؤں کا جائزہ لے گی۔ پاکستان کو سعودی دوستی پر پرجوش اعتبار کرتے ہوئے ان حقائق کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
حکومت کو سعودی عرب سمیت دیگر سرمایہ کاروں کو ایک تو سکیورٹی کے بارے میں قابل اعتبار یقین دہانی کرانا پڑے گی۔ اس کے علاوہ سرمایہ کاری منصوبوں و شعبوں کے بارے میں ٹھوس ہوم ورک کر کے واضح کرنا ہو گا کہ سعودی عرب یا کسی دوسرے ملک کے لیے پاکستان میں ہی سرمایہ لگانا کیوں کر سود مند ہو سکتا ہے۔ پاکستانی لیڈر عام طور سے بین الملکی تعلقات کو فوکس کرتے ہوئے دوست ممالک سے مفادات حاصل کرنے کے عادی ہیں۔ البتہ اب دنیا کے حالات تبدیل ہوئے ہیں اور امیر ممالک کی طرف سے اپنے سرمایے کو منفعت بخش انداز میں استعمال کرنے کا رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے۔ سعودی عرب محض پاکستان کو خوش کرنے یا بین الملکی سفارتی تعلقات کی بنیاد پر یہاں سرمایہ لے کر نہیں آئے گا بلکہ اسے یہ یقین بھی دلانا پڑے گا کہ پاکستان میں یہ سرمایہ ضائع نہیں ہو گا بلکہ دوسرے ممالک کے مقابلے میں کوئی بھی ملک پاکستان میں سرمایہ کاری سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے گا۔ ایسی مکمل اور جامع تصویر ہی کسی بھی ملک کو اپنا سرمایہ صرف کرنے پر آمادہ کر سکتی ہے۔
سکیورٹی، منافع اور ٹھوس منصوبوں کے علاوہ کسی ملک کا سیاسی استحکام بھی سرمایہ کاری میں اہم بلکہ کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستانی حکومت معیشت کی بحالی کے دعوے تو بڑے زور شور سے کر رہی ہے لیکن اس کی طرف سے اتنی ہی مستعدی سے سیاسی استحکام پیدا کرنے کی کوششیں دیکھنے میں نہیں آئیں۔ حالانکہ سیاسی ہم آہنگی ایک طرف سکیورٹی کے حوالے سے معاملات بہتر بنانے میں کردار ادا کر سکتی ہے تو دوسری طرف ملک میں عمومی سکون و اطمینان سے معاشی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کا ماحول پیدا ہو گا۔ فروری میں منعقد ہونے والے انتخابات کے بعد سے تصادم اور تناؤ میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ ان میں سے ایک پہلو تو انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے اہم ہے۔ اگر اس معاملہ کو دو فریقوں کے متضاد موقف کا معاملہ سمجھ کر نظر انداز بھی کر دیا جائے تو بھی حکومت اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتی کہ تحریک انصاف ایک اہم سیاسی قوت ہے جسے قومی اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور انتخابات میں (دھاندلی کے پرجوش الزامات کے باوجود) سب سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔
اس کے باوجود اس کے بانی چئیرمین عمران خان بدستور جیل میں بند ہیں اور انہیں ملنے والی سزاؤں کے بارے میں شدید شبہات پائے جاتے ہیں۔ یہ مانا جاسکتا ہے کہ عدالتیں ہی اس معاملہ پر حتمی فیصلہ کرنے کی مجاز ہیں لیکن استغاثہ کے طور پر سرکاری ادارے یہ بھی تو دیکھ سکتے ہیں کہ بے بنیاد الزامات پر مقدمات قائم کر کے زیریں عدالتوں کو سزائیں دینے پر مجبور نہ کیا جائے۔ اسی طرح سانحہ 9 مئی کے حوالے سے بدستور بے یقینی پائی جاتی ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف ان الزامات سے انکار کرتی ہے لیکن عسکری قیادت اور حکومت کا اصرار ہے کہ اس روز تحریک انصاف ہی نے عسکری تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں کو نشانہ بنا کر ملک میں انتشار اور عسکری حلقوں میں تصادم کی کوشش کی تھی۔ البتہ اس وقوعات اور ان میں ملوث افراد کے کی بے گناہی کا فیصلہ تو عدالتوں میں ہی ہو سکتا ہے۔ حکومت نے 9 مئی کے بعض ملزموں کو فوجی عدالتوں کے حوالے کر کے غیر ضروری تنازعہ پیدا کیا اور ابھی تک اس فیصلہ کو درست قرار دیا جا رہا ہے۔ اسی طرح پارٹی کے سینکڑوں یا ہزاروں دیگر کارکنوں و لیڈروں کو سانحہ 9 مئی میں ملوث ہونے کے شبہ میں کسی نہ کسی طور سے قید رکھنے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ حکومت کو سیاسی استحکام اور خیر سگالی کے نقطہ نظر سے ان تمام معاملات پر جلد از جلد عدالتی فیصلے لینے کی کوشش کرنی چاہیے یا ایسے لوگوں کو عام معافی دے کر ملک میں سیاسی خیرسگالی کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی۔
ملک میں یہ تاثر عام کرنے سے قومی مفاد حاصل کرنا ممکن نہیں ہے کہ انتخابات میں سب سے بڑی سیاسی قوت کے طور پر خود کو منوانے والے سیاسی لیڈر اور پارٹی کے لیے ملکی سیاست کے دروازے بند رہیں گے۔ اس صورت حال کو ایکس پر پابندی اور سنسر شپ کے ناروا ہتھکنڈوں کے ذریعے پیچیدہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سرکاری وکیل اس معاملہ پر عدالتوں کو مطمئن کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں چیف جسٹس کو بدنام کرنے کے الزام میں متعدد صحافیوں یا وی لاگرز کو گرفتار کیا گیا حالانکہ چیف جسٹس نے ایسی کسی کارروائی سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ حکومت کو بھی سمجھنا چاہیے کہ عدالتوں کے خلاف پروپیگنڈے کے نام پر آزادی رائے کا گلا نہ کھونٹا جائے۔ عدالتوں کے پاس ایسے عناصر سے نمٹنے کے لیے توہین عدالت کا الزام عائد کر کے سزا دینے کا اختیار موجود ہے۔ شہباز حکومت کو باور کرنا ہو گا کہ آئی ایم ایف سے طویل المدت مالی پروگرام کا معاملہ ہو یا دوست ممالک سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی خواہش، ان مقاصد میں کامیابی ملک میں سیاسی اطمینان سے مشروط ہے۔ سیاسی بے چینی جاری رکھ کر معاشی بحالی کے منصوبے کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔
(بشکریہ کاروان ۔ ناروے)
واپس کریں